رحم دل بادشاہ

 موسم گرما کی چھٹیاں ہوچکی ہیں،مجھے پکا یقین ہے کہ میری طرح آپ بھی خوب مستی سے چھٹیاں گزار رہے ہوں گے ۔ماموں ،پھوپھی ،خالہ کے گھر جانا یا پھر دادی ماں کے کمرے میں خوب اودھم مچانا۔ یاروں چھٹیاں ہوتی ہی مستی کیلئے ہیں پر خیال رکھنا دُھوپ کے وقت باہر نہ نکلنا کہیں طبیعت خراب ہوگئی تو سارہ مزہ جاتا رہے گا ۔چھٹیوں کے 15.10دن بیمار ہوکر گزارنے کاشوق مجھے تو بالکل نہیں تھا۔میں تو دُھوپ اورشدید گرمی کے وقت کمرے میں ہوم ورک کیا کرتا یا مزے مزے کی کہانیاں پڑھا کرتا تھا۔حاضر ہے آپ کیلئے ایک سبق اور حکمت بھری کہانی ۔آپ نے مجھے ای میل کرکے ضرور بتانا ہے کہ کہانی پسند آئی یا نہیں ،کہانی میں کہاں کہاں بوریت ہوئی اور کہاں مزہ آیا۔[email protected] ۔پیارے بچوں انسان کو رحم دلی اور عقل مندی سے کالینا چاہیے۔آج میں آپ کو ایک کہانی سناتا ہوں جس میں ایک شخص کی رحم دلی اور دوسرے کی عقل مندی پوری ریاست کو ایک بڑی مشکل سے باآسانی بچالیتی ہے۔کسی ریاست میں تین صدیوں تک ظالم حکمرانوں کے ظلم سے تنگ آکر عوام نے بغاوت کردی ۔نتیجہ یہ نکلا کہ عوام نے حکمران خاندانوں کے ایک ایک فرد کو چن چن کر مار ڈالااور فیصلہ کیا کہ اب حکمران اس کو بنایا جائے جو ریاست کا سب زیادہ نرم دل شخص ہواور اُس کے خاندان میں بھی کبھی کسی نے ظلم نہ کیا ہو۔بڑی تلاش کے بعد آخرکار اُس ریاست کے عوام کو ایساحکمران مل گیا جس کی پچھلی سات نسلوں میں کوئی ظالم پیدا نہیں ہواتھا۔اُس کی رحم دلی کے چرچے دور دور تک پھیلے تھے ،پورا خاندان عدل انصاف کا پیکر تھا سواُس شخص کو رحم دل کا خطاب دے بادشاہ بنادیاگیا۔جلد ہی آس پاس کی ریاستوں میں بھی رحم دل بادشاہ کی رحم دلی مشہور ہونے لگی اور ریاست تیزی سے ترقی کرنے لگی ،چاروں طرف بہار ہی بہار نظرآنے لگی عوام بہت خوش تھے کہ اُن کی ظالم حکمرانوں سے جان چھوٹ گئی ۔لیکن بدقسمتی سے چند برسوں میں ہی ریاست میں جرائم کا تناسب بڑنے لگااور امن وامان کی صورت حال خراب ہونے لگی ۔حالات رحم دل بادشاہ کے قابومیں نہ رہے ۔وہ پریشان تھا کیونکہ اگر وہ سخت سزاؤں کااعلان کرتا تواُس کی رحم دلی پر حرف آتا تھا ۔مجرم کو سزا نہ دی جائے تو جرائم کی روک تھام ممکن نہیں رہتی ۔رحم دل بادشاہ نے اپنے وزیروں اور سفیروں کو مشورے کے لیے بلا لیا ۔تمام وزیروں اور سفیروں نے سخت سزاؤں کی حمایت کردی ،صرف ایک بزگ مشیر چپ تھا ،رحم دل بادشاہ نے اُس بزرگ مشیر کے علاوہ سب کو جانے کا کہا جب سب چلے گئے توبادشاہ نے مشیر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا میاں جی میں کسی مجرم کو سزائے موت دوں تو میری رحم دلی کا بھرم قائم نہیں رہتا اور سزانہ دی جائے توجرم نہیں رکتا آپ ہی بتائیں میں کیا کروں؟