وحی (ایک تعارفیہ)
(Dr Sajid Khakwani, Islamabad)
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
ڈاکٹر محمد ساجدخاکوانی
[email protected]
وحی عربی زبان کا لفظ ہے اسکا مطلب خفیہ اشارہ یا چھپی ہوئی بات
ہے(1)۔اصطلاح میں وحی اس ذریعے یا واسطے کو کہتے ہیں جس کے ذریعے اﷲ تعالی
اپنے برگزیدہ اورچنیدہ بندں کو اپنا پیغام پہنچاتا ہے۔ایسے بندے اﷲ تعالی
کے نبی یا رسول کہلاتے ہیں۔کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار ایسے افراد گزرے
ہیں جن پر اﷲ تعالی اپنی وحی نازل کرتا تھا۔محسن انسانیت ﷺ وہ آخری انسان
تھے جن پر نزول وحی ہوا کرتا تھا(2)۔
قرآن مجید سے اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ وحی بے جان اشیا پر بھی نازل ہوتی
ہے۔یومئذ تحدث اخبارہاOبان ربک اوحی لھا(3)’’اس دن زمین اپنے( اوپر ہونے
والے )حالات بیان کرے گی کیونکہ تیرے رب نے اس پر (اس کے لیے) وحی کی
ہوگی‘‘۔اﷲ تعالی نے وحی کے ذریعے سے ساری کائنات کی تعلیم فرمائی ہے۔پانی
کو نیچے کی طرف بہنا اﷲ تعالی نے سکھایا،گرم ہوا کو اوپر کی طرف اٹھنا اﷲ
تعالی نے سکھایا،زمین کو سکھایا کہ ہر چیز کو اپنی طرف کشش کرے،سورج کو تپش
فراہم کرنے کا سلیقہ سکھایا ،چاند کو روشنی کے فراہمی کی تعلیم دی ،غلے کو
بھوک مٹانا سکھایااورلکڑی کو لوہے سے بنی آری سے کٹنا سکھایا گویا اس
کائنات کی ہر چیز کا معلم اﷲ تعالی ہے جو وحی کے ذریعے ہر چیز کو اسکی
خاصیتیں سکھاتا ہے۔اسی بات کا ذکر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے واقعے میں
بھی کیا کہ قلنا یا نار کونی بردا وسلاما علی ابراہیم(4) ’’ہم نے آگ کو حکم
دیا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام پر ٹھنڈی ہو جا‘‘۔
اﷲ تعالی نے پرندوں اورجانوروں کی طرف بھی وحی کی ہے اور انہیں وحی کے
ذریعے سے انکے کام سکھلائے ہیں۔واوحی ربک الی النحل ان تخذی من الجبال
بیوتا و من الشجر ومما یعرشونO(5)’’ اور دیکھو تمہارے رب نے شہد کی مکھی پر
یہ بات وحی کر دی کہ پہاڑوں میں اور درختوں میں اور ٹٹیوں میں چڑھائی ہو ئی
بیلوں میں اپنے چھتے بنا‘‘۔اسی پرقیاس کرت ہوئے ہر جانور اور ہر پرندہ اپنے
رب کے ہاں سے اپنی زندگانی کی ر وٹین سیکھ کر آتا ہے اور اسکے مطابق اس
دنیا میں اپنے دن پورے کرتا ہے۔وخلق کل شیءِ فقدرہ تقدیراO(6)’’جس نے ہر
چیز کو پیدا کیا پھر اسکی تقدیرمقرر کی‘‘۔ریشم کے کیڑے کو اﷲ تعالی نے
سکھایا کہ ریشم کیسے تیار کرتے ہیں،پرندے قسم قسم کے گھونسلے بناتے ہیں یہ
سب اﷲ تعالی کی دی ہوئی تعلیم ہے،جنگلی جانور شکار کے ذریعے سے اپنا پیٹ
بھرتے ہیں،پانی کے جانوروں کو اﷲ تعالی نے وحی کے ذریعے تیرنا سکھایا اور
وحی کے ذریعے سکھایا کہ انڈے کیسے سینے ہیں ،بچے کے منہ میں دانا کیسے
ڈالنا ہے اور ماں کے سینے سے دودھ کیسے پینا ہے۔
