حضور سے حضرت عائشہ کی نکاح کے وقت عمر مبارک کا مسئلہ

اس مرتبہ ہم نے ایک ایسے ہی موضوع کا انتخاب کیا ہے جس کی بناءپر مغرب میں اسلامی تعلیمات پر کیچڑ اچھالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس بہتان یا غلط فہمی کو دور کرنا ہمارے مسلمان بھائیوں کی ذمہ داری تھی مگر یہ دیکھ کر دل خون کے آنسو رونے لگتا ہے کہ ہم میں سے اکثر نہ صرف اس غلط فہمی کو دور نہیں کر پاتے بلکہ ایسی ایسی توجیہات پیش کرتے ہیں کہ مخالفین کا یہ اعتراض یقین کا درجہ اختیار کر لیتا ہے۔

رسول اکرمﷺ سے نکاح و رخصتی کے وقت ام ا لمومنین حضرت عائشہ صدیقہ کی کم عمری اور کم سنی تاریخ کا ایسا پہلو ہے جس میں اصلاح کی گنجائش موجود ہے اور ہمارا قبلہ درست ہونا چاہیئے۔ عام طور پر یہی خیال کیا جاتا ہے کہ سیدہ عائشہ صدیقہؓ کا نکاح چھ برس کی عمر میں اور رخصتی نو برس کی عمر میں ہوئی۔

اس خیال کی اس قدر پبلسٹی کی گئی ہے کہ حقیقت بالکل پس پردہ چلی گئی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس کے بر عکس تاریخ سے ہمیں یہ روشنی ملتی ہے کہ نکاح کے وقت حضرت عائشہؓ کی عمر 15 سال ہجرت کے وقت اٹھارہ سال اور رخصتی کے وقت انیس سال تھی اور اس کے ثبوت بھی قوی اور کثیر ہیں تو ممکن ہے بہت سے لوگوں کے لئے یہ بات بالکل نئی ہو۔ اس قدر واضح اور روشن تاریخی حقیقت دانستہ یا نا دانستہ نجانے کیوں چھپائی گئی اور حضرت عائشہؓ کی زیادہ عمر والی روایات کے مقابلہ میں، کم سنی یا بچبن پر دلالت کرنے والی روایات کو کس بناءپر ترجیح دی گئی؟

اس موضوع پر مزید گفتگو سے پہلے ہم عام طور پر بیان کی جانے والی روایات کا جائزہ لیتے ہیں۔

بتایا جاتا ہے کہ حضرت عائشہؓ کی ولادت اعلان نبوت کے چار برس بعد شوال کے مہینہ میں ہوئی۔ نبوت کے دسویں سال جبکہ آپؓ کی عمر چھ سال تھی آنحضرت ﷺ نکاح ہوا ۔ اس وقت حضرت عائشہؓ پر بچپن غالب تھا اور آپؓ بچیوں کے ساتھ کھیل رہی تھیں۔ آپ کی اماں آئی اور اندر لے گئی۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ نے آ کر نکاح پڑھا دیا۔ حضرت عائشہؓ سے یہ جملہ بھی منسوب ہے کہ “جب میرا نکاح ہوا تو مجھ کو خبر تک نہ ہوئی۔ جب میری والدہ نے باہر نکلنے میں روک ٹوک شروع کی تب میں سمجھی کہ میرا نکاح ہو گیا۔ اس کے بعد میری والدہ نے مجھے سمجھا بھی دیا“۔

آگے ہم جو حقائق پیش کریں گے ان میں قارئین کو تاریخ سمجھنے میں مشکل پیش آسکتی ہے۔ آپ کی آسانی کے لئے اس کی وضاحت پیش ہے۔ جس طرح ہم انگریزی سال بیان کرنے میں سن کے ساتھ عیسوی لکھتے ہیں اور اسلامی سن کے ہمراہ ہجری لکھتے ہیں۔ اسی طرح آگے ہم نبوی اور محمدی کی اصطلاح بھی استعمال کریں گے۔ حضور ﷺ کے ولادت سے اعلان نبوت کے دورانیے کو “محمدی “ اور برس کو “سال محمدی “ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یعنی حضور ﷺ جب ایک برس کے ہوئے تو اسے 1 محمدی کہیں گے۔ اعلان نبوت سے ہجرت تک کا دورانیہ “نبوی“ اور ہجرت کے بعد “سن ہجری“ کہلاتا ہے۔ یعنی ہجرت سے پہلے کے سالوں کو نبوی اور نبوت سے پیشتر کے سالوں کو محمدی کے نام سے پہنچانا جاتا ہے۔

