وائس چانسلر کے خلاف طالبات کی صف بندی
(Irfan Mustafa Sehrai, Lahore)
کسی بھی قوم کی ترقی اعلیٰ تعلیم
کے بغیر ممکن نہیں ۔جس کی وجہ سے شعور بے دار ہوتا ہے،سوچنے سمجھنے کے
دریچے کھلتے ہیں،نئی راہیں ملتیں ہیں، ریسرچ سے اﷲ تعالیٰ کے پوشیدہ رازوں
کو تلاش کیا جاتا ہے ۔ تعلیم کی اہمیت اسی وقت سامنے آ جاتی ہے جب قرآن کا
پہلا لفظ ’’اِقرا‘‘ سے شروع ہوتا ہے۔یہ ضروری ہے کہ مرد حضرات کے ساتھ
خواتین کا تعلیم کے زیور سے آراستہ ہونا انتہائی ضروری ہے تاکہ وہ بھی مرد
کے شانہ بشانہ کام کریں ۔موجودہ دور میں اس حقیقت کو سمجھتے ہوئے لوگوں نے
نہ صرف اپنی بچیوں کو سکول،کالج بلکہ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے
یونیورسٹیوں میں بھیجا ہے،حالانکہ یہ ہمارے کلچر میں معیوب سمجھا جاتا
تھا۔لوگ بچیوں کو اعلیٰ تعلیم تو دور عام مڈل کلاس تعلیم دلونا بھی گناہ
تصور کرتے تھے لیکن انہیں ماؤں کے بچے حسن سلوک اور کردار میں بے مثال ہوتے
تھے ۔ اس کی اصل وجہ تربیت پر خصوصی توجہ تھی ۔گھر ہو یا تدریسی ادارے ادب
و آداب، گفتگو کرنے کا سلیقہ ،بڑوں ،ہم عمر اور چھوٹوں کا فرق سمجھایا جاتا
تھا۔اساتذہ کا ایک معیار ہوتا تھا۔ انہیں اپنے ذاتی مفاد کی بلکل پرواہ نہ
ہوتی بلکہ انہیں فکر ہوتی تو اپنے شاگرد کی زندگی کے ہر پہلو کو اجاگر کرنے
کی۔شاگرد کا اچھا انسان بننا استاد کی سب سے بڑی دولت ہوتی ۔یہی وجہ تھی کہ
شاگرد اعلیٰ اوصاف کے مالک بن کر ملک و قوم کی خدمت کرتے اور اپنے اساتذہ
کیمشکور رہتے۔اساتذہ کا کردار مثالی تھا۔
تعلیم ہر مرد و زن کا بنیادی حق ہے ۔اساتذہ کو پہلے سے کہیں زیادہ سہولیات
دی گئیں ہیں۔ان کی تربیت کے لئے خصوصی انتظامات کئے گئے،لیکن افسوس اب
اساتذہ کی سوچ اور کردار مثالی نہیں رہی۔جس کی وجہ سے بہت سی خرابیوں نے
جنم لیا ہے۔
جو قومیں اپنی نسل کو بہتر بنانا چاہتی ہیں ،وہاں اساتذہ کے کردار پر سختی
سے غور کیا جاتا ہے۔ استاد کی عزت و احترام اپنی جگہ فرض ہے لیکن اگر اس
شعبے سے تعلق رکھنے والا کوئی شخص غلطی کرے تو اسے عبرت ناک سزا دینا بھی
ضروری ہے۔ایسی مثالیں بہت سے ممالک میں ملتی ہیں۔مجھے بہت سے ممالک میں
جانے کا اتفاق ہوا۔میں ساؤتھ کوریا میں تھا،وہاں کے لوگوں نے ابھی تک جدید
دور کے ساتھ پرانے کلچر کو ساتھ رکھا ہوا ہے۔اپنے بڑے بزرگوں کا احترام ،اگرچہ
بزرگ غیر بھی ہو تو اس کی اسی طرح عزت کی جاتی ہے جیسے ان کا اپنا بزرگ
ہے۔ہر کسی سے اخلاق کے ساتھ پیش آیا جاتا ہے۔ہر کوئی ایک دوسرے کو سکھانا
پسند کرتا ہے، استاد بننا فخر کی بات سمجھی جاتی ہے۔اساتذہ کو انتہائی
احترام دیا جاتا ہے،اس سے قطعہ نظر کہ یہ نرسری کے بچوں کو پڑھاتا ہے ،سپورٹس
کا استاد ہے یا یونیورسٹی کا پروفیسر ہے ۔انتہائی عزت کی نگاہ سے دیکھا
جاتا ہے۔اگر نا بالغ طالب علم غلط حرکت پر پولیس پکڑ لے تو والدین کو نہیں
بلکہ اس کے استاد کوتھانے بلایا جاتا ہے۔ اس طالب علم کی غلطی استاد کو
بتائی جاتی ہے،استاد صبح اسے سکول میں غلطی کی سزا دیتا ہے۔کیونکہ اساتذہ
تربیت یافتہ ہوتے ہیں،انہیں باخوبی علم ہوتا ہے کہ بچوں کی کس انداز میں
ذہنی،جسمانی تربیت کرنی ہے ۔اگر بڑے سے بڑے آدمی سے پوچھا جائے کہ آپ کس
