اردو کے خوش فکر ادیب ومحقق ۔ڈاکٹر رئیس صمدانی
(Dr Rais Samdani, Karachi)
By: Syed Muhammad Asghar Kazmi
ڈاکٹررئیس احمد صمدانی ان ادیبوں اور محققین میں سے ہیں جو گزستہ چار
دیہائیوں سے اپنی صلاحیتِ فکر، دانشوری، تخلیقی فکر، تصنیفی و تالیفی آگہی
سے قلم و قرطاس کی دنیا کو روشن کیے ہوئے ہیں۔ وہ ایک خوش فکر ادیب، خوش
بیاں مقرر، صحافی، محقق، اپنے موضوع کے معروف استاد، بتیس کتابوں اورڈھائی
سو سے زیادہ تحقیقی و ادبی مضامین کے خالق ہیں۔ ڈاکٹر صمدانی کے لکھنے کی
ابتداء ایک سوانحی مضمون سے ۱۹۷۸ء میں ہوئی تھی۔ یہ سوانحی مضمون خلیفہ
چہارم حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی سیرت سے متعلق تھا۔ یہ تحریر ڈاکٹر
صمدانی کو شخصیات کی جانب لے آئی اور انہوں نے اپنے بنیادی موضوع لائبریری
سائنس کے ساتھ ساتھ شخصیات پر لکھنا شروع کیا۔ سوانح نگاری سے وہ خاکہ
نگاری کی جانب مائل ہوئے اور معروف ادبی شخصیات کے خاکے تحریر کیے۔ آپ بیتی،
رپورتاژ ، سفرنامہ،تبصرہ نگاری ان کے خاص موضوعات ہیں۔ ان کی ذہانت اور
محنت ا نہیں علمی و ادبی دنیا کی جانب کھینچ لائی۔لائبریری سائنس پر ان کی
متعدد کتابیں اور درجنوں مضامین اخبارات، رسائل و جرائد میں شائع ہوئے۔
صحافی کے حیثیت سے انہوں نے کئی جرائد کی ادارت کے فرائض انجام دئے۔سہہ
ماہی رسالے پاکستان لائبریری و انفارمیشن سائنس جرنل کے ۳۵ سال ایڈیٹر رہے
بعد ازاں ۲۰۱۲ء میں چیف ایڈیٹر سے اصولی اختلاف کے باعث رسالے کی ایڈیٹر شپ
سے مستعفی ہوگئے۔
جامعہ کراچی کے کتب خانے سے اپنی عملی زندگی کا آغاز ۱۹۷۳ء میں کیا، ۱۹۷۴ء
میں کالج کی ملازمت مل گئی اور ۲۳ برس حاجی عبد اﷲ ہارون گورمنٹ کا لج اور
۱۲سال گورنمٹ کالج برائے طلباء، ناظم آباد میں خدمات انجام دے کر ۲۰۰۹ء میں
اسی کالج سے ریٹائر ہوئے۔ کالج کی ہم نصابی سرگرمیوں کے نگران پروفیسر ہونے
کے علاوہ کالج میگزین ’’روایت ‘‘ کے دو شمارے مدیر اعلیٰ کی حیثیت سے مرتب
کیے۔ کالج کی ملازمت سے فارغ ہوکر وہ جامعہ سرگودھا کے شعبہ لائبریری و
انفارمیشن سائنسز میں ایسو سی ایٹ پروفیسر کی حیثیت سے منسلک ہوگئے۔ ساتھ
ہی لکھنے کا عمل جاری و ساری رہا۔ سرگودھا میں انہیں ڈاکٹر طاہر تونسوی اور
ڈاکٹر خالد ندیم جیسی علمی و ادبی شخصیات کی دوستی اور قربت حاصل ہوئی جس
نے ڈاکٹر صمدانی کی ادبی صلاحیتوں میں مزید نکھار پیدا کردیا اور ڈاکٹر
طاہر تونسوی، عبدالوحاب خان سلیم، فرخندہ لودھی اور فیض احمد فیضؔ جیسے
ادیبوں کے شخصی خاکے ان کے قلم سے منظر عام پر آئے۔ اردو کے معروف ادیبوں
اور شعرا پر سوانحی مضامین بھی ڈاکٹر صمدانی نے تحریر کیے جن میں بیخودؔ
ہلوی، شیخ محمد ابراہیم آزادؔ، بہادر شاہ ظفر، جمیل نقوی، حسرت موہانی،
احسان دانش، حبیب جالب، فرمان فتح پوری، بابائے اردو مولوی عبدالحق، ڈاکٹر
طاہر تونسوی ، حکیم محمد سعید، شفیع عقیل اور دیگر اہل علم شامل ہیں۔ جامعہ
سرگودھا سے فارغ ہو کر سعودی عرب میں کچھ وقت گزارا آج کل منہاج یونیوورسٹی
، لاہور کے شعبہ لائبریری و انفارمیشن سائنس میں پروفیسر اور شعبے کے
سربراہ کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔وہ علامہ اقبال اوپن یونورسٹی
میں استاد ہیں۔ اس سال علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی نے آپ کو Best
University Teacher Award 2013سے بھی نوازا۔
ڈاکٹر صمدانی کا تصنیفی و تالیفی گزشتہ چار دیہائیوں سے جاری ہے۔ان کی پہلی
کتاب ۱۹۷۵ء میں ، جب کہ پہلا مضمون ۱۹۷۸ء میں کراچی کے ایک مقامی جریدے میں
شائع ہوا۔ دوسری ۱۹۷۷ء میں منظر عام پر آئی۔ اس کے بعد تواتر کے ساتھ
کتابوں اور مضامین شائع ہونے کا سلسلہ جاری رہا، ان کی کتابوں کو تعلیمی
بورڈ اور ملک کی جامعات کے نصاب میں شامل ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ ان کی
بعض کتابوں کے بیس بیس ایڈیشن بھی شائع ہو چکے ہیں، لائبریری سائنس کی کسی
اور کتاب کو یہ اعزاز حاصل نہیں۔سوانحی نگاری کے حوالے سے ڈاکٹر صمدانی کی
اولین تصنیف ڈاکٹر عبدالمعید کے حوالے سے تھی جو ۱۹۸۰ء میں شائع ہوئی، عادل
عثمانی، اختر ایچ صدیقی ، ڈاکٹر غنی الاکرم سبزوری پر سوانحی کتب شائع
ہوچکی ہیں۔ حال ہی میں ان کی کتاب ہندوستان کے ایک نعت گو شاعر ’شیخ محمد
ابرہیم آزادؔ‘ کی شخصیت اور شاعری کے حوالے سے شائع ہوئی ہے۔ سوانح نگاری
پر مضامین کی تعداد بے شمار ہے۔ ڈاکٹر صمدانی نے سوانح نگاری کے ساتھ ساتھ
اپنے ادبی سفر کو خاکہ نگاری کی جانب گامزن کیا اور ان کی اولین شخصی خاکوں
پر مشتمل کتاب ’’یادوں کی مالا‘‘’ الفیصل‘ پبلشرنے لاہور سے ۲۰۰۹ء میں شائع
کی۔ جس میں ۲۵ شخصیات پر سوانحی مضامین شامل ہیں۔ صفِ اول کے ادیب و