حضرت عائشہؓ کی کم سنی پر دلالت کرنے والی روایات مورخ ابن سعد کی کتاب طبقات میں ہونے کی وجہ سے مستند گردانی جاتی ہے۔ اس پر مزید کوئی تبصرہ کئے بغیر ہم چند دوسری مستند کتابوں سے رجوع کرتے ہیں جو ہمارے موقف کی تائید کرتی ہیں۔ چونکہ یہ استدلال کئی کتابوں کا ہے اس لئے زیادہ ثبوت کی وجہ سے اس پر ہی یقین کیا جانا چاہئے۔

پہلا ثبوت:۔ مورخ ابی جعفر محمد بن جریر ا لطبری نے اپنی مشہور عالم کتاب تاریخ طبری میں خلیفہ اول سیدنا ابو بکر صدیقؓ کی ازواج کا تذکرہ کیا ہے اسی کے آخر میں ایک جملہ یہ ہے کہ حضرت عائشہؓ کی ولادت آمد اسلام سے پہلے ہوئی تھی۔

“علی بن محمد کی روایت ہے کہ ابوبکرؓ نے زمانہ جاہلیت میں قتیلہ سے نکاح کیا تھا۔ واقدی اور کلبی بھی اس روایت سے متفق ہیں وہ کہتے ہیں کہ قتیلہ کا شجرہ یہ ہے قتیلہ بنت عبد ا لعزیٰ بن عبد بن اسعد بن جار بن مالک بن حمل بن عامر لوئی۔ قتیلہ سے آپؓ (حضرت ابوبکرؓ) کے یہاں عبداللہ اور اسماء(عبدا للہ بن زبیر کی والدہ )پیدا ہوئیں۔ نیز زمانہ جاہلیت میں آپؓ نے ام رومان بنت عامر بن عمیرہ بن ذاہل بن وہمان بن ا لحارظ بن غنم بن مالک بن کنانہ سے نکاح کیا تھااور بعض لوگوں کا قول ہے کہ وہ اُم رومانؓ بنت عامر بن عویمر بن عبد شمس بن عتاب بن اذینہ بن سبیع بن وہمان بن ا لحاث بن غنم بن مالک بن کنانہ تھیں۔ ان کے بطن سے آپ کے یہاں عبد ا لرحمان اور عائشہ پیدا ہوئیں ۔ آپ کی یہ چاروں اولادیں جو ان دو بیویوں سے پیدا ہوئیں جن کا ہم نے ذکر کیا ہے۔ قبل از اسلام کے زمانے میں پیدا ہوئی تھیں“ (تاریخ طبری مترجم سید محمد ابراہےم صفحہ 271 )۔

یہاں طبری نے چاروں اولادوں کی سن پیدائش کا تو ذکر نہیں کیا لیکن یہ تذکرہ موجود ہے کہ یہ سب اولادیں بعثت نبوی سے قبل پیدا ہوئیں۔ حضرت عائشہؓ جوان چاروں میں سے سب سے چھوٹی تھیں آپ © بھی نبوت سے قبل پیدا ہوئی تھیں۔

دوسرا ثبوت:۔ سیرت ا لنبی ﷺ کی مشہور کتاب سیرة ابن ہشام کی جانب آئیے۔ حضور نبی کریم ﷺ نے چالیس سال کی عمر میں نبوت کا اعلان فرمایا۔ ابتدائی اسلام قبول کرنے والے صحابہ کرامؓ اسابقون الاولون کہاجاتا ہے۔ ابن ہشام نے سابقون ا لاولون کی جو فہرست اپنی کتاب میں بیان کی ہے اس میں اٹھارویں نمبر پر حضرت اسماءبنت ابوبکرؓ اور انیسویں نمبر پر حضرت عائشہ بنت ابوبکر کا نام دیا ہے۔ تفصیل کے لئے دیکھیئے سیرة ابن ہشام صفحہ نمبر 126 ۔

