ہم اور ہمارے بچے

مجھے ایک سکول کی تقسیم انعامات کی تقریب میں شرکت کا موقع ملا ،میں اپنے مقررہ وقت پر پہنچا تو تقریب شروع تھی سکول کے بچے اپنی اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کر رہے تھے ۔بچوں کا انداز تقریر پرجوش،پر اعتماد تھا،بچوں نے ڈرامائی انداز میں خالے بھی پیش کئے،ان بچوں کو دیکھ کہ یہ کہنا غلط نہ تھا کہ زرہ سی نعم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی،کسی بھی لمحے بوریت کا احساس نہیں ہوا۔بچے تھے کہ تمام تر مشکلات کے باوجود بھی اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کر رہے تھے یہ پرائیویٹ سکول جس کو کوئی ادارہ،این جی اوز نہیں بلکہ اپنی مدد آپ چلایا جا رہا تھا یہ باغ کے صحت افزا مقام سدھن گلی کے بازار کے قریب واقع کشمیر ماڈل مڈل سکول تھا،یہ کاوش سردار عاشق اور اس سکول کی انتظامیہ کے ساتھ میرے محترم استاد سردارحنیف کی تھی، جن کی تعلیم کے میدان میں گراں قرد خدمات کے ساتھ ساتھ معاشرے میں رواداری ،انصاف،قائم رکھنے میں بڑا ہاتھ ہے،ان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ اپنے اپ کو صرف انسان ہونے پر ترجیح دیتے ہیں ان کی نظر میں برادری،فرقہ،علاقہ ،کوئی معنی نہیں رکھتے اور اسی بات کو پروف کرنے کے لئے انہوں نے ہمیشہ اپنی زندگی میں سچ،اور حق کا ساتھ دیا۔انہوں نے اپنے فرائض کو اﷲ کی امانت سمجھ کر عوام علاقہ اور بچوں کے لئے دیانت داری سے سرانجام دیے،ان کا ویژن بہت وسیع ہے انہوں نے ہمیشہ ضرورت مند،غریب،اور کمزرو،طالب علم کا ساتھ دیا،اور ہر ظلم زیادتی ،نا انصافی کے سامنے علم حق بلند کیا ،انہوں نے بہت سے پرائیویٹ سکولوں کی بنیاد رکھی جو آج معاشرے میں اپنا ایک مقام رکھتے ہیں۔یہ تقریب جو ہر لحاظ سے قابل تعریف تھی۔ بلکہ یہ کہنا درست ہوگا کہ باصلاحیت لوگوں کے ساتھ خوبصورت تقریب کا انعقاد کیا گیا،اس تقریب سے فارغ ہوتے ہی میں سدھن گلی بازارداخل ہو میں نے دیکھا کہ کچھ بچے ہاتھوں میں بڑے بڑے شاپر اٹھائے بازار کی صفائی کر رہے تھے یہ بچے مقامی نہیں لگ رہے تھے میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کہاں سے آئے ہیں انہوں نے بتایا ،ہم پاکستان کے مختلف شہروں سے آئے ہیں ،یہ سن کر اور دیکھ کر مجھے حرت ہوئی کہ پاکستان کے شہروں سے بچے آکر ہمارے بازار صاف کرتے ہیں اور ہمارے لوگ انہیں دیکھ کر ہنستے اور ان پر باتیں کرتے ہیں،میں کے ان کے ساتھ آئے سربراہ جس کا نام افضل تھا سے ملا اس سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ میرا تعلق ایڈونچر فاونڈیشن پاکستان سے ہے ،ہم انوائر مینٹل ایجوکیشن اوٹ پر کام کرتے ہیں، ہم پورے پاکستان کے سکولوں سے بچے جن کی عمر چودہ سال سے کم اور سات سال سے زیادہ ہو،ہم ان بچوں کے والدین ،سکول اور خود بچے کی مکمل راضا مندی اور تربیت کے بعد لیتے ہیں،ہمارا یہ ٹور ایک ایک ماہ تک ہوتا ہے، اس میں ہم بچوں کو ماحولاتی اگائی کے ساتھ ساتھ ایڈونچر اور مشکلات کا مقابلا کرنے کی تربیت بھی دیتے ہیں،ان کی تفریحی بھی ہو جاتی ہے اور تربیت بھی ،مختلف تاریخی مقامات سے اگائی اور اس کی ہسٹری سے بھی ان کو بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے,ان بچوں اور ان لوگوں کی اس کوشش کو دیکھ کر ایک منٹ کہ لیے مجھے یوں لگا کہ میں اس ملک سے ان لوگوں سے بہت دور چلا گیا ہوں کیوں کہ یہاں پر تو نفرت، دشمنی،دہشت گردی کے سوا کچھ نہیں ملتا ،میں بھی لاکھ کوشش کرتا ہوں کچھ اچھا لکھنے کی مگر سوائے مایوسی کے کچھ ہاتھ نہیں آتا اچھی بات کوئی اچھا ماحول ڈھونڈنے کو نہیں ملتا مگر یہ لوگ یہ بچے دنیا اور اس ماحول کی سوچ سے بے خبر اپنا کام کر رہے ہیں ،سڑکیں گلیاں صاف کر رہے ہیں،ان کو اس سے کوئی سروکار نہیں کہ ہمارے ملک میں کیا ہو رہا ہے، اور کیا نہیں۔ ان کا کام ہے کہ اپنا کام اور اپنی زمہ داری سے کرتے جانا ،ان بچوں میں بھائی چارہ ،پیار، اپنے ساتھی کا احساس،ان کا نظم و ضبط اور سلیقہ قابل تعریف بھی تھا اور قابل رشک بھی ،یہی وہ ذہن،سوچ ہے، جو یہاں اور اس طرح کے ماحول سے پروان چڑتا ہے اور پھر وہ ایک قوم ایک ملک کی پہچان بنتا ہے،ان بچوں اور ،انتظامیہ سے مفید بات چیت کے بعد میں جیسے ہی ان بچوں اور انتظامیہ سے الگ ہوا تو مجھے یوں محسوس ہوا کہ میں کسی دم گھٹنے والے ماحول میں اگیا ہوں۔مگر ایک سوچ تھی ایک خیال تھا جو اس ماحول میں راہ کر بھی مجھے بار بار آرہا تھا کہ ہم اور ہمارے ادارے ،سکول، تربیت گائیں، والدین ، ہر وہ کام جس کا بچے کی تربیت سے کوئی نہ کوئی تعلق ہے بس ایک ہی سوچ کے محور میں گومتا ہے کہ ہمارا بچہ کسی طرح رٹا لگا کر یہ امتحان پاس کر لے،ہمارا بچہ کسی طرح سفارش کے بل بولتے پر نوکری حاصل کر لے، سوشل لائف کیا ہوتی ہے ،انسانیت کا مقصد کیا ہوتا ہے،ہماری اس دنیا میں آنے کی ذمہ داریاں کیا ہیں،ہمیں کچھ پتہ نہیں ہاں اگر کچھ خبر ہے تو یہ خبر خوب ہے کہ ہم نے کس کو نقصان دینا ہے کس کو ذات ،برادری کے نام سے نیچا دیکھانا ہے،کس کو اپنی سیاسی طاقت کا جھانسہ دینا ہے ،اگر دیانت داری سے دیکھا جائے تو یہاں صدیوں تک کوئی بڑا آدمی پیدا ہوتا ہوا نظر نہیں آتا اور نہ کوئی پیدا ہو سکتا ہے ،کیوں کہ یہاں پر بچے کی سوچ کو بڑا ہونے ہی نہیں دیا جاتا بلکہ اس کو اپنے ماحول تک قید کر کے اسے قیدی بنا دیا جاتاہے،وہ لوگ جن کا اس علاقے پر اختیار ہے ،جن کی کوشش سے تبدیلی آسکتی ہے وہی اس سوچ کو محدود کرنے کے ذمہ دار ہیں اگر کوئی ہزاروں میں سے ایک اس سوچ سے مختلف کچھ کرنا چاہتا ہے تو اس کو کامیاب ہونے نہیں دیا جاتا بلکہ اس کے خلاف ایک محاذ کھڑا کر دیا جاتاہے۔سوچنے والی بات ہے کہ اگر پاکستان کے سکولوں کے بچے اکر ہمارے بازار اور گلیاں صاف کر سکتے ہیں تو ہمارے کیوں نہیں،دنیا بھر سے لوگ آکر اس ماحول سے بہت کچھ سیکھ کر جاتے ہیں تو ہم کیوں نہیں،کراچی،کوئٹہ ،بلوچستان،لاہور، پشاور، اسلام آباد، ملتان، حیدر آباد، پاکستان بھر سے بچے ایک فیملی بن سکتے ہیں تو ایک ضلع،ایک خطے کے کیوں نہیں۔پاکستان کے سکول مختلف این جی اوز سے رابطے کر کے بچوں کو مطالیاتی دورے کر وا سکتے ہیں تو ہمارے کیوں نہیں۔ہمارے ہاں تو بہت سے سکول خود، این جی اوز چلاتی ہیں میں نے افضل سے پوچھا اس کا کہنا کہ ہم بچوں سے ایک پائی بھی نہیں لیتے تمام تر اخراجات ادارہ کرتا ہے۔ہمارے لوگوں کو بھی چاہیے کہ وہ روائتی سوچ سے باہر آئیں۔ورنہ آپ تالاب کے مینڈک بن کر راہ جائیں گے۔۔۔

iqbal janjua
About the Author: iqbal janjua Read More Articles by iqbal janjua: 72 Articles with 69146 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.