’نگارشات‘ صابر بدر جعفری :ایک مطالعہ

’نگارشات‘ ڈاکٹر صابر بدر جعفری کے ادبی مضامین کامجموعہ ہے۔جسے ادارہ انوار ادب حیدرآباد نے شائع کیا ہے۔ڈاکٹر صاحب ممتاز افسانہ نگار ،شاعر ، نقاد اور ماہر تعلیم ہیں۔ان کا یہ مجموعہ منفرد ہے اور اس میں جعفری ایک ماہر تبصرہ نگار کے طور پر بھی سامنے آئے ہیں۔وہ ’بت پرست‘ نہیں ،بت شکن ہیں اور ان کی بت شکنی مجھے بہت بہائی(بہائی مذہب والا نہیں) ہے۔ہمارے سماج نے کچھ شخصیات کو اتنی عزت دے دی ہے کہ ان کے بارے میں خامہ فرسائی گردن زدنی کے مترادف بن جاتی ہے۔یہی حال ادب کا بھی ہے۔افسانے کا نام لو تو منٹو،کرشن چندر،پریم چند،سجاد حیدر یلدرم ،ناول کا نام لیں تو قراۃ العین حیدر،عبداﷲ حسین، خدیجہ مستور، شوکت صدیقی وغیرہم ،شاعری میں علامہ اقبال ، فیض ، احمد فرازوغیرہ کے معیار سے ہر نئے تخلیق کار کو ناپنا شروع کردیا جاتا ہے اور اس طرح ہماراتخلیق کار بونا ثابت ہوتا ہے۔

یہی حال سٹیج کا بھی ہے۔سٹیج اور تلفظ میں ضیاء محی الدین پر بات ختم کر دی جاتی ہے۔کوئی شک نہیں کہ ضیاء سٹیج کے بادشاہ ہیں اور خوب پڑھتے ہیں لیکن وہ تنقید سے ماورا تو نہیں کہ جو وہ پڑھ لیں اور جو سنا دیں وہ سند قرار پائے۔جعفری نے کمال مہارت سے ان کے تسامحات پر قلم اٹھایا ہے۔اور تلفظ کی کمزوریوں کو سامنے لایا ہے۔انھوں نے اپنے اس پہلے مضمون سے درست نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ’تلفظ کے باب میں معتبر لغت یا اساتذہ کا کلام ہی سند ہوسکتے ہیں‘۔فرد کو عقیدت کی بنیاد پر معتبر مان کر اس کے تلفظ کو بھی معتبر مان لینا تلفظ کے مسائل کو پیدا کرتا ہے۔استاد کے تلفظ کو شاگرد اپناتا ہے اور وہی تلفظ معاشرے میں عام ہوتا چلا جاتا ہے۔

شعراء کی فہرست میں ایک جون ایلیا ہیں جن کی شاعری کے سر پیر کی ہمیں سمجھ نہیں آئی۔تاہم جعفری کے جون ایلیا کی شاعری پر مضمون نے ہم کو ’یعنی‘ پڑھنے پر ضرور اکسایا اور ہم نے محسوس کیا کہ موصوف نے جعفر زٹلی کی کمی کو پورا کردیا ہے۔جون کو عورت کے ’مخصوص اعضاء ‘سے بہت دلچسپی ہے۔اپنی ’خوب صورتی‘ اور’الجھے پن‘ کا بدلہ ’چمپئی رانوں‘ کو نوچ کر لینا چاہتے ہیں۔کچھ اسی طرح کا سلوک راشد بھی عورت سے روا رکھتے تھے۔ویسے اقبال نے ہند کے شاعروں کے بارے میں کچھ غلط بھی نہیں کہا کہ بیچاروں کے اعصاب پر عورت سوار رہتی ہے(صورت گر اور افسانہ نویس خوش نہ ہوں،وہ بھی شامل ہیں )۔جون کو عورت کی ناف سے بھی دلچسپی ہے جانے کیوں؟ویسے ہندوستانی دیویوں کی ناف نے تو ہم سب کو ڈبویا ہوا ہے۔جعفری نے جون ایلیا کی شاعری کا ایک اچھا پوسٹ مارٹم کیا ہے اور اس طرح کے شاعروں کے کلام کے اس طرح کے پوسٹ مارٹم کی ضرورت بھی تھی۔

