دادی ماں اور رانیاں

 آج صبح سے ہی گھر میں بڑی ہڑا ہوڑی مچی ہوئی تھی اس کی آنکھ کئی بار کھلی مگر رات بھر کی جگار اور تھکن اس کے اعصاب پر کچھ ایسی چھائی ہوئی تھی کہ کروٹ بدل کر پھر سو جاتی تھی دراصل دادی کو رانیاں کا دیر تک سونا اور رات بھر جاگنا بلکل پسند نہیں تھا -

وہ اک پنج وقتہ نمازی خاتون تھیں اور چاہتی تھیں کہ ان کی پوتی رانیاں بھی صبح فجر کے وقت ان کے ساتھ اٹھ جایا کرے نماز پڑھے قران پاک کی تلاوت کرے اور رانیاں کی لاکھ اچھائیوں کے باوجوددادی جان کو اس کی دیر تک سونے کی عادت سب پر حاوی ہو جاتی اور پھر صبح ہی صبح گھر بھر میں طوفان کا سماع ہوتا۔
روز کی طرح دادی بڑبڑ کرتیں چیزیں پٹختیں اک کمرے سے دوسرے کمرے جاتیں مگر آج کچھ خاص تھاجو اس شور میں کچھ زیادہ ہی اضافہ ہو گیا تھا -

رانیاں کی عمر اب 24 سال ہو چلی تھی وہ کراچی یونیورسٹی سے کمپیو ٹر سائنس میں ماسٹرز کر رہی تھی جس کی وجہ سے اکثر اسے دیر رات تک جاگ کر کمپیوٹر پر پروجیکٹس بنانے پڑتے اور وہ دیر سے سوتی تھی اور صبح چونکہ پہلی کلاس 10 بجے شروع ہوتی تھی تو وہ 9بجے تک سو کر اٹھتی اور یونیورسٹی کے لیے تیار ہوا کرتی تھی روز کی طرح دادی منہ پھلا کر بیٹھی ہوتیں اور وہ کل سے جلدی اٹھوں گی کا وعدہ کر کے ان کو پیار سے منا لیتی اور وہ مان بھی جاتیں تھیں پیار جو اتنا کرتیں تھیں اور ویسے بھی ان کا اس کے علاوہ اس دنیا میں تھا ہی کو ن رانیاں کے بچپن میں ہی اک حادثے میں اس کے والدین کا انتقال ہو گیا تھا جن کی وہ اکلوتی اولاد تھی اس حادثے میں وہ اور دادی دونوں ہی زخمی ضرور ہوئی تھیں مگر بچ گیں تھیں جب سے دادی نے اسے اپنی ہتھیلی کا چھالے بنا کر پالا تھا ان کی تو جیسے جان تھی اس میں اگر اسے چھینک بھی آجاتی تو دادی کی جان ہی نکل جاتی اور اس کی شامت آجاتی ۔

کبھی سوپ، کبھی کافی، کبھی گرم دودھ میں ہلدی اور تلسی کے پتوں کا بنا کاڑھا اس کی جان کو آجاتا اس حالت میں اسے گھر کے باہر جانے تو کیا بستر سے ہلنے کی بھی اجازت نہ ملتی تھی وہ کہتی بھی کی دادی نزلہ ہی تو ہے ٹھیک ہوں میں مگر دادی نہ مانتیں تھیں سچ تو ہے جس کا جوان بیٹا اس کی آنکھوں کے سامنے چلا گیا ہو وہ تو نزلے جیسی بیماری کو بھی اپنے اعصاب پر سوار کر لے گی -

جب رانیاں کے والدیں کا انتقال ہوا تو وہ کوئی 7 سال کی تھی ایسے میں اس کے ماموں نے اپنے بہن بہنوئی کے سارے کاروبار کو سنبھالااور رانیاں اور اس کی دادی کے خرچ کی ذمیداری اٹھائی تھی دادی تو پڑھی لکھی تھیں نہیں اور رانیاں کے والد کے سوا ان کی اور کوئی اولاد بھی نہیں تھی ایسے میں رانیاں کے ماموں کفیل صاحب نے ہی ان دونوں کی ذمیداری سنبھالی اپنے لاڈ پیار میں دادی نے رانیاں کو کسی کام کو ہاتھ تک لگانے نہیں دیا تھایہاں تک کہ وہ چائے بنانے کے سوا کچھ نہیں جانتی تھی اب جبکہ دادی کو اس کی شادی کی فکر تنگ کرنے لگی تھی۔تووہ اس کے اس کمپیوٹر کی دشمن ہو گیں تھیں کہ سارا سارا دن رات اسی ڈبے میں سر کھپاتی ہے کوئی چولہا چکی بھی سنبھال بیٹاسسرال میں جا کر کام آئے گا مگروہ اپنی پڑھائی میں اتنی مصروف رہتی دادی کر لوں گی آپ فکر نہ کیا کریں میں ہر کام کر سکتی ہوں اور دادی اس کی اس بات پر چڑھ جاتیں لو اور کر لو بات روٹی تو پکانی نہیں آتی چلی ہیں دنیا کے کام کرنے اے لڑکی کاغذ کھا کر پیٹ نہیں بھرتا کل کو کسی کے گھر بیاہ کر جائے گی تو دنیا والے تو مجھے کہیں گے نا کہ دادی نے کچھ سکھایا نہیں۔

تیرے رشتے والے بھی آتے ہیں تو یہ نہیں کہہ سکتی کہ یہ چیز میری پوتی نے بنائی ہے کل کو شادی کے بعد ان لوگوں نے فرمائش کر دی تو تم کو تو آئے گی نہیں پھر تمھیں ہی طعنے سننے کو ملیں گے پھر کیا کرو گی۔

مالی حیثیت تو ان کی مستحکم تھی ہی اسلئے کریمن خالہ کو گھر کے سارے کام کرنے اور طارق چاچا کو گھر کے باہر کے سارے کام کرنے مثلا سودا لانے بل جمع کرانے اور دیگر کام جیسے گھر کی مرمت پلمبر اور الیکٹریشن وغیرہ کو لانے اور کام کروانے کی زمہ داری ان پر تھی-

کفیل ماموں کا بیٹا حماد امریکہ سے پڑھ کر واپس آنے والا تھا اور دادی اور کفیل ماموں دونوں یہ سوچے بیٹھے تھے کہ رانیاں کی شادی حماد سے کر دی جائے۔

رانیاں کے لیے اپنی دادی کی خوشی سے بڑھ کر کچھ نہیں تھا اور وہ اپنی دادی کی خوشی کے لیے اپنی جان بھی دے سکتی تھی
اور پھر حماد اسے بچپن سے ہی بہت پسند تھا حماد بھی اسے پسند کرتا تھا مگر کبھی اک دوسرے پر ظاہر نہ ہونے دیا تھاکفیل ماموں اور دادی دونوں عمر رسیدہ اور زندگی کے تجربوں سے گزرے ہوئے لوگ تھے یہ دونوں اپنے بچوں کی دلی کیفیت کو اچھی طرح محسوس کر سکتے تھے دادی اس لیے بھی مطمعن تھیں کہ کفیل ماموں ان سے رانیاں اور حماد کے رشتے کے لیے بہت پہلے ہی اشارہ تن بات کر چکے تھے-

آج حماد کی فلائٹ تھی اور دادی چاہتیں تھیں کہ رانیاں حماد کو ریسیو کرنے ائر پورٹ جائے مگر وہ تو ایسی سوئی تھی کہ دنیاکی کوئی خبر ہی نہ تھی آخر دادی کا پارہ آسمان پر جا پہنچااور وہ رانیاں کے کمرے میں آہی گیں ۔

رانیاں ،رانیا ں اب اٹھ بھی جاؤحماد کو لینے ہوائی اڑے بھی جا نا ہے وہ بے چارہ بھی آگیا ہو گا کب سے تمھیں ۔۔۔۔۔۔

اس سے پہلے کہ دادی کی بات ختم ہوتی رانیاں اک زوردار جھٹکے کے ساتھ اٹھ کھڑی ہوئی تھی اور بھاگم بھاگ جانے کی تیاری کرنے لگی۔ دادی نے جلدی جلدی سے ناشتہ لگوایا اور وہ اک توس بھی پورا ختم کئے بغیر ہی دادی دیر ہو رہی ہے کہہ کر گاڑی دوڑاتی ائر پورٹ کی جانب رواں دواں تھی ۔ادھر دادی اس کے خالی پیٹ گھر سے جانے پر عجیب کشمکش میں مبتلا تھیں کہ بیچاری بھوکی گئی ہے کچھ تھوڑا سا تو کھا لیتی۔حماد کی فلاہٹ آئے کوئی گھنٹہ بھر ہو چکا تھا اس لیے وہ بار بار رانیاں کے موبائل پر کال کر رہا تھا اور وہ ڈرائیو کرنے کی وجہ سے رسیو نہیں کر رہی تھی کہ کہیں نہ کہیں اس کے دل میں اپنے والدین کی موت کی یاد یں موجود تھیں اور جب وہ ائر پورٹ پہنچی تو حماد کا غصے سے لال چہرا دیکھ کر اسے اندازہ ہو گیا کہ وہ کتنی دیر سے کھڑا خوار ہو رہا ہوگا -