وحی کے ذریعے تعلیم کا یہ سلسلہ عام انسانوں تک بھی پہنچتا ہے۔چنانچہ اﷲ
تعالی نے وحی کے ذریعے سے انسانی اعضا کو کام کرنا سکھایا۔کان کو آواز سننے
کی تعلیم دی ،معدے کو کھانا ہضم کرنے کا طریقہ سکھایا۔انسان چاہے بھی تو
اپنے دل سے گردوں کا کام نہیں لے سکتا یا اپنے پھیپھڑوں سے جگر کاکام نہیں
لے سکتا۔یہ سب اعضا اپنے رب کے ہاں سے اپنا اپنا کام سیکھ کر آئے ہیں انسان
مجبور محض ہے کہ ان سے وہی کام لے سکے جو انکے سپرد ہوا ہے۔
شعوری طور پر بھی انسان کبھی کبھی حواس خمسہ کے علاوہ قدرت خداوندی سے حصول
علم کرتا ہے۔اس کا ایک عام ذریعہ سچا خواب ہے جس سے ہر کس و ناکس کو واسطہ
پڑ سکتا ہے۔بعض اوقات عالم شعور میں ،غنودگی میں یا کسی خاص میدان میں
غوروفکر کرتے ہوئے اس میدان سے ہٹ کر کوئی اچھوتا خیال ذہن میں اچک آتا ہے
جو اپنے زمان و مکان میں بالکل اجنبی ہوتا ہے،کہا جا سکتا ہے کہ یہ خالصتاََ
اﷲ تعالی کی طرف سے گویا’’خفیہ اشارہ‘‘ ہوتا ہے جسے الہام بھی کہا جا سکتا
ہے ۔سائنس کی بیشتر ایجادات و تصورات اسی کا نتیجہ ہیں۔ایک حساب دان کسی
فارمولے پر مغزماری کرتے کرتے ناکام سو گیا،صبح اٹھ کر حیران ہوتا ہے کہ
کاغذ پر وہ فارمولا حل ہوا پڑا ہے۔کافی سوچ و بچار کے بعد وہ اس نتیجے پر
پہنچتا ہے کہ رات گئے وہ غیر شعوری طور پر بیدار ہوا ہے اور فارمولا حل کر
کے سو گیا ہے۔یہ وحی کی قوت تھی جس نے اسے سوتے سے بیدار کیا اور اس سے
اسکا کام کرا کے تو پھر سلا دیا۔
وحی کی ایک قسم وہ بھی ہے جس کانزول انبیاء علیھم السلام پر ہوتا ہے۔یہ قسم
مذکورہ بالاتمام اقسام سے مختلف ہوتی ہے۔خاص طور پر عام انسان کے معاملے
میں شیطان کھل کر اپنی صلاحیتیں استعمال کرتا ہے جبکہ انبیاء علیھم السلام
کے معاملے میں وہ بے بس ہے۔عام انسان کا خواب،الہام یاخیال شیطان کی طرف سے
ہو سکتا ہے لیکن انبیا علیھم السلام خالصتاََ اﷲ تعالی کی طرف سے حکم پاتے
ہیں۔
انبیا علیھم السلام کی طرف نازل ہونے والی وحی ان تمام سے یکسر مختلف ہوتی
ہے،یہ ہر طرح کے شک و شبہ سے بالاتر،اوہام و خرافات سے پاک اور ابلس کے
حملوں سے قطعاََ محفوظ ہوتی ہے۔یہ وحی خالق کائنات کی طرف سے ہوتی ہے اور
ہر طرح سے مستند،سچی اور حق پر مبنی ہوتی ہے۔انبیا علیھم السلام پر وہی ان
سات طریقوں سے نازل کی جاتی ہے۔
1۔براہ راست گفتگو:اﷲ تعالی بعض اوقات اپنے انبیا علیھم السلام سے براہ
راست گفتگو کرتا ہے اور ان پر اپنی وحی نازل کرتا ہے۔تخلیق آدم علیہ السلام
کے بعد اﷲتعالی نے خود انہیں تعلیم دی اور انہیں تمام چیزوں کے نام بتائے
۔وعلم آدم الاسماء کلھا(7) (سورۃ بقرہ،آیت۱۳(یہ تعلیم براہ راست تھی جس میں
اﷲ تعالی نے اپنے پہلے نبی علیہ السلام کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیاپھر
انہیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرشتوں سے پوچھا بھلا ان چیزوں کے نام