سماج کی روایات اور اقدار پر کلہاڑا چلانے والوں کی گرفت اسی انداز میں ہونی چاہیے۔پھر ہمارے معاشرے میں توصیف تو فیشن ہے ہر کوئی شاعر ی پر واہ واہ کرتا ہے اور گنتی کے افراد ہیں جو تنقید کرتے ہیں۔جعفری کیوں کہ مزاح اور طنز کے ہتھیاروں سے بھی لیس ہوتے ہیں اس لیے کیا خوب طنز کیا ہے کہ ’عورت کے ناف کے بعد ہمارے شاعر کی نظر اس کی سرینوں ، اس کے پیٹ کی شکن اور اس کے چھاتیوں کے تناؤ پر ٹھہرتی ہے۔یہی وہ شاعری ہے جسے منفرد اورعظیم کہا جاتا ہے‘۔ڈاکٹر صاحب کچھ لوگ واقعی ایسی شاعری کو منفرد اور عظیم قرار دیتے ہیں۔جعفر ی کا مشاہدہ ہے کہ جون نے اردو ادب کو غیر مانوس اور غیر مستعمل تراکیب کے علاوہ کچھ نہیں دیا۔ان میں ’تناھویاھو‘،’سرینیں بھاریاں‘،’تلوے خاریاں‘،’چشمے جاریاں‘وغیرہ شامل ہیں۔جعفری کا تجزیہ ہے کہ ’جون نے ایسے شعر بھی کہے ہیں جن کی داد نہ دینا زیادتی ہوگی ۔مگر ان اشعار کے صدقہ میں ان خرافات کو جو اس کے کلام کا غالب حصہ ہے نظرانداز کردیا جائے،ممکن نہیں۔یہی اگر عظمت ہے تو واقعی یہ منفردہے‘۔

سردار عبدالرب نشتر پر لکھا گیا مضمون جعفری کے تمام مضامین کا گل سرسبد ہے۔ہماری تاریخ جن اکابر کو بھلاتی جارہی ہے اور ہماری نئی نسل جن بطل حریت سے ناواقف ہے ،ان میں نشتر بھی ہیں۔جانے کیوں اب تاریخ اس طرح کے کردار تخلیق نہیں ہونے دیتی۔پاکستانی سیاست اس طرح کے بے لوث کرداروں سے بانجھ ہوچکی۔جعفری تحریر کرتے ہیں کہ ’اگر قوموں کے جھنڈے بھی ایک دوسرے کے حوالے سے ہوا کرتے تو ہندوستان کے حوالے سے وضع کیے گئے پاکستانی جھنڈے پر لیاقت علی خان کے مکْے اور عبدالرب نشتر کے طمانچہ کے نشانات ضرور ثبت ہوتے‘۔ایسے مرد حر اب کہاں کہ ’وہ پاکستان کے واحد گورنر تھے جنھوں نے اپنے بچوں کو کبھی گورنر ہاؤس کی فلیگ کار یا اسٹاف کار استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی‘۔جعفری مسٹر ٹین پرسنٹ کا رونا روتے ہیں لیکن یہاں تو کس کس کا رونا رویا جائے کہ ہر ایک اپنے مفاد کے لیے اس بدنصیب ملک کی جڑیں کھوکھلی کرنے پر لگا ہے۔یہاں ایک ڈاکٹر مبارک کا کیا رونا یہاں تو جامعات میں مبارک بھرے پڑے ہیں۔دوقومی نظریہ اب دس بیس نمبر کا سوال رہ چکا کہ جس کا پڑھانے والا استاد بھی اس سے متفق نہیں۔ایسے حالات میں تو کے کے عزیز جیسے بونوں کے لیے نشتر کو pygmies and non-entities کہنا بہت آسان ہوجاتا ہے۔