رانیاں کی شکل دیکھتے ہی حماد کا غصے اور طنز سے بھرا ہوا جملہ رانیاں کو جلا گیا
فرصت مل گئی تمھیں آنے کی ۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ بھی کہاں چپ رہنے والی تھی تمھارے چکر میں میں نے ناشتہ بھی نہیں کیا۔
حماد تپے ہوئے انداز میں میرے چکر میں۔۔۔ تمھیں پتہ ہے میں پچھلے ڈیڑھ گھنٹے سے کھڑا ہوں یہاں اور تمھیں اپنے ناشتے کی پڑی ہے
رانیاں ہاں تو میں نے کہا تھا میرا انتظار کرو چلے جاتے نہ خود اتنے بڑے تو ہو گئے ہوگھر خود نہیں جا سکتے
حماد اپنا لہجہ برقرار رکھتے ہوئے
چلا جاتا مگر تمھارے پیارے ماموں جان کو تمھاری زیادہ پروا ہے اپنے بیٹے سے بھی زیادہ انھوں نے کہا تم لینے آرہی ہو مجھے نہیں دیکھو گی تو پریشان ہو جاؤ گی اسلئے رکنا پڑا اور اوپر سے فون بھی ریسیونہیں کر رہیں تھیں مہا رانی صاحبہ
رانیاں؛ راستہ میں ٹائر پنچر ہو گیا تھا
حماد؛ پھر اپنا غصہ ضبط کرتے ہوئے تو اک فون نہیں کر سکتیں تھیں
رانیاں کو اب اپنی غلطی کا احساس ہوا تھا جتنی جلدی کرسکتی تھی میں نے کی اورہاں میں ڈرائیوکرتے ہوئے فون ریسیو نہیں کرتی ہوں میں نکلی ہوئی تھی یہاں آنے کے لیے وہ دونوں ماموں کفیل کے گھر جانے کے لیے نکل پڑے پورے راستے دونوں نے خاموشی کو اپنے ارد گرد پایا

ماموں جان کے گھر پہنچے تو دونوں کا منہ پھولا ہواتھا کفیل ماموں دیکھتے ہی سمجھ گئے کیا ہوا پھر کوئی لڑائی ہوئی ہے تم دونوں کا بچپن سے یہی حال ہے جب ملتے ہو لڑتے ہو اتنے سالوں بعد ملے ہو اب تو بڑے ہو گئے ہو اب تو نہ لڑا کرواور پھر ماموں ممانی سے ملنے میں بات آئی گئی ہو گئی اور وہ بھی دادی کا بہانہ بنا کر اٹھ کھڑی ہوئی کہ دادی انتظار کر رہی ہونگی پھر کسی دن دادی کے ساتھ اطمنان سے آونگی
اس کے جانے کے بعد حماد کو احساس ہوا کہ وہ بھوکی پیاسی مجھے لینے آئی تھی اگر ٹائر پنکچر ہو گیا تو اس میں اس کا کیا قصور ہے اور میں نے یہاں اس کے ناشتے کا بھی نہیں پوچھا مگر پھر غصہ آنے لگا کہ وہ پہلے گھر سے نہیں نکل سکتی تھی اور وہ سب بھول کر ماں باپ سے ملنے لگا-

چند ہی دن گزرے تھے کہ دادی نے گویا اس کے سر پر اک دھماکہ کر ڈالا تھا یہ خبر سنا کر کے کفیل ماموں اور ممانی اس کے لیے حماد کا رشتہ لائے تھے اور دادی نے ان سے وقت مانگا ہے اس سے پوچھنے اور سوچنے کے لیے حالانکہ دادی جانتی تھیں کہ وہ کبھی انکار نہیں کرے گی پھر بھی اپنا فرض انہوں نے بہ خوبی ادا کیا تھا-

اس کے دل میں تو لڈو پھوٹ رہے تھے مگر دادی پر یہ ظاہر کر رہی تھی کہ آپ کی خوشی جس میں ہو وہ مجھے منظور ہے اور اسطرح اگلے ہی ہفتے دونوں کی منگنی کی رسم ادا کر دی گئی ۔ رانیاں کے امتحان ہو چکے تھے اور اب وہ گھر میں دادی کی خواہش کے مطابق امور خانہ داری سے آشنا ہو نے کی کوشش فرما رہیں تھیں جس کے نتیجے میں دادی کو نت نئے انداز کے نقشے نما روٹیاں جو کہیں سے جلی ہوئی اور کہیں سے کچی ہوتیں کھانی پڑ رہی تھیں رانیاں اپنی پوری کوشش کر رہی تھی کہ وہ اچھا کھا نا بنائے اور وہ کسی حد تک ہنڈ یا تو اچھی پکانے لگی تھی ظلم برائے ظلم یہ کہ دادی چاہتیں تھیں کہ اس کے سسرال والوں کی دعوت کریں جس میں رانیاں سارے کھانے بنائے -

رانیاں بھی کم زہین تھوڑی تھی اپنے اسی جادوئی ڈبے یعنی کمپیوٹر کی مدد سے انٹر نیٹ سے کچھ اچھی اور آسان کھانوں کی ریسیپیز کو ڈاون لوڈ کر کے پرنٹ نکالا اور کھانے تیار کئے -

آج دادی بہت مطمعن تھیں کہ ان کی پوتی نے کسی حد تک گھر کو سنبھالنے کی ذمیداری لے لی ہے اور اب وہ سکون سے اس دنیا سے جا سکتی ہیں اب پریشان رانیاں تھی کہ اس کی شادی کے بعد دادی اکیلی کیسے رہیں گی تو اس کا بھی فیصلہ طے پایا کہ سب مل کر اک ساتھ اک گھر میں رہیں گے اور دادی کو اک بار پھر اپنا گھر بھرا بھرا لگنے لگا۔
samina fayyaz
About the Author: samina fayyaz Read More Articles by samina fayyaz: 12 Articles with 29024 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.