ماہ رمضان میں کی گئی ایک شرارت
(Prof Dr Mujeeb Zafar Anwaar Hameedi, Covina(California))
یہ جنوری 1966 کی بات ہے۔
میں اس وقت کراچی کے معروف جیکب لائنز اسکول میں پڑھتا تھا۔ اسکول کے بہت
سے ساتھی جٹ لینڈ لائنز میں گھر کے قریب ہی رہتے تھے اور ہم سب جامع مسجد
جٹ لینڈ لائنز میں نماز تراویح " با اہتمام" ادا کیا کرتے تھے لڑکوں کی ایک
صف آخر میں بنائی جاتی تھی اور اس میں طرح طرح کی شرارتیں ہوا کرتی تھی۔
کچھ لڑکے بہت پہنچے ہوئے تھے اور ایک ہی دھکے سے پوری صف کو گرانے میں
کامیا ب ہوجاتے تھے۔ ان شریر لڑکو ں کے سرخیل ضیا الدین بٹ نام کے ایک دوست
تھے جن کو لوگوں کی اکثریت ان کے نام سے نہیں بلکہ انکی عرفیت " ٹولہ" سے
جانتی تھی-
لڑکوں کے اس گروپ کو تقریبا روزانہ ہی محلے کے بزرگوں سے " ڈوز" ملا کرتی
تھی۔ انہی بزرگوں میں ایک صاحب تھے جن کااصل نام تو لڑکوں میں کسی کو معلوم
نہ تھا بس اپنے مزاج کے سبب " بڑے میاں اُلجُھو " کہلاتے تھے۔
اس سال کراچی میں سردی کڑاکے کی پڑ رہی تھی۔ 1965 کی جنگ کے بعد یہ پہلے
رمضان تھے اور لوگوں میں بہت جوش و جذبہ تھا۔ صدر ایوب خان وزیر خارجہ
ذوالفقار علی بھٹو کی معیت میں ہندوستان کے وزیر اعظم لال بہادر شاستری سے
معاہدہِ امن کے لیے تاشقند میں تھے۔
اس شام نماز تراویح سے قبل کسی شرارت پر بڑے میاں الجھو نے ٹولے کی سرزنش
فرمائی۔ ٹولے میاں اس وقت تو سر جھکا کر خاموش ہو گئے لیکن دل میں کچھ اور
ہی سوچ چکے تھے۔
دیوار پر لگے سوئچ بورڈ کے عین نیچے آخری صف میں بیٹھ گئے اور جب امام صاحب
نے نیت باندھ لی تو انہوں نے اٹھ کر سوئچ بورڈ پر پنکھوں کے سارے سوئچ آن
کردیے ۔ ھال کے وسط میں قطار میں لگے پنکھے جو چند ماہ سے بند تھے اور جن
پر خاصی دھول جم چکی تھی، طرح طرح کی آوازوں کے ساتھ اسٹارٹ ہوئےاور پھر
چند ہی لمحوں میں اپنی پوری رفتار سے گردش کرنے لگے۔ کوئٹہ کی یخ بستہ
ہواؤں کے زیر اثر کراچی میں سردی عروج پر تھی. جو حال لوگوں کا ہوا وہ آپ
تصور کر سکتے ہیں۔ امام صاحب کے سلام پھیرتے ہی ٹولے میاں ایسے غائب ہوئے
جیسے وہاں تھے ہی نہیں-
یہ واقعہ جن لوگوں کو یاد ہوگا ان میں آصف بھائی, زاہد بھائی، اور بھائی
عارف قریشی تو فیس بک پر موجود ہیں
بشکریہ : جناب عابد علی بیگ صاحب
پروفیسر ڈاکٹر مجیب ظفر انوار حمیدی |
|