عجب دستور ہے میرے ملک کا کہ یہاں جو اس ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہا ہے اسے عزت اور جو اس ملک اور اس کے آئین کا وفادار ہو اسے نشان عبرت بنا یا جاتا ہے۔اس قوم پر وہی طبقہ مسلط ہے جو اسلام اور اردو دونوں کا دشمن ہے۔ان مسائل پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا وجہ ہے کہ اس ملک میں بے لوث قیادت کو سامنے نہیں آنے دیا جا رہا یا ایسی قیادت سامنے نہیں آ رہی جو نشتر کا عشر عشیر ہی ہو۔

مجموعہ اضدادحسرت موہانی پر لکھا گیا مضمون حسرت کی شخصیت کی کچھ نئی جہات کو سامنے لاتا ہے۔وہ مصنوعی شاعر نہیں اور غزل میں سیاسی رنگ کا موجد ہے۔وہ بے لوث سیاست دان اور انتھک سیاسی کارکن تھا۔تاہم اس کی شاعری کا ابتذال طبیعت پر گراں نہیں گزرتا۔جعفری نے حسرت کے عظمت کردار کا جو واقعہ لکھا ہے وہ جامعات میں اردو ادب کے فرعونوں کو ضرور پڑھنا چاہیے۔یہاں تو جامعات ایک دوسرے کو نوازتی ہیں اور پھر ایک ایک پیسے پر لڑنے والے سینئر سکالر ہیں جو ٹیکسی تک کا حساب رکھتے ہیں اور بیوی بچوں تک کو جامعہ کے خرچ پر سیرسپاٹے کرواتے ہیں اور پھر بھی ’ایمان دار‘ ہیں۔جعفری نے مولانا سلیمان ندوی کا درست حوالہ دیا ہے کہ ’حسرت کی زندگی کے واقعات پر نظر کرکے ان کی شان حضرت ابو ذرغفاریؓ کی یاد تازہ کرتی ہے‘۔

حسرت کی فقیر منشی پر وقائع نگاروں نے جو طومار باندھے ہیں ان کا برمحل حوالہ بھی جعفری نے دیا ہے اور درست لکھا ہے کہ ’ان واقعات کو اگر چھیڑا نہ جاتا تو بات اتنی نہ اچھلتی‘۔تاہم ڈاکٹر صاحب کا اخذکردہ نتیجہ صائب ہے کہ ’ہم اپنے ممدوح کے حوالہ سے کسی انسانی کمزوری کو تسلیم ہی نہیں کرتے۔اس رویہ پر نظرثانی کی ضرورت ہے‘۔ ہمارے سماج میں رویوں پر نظرثانی کا فیشن اور چلن نہیں۔یہاں تو سب سے زیادہ غیرلچکدار پڑھے لکھے ہی ہیں۔جمال میاں کا یہ کہنا کہ ’مولانا کو اپنا وقت آجانے کا علم عرصہ سے تھا‘،اختلافی ہے۔بشر اپنی موت سے آگاہ ہوجائے تو موت سے پہلے ہی مر نہ جائے۔ اور زندگی اس کے لیے عذاب نہ بن جائے۔

نظیر اکبر آبادی پر ڈاکٹر صاحب نے مبسوط مضمون قلمبند کیا ہے اور اس مضمون پر پہت محنت کی ہے۔مضمون کے آخر پر حوالے بھی درج کردیے ہیں جو ایک تحقیقی انداز ہے۔نظیر اکبر آبادی کو کوئی تو سرے سے شاعر ہی تسلیم نہیں کرتا اور کوئی اسے پہلا ترقی پسند شاعر گردانتاہے۔اس کے ہاں رواداری اور ہندومسلم ایکتا ملتے ہیں۔وہ ایک مکمل ہندوستانی شاعر ہے اور اس کی شاعری میں ہندوستان کے سارے رنگ ہیں۔نیاز فتحپوری کا اس کے بارے میں یہ کہنا بجا ہے کہ ’وہ اپنے وقت سے بہت پہلے پیدا ہوا‘۔’اردو شاعری زمینی حقیقتوں سے بے نیاز تھی ،نظیر نے زمین سے اس کا تعلق جوڑ دیا‘۔نظیر صرف نظم کا شاعر نہیں وہ غزل گو بھی ہے اور اس کی غزلوں کی تعداد ۶۳۰ ہے۔