کہاں تو حضرت عائشہؓ کا سال ولادت ہی 4 نبوی یعنی نبوت کا چوتھا سال بتایا جاتا ہے۔ دوسری طرف حضرت عائشہؓ اسلام قبول کرنے والی انیسویں صحابیہ ہیں اور ظاہر ہے قبول اسلام ایسی صورت میں ہی کیا ہوگا کہ آپؓ کو کفرو اسلام کو سمجھنے کا شعور حاصل تھا۔ اس سے بھی ثابت ہے کہ حضرت عائشہؓ بعثت نبوی سے قبل مکہ میں پیدا ہوئی تھیں۔

تیسرا ثبوت: تاریخ طبری اور سیرت ابن ہشام سے یہ تو ثابت ہو گیا کہ حضرت عائشہؓ کی پیدائش بعثت نبوی سے قبل ہو گئی تھی لیکن آپؓ کی پیدائش کب ہوئی۔ آئیے یہ تلاش کرتے ہیں۔ حدیث کی معروف کتاب مشکٰوة ا لمصابیح کی کتاب اسماءا لرجال متعلقہ مشکٰوة میں ہے “حضرت اسماءبنت ابی بکرؓ صحابیہ ہیں اور حضرت عائشہؓ کی سوتیلی بہن ہیں اور ان سے دس برس بڑی ہیں۔ قدیم ا لاسلام ہیں۔ سترہ آدمیوں کے بعد اٹھارویں اسلام قبول کرنے والی ہیں۔ ان کی وفات ان کے صاحبزادہ عبد ا للہ بن زبیرؓ کی شہادت کے چند دن بعد 73 ہجری میں ہوئی اس وقت ان کی عمر سو برس کی تھی“۔

اسمائؓ ا لرجال کی ایک اہم کتاب اسد ا لغابہ میں حضرت اسمائؓ کے بارے میں اسی بات کی تصدیق یوں ہوتی ہے۔

حضرت اسمائؓ حضرت عائشہؓ سے بڑی تھیں۔ حضرت عائشہؓ والد کی جانب سے ان کی بہن تھیں۔ عبداللہ بن ابی بکرؓ ان (حضرت اسمائؓ ) کے حقیقی بھائی تھے۔ ابو نعیم نے کہا کہ ان کی پیدائش ہجرت سے ستائیس سال پہلے ہوئی تھی اور جب ان کی پیدائش ہوئی تو ان کے والد(یعنی حضرت ابو بکرؓ ) کی عمر کچھ اوپر بیس سال کی تھی حضرت اسمائؓ سترہ آدمیوں کے بعد اسلام لائی تھیں © (اسد ا لغابہ جلد 5 صفحہ 292 )

ابن کثیر نے اپنی شہرہ آفاق تالیف البدایہ والنہایہ میں حضرت اسمائؓ کا تذکرہ بالکل اسی طرح کیا ہے۔

“اور حضرت اسمائؓ موت کے اعتبار سے تمام مہاجرین و مہاجرات میں سب سے آخری ہیں۔ ان کی بہن حضرت عائشہؓ ہیں۔ ان کے والد ابوبکرصدیقؓ ہیں۔ ان کے دادا ابو عتیق ہیں۔ ان کے بیٹے عبداللہؓ ہیں اور ان کے شوہر حضرت زبیر © ہیں اور یہ سب کے سب صحابی ہیں۔ حضرت اسماءاپنے بیٹے اور شوہر کے ساتھ معرکہ یرموک میں شریک تھیں۔ یہ اپنی بہن عائشہؓ سے دس سال بڑی تھیں۔ 73ھ میں جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے انہیں اپنے بیٹے عبداللہؓ کے قتل کا واقعہ دیکھنا پڑا اس واقعہ کے پانچ دن بعد اور ایک قول ہے کہ دس دن بعد ، تیسرا قول ہے کہ بیس دن بعد اور چوتھا قول ہے کہ کچھ اوپر بیس دن بعد اور پانچواں قول ہے کہ سو دن بعد اور یہی قول مشہور ہے۔ حضرت اسمائؓ نے وفات پائی۔ وفات کے وقت ان کی عمر سو سال تھی۔ “(البدایہ و النہایہ جلد 8 صفحہ 346 )