تو بتاؤاگر تمہیں معلوم ہیں؟۔انہوں نے لاعلمی کااظہار کیا اورکہا کہ اے رب
العالمین ہم تو صرف وہ کچھ جانتے ہیں جس کا تونے ہمیں علم دیا ہے اور جب
حضرت آدم علیہ السلام کو حکم ہوا تو انہوں نے ان سب چیزوں کے نام بتا
دیے۔اسکے بعد اﷲ تعالی نے بغیر کسی واسطے کے حضرت آدم کو حکم دیا کہ وہ
اورانکی زوجہ جنت میں رہیں اور جو چاہیں کھائیں لیکن ایک درخت کے قریب نہیں
جانا ورنہ ظالموں میں سے ہو جائیں گے(8)۔اس دانے کے کھالینے پر ایک بار پھر
اﷲ تعالی حضرت آدم سے مخاطب ہوا اور زمین پر اترنے کا حکم اور اسکے متعلقات
ارشاد فرمائے۔یہ تمام احکامات اﷲ تعالی نے براہ راست حضرت آدم علیہ السلام
کو صادر فرمائے۔
براہ راست وحی کی دوسری مثال نبی آخرالزماں ﷺ کا سفر معراج ہے جس میں اﷲ
تعالی اور نبی علیہ السلام کے درمیان براہ راست گفتگو ہوئی ۔اس سلسلے میں
متعدد روایات موجود ہیں ،نماز میں تشہد کے دوران پڑھا جانے والا مواد بھی
دراصل معراج کے موقع پر آپ ﷺ اور خالق کائنات کے درمیان ہونے والی گفتگو
ہے۔اسی موقع پر آپ ﷺ نے اﷲ تعالی سے کہا کہ ہر نبی کو بارالہ سے کچھ نہ کچھ
عطا ہوا میرے لیے کیا ہے؟ ارشاد ہوا کہ ورفعنا لک ذکرک(9) کہ ہم نے آپ ﷺ کا
ذکر بلند کیا،بعض روایات کے مطابق سورۃ بقرہ کا آخری رکوع بھی معراج کے
موقع پر اﷲ تعالی نے براہ راست عطاکیا۔صوفیا کے ہاں یہ روایت بھی ملتی ہے
کہ محسن انسانیت ﷺ نے وہیں یعنی جوار باری تعالی میں رہ جانے کی خواہش کا
اظہار کیا لیکن حکم ہوا ابھی بہت کام باقی ہے۔
2ََِ۔وحی کے نزول کی دوسری صورت بالواسطہ گفتگو ہے،یعنی آواز کے ذریعے۔اسکی
مثال ہمیں حضرت موسی علیہ السلام کے ہاں ملتی ہے،جب شدیدسردیوں کی ایک رات
وہ اپنے اہل و عیال کی معیت میں مصر کی طرف رو بہ سفر تھے تب رات کی تاریکی
میں آگ کے حصول کے لیے ایک روشن درخت کی طرف بڑھے،قریب پہنچے تو ایک غیر
معروف آواز کانوں میں پڑی جو آپ علیہ السلام سے مخاطب تھی کہ اے موسی( علیہ
السلام) اپنی جوتیاں اتار دیں آپ ایک مقدس وادی میں موجود ہیں اور میں آپ
کا رب آپ سے مخاطب ہوں جاؤ فرعون کے پاس وہ بہت سرکش ہوا چاہتا ہے(10)۔اسی
موقع پر حضرت موسی علیہ السلام کو معجزات بھی عطا ہوئے ،جواب میں حضرت موسی
علیہ السلام نے کچھ دعائیں مانگیں جو قبول ہوئیں۔
توریت کا نزول بھی بالواسطہ طریقے سے ہوا کہ آسمان سے لکھی لکھائی تختیاں
اﷲ تعالی کے برگزیدہ نبی حضرت موسی علیہ السلام کے سپرد کی گئیں۔جب کبھی
حضرت موسی علیہ السلام کو اﷲ تعالی سے گفتگو کرنا مقصود ہوتا وہ کوہ طور پر
تشریف لے جاتے وہاں ایک درخت سے پھوٹنے والی آواز ایک واسطہ تھی جو خالق کا
پیغام نبی علیہ السلام تک پہنچاتی تھی۔
3۔وحی کے نزول کی تیسری صورت فرشتہ جبریل علیہ السلام کا ذریعہ پیغام رسانی
ہے۔اﷲ تعالی نے اپنے مقرب فرشتہ حضرت جبریل علیہ السلام کو اس کام پر
مامورکیا تھا ۔وہ اﷲ تعالی کا پیغام لے کر جملہ انبیا علیم السلام تک جاتے