نظیر کی شاعری کے فکری و فنی محاسن پر جعفری نے تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔اس کے کلام میں متروک الفاظ اور فحاشی کو جعفری نے دلائل کے ساتھ رد کیا ہے اگرچہ انھوں نے منٹو،جون اور انشاء و جرات کی مثالیں دی ہیں لیکن جو بات غلط ہے وہ کوئی بھی کہے غلط ہی شمار ہوگی۔جون کو آپ نے غلط کہا ہے تو نظیر کو بھی فحاشی کے معاملے میں safe exit کیوں دے رہے ہیں؟مضمون کے آخر میں جعفری نے ’نظیر کا عشق‘ میں تحریر کیا ہے کہ وہ کسی ’ہیرا جان‘ کے عشق میں مبتلا تھے اور اس کے حسن و جمال کی تعریف میں اشعار بھی لکھے‘۔ہمارے اکثر شعراء (میر و مومن سمیت) نے فحاشی و عریانیت اپنے اپنے دور میں بازار اور طوائف سے ہی سیکھی۔جتنی محنت ڈاکٹر صاحب نے اس مضمون پر کی ہے اس کا عشر عشیر بھی ’اقبال پس آئینہ‘ پر نہیں کی۔نظیر اردو کا متنازعہ شاعر تو ہو سکتا ہے لیکن اقبال تو ہمارا قومی شاعر ہے اور اس کے بارے میں کوئی بھی بات حوالے کے بغیر نہیں ہونی چاہیے۔اقبال کے خلاف حوالوں سے مقدمہ پیش کیا جاتا تو وزن رکھتا۔مثلاً ’اسرار خودی کا خالق رہزنان لالہ رو اور ماہ سیمیان مرغولہ مو سے اکتساب فیض کیا کرتا تھا‘۔حوالہ ضروری ہے کہ کس لالہ رو سے کیا اکتساب فیض کیا؟عطیہ کے نام ایک دو خطوط سے مفاہیم اخذ کرنا درست رویہ نہیں۔

یہ تاریخی حقیقت ہے کہ عطیہ نے اقبال کے نام کو سستی شہرت کے لیے استعمال کیا اور اسی طرح شبلی کے نام کو بھی۔’یہ داستان عشق کچھ عطیہ پر ہی ختم نہیں ہوتی ۔ان کی جولانگاہ حیات میں کچھ اور مقامات آہ و فغاں بھی ہیں‘۔’شہزادی بمبا دلیپ سنگھ سے اقبال کے خصوصی مراسم تھے‘۔آپ خود تحریر کرتے ہیں کہ اشعار متضاد کیفیات کے آئینہ دار ہوتے ہیں جن کی بنیاد پر کوئی حکم نہیں لگایا جاسکتا تو پھر ’کی گود میں بلی دیکھ کر‘ اور ’پھولوں کا تحفہ عطا ہونے پر‘ کی بنیاد پر اقبال پر حکم کیوں؟مولانا سالک مخصوص سوچ اور فکر کے آئینہ دار تھے اور ان کی ’ذکر اقبال‘ کو تفہیم اقبال کے لیے استعمال کیا ہی نہیں جاسکتا۔اس کے لیے بہترین کتب ’روح اقبال‘ ، ’اقبال کامل‘ ، ’حکمت اقبال‘ ہیں۔یہی حالت اقبال سنگھ کی اس بات کی ہے کہ ’۔۔۔لاہور کے ایک معروف کوچے میں پہنچ جاتے تھے‘۔مرزا جلال الدین بیرسٹر کے حوالے کے لیے کتاب کا حوالہ بھی ضروری تھا۔

جوانی میں اتارچڑھاؤ ہر جوان کی زندگی میں آتے ہیں اور اقبال کی زندگی میں بھی آئے۔بہت جلد انھوں نے ان پر قابو پایا۔ان کی پہلی شادی گھر کے بزرگوں نے طے کی اور یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی تاہم انھوں نے روایات کو توڑا نہیں۔عطیہ ان کی علمی دوست تو تھی لیکن بیوی کے طور پر وہ ان کی ترجیح تھی ہی نہیں۔حالانکہ اس سے شادی کوئی مسئلہ نہ تھا۔مسئلہ یہ تھا کہ عطیہ شمع محفل بننا پسند کرتی تھی اور اقبال شمع حرم کے طلب گار تھے۔’خوب سے خوب تر کی تلاش میں اقبال وکٹوریہ گرلز کالج کی ایک کشمیری نژاد طالبہ کی زلف گرہ گیر کے اسیر ہوگئے اور آخر اسے اپنا اسیر کرکے ہی دم لیا۔۔۔‘۔حوالے کے بغیر ہے۔جانے کیوں مجھے اس کتاب میں یہی ایک مضمون اجنبی لگا۔