کیا مجھے حکومت چھوڑ دینی چاہیے ؟مشیر نے خاموشی توڑی اور بادشاہ کومشورہ دیا کہ آپ سخت سزاؤں کا اعلان کردیں گے توکاقی حد تک جرائم کم ہوجائیں گے ۔اور جو باقی بچیں گے وہ بھی کسی مجرم کو سزائے موت دیے بغیرختم ہوجائیں گے۔اس طرح آپ کی رحم دلی کا بھرم بھی قائم رہے گااورریاست بھی جرائم سے پاک ہوجائے گی ۔بادشاہ کی سمجھ میں کچھ نہ آیااور اس نے حیران ہوکر مشیر سے پوچھایہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ سخت ترین سزاؤں کا اعلان کرنے کے بعد ان پرعمل کئے بغیر جرائم ختم ہوجائیں؟مشیرنے کہا بادشاہ سلامت میرااعتبار کریں اور سخت ترین سزاؤں کا اعلان کردیں میراآپ سے وعدہ ہے کہ ایک بھی شخص کومارے بغیر موت کی سزاپر عمل ہوجائے گا۔رحم دل بادشاہ نے اگلے ہی دن ریاست میں ہر چھوٹے بڑے جرم کی سزاموت کا اعلان کردیااور مشیر کے مشورے کے مطابق اگلے ہی دن 10مجروں کاسرعام سرقلم کرنے کے بعد ان کی لاشیں جلا دیں۔اس دن کے بعد ہر مجرم نے جرم سے توبہ کرلی اوراس طرح ریاست میں ہر چھوٹا بڑا جرم ختم ہوگیا۔ امن ومان کی صورت حال بحال ہوگئی اور ریاست پہلے کی طرح تیزی سے ترقی کرنے لگی عوام پھر سے خوشحال ہوگئے۔اب آپ حیران ہوں گے کہ 10لوگوں کا سرقلم کرنے پر بھی سزائے موت پر عمل نہیں کیا گیا آخر یہ کیسے ممکن ہوا؟بچومشیربہت سمجھدار تھا اُس نے 10کے10مجر م خود بناے تھے جی ہاں وہ 10انسان نہیں پتلے بنائے گئے اور ان کو اانسانی روپ اور جانوروں کا خون لگا کر مجرموں کو سبق سکھانے اور جرم سے دور رکھنے کے لیے استعمال کیا گیا۔10لوگوں کو سزاموت دی گئی لیکن ریاست میں کسی ایک گھرکا فرد بھی کم نہ ہوا ،اتنی بڑی ریاست میں عوام کواس بات کی خبر بھی نہ ہوئی کہ رحم دل بادشاہ نے اپنے عقل مند مشیر کے مشورے سے بغیر کسی کی جان لیے ریاست کو تمام جرائم سے پاک کردیا۔پیارے بچودیکھا آپ نے اگر ہم رحم دلی اور عقل مندی سے کام لیں تومشکل سے مشکل مسئلہ بھی آسانی سے حل ہوسکتاہے:اب آپ نے عقل مندی اور رحم دلی سے کام لیتے ہوئے اپنے آپکو دھوپ اور شدید گرمی سے بچانا ہے اور اپنے والدین کی ساری باتیں مان کر اپنے آسانیاں پیدا کرنی ہے ۔زندگی رہی تو ایک اور کہانی لے کر آپ کی خدمت آؤں گا-
Imtiaz Ali Shakir
About the Author: Imtiaz Ali Shakir Read More Articles by Imtiaz Ali Shakir: 630 Articles with 564407 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.