تھے۔سلسلہ وحی کے اختتام کے بعد وہ ذکر و عبادت میں مشغول ہیں،البتہ جب
کبھی اﷲ تعالی کا حکم ہوتا ہے تو زمین پر اترتے ہیں جیسے شب قدر
میں(11)وغیرہ۔آپ ﷺ کے پاس پہلی وحی حضرت جبریل علیہ السلام ہی لائے تھے۔آپ
ﷺ فرماتے ہیں کہ میں نے جبریل علیہ السلام کودو دفعہ انکی اصل شکل میں
دیکھا ہے ،وہ آسمان اور زمین کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھے تھے(12)۔پہلی وحی
کے موقع پر جبریل علیہ السلام نے آپ ﷺ کو زور سے بھینچا تھا جس سے آپ ﷺ کو
بخار اور تھکاوٹ لاحق ہق گئی(13)۔
ٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍ
4۔وحی کے نزول کی چوتھی صورت فرشتے کا انسانی شکل میں آنا ہے ۔اس قسم کی
مثالیں بھی متعدد انبیاء علیھم السلام کی زندگیوں میں ملتی ہیں۔مثلاََ حضرت
ابراہیم علیہ السلام کے ہاں دو مہمان آئے،آپ گھر گئے اور گوشت بھون کر لے
آئے اور ان مہمانوں کو پیش کیالیکن انہوں نے ہاتھ بڑھانے سے احتراز کیا۔آپ
علیہ السلام گھبرائے کہ مباداوہ دشمن ہوں اور نقصان پہچانے کا قصد رکھتے
ہوں مگرانہوں نے خود ہی بتا دیا کہ وہ اﷲ تعالی کے فرشتے ہیں اور حضرت
ابراہیم علیہ السلام کوبیٹے کی خوشخبری دینے آئے ہیں(14)۔فرشتوں کاانسانی
شکل میں آنا کسی بڑے واقعے کی نشاندہی کرتا ہے چنانچہ اﷲ کے نبی علیہ
السلام نے پوچھا کہ تمہیں کس مقصد کے لیے بھیجا گیا ہے تو انہوں نے جواب
دیا کہ وہ قوم لوط پر عذاب لے کر آئے ہیں۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نیانہیں
روکنا چاہا لیکن انہوں نے جواب دیا کہ یہ حکم ربی ہے اب نہیں رک سکتا۔
حضرت لوط علیہ السلام کی قوم لڑکوں سے جنسی ہوس پوری کرنے کے مرض میں مبتلا
تھی،یہ دونوں فرشتے خوبرو لڑکوں کی شکل میں بستی لوط میں وارد ہوئے،قوم ان
پر غلط ارادے سے لپکی تو انہوں نے دوڑ کر حضرت لوط علیہ السلام کے گھرمیں
پناہ لی کہ اس پوری بستی میں یہی ایک شریف آدمی کا گھر تھا۔حضرت لوط علیہ
السلام نے قوم کو منع کیا لیکن قوم تھی کہ اپنے نبی کے گھر امڈی ہی چلی آتی
تھی ۔اﷲ تعالی کے پاک نبی حضرت لوط علیہ السلام جب پریشان ہوگئے توان دونوں
خوبرو لڑکوں نے کہا کہ آپ پریشان نہ ہوں ،ہم اﷲ تعالی کے بھیجے ہوئے فرشتے
ہیں اوراس قوم پر عذاب لے کر آئے ہیں،آپ اپنے ماننے والوں کو لے کر راتوں
رات اس بستی سے نکل جائیں اور پیچھے مڑ کر نہ دیکھیں(15)۔
بعض اوقات حضرت جبریل علیہ السلام بھی انسانی شکل میں آیا کرتے تھے اسکی
مشہور مثال حدیث عمر بن خطاب ہے جس کے مطابق ایک شخص مسجد نبوی میں داخل
ہوااور آپ ﷺ کے گھٹنوں سے گھٹنے ملا بیٹھ گیا اور سوال کرتا گیا اور آپ ﷺ
اسکے جوابات دیتے گئے پھر جب وہ اٹھ کر واپس چل دیا تو آپﷺ نے پوچھا عمر
جانتے ہو یہ کون تھا؟حضرت عمر نے کہا اﷲ و رسولہ اعلم کہ اﷲ تعالی اور اسکا
رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔آپ ﷺ نے فرمایا یہ جبریل تھے جو تمہیں تمہارادین
سکھانے آئے تھے(16)۔
وحی کے نزول کی پانچویں صورت خواب ہیں۔انبیاء علیھم السلام کے خواب نہ صرف
یہ کہ سچے ہوتے ہیں بلکہ چونکہ وحی کا حصہ ہوتے ہیں اس لیے اﷲ تعالی کے حکم
کادرجہ رکھتے ہیں جنہیں پورا کرنا لازمی ہوتا ہے۔جیسے حضرت ابراہیم علیہ
السلام خواب میں دیکھا کہ اپنی پیاری چیز اﷲ تعالی کے راستے میں قربان کر
رہے ہیں تو یہ خواب والی وحی کی صورت میں اﷲ تعالی کا حکم تھا کہ اپنی
عزیزترین متاع اﷲ تعالی کے راستے میں قربان کریں۔اسی کے نتیجے میں ذبح
اسمئیل علیہ السلام کاواقعہ رونما ہوا۔
ہجرت کے چھٹے سال جب محسن انسانیت ﷺ نے خواب دیکھا کہ طواف کعبۃ اﷲ کر رہے
ہیں تونہ صرف یہ کہ یہ ایک سچی پیشین گوئی تھی بلکہ وحی کی ایک صورت ہونے
کے ناطے اﷲ تعالی کا حکم تھا کہ اب سفر مکہ مکرمۃ کی تیاری کی جائے۔چنانچہ
اﷲ کے نبیﷺچودہ سو اصحاب کی معیت میں ایک حرام مہینے میں قربانی کے جانوروں
کے ساتھ بغیر جنگی ہتھیاروں کے سفرسعادت کے لیے روانہ ہوئے۔یہی وہ مبارک
سفر تھاجو صلح حدیبیہ کا مقدمہ ثابت ہوا۔
وحی کے نزول کی چھٹی صورت صلصلۃ الجرس ہے یعنی گھنٹی کی آواز۔آپ ﷺ فرماتے
ہیں مجھے گھنٹی کی آواز سنائی دیتی ہے اور میں سمجھ جاتا ہوں کہ مجھے کیا
کہا جا رہا ہے۔وحی کے نزول کے دوران آپ ﷺ کی کیفیت بہت تکلیف دہ ہو جاتی
تھی،سردیوں کے دنوں میں بھی پسینے کے قطرے آپ ﷺ کے چہرہ اقدس پر نمودار ہو
جاتے،شدید تھکاوٹ کے اثرات کااظہار ہوتا حتی کہ وحی کے دوران چہرہ مبارک
متغیر ہو جاتا تھاتواصحاب رسول ﷺ سے یہ کیفیت دیکھی نہ جاتی تھی اور وہ
چہرہ انورپرکپڑا ڈال دیتے۔نزول وحی کے دوران آپ ﷺ کے وزن میں بے پناہ اضافہ
ہو جاتا تھا،ایک بار ایک صحابی کے گھٹنے پر سر رکھے استراحت فرما رہے تھے
کہ وحی آنا شروع ہو گئی تو وہ صحابی فرماتے ہیں کہ مجھے ایسا لگتا تھا کہ
ابھی میرا گھٹنہ ٹوٹا کہ ٹوٹا۔ایک بار اونٹنی پر تشریف فرما تھے کہ نزول
وحی کا سلسلہ شروع ہوگیا تووہ اونٹنی بوجھ کے بڑھ جانے سے اپنی مخصوص آواز
نکالنے لگی یہاں تک کہ اس کا کھڑا ہونا دشوار نظرآنے لگاتواسے بٹھا دیا
گیا(17)۔
وحی الہی کی ساتویں صورت دل میں بات ڈال دینا ہے جسے ’’القا‘‘ بھی کہتے ہیں
۔انبیاء علیھم السلام کے قلوب چونکہ شیاطین کے حملوں سے مکمل طور پر محفوظ
کر دیے گئے ہوتے ہیں اس لیے ان میں داخل ہونے والاہر خیال من جانب اﷲ تعالی
ہوتا ہے۔حضرت یعقوب علیہ السلام کے دل میں یہ خیال ڈال دینا کہ وہ اپنے
بیٹوں سے کہیں کہ گھر سے نکل جاؤ اور یوسف و بن یامین کو تلاش کر کے آؤ،اﷲ
تعالی کی جانب سے تھاجس کے نتیجے میں دونوں بھائی دریافت ہوئے۔یاجب حضرت
یوسف علیہ السلام کی قمیص لائی جا رہی تھی تو حضرت یعقوب علیہ السلام کا یہ
کہناکہ مجھے یوسف علیہ السلام کی خوشبو آرہی ہے خالصتاََ اﷲ تعالی کی جانب