’رباعیات عبدالعزیز خالد۔۔۔ایک تجزیاتی مطالعہ‘ میں ڈاکٹر صاحب نے خالد کی رباعیوں کا بہترین تجزیہ پیش کیا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ ایک شاعر ہی دوسرے شاعر کی تخلیقات کا درست تجزیہ کرسکتا ہے۔اس مختصر مضمون میں جعفری نے خالد کی شاعری کے فکری ، لسانی اور فنی پہلوؤں کا بھی جائزہ لے لیا ہے۔اور ان کی غلطیوں کی درست نشاندھی بھی کردی ہے۔یہی صورت حال ’عنایت نامہ‘ کی بھی ہے۔اس مضمون میں معروف مزاح گو شاعر عنایت علی خان کے دیوان کا مطالعہ پیش کیا ہے اور عنایت علی خان کی عروضی غلطیوں پر بھی خوب صورت انداز میں تنقید کی ہے ۔ویسے عروض کی ہم کو سمجھ آج تک نہیں آئی۔اس کے علاوہ املا،تلفظ اور محاوروں پر بھی بحث کی ہے اور خان صاحب کے لیے باقاعدہ اغلاط نامہ تیار کردیا ہے ۔

کچھ ایسا ہی سلوک آمنہ عالم کے ساتھ بھی کیا ہے۔مضمون کے شروع میں تو بہت غصے میں لگے لیکن کچھ اچھی باتیں بھی غصے کی حالت میں لکھ گئے ہیں جیسے ’کچھ شاعرات تو ایسی یگانہ عصر ہیں کہ خود اپنا شعر بھی صحیح نہیں پڑھ سکتیں‘۔توصیفی نقادوں کے بارے میں لکھتے ہیں کہ’ کچے پکے کلام میں وہ وہ خوبیاں ڈھونڈھ نکالتے ہیں کہ جن کا ان غریبوں نے کبھی نام بھی نہیں سنا ہوتا‘۔اور کیا کمال کا طنز ہے کہ ’آمنہ بھی شعر کہتی ہیں تو ایک دھچکہ سا لگاکہ ایک بظاہر نہایت معقول ، متین ، بردبار اور سنجیدہ خاتون بھی اس رو میں بہہ گئی‘۔تاہم ایک اچھے نقاد کی طرح جعفری نے آمنہ عالم کے اچھے اشعار کی تعریف کی ہے لیکن تسامحات کی نشاندھی بھی کردی ہے۔

گلنار آفریں کی تالیف ’روح عصر‘ کے ساتھ بھی ڈاکٹر صاحب نے پورا پورا انصاف کیا ہے۔اس کتاب کی تعریف کر کے انھوں نے ہماری اشتہا میں اضافہ کردیا ہے کہ ہم بھی اس کتاب کو بغور پڑھیں۔مضمون کے آخر پرتحریر کرتے ہیں کہ ’گلنار نے پروف ریڈنگ کی ذمہ داری جس شخص کے سپرد کی ہوگی،اس سے اپنی ذمہ داری نبھانے میں بڑی کوتاہیاں سرزد ہوئی ہیں۔کاش گلنار نے کتاب چھپنے سے پہلے ان کی گرفت کرلی ہوتی‘۔’جناب عالی‘ جمیل الدین عالی پر لکھا گیا خوب صورت مضمون ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اردو کے لیے افراد نے ہی کام کیا۔ادارے تو صرف کچھ افراد کو پروموٹ کرتے رہے ہیں۔تاہم یہ مضمون میرے جیسے ادب کے طالب علموں کے لیے معلوماتی ہے۔اب اس طرح کے تخلیق کار کہا ں جو صوبائیت کے سرطان کو محسوس کریں اور اس ذہنیت کے خلاف آواز بلند کریں۔اس طرح کے تخلیق کاروں کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔

عاشور کاظمی کی ’سخن گسترانہ بات‘کا انداز ہلکا پھلکا اور مزاحیہ ہے کہ ’دراصل کتابوں پر گفتگو کرنے کا ہمارا سارا تجربہ ان کتابوں تک محدود ہے جنھیں ہم نے پڑھا ہی نہیں ہے۔استاذی محترم پطرس مرحوم اور ان کی حریف مطالعہ بلکہ حرافہ مطالعہ آنسہ میبل کے مناظرے سے سدا ہمارے لیے مشعل راہ رہے اور ہم نے خود کو کتاب بینی کے عارضہ میں کبھی مبتلا نہیں ہونے دیا‘۔پیش لفظ ،حرف اول ، حرف آغاز وغیرہ کے بارے میں تحریر کرتے ہیں کہ ’توصیف و ستائش بجائے خود بری چیز نہیں ہے بشرطیکہ مبنی بر حقیقت اور حد اعتدال میں ہو‘۔یہاں حد اعتدال کہاں؟ہم لوگ صرف توصیف سنتے ہیں اور تنقید تو ہضم ہی نہیں ہوتی۔ڈاکٹر صاحب نے تنقید کے تلخ تجربات بھی لکھے ہیں کہ دوست تک ’ ہم سے اتنے بیزار ہو گئے کہ مرتے مر گئے نہ ہماری صورت دیکھی نہ اپنی دکھائی‘۔اس طرح کے تجربات سے ہم خود گزر چکے کہ ایک کالج کے علمی و ادبی میگزین پر ایک مضمون لکھ دیا تو ہمارے خلاف کالج میں داخلے پر پابندی کی قرارداد تک پیش کی گئی۔تنقید برداشت نہ کرنے کی وجہ سے ہی سماج میں سدھار نہیں آرہا۔افتخار عارف اور عاشور کی چشمک کا احوال خوب لگا ویسے اس طرح کے احوال اب عام ہیں۔جانے شاعر ایک دوسرے کو تسلیم کیوں نہیں کرتے حالانکہ عورتیں تو کرتی ہیں۔

اگست ۱۹۶۷ء میں ۳۳ سال کی عمر میں جعفر ی نے ایک ادبی محفل کا کیا خوب صورت محاکمہ کیا ہے۔’آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے‘ ۲۸ صفحات کا ادبی احوال ہے ۔یہ محاکمہ جعفری کی غالب شناسی کو بھی سامنے لاتا ہے۔یہ ایک وقیع مضمون ہے اور غالب شناسوں کو اس کا مطالعہ کرنا چاہیے۔’شام ہمدرد۔۔۔ایک تاثر،ایک جائزہ‘۱۹۹۲ء یعنی ۲۲ سال پرانا ایک محاکمہ ہے اور اس مضمون کو میں اس لیے بھی وقیع گردانتا ہوں کہ اس میں حکیم محمدسعید کے تدکرے ہیں اور ان سا اب کہاں۔اس کو ایک ادبی محفل کی رپورٹ بھی کہہ سکتے ہیں۔حکیم سعید کا یہ فرمانا میرے نزدیک بجا ہے کہ ’میں نے بچوں کو سکھا دیا ہے کہ اگر وی سی اور گورنر ایک جگہ ہوں تو گورنر کو نظر انداز کردو اور وی سی(وائس چانسلر) کا ہاتھ تھام لو‘۔یہ ان کا علم کو اقتدار پر ترجیح دینا تھا۔اور ڈاکٹر صاحب لکھی ہوئی تقریر کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ آپ ادھر ادھر کی نہیں ہانکتے،مطلب کی بات کرتے ہیں۔اور ویسے بھی سٹیج پر چڑھ کر لوگ بہت کچھ بھول بھی جاتے ہیں۔