شعبے کے فرد سے شادی کرنا پسند کریں گے ۔ تو جواب ہو گا کہ تدریس کے شعبے
سے وابسطہ لوگوں کے ساتھ پسند کروں گا۔یعنی کردار کے معاملے میں استاد کو
سند کا درجہ دیا جاتا ہے۔ اس درجے کو قائم رکھنے کے لئے انہوں نے کچھ اصول
واضع کر رکھے ہیں۔اگر کوئی بھی استاد معمولی سی غلطی کا مرتکب پایا جائے،
تو اسے سخت سزا دی جاتی ہے ، وہ پورے ملک میں تدریس کے شعبے سے وابستہ نہیں
رہ سکتا۔ارد گرد کے لوگ اسے حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔باقاعدہ ملک کے ہر
تدریسی ادارے کو اس کے ڈیٹا کے ساتھ جرم کا نوٹس بھیجا جاتا ہے تاکہ وہ کسی
طور پر دوبارہ استاد نہ بن سکے۔
ہمارے ہاں اس گمبھیر مسئلے پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔اساتذہ کا کردار
انتہائی ناقص ہے ،انہیں بچوں سے نہیں بلکہ اپنے مفادات سے غرض ہے۔ بے شمار
بدکردار اساتذہ کے واقعات عام ہونے کے باوجود انہیں کوئی عبرت ناک سزا نہیں
دی جاتی تاکہ دوسرے ایسی حرکت کرتے ہوئے خوفزدہ ہوں ۔اب حالات اس قدر خراب
ہو چکے ہیں کہ ملک کی سب سے بڑی اعلیٰ تعلیمی ادارہ پنجاب یونیورسٹی کے
وائس چانسلر کے کردار پر کئی سالوں سے سوالیہ نشان ہے لیکن کسی کے کان میں
جوں تک نہیں رینگی ۔پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر مجاہد کامران بڑے عرصے
سے وائس چانسلر کے عہدے پر براجماں ہیں ۔ان پر اپنے ماتحت خواتین پروفیسرز
نے جنسی ہراساں کرنے کے واقعات کو اجاگر کیا۔پرنٹ میڈیا کے ساتھ سوشل میڈیا
پر ویڈیو انٹرویو سے بتایا گیا۔کچھ بعض وجوہات کی وجہ سے خاموش ہیں لیکن
برملا کارناموں کا ذکر کیا جاتا ہے۔اب ایک اور سکینڈل سامنے آیا ہے۔پنجاب
یونیورسٹی کی چھے طالبات نے لاہور پریس کلب میں پریس کانفرنس میں انکشاف
کیا ہے کہ کہ وی سی انہیں جنسی طور پر ہراساں کرتے ہیں،ایسے کئی کیسیز ہوئے
کہ لڑکیوں پر تشدد کیا گیا۔لیکن لڑکیاں خوف کے مارے چپ رہتی ہیں۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ وائس چانسلر پر پہلا الزام نہیں لیکن وزیر اعلیٰ،
گورنر کی جانب سے کسی قسم کا کوئی ایکشن سامنے نہیں آیا۔والدین بڑی مشکل سے
بچیوں کی پڑھائی کے لئے انہیں دور دراز علاقوں سے اعلیٰ تعلیم کے لئے
یونیورسٹی بھیجتے ہیں ۔یہ زیادہ تر لڑکیاں متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی
ہوتیں ہیں ۔ والدین خوش ہوتے ہیں کہ ہماری بچی کا مستقبل بن رہا ہے لیکن
یونیورسٹی کے ہیڈ کی جانب سے ایسے رویے اور انکشافات ان کے دل پر کیا اثر
چھوڑتا ہے یہ انہیں سے کوئی پوچھے۔ اگر کسی ملک کے اعلیٰ تعلیمی ادارے کے
سربراہ کا کردار انتہائی مشکوک ہو تو اس سے بڑا شرمندگی کا مقام کیا ہو
سکتا ہے۔یہ ایک مافیا ہے جس نے یونیورسٹی کو یرغمال بنا رکھا ہے۔اس معاملے
کی جلد سے جلد صاف شفاف انکوائری ہونی چاہئے اگر زرا سا بھی جرم ثابت ہو
،تو عبرت ناک سزا دینی ہو گی تاکہ دوبارہ کسی کو ایسی حرکت کرنے کی جرأت نہ
ہو۔اس مسئلے کو توجہ دیتے ہوئے بڑے چھوٹے تعلیمی اداروں پر بھی ہنگامی
بنیاد پر آپریشن کی ضرورت ہے تاکہ آنے والی نسلوں کو بہتر اساتذہ دے کر ملک
و قوم کی اخلاقی بہتری اور ترقی کے لئے اہم کردار ادا کر سکیں ۔ |
|