سے دل میں ڈالی گئی اطلاع تھی۔
حضرت موسی علیہ السلام کا آگ لینے کا ارادہ کرنا،حضرت ہارون علیہ السلام کا
بچھڑے کی پوجا پر بنی اسرائیل پہ سختی نہ کرنا،حضرت سلیمان علیہ السلام کا
ہدہد کی گمشدگی پر ناراض ہونا،حضرت زکریا علیہ السلام کے دل میں اولاد کی
خواہش کا جنم لینا،اﷲ تعالی کے حکم کے باوجودام موسی علیہا السلام دل میں
بچے کے ڈوب جانے کا خوف رہ جانا ، بن باپ کے بچے کی پیدائش پرحضرت مریم
علیہا السلام کے دل میں لوگوں کا خوف پیدا ہونا وغیرہ سب اﷲ تعالی کے حکم
اور رضا کی وجہ سے تھا۔محسن انسانیت ﷺ کی پسند و ناپسند،آپ ﷺ کی گفتگو،نشست
و برخواست،خوردونوشت،اجتہاد،سہوونسیان غرض یہ کہ آپ ﷺ کے سونے جاگنے کے
معمولات،لباس ،طوراطواراور انتہائی نجی وذاتی معاملات جس کی کہ تمام تر
تفصیلات آج تک درخشاں سورج کی مانند موجودومحفوظ ہیں ،تمام تر من جانب اﷲ
تعالی تھا،اﷲ تعالی کی طرف سے وحی کا حصہ تھا اور امت کے لیے ان سب کا
اتباع قرب خداوندی کا واحد ذریعہ ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ وحی کی تعلیمات نے ہی انسانوں کو انسان بنایا ہے۔اگر انبیا
علیہم السلام اس دنیا میں تشریف نہ لاتے تو جنگل کا بادشاہ اور وحشت و
بربریت کی علامت شیر،چیتا اور بھیڑیا نہ ہوتے بلکہ انسان ہوتا۔آج اکیسویں
صدی کی دہلیز پر روشنیوں سے چکاچوند سائنس و ٹیکنالوجی سے لبالب بھرے ہوئے
سوفیصدخواندگی سے عبارت مہذب شائستہ اور انسانیت کی دعوے دار معاشرے جب
نبیوں کی تعلیمات سے عاری ہو کر دوسرے ملکوں اور قوموں پر حملہ آور ہوتے
ہیں توظلم و جبر اور انسانیت سوز افعال کی وہ داستانیں رقم کرتے ہیں کہ
آسمان بھی اپنی آنکھیں موند لے اور جنگلی درندے بھی شرما جائیں۔اس دنیا سے
ظلم کے بادل چھٹ سکتے ہیں،امن و آشتی کا سورج طلوع ہو سکتا ہے اور
پیارومحبت و برداشت انسانوں کے سینوں میں جگہ پا سکتے ہیں مگر جب اقوام
عالم جینوا ایکارڈ کی بجائے نبی آخرالزماں ﷺ کے خطبہ حجۃ الوداع کو اپنا
منشور بنا لیں۔
عقل ہے تیری سپرعشق ہے شمشیر تری
میرے درویش خلافت ہے جہانگیر تری
ماسوا اﷲ کے لیے آگ ہے تکبیر تری
تو مسلماں ہوتو تقدیر ہے تدبیر تری
کی محمدسے وفا تو نے توہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں(18)
حوالہ جات:
1۔لویس معلوف،المنجد فی اللغہ،صفحہ891،طبع26تہران1372ھ،انتشارات اسمائلیان
2۔سورۃ احزاب،آیت40
3۔سورۃ زلزال،آیت5
4۔سورۃ انبیا،آیت69
5۔سورۃ نحل آیت68
6۔سورۃ فرقان،آیت2
7۔سورۃ بقرہ،آیت13
8۔سورۃ بقرہ،آیت33
9۔سورۃانشراح،آیت4
10۔سورۃ طہ،آیت24
11۔سورۃ قدر،آیت4
12۔مبارکپوری،مولانا صفی الرحمن،الرحیق المختوم،صفحہ98،مکتبہ سلفیہ
لاہور1999ء
13۔ایضا صفحہ102
14۔سورۃ ذاریات،آیت28
15۔سورۃ ہود،آیت81
16۔صحیح مسلم شریف
17۔مبارکپوری،مولانا صفی الرحمن،الرحیق المختوم،صفحہ103
18۔اقبال،علامہ،بانگ درا،جواب شکوہ |
|