’گرانی کا کوہ گراں‘ ، ’دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو‘ ، ’کرپشن ایک رویہ ،ایک طرز زندگی‘ تینوں سماجی نوعیت کے مضامین ہیں۔’گرانی کا کوہ گراں‘ اس قوم کا نوحہ ہے۔حکومت کی رٹ نہیں۔ہر جگہ بغاوت ہے۔کوئی قانون کا احترام نہیں کرتا۔قوانین کا نفاذ نہیں۔اور مارکیٹ کی حالت یہ ہے کہ ’تاجر برادری تمام اخلاقی قدروں سے بے نیاز اور انسانی ہمدردی کے جذبے سے عاری ہوکر محض اپنی تجوری بھرنے پر کمربستہ ہے‘۔’دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو‘ میں جعفری تحریر کرتے ہیں کہ ’جس دن قوم کو احساس ہوگیا کہ قومی مفاد کیا ہے تو اسی دن وہ حکمرانوں کا قبلہ درست کردے گی‘۔لیکن قوم کو احساس کب ہوگا اس کے لیے قوم کو تیار کرنا ہوگا۔ورنہ قادری صاحب کا ہی انقلاب آئے گا۔

’کرپشن: ایک رویہ، ایک طرز زندگی‘ میں ڈاکٹر صاحب کا تحریر کرنا ہے کہ ’جبلی طور پر کرپشن کے خلاف انسان میں قوت مدافعت نہیں ہوتی۔کرپشن کے جراثیم اس پر بآسانی حملہ آور ہوسکتے ہیں۔یہ مذہب،اخلاقی اقدار اور قانونی تعزیرات ہیں جو کسی حد تک انسان کو اس مہلک مرض سے بچائے رکھتے ہیں‘۔اور اس ملک میں نہ مذہب ہے نہ اخلاقی اقدار اور نہ تعزیرات۔اس مضمون میں کچھ جملے حوالے کے ہیں جیسے ’کرپشن بدعملی ہی سے نہیں، بے عملی سے بھی وجود میں آسکتی ہے‘۔’وہ کرگزرنا جو نہیں کرنا چاہیے تھا یا وہ نہ کرنا جو کرنا چاہیے تھا،کرپشن ہے‘۔ایک طرف جعفری اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ ’قانونی تعزیرات سے انسان کو کرپشن سے بچایا جاسکتا ہے‘ لیکن پھر اس کے ساتھ ساتھ وہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ ’سخت قوانین کے نفاذ سے برائیوں کا قلع قمع کیا جا سکتا ہے،یہ نہایت ہی ناقص تجویز ہے‘۔’قناعت اور استغنا جیسے الفاظ لغت کی زینت کے لیے تو موزوں ہیں،انسانی جبلت ان سے میل نہیں کھاتی‘۔یہ ایک مایوسانہ رویہ ہے۔

کرپشن کو ختم کرنے کے لیے جعفری نے دس تجاویز بھی دی ہیں جو بنک سے متعلق ہیں اور ان کا بغور جائزہ لیا جانا چاہیے۔ویسے بنک اپنا اور اپنے اہلکار کے مفاد کو ہی سامنے رکھتا ہے اس کا اکاؤنٹ ہولڈر سے صرف افادے کا رشتہ ہوتا ہے۔یہ تجاویز سٹیٹ بنک کو کنٹرول کرنے والے ’شفاف‘ ہاتھوں کو ارسال کی جانی چاہیے۔ان کے علاوہ جعفری نے سات اقدامات بھی تجویز کیے ہیں جن میں ان کا تجربہ بولتا ہے جیسے ’افسران کے اہل خانہ کو سرکاری گاڑی میں بیٹھنے کا کوئی حق نہ ہو،ترقیاں سنیارٹی کی بنیاد پر ہوں،ٹریڈ یونین پر پابندی عائد کردی جائے‘۔لیکن ان پر عمل کروانے والے فرشتے کہاں سے آئیں گے۔’جانے والے تجھ کوروئے گا زمانہ برسوں‘ ذاتی مشاہدات کو سامنے لاتا ہے لیکن حکیم سعید کو یہ قوم بھلا چکی ۔