متذکرہ بالا تینوں تاریخی کتابوں کی شہادتوںسے ثابت ہوتا ہے کہ 73 ھ میں حضرت اسمائؓ کی وفات سو سال کی عمر میں ہوئی۔ اس حساب سے حضرت اسمائؓ ہجری میں28 سال کی تھیؓ اور ان کی ولادت 2 قبل از ہجری مطابق 15 قبل نبوت مطابق 26 محمدی میں ہوئی تھی۔ سیدہ عائشہؓ صدیقہ ان سے عمر میں دس سال چھوٹی تھیں اس لئے ولادت حضرت عائشہؓ 36 محمدی مطابق 5 قبل ہجرت کے وقت حضرت عائشہ ؓکی عمر اٹھارہ سال کی تھی۔ ہجرت سے دو سال قبل آپ کا نکاح ہوا تھا ہجرت کے ایک سال بعد یعنی انیس سال کی عمر میں آپؓ نبی ﷺ کے حرم میں داخل ہوئیں۔

چوتھا ثبوت:۔ صحیح بخاری میں امام بخاری نے کتاب الہجرت باب نکاح عائشہؓ کے زیر عنوان ایک روایت درج کی ہے۔ حدیث بہت طویل ہے او ر اس کا مکمل متن و ترجمہ یہاں نقل کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔ تفصیل صحیح بخاری کی کتاب ا لہجرت میں دیکھی جاسکتی ہے۔ البتہ اس کے ابتدائی حصہ کا ترجمہ مندرجہ ذیل ہے۔

“حضرت عائشہؓ نے فرمایا کہ جب سے میں نے ہوش سنبھالا اپنے والدین کو دین سے مزین پایا اور کوئی دن ایسا نہ ہوتا تھا کہ جس میں رسول ا للہ ﷺ صبح و شام دونوں وقت ہمارے ہاں تشریف نہ لاتے ہوں۔ پھر جب مسلمانوں کو ستایا جانے لگا تو ابو بکرؓ بھی ہجرت کے ارادے سے ارض حبشہ کی طرف چل دیئے۔ حتیٰ کہ مقام برک الغماد پہنچے تو قبیلہ قارہ کے سردار ابن الدغنہ سے ملاقات ہوئی۔ اس نے پوچھا اے ابوبکرؓ کہاں جانے کا ارادہ ہے؟ ابوبکرؓ نے جواب دیا کہ میری قوم نے مجھے نکال دیا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ اب زمیں کی سیاحت کروں اور اپنے رب کی عبادت کروں ۔ ابن ا لدغنہ نے کہا کہ تم جیسا آدمی نہ نکل سکتا ہے اور نہ نکالا جاسکتا ہے۔ تم حاجت مند کی مدد کرتے ہو۔ رشتہ داروں سے سلوک کرتے ہو بے کسوں کی کفالت کرتے ہو۔ مہمان کی ضیافت کرتے ہو اور دوسروں کے لئے راہ حق میں تکلیف اٹھاتے ہو۔ میں تمہیں اپنی پناہ میں لیتا ہوں۔ چلو لوٹ چلو اور اپنے وطن میں رہ کر اپنے رب کی عبادت کرو۔ چنانچہ ابوبکرؓ ابن ا لدغنہ کے ساتھ واپس آئے۔ “

تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ حبشہ کی اولین ہجرت 5 نبوی کے دوران ہوئی اور اسی میں حضرت ابوبکرؓ نے بھی حبشہ روانہ ہونے کا ارادہ کیا لیکن ابن الدغنہ کی حمایت پر واپس آ گئے اور حضور ﷺ کی حضرت ابوبکرؓ کے گھر صبح شام آنے جانے کا متذکرہ بالا معمول یقینا 5 نبوی سے پہلے کا ہے۔ یعنی 5 نبوی سے قبل ہی حضرت عائشہؓ اتنے شعور کو پہنچ چکی تھیں کہ کفر و اسلام کا فرق جانتی تھیں۔ حضور ﷺ کی روزانہ دو مرتبہ آمد، مسلمانوں کو اسلام قبول کرنے کی پاداش میں ستائے جانے، حضرت ابوبکرؓ کی ابن ا لدغنہ سے ملاقات و گفتگو اور اس کی حمایت میں واپسی کا گہرا مشاہدہ ان کی نظر میں تھا۔ اگر حضرت عائشہؓ چار نبوی میںپیدا ہوئیں تو ان کو شعور سنبھالنے میں بھی کم از کم پانچ سال کا عرصہ لگتا یعنی نو نبوی تک لیکن اس کے برعکس آپؓ 5 نبوی سے قبل کے واقعات مشاہداتی انداز میں بیان فرما رہی ہیں۔ اس کا سیدھا سیدھا مطلب یہ ہے کہ آپ اتنا شعور رکھتی تھیں کہ ان معاملات کو سمجھ سکیں۔

پانچواں ثبوت:۔ بعثت نبوی سے پہلے اور بعد کے کئی واقعات میں سن و سال کا اختلاف تاریخ کے قاری کے لئے پرایشانی کا سبب بنتا ہے۔ حضور اکرم ﷺ کا سفر معراج بھی ایسے ہی واقعات میں سے ایک ہے جس میں بہت اختلاف ہے۔ ہجرت سے تین سال پیشتر سے لے کر ہجرت سے چھ ماہ قبل تک دس اقوال ملتے ہیں۔اس کا اندازہ اس سے بھی کیا جاسکتا ہے کہ واقعہ معراج حضرت عائشہ اور رسول اللہ ﷺ کے عقد سے پہلے کا ہے۔ حضرت عائشہؓ سے حضور ﷺ کا نکاح 10 نبوی میں ہوا یعنی واقعہ معراج اس نکاح سے پہلے پیش آیا۔ جب حضور اکرم ﷺ نے سفر معراج کے مشاہدات لوگوں میں بیان فرمائے تو فوراً ہی یہ موضوع زبان زد عام ہوگیا۔ مخالفین اس ماورائے عقل واقعہ پر تنقید کرتے اور صحابہ اکرامؓ اس بارے میں حضور ﷺ سے سوالات کرتے اور آپس اس موضوع پر تبادلہ خیال کرتے۔ اس واقعہ کو روایت کرنے والوں میںپینتالیس صحابہ اکرامؓ کے نام ملتے ہیں۔ ان میں حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کا نام بھی شامل ہے۔ نکاح سے پہلے کا یہ وہ دور ہے جس کے بارے میں اکثر لوگ جھوم جھوم کر یہ بتاتے ہیں کہ حضرت عائشہؓ اتنی کم سن تھیں کہ محلے کی بچیوں کو بلا کر گڑیوں سے کھیلا کرتی تھیں۔ اگر حضرت عائشہ اس وقت اتنی کم عمر تھیں تو اتنے سنجیدہ اور عمیق موضوع پر رائے کیوں دی اور اس میں دلچسپی کیوں لی؟

سب جانتے ہیں کہ سنجیدہ موضوعات پر چار پانچ سالہ بچوں کی رائے کو کبھی اور کہیں کوئی اہمیت نہیں دی جاتی تو پھر معراج کے معجزہ بیان واقعہ پر حضرت عائشہ ؓ نے رائے کیوں دی اور آپ کا نام راویان کرام میں کیوں شامل کیا گیا؟

اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ حضرت عائشہ واقعہ معراج کے وقت عالم شباب میں تھیں اور شعور میں بلوغت نمایاں ہو چکی تھی۔ آپ کی عقلی فراست کی تاریخ گواہ ہے چنانچہ آپ ؓ کی رائے کو بھی اس میں شامل کرلیا گیا۔

