بہار
(Shaikh Wali Khan Almuzaffar, Karachi)
رمضان کی ان بابرکت لمحات و
ساعتوں میں کون بدنصیب ہوگا، جس کے قلب وروح سے خوشیاں اور شادمانیاں نہیں
مچل رہی ہوں گی ، چشمِ نیاز سے اشک ِناز کے چشمے نہیں پھو ٹیں گے ،ایمان کی
حرارت اور باطن کی نورانیت کے اس ’’موسم بہار ‘‘میں کوتاہ سے کوتاہ مسلمان
بھی خانۂ خدا میں آآکر اپنی کوتاہیوں کی معافی تلافی اور رحمتوں کی طلب میں
گریہ وزاری میں مصروف ہوتاہے ، ہرسمت جود وسخا، ذکر ودعا،صوم وصلاہ ،نوازش
وعطا اور کر م و وفا کا ایسے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں، جن سے آنکھوں میں
امید اور سینوں میں زبر دست خوشی کی لہر دوڑتی ہے ،عالم وعابد ، خطیب وواعظ
گویاسب ہی رمضان کی فضیلت اور صیام وقیام کی اہمیت کے موضوع پر محو گفتگو
او ر رطب اللسان ہوتے ہیں اور سامعین وناظرین ہرمحفل، ہرخطاب ،ہرذکر ،
ہربیان سے جھولی بھرنے اور اگلے سال تک کے لئے بطور ’’چارجنگ ‘‘ اپنے دل
ودماغ منور کرنے میں مصروف ہوتے ہیں ۔بہت خوب ،بہت مبارک اور سداسلامت رہے
یہ نالے یہ سلسلے اور یہ ہر سمت ہریالی ،نغمے وزمزمے ، مسجدوں ، مصلوں اور
گھروں میں ختم قرآن کے سلسلے ،لانوں ،میدانوں اور چینلوں میں ،سحر وافطار
کے پروگراموں کے مقابلے ،تلاوتوں،حمدوں، نعتوں ،تقریروں او رافطار پارٹیوں
کی ایک معطر اور روح پروردنیا،ماشا ء اﷲ بارک اﷲ۔
البتہ ٹی وی چینلزمیں بعض مواقع پر بلاوجہ کی تصاویر اورنا محرموں سے
اختلاط کی ایسی بھر مار کہ اسے پھر ’’خوب ‘‘ کہناہی انصاف کا خون ہوگا،
اعتدال کی نفی ہوگی ، اور ’’حق ‘‘ کا گلا گھونٹنے کی ناروا کوشش ہوگی ۔
جی ہاں آج ہمارے چارسو’’قرآن خوانی ‘‘ کی جو رسم دیکھنے کو ملتی ہے ، اسلام
کے رمضان ، محمد عربی ﷺ کے رمضان ، صحابہ وتابعین کے رمضان ، قرآن وحدیث کے
رمضان میں تو ایک صاحب نظر کو اسکی کوئی مثال نہیں ملتی ، عبادت کے نام پر
یہ میلوں کا سماں، ’’جاھل ‘‘ قاریوں کی ریاکارانہ تلاوتیں ، ،عروسی لباس
میں سج وھج کر سیٹیجوں پر تماشہ بننے کی فنکاریاں، منتظمین کے پیسہ بٹورنے
، شہرت ودولت اور دنیوی مفادات اکٹھاکرنے کا کاروبار، یہ سب کیاہے، اور ان
سب سے بڑھ کر المناک بات یہ کہ اکثر قابل ذکر مقامات پر مصلے پر براجمان
ہونے والوں کا کوئی پس منظر ہوتاہے، کہیں ’’صاحبزادہ ‘‘ ،کہیں ’’وزیرزادہ
‘‘ کہیں ’’امیر زادہ ‘‘،کہیں’’پیرزادہ‘‘، پھر کسی میں یہ کمال تو کسی میں
یہ جمال ، کسی کا یہ فائدہ ،توکسی کاوہ مفاد ، او رموصوف کی تلاوت کا حال
دیکھیں ، تسبیح وتحمید ، ثناء او رتشھد کا جائزہ لیں تو نری کی نری ’’ایک
عادت وروایت‘‘، عبادت کا نام ونشان ہی نہیں ،نہ مد اور وقف کا تکلف ہوتاہے
، نہ لہجے کا کوئی شجر ہ معلوم ہے، نہ انداز سے معنی ومفہوم کی کوئی
بومحسوس ہوتی ہے ،سیدھی بات کہی جائے توگیت کی طرح عجمی لب ولہجے میں عربی
قرآن پڑھنے کا ظلم ہورہاہے ، پڑھنے والا’’قاری‘‘ تذکّر وتدبّرِ قرآن کے
کوچے سے آشناہی نہیں ، آداب وشرائط تو بہت دور کی بات ہے ۔
یہ تو ہوئی ختم قرآن اور تراویح کے اس عمل کی بات جو مسجدوں اور حجروں میں
ادا ہوتاتھا، اب لانوں او رمیدانوں میں تقریبات کی شکل میں شروع ہواہے اور
اسمیں مخلوط و مزین تصویر کشیوں ویڈیوز اور دیگر خرافات کا بازار گرم
رہتاہے ،اﷲ کی پناہ ایسی رنگین عبادت سے ۔
اور مسجدوں کے باہر ذرا گھروں کے اندر جائیں، تو بے توفیق مسلمان ٹی وی کے
سامنے بیٹھ کر رمضان ٹرانسمیشن کی واہیات پر وگراموں کو عباد ت سمجھ کر
دیکھ رہے ہیں، جن میں نامحرم چہروں کی نمائش ، ناقص معلومات کا فروغ ، من
گھڑت کہانیوں سے دل (بلکہ نفس)بہلانا، جہل وخودفریبی کی افزائش کے سارے
سابقہ ریکارڈ توڑنے کی کوششیں اور ان کوششوں کی حوصلہ افزائیاں دیکھنے اور
سننے کوملتی ہیں ۔
کاش حکومت وقت میں ،یا مذکورہ سمعی بصری اداروں میں کوئی حق پرست اور
خداترس صاحب بصیرت ہوتا، دین کی صحیح سمجھ رکھنے والا کوئی بااثر شخص ہوتا
اور وہ رمضان المبارک کے مقدس مہینے کا تقدس پامال کرنے اور صیام وقیام کے
اس عظیم الشان عمل کو مسخ کرنے کی اس ناپاک کوشش کو روکتا، رمضان کو اسکی
روح کے مطابق متعارف کراتا۔
یا پھر قرآن وحدیث کے صحیح العقید ہ،سلیم الفکراور سنجیدہ علما، اسلامی
تعلیمات کو ان کی اصلی شکل میں زندہ کرتے ، جاھلوں اور نااھلوں کا ناطقہ
بند کرتے ، شاذافکار اور من گھڑت روایات کو رواج دینے پر قدغن لگاتے ،
اسلام کے نام پر پیٹ پالنے اور دکانیں سجانے کو ناقابل معافی جرم قراردے کر
اسکے ذمہ داروں کو عبرت کا نشان بناتے ،رمضان میں ایمان کی خیر منانی چاہئے
، کہیں ہم روایات وخرافات میں اپنے ایمان ہی سے ہاتھ نہ دھو بیٹھیں ۔ |
|