’علمی بددیانتی کا شاہکار۔۔۔فرہنگ اصطلاحات بنکاری‘ لسانیات سے متعلق ہے اور اس شعبے میں بھی ڈاکٹر صاحب نے کمال مہارت کامظاہرہ کیا ہے۔وہ خودبینک سے متعلق رہے ہیں۔انھوں نے اس فرہنگ کی اچھی چیرپھاڑ کی ہے اور کرنی بھی چاہیے تھی۔وہ تحریر کرتے ہیں کہ’جو گیارہ ہزار اصطلاحات تیار کی گئی ہیں،ان میں سے پونے گیارہ ہزار کے قریب نہ صرف بینکاری سے مخصوص و متعلق نہیں ہیں بلکہ ’اصطلاح‘ کی جو تعریف خود مرتب نے وضع کی ہے اس پر بھی پوری نہیں اترتیں‘۔جعفری بل آف ایکسچینج ، ڈس آنر ، پروٹسٹ وغیرہ پر بحث کرنے کے بعد تحریر کرتے ہیں کہ ’یہ کتاب بینکاری ،اردو اور انجمن(ترقی اردو) تینوں کے نام پر ایک دھبہ ہے‘۔’اردو ہی کیوں‘ کو ارباب اختیار کو بار بار پڑھنا چاہیے کہ ’زبان غیر سے کیا شرح آرزو کرتے‘ لیکن یہاں تو زبان غیر ہی چھائی ہوئی ہے۔آرمی ، عدلیہ اور مقابلے کی زبان انگریزی ہے۔اردو کا داخلہ ان اداروں میں بند ہے۔پاکستان کا محمودی طبقہ ایازی طبقے کو اپنے برابر آنے کا موقع نہیں دینا چاہتا۔

مہر تقوی مہر جے پوری جیسے جانے کتنے نابغے اس بے حس مٹی میں رل گئے۔ان گمناموں کے تذکروں کو جعفری نے محفوظ کیا ہے ۔فن تاریخ گوئی سے مجھے بھی دلچسپی ہے لیکن سمجھ نہیں آتی اور یہ فن کسی کسی کو ہی ازبر ہے۔رسالہ ’واحد و جمع‘ کو شائع کروانے کی کوشش کریں کہ یہ اردو کے طلبہ کے لیے مفید ہے۔چہاربیت جیسی صنف کی تاریخ اور معروف شعراء کے تذکروں کو بھی جعفری نے موضوع بحث بنایا ہے۔جعفری نے غالب کے خطوط کا ساختیاتی مطالعہ بھی پیش کیا ہے۔غالب کے خطوط سے غالب شناسی میں اور خاص طورپر غالب کی شاعری اور خود غالب کو سمجھنے میں بڑی مدد ملی ہے۔غالب کا یہ اسلوب اختیاری اور شعوری تھا یا مصنوعی،بحث طلب ہے۔غالب کو الگ دوکان کھولنے کا ابتدا ہی سے شوق تھا۔’خطوط غالب‘ مرتبہ مولانا غلام رسول مہر کے ساتھ دوسرا نام منشی مہیش پرشاد کا بھی ہے ۔’اقبال اور ہم‘ ایک مختصر مضمون ہے۔’اقبال بڑا اپدیشک ہے من باتوں میں موہ لیتا ہے‘ درست مصرع ہے۔اسی طرح
نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی

درست ہے۔’تاثیر کا مسائل ہوں محتاج کو داتا دے‘ کی جگہ ’تاثیر کا سائل ہوں محتاج کو داتا دے‘ درست مصرع ہے۔’آئین جواں مردی حق گوئی و بے باکی‘ نہیں بلکہ ’آئین جواں مرداں حق گوئی و بیباکی‘ درست ہے۔اشرف صبوحی دہلوی کی تصنیف ’دلی کی چند عجیب ہستیاں‘وہ آخری مضمون ہے جو جعفری نے ’نگارشات‘ میں شامل کیا ہے۔یہ دم توڑتی دلی کی تہذیب کا ایک مختصر اظہاریہ ہے۔ایسے کردار واقعی اب کہانیوں میں ہی تلاش کیے جاسکتے ہیں۔
abdul karim
About the Author: abdul karim Read More Articles by abdul karim: 34 Articles with 56936 views i am a man of some rules and regulations.i like maturity in the behavious of persons and in nations.i do not believe in strictness of thoughts but i b.. View More