واجد بنیادی طور پر‘ راج گیری کے
پیشے سے وابستہ تھا میٹرک پاس کرنے کے باوجود‘ کوئی سرکاری ملازمت نہ مل
سکی تھی‘ اسی لیے اس نے‘ اپنے باپ کے پیشے کو‘ اختیار کر لیا تھا۔ اس کا
باپ‘ بڑے اعلی پائے کا‘ کاری گر تھا۔ اسی نے واجد کو یہ ہنر سکھایا تھا۔ اس
کا صوفی لوگوں کے پاس‘ بڑا اٹھنا بیٹھنا تھا۔ اس کے ساتھی‘ کام سے فارغ
ہونے کے بعد‘ ہوٹلوں میں بیٹھ کر‘ گپ بازی کرتے‘ لیکن اسے اس قسم کے اشغال
سے‘ کوئی دل چسپی نہ تھی۔ وہ اسے وقت ضائع کرنے کے مترادف سمجھتا تھا۔ اس
کا زیادہ تر‘ بیبیاں پاک دامناں اور حضرت شاہ حسین لاہوری کے درباروں پر‘
آنا چانا تھا۔ وہ دیر تک‘ وہاں بیٹھا اکیلا ہی‘ باتیں کرتا رہتا۔ اسے واپسی
کوئی جواب ملتا یا نہ ملتا‘ کوئی نہیں جانتا۔ اگر کوئی پوچھتا‘ تو جواب میں
ہنس دینا۔ اس کے اس ہنسنے میں‘ اثبات اور نہی کا‘ دور تک نام ونشان تک نہ
ہوتا۔
لوگوں کی حیرانی اپنی جگہ‘ لیکن ہر کسی کا‘ اپنا اپنا ذوق ہوتا ہے۔ اس کا
یہ ذوق‘ اس کی شخصیت کا حصہ بن چکا تھا۔ پہاگاں کو‘ اس کے اس ذوق سے‘ کوئی
چڑ نہ تھی۔ اس کے سارے خرچے‘ بڑی حد تک‘ وہ پورے کر رہا تھا۔ ان کے ساتھ‘
وہ ہنسی مذاق کرتا۔ اس کے صوفی ہونے کے‘ دور تک نام ونشان نہ تھے۔ باتوں
میں‘ عام لوگوں کا انداز ملتا تھا۔ اس کے کام بھی‘ صوفیوں والے نہ تھے۔ ہاں
البتہ‘ وہ بلا کا صابر و شاکر تھا۔ کوئی زیادتی کر جاتا‘ تو برداشت کر
لیتا۔ عجز اور مسکینی‘ اس کی فطرت ثانیہ تھی۔ ان باتوں کے باوجود‘ گھر اور
باہر‘ عمومی انداز سے گپ شپ کرتا۔ لطیفے سنتا بھی‘ اور سناتا بھی۔
ایک دن‘ حضرت شاہ حسین لاہوری کے دربار پر‘ ایک ملنگ یہ کافی گا رہا تھا۔
اس کی آواز‘ شرینی کے ساتھ ساتھ‘ خلوص اور محبت سے لبریز تھی۔
نی تینوں رب ناں بھلے
دعا فقیراں دی ایہا
رب ناں بھلیں ہور سبھ کجھ بھلیں
رب ناں بھلن جیہا
وہ سوچنے لگا‘ حضرت شاہ حسین لاہوری جیسا آدمی بھی‘ روٹی کے چکروں میں تھا۔
آخر اس نے‘ اسم ذات‘ الله کو کیوں استعمال نہیں کیا۔ اسے یہ بات‘ ہضم نہیں
ہو رہی تھی۔ پھر وہ اٹھ کر‘ دربار کے اندرآ گیا‘ اور کافی دیر تک بیٹھا
رہا۔ وہ اپنے آپ سے‘ باتیں کیے جا رہا تھا۔ اس سے پہلے‘ اس کی آواز‘ محض
بڑبڑاہت ہوا کرتی تھی۔ آج اس کا کہا واضح سنائی دے رہا تھا :