ہمارا منشا یہ نہیں ہے کہ قدیم روایات پر شخصی رائے کو غالب کردیا جائے چنانچہ تمام جگہ مستند تسلیم کی جانے والی کتابوں کے حوالے پیش کئے ہیں چونکہ یہ تمام ثبوت بہت زیادہ ہیں اور زیادہ واضح ہیں اس لئے ان کی شہادت کو کسی بھی طرح رد نہیں کیا جا سکتا۔ اب ہم چند دیگر گزارشات کی جسارت بھی کریں گے۔ حضرت عائشہؓ کی کم عمری میں یا بچپن میں نکاح اور شادی عقلی اصولوں کے خلاف اور باعث شرم بھی ہے۔ تاریخ بتاتی ہے سیدنا حضور علیہ ا اصلٰوة والسلام کے دور میں یا بعد میں کسی صحابی، تابعی، تبع تابعین، ولی ا للہ، مفسر، محدث، فقیہہ یا عالم نے نہ اپنی بیٹی کی شادی چھ یا نو سال میں کی نہ ان کے متبعین میں سے کسی ایک نے بھی اس کی جرات کی ۔ کیوں؟.... صرف اس لئے کہ ایسی شرمناک حرکت کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ چھ سال کی عمر ہی کتنی ہوتی ہے؟ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ کیا آج ہم میں سے کوئی اپنی بچی، بہن ، بیٹی، بھانجی، بھتیجی یا کسی عزیز کی بیٹی کی شادی چھ یا نو سال میں کرنے کے بارے میں سوچ سکتا ہے؟

کچھ لوگ یہ بھی کہہ سکتے ہیں پرانے زمانے میں لڑکیاں جلد بالغ ہو جاتی تھیں اس لئے ممکن ہے ایسا ہو ا ہو۔ ہم ان سے سوال کرتے ہیں اگر یہ بات تسلیم کرلی جائے تو اس دور میں صحابہ، تابعین، تبع تابعین سے لے کر عام آدمی تک کسی سے بھی منسوب ایسا واقعہ کیوں نہیں ملتا۔ ہمارا ذاتی طور پر خیال یہ ہے کہ ابتدائی صدیوں کے صحابہ، تابعین اور دیگر اصحاب یہ جانتے تھے کہ حضرت عائشہؓ شادی کے وقت انیس برس کی تھیں اور عالم شباب میں تھیں۔

آج بھی طبعی، جسمانی اور ذہنی اعتبار سے انیس سال کی یہ عمر شادی کے لئے بہترین تسلیم کی جاتی ہے۔ ہماری اپنے مسلمان بھائیوں سے درخواست ہے کہ خدا راکچھ کہنے سے پہلے غور بھی کر لیا کیجئے سیرت کا مطالعہ محض رٹا لگا لینے کا نام نہیں اس میں تفکر کرنا بھی ہمارا فرض ہے۔ جو فعل اپنی بہن بیٹیوں کے لئے معیوب سمجھا جاتا ہو اسے نعوذ باللہ نفس کائنات سیدنا حضور ﷺ پر کیوں کر ڈالا جاسکتا ہے؟ ہم میں سے اکثر مسلمان نبی کریم ﷺ کے نام پر گردنیں کٹوانے سے بھی دریغ نہیں کرتے لیکن محترم دوستو! ہمیں ایسی چیزیں بھی ضرورمد نظر رکھنی چاہئیں جن سے دانستہ یا غیر دانستہ طور پر اسلام پر حرف آ سکتا ہے۔ عام طور پر کسی بھی مذہبی موضوع پر گفتگو سے پہلے اس کا ثبوت مانگا جاتا ہے جو ہم نے مستند کتابوں کے حوالہ جات کی صورت میں دے دیا ہے۔ اب فیصلہ آپ کے اوپر ہے کہ اسلام کے اس پہلو کا جواب غیر مسلموں کو کیا دیتے ہیں۔
سید قمر احمد سبزواریؔ
About the Author: سید قمر احمد سبزواریؔ Read More Articles by سید قمر احمد سبزواریؔ: 35 Articles with 61844 views میرا تعلق صحافت کی دنیا سے ہے 1990 سے ایک ماہنامہ ّّسبیل ہدایت ّّکے نام سے شائع کر رہا ہوں اس کے علاوہ ایک روزنامہ نیوز میل لاہور
روزنامہ الجزائر ل
.. View More