انسان‘ محض روٹی کی فکر اور تگ و دو کے لیے لیے پیدا ہوا ہے۔
روٹی اکٹھی کرتے کرتے‘ دم توڑ دیتا ہے۔
زندگی کا مقصد‘ صرف روٹی ہے۔ روٹی سے ہٹ کر‘ زندگی‘ زندگی نہیں۔
شاہ حسین جیسا بڑا شخص‘ مشورہ دے رہا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔رب نہ بھلیں ہور سبھ کجھ بھلیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باقی لوگوں کی حیثیت ہی کیا رہ جاتی ہے۔
روٹی دینے والوں کو ہی‘ یاد رکھا جانا چاہیے‘ باقی کو‘ یاد رکھنے کی ضرورت
ہی کیا ہے۔
انسان مرد اور عورت سے‘ وجود حاصل کرتا ہے۔
مرد اس لیے معتبر ہے‘ کہ کما کر لاتا ہے۔
عورت پکا کر دیتی ہے۔
ان کی عزت روٹی کے لیے ہوئی ناں۔
پیار محبت شفقت‘ گویا روٹی کے حوالوں سے وابستہ ہے ناں۔
بےایمان معاشروں میں‘ انسان سے محبت کرنے والے‘ کیوں پیدا ہو جاتے ہیں۔
تمہارا عہد بھی تو‘ پیٹ کے بندوں کا عہد تھا۔ تب ہی تو تم روٹی کی بات کر
رہے ہو اور روٹی دینے والی صفت کو‘ پہلے نمبر پر رکھ رہے ہو۔
روٹی آنی چاہیے‘ چاہے وہ رشوت‘ ملاوٹ ہیرا پھیری سے ہی کیوں نہ آئے۔
نماز‘ روزے اورحج کا کیا فائدہ ہوا۔
بچے کے بگڑنے میں ماں اور باپ کو کیوں الزام دیا جاتا ہے۔
دونوں بےقصور ہوئے ناں۔
بدقماش معاشروں کے بڑے لوگ‘ روٹی کے لیے‘ انسانی استحصال کرتے ہیں۔ بڑوں کے
قدموں پر ہی تو چھوٹے لوگ قدم رکھتے ہیں۔ جب روٹی اور روٹی والے‘ معتبر
ہیں‘ تو پھر رولا کس بات کا ہے۔
تم فقیر ہو کر بھی‘ یہ ہی بات کر رہے ہو۔
تم میں اور ان میں‘ فرق ہی کیا رہ گیا ہے۔
تم جواب نہیں دے رہے‘ میں بولے جا رہا ہوں۔
تمہیں اپنے کہے کی‘ وضاحت کرنا ہی ہو گی‘ ورنہ میں فقیری اور درویشی کو
پاکھنڈ سمجھوں گا۔
پاکستان‘ اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا۔ یہ کیسا اسلام ہے‘ کہ اس کا ماننے
والا‘ چند ٹکوں کے لیے‘ قرآن پر ہاتھ رکھ کر‘ قسم کھا لیتا ہے۔ عیسائی سچا
ہو کر بھی؛ بائیبل پر ہاتھ رکھ کر‘ قسم نہیں کھاتا۔
وہ مسلسل بولے جا رہا تھا۔ اسے ارد گرد کے‘ لوگوں کے‘ ہونے کا احساس تک نہ
تھا۔ پھر وہ زاروقطار رونے لگا۔ اسے چپ کرانے کی‘ کسی میں ہمت تک نہ تھی۔
کوئی کچھ کہتا‘ تو کیا کہتا۔ کسی کے پاس‘ اس کے سوال کا جواب ہی نہ تھا۔ ہر
آنے والا‘ شاہ حسین سے ملنے نہ آیا تھا۔ ہر کوئی‘ حاجت لے کر آیا تھا۔ ہاں‘
وہ کوئی حاجت لے کر نہ آیا تھا۔ وہ تو‘ صرف اور صرف‘ شاہ حسین سے ملنے آیا
تھا۔ کافی دیر بعد‘ بادل چھٹے‘ تو اب وہ بول نہیں رہا تھا۔ اس کے صرف ہونٹ
ہلتے نظر آ رہے تھے۔ وہ اسی حال میں‘ پچھلے قدموں دربار سے باہر نکل آیا۔
وہ سر جھکائے گھر کی طرف آ رہا تھا کہ لاشعور میں ایک سرگوشی سی ہوئی۔
بابا شکرالله کے کہے کو بھول گیے ہو۔
انہوں نے کہا نہیں تھا سانس کی ہر تار پر الله کا شکر ادا کرو۔
سانس آئے گا تو ہی الله کا شکر ادا کر سکو گے۔
کیا سانس رزق نہیں ہے۔
انبیا صدیق شہید اور صالیحین مرتے نہیں الله کے ہاں سے خیر کا رزق پاٹے
ہیں۔
یہ کون سا رزق ہے۔
اس عالم کے مطابق ہونے کا رزق پاتے ہیں۔
اسی لیے تو زندہ ہیں انہیں کون مار سکتا ہے۔
ہوں گے تو ہی الله کی حمد وثنا کر سکیں گے۔
اس عالم میں‘ سانس آنے کی صورت میں ہی‘ آتا جاتا سانس الله ہو کا ورد کر
سکے گا۔
اب کہو‘ رب کو یاد رکھنے کی بات‘ شاہ حسین نے سچ کہی ہے یا غلط
اچانک اسے یاد آیا‘ حیدر امام کی سال گرہ پر‘ بابا شکرالله اور مائی صاحبہ‘
اپنے تمثالی وجود میں‘ تشریف لائے تھے۔
انہیں مائی رضیہ صاحبہ نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔
اگر انہیں‘ رب یاد نہ ہوتا‘ تو رزق کہاں سے پاتے۔ رزق نہ ملا ہوتا‘ تو وہ
تمثالی وجود کیسے اور کیوں کر‘ حاصل کر پاتے۔
الله کا وعدہ کس طرح غلط ہو سکتا ہے۔
بدیانت اور بدکردار معاشروں میں‘ اولاد کے بگڑنے کا الزام‘ کسی پر نہیں
رکھا جا سکتا‘ کیوں کہ وہ بھی تو‘ اسی معاشرے کا حصہ ہوتے ہیں۔ مائی باپ
وہاں کیا کریں گے‘ جب سوسائٹی انہیں بدکرداری کی سجی سجائی دلدل میں کھنچ
رہی ہو گی۔ اس نے سر کو جھٹکا دیا۔ اسے اپنی منفی سوچ پر‘ سخت ندامت ہوئی۔
پھر وہیں سے واپس مڑا‘ اور شاہ حسین کے دربار کی طرف‘ چل دیا۔ بلاشبہ‘ شاہ
حسین‘ صالحین میں سے تھے۔
انہوں نے غلط نہیں کہا تھا۔
نی تینوں رب ناں بھلے
دعا فقیراں دی ایہا
رب ناں بھلیں ہور سبھ کجھ بھلیں
رب ناں بھلن جیہا
ہر سانس رب کا ہے‘ اور رب کے لیے ہی تو ہے۔ غافل سانس ہی‘ بدیانت اور
بدکردار ہو سکتا ہے۔ اس سرگوشی نے‘ غفلت کی ساری میل‘ دھو ڈالی تھی۔ اب اس
کے دل کا شیشہ‘ گردوغبار سے آلودہ نہ تھا۔ اس کا چہرا‘ چاند کی کرنیں برسا
رہا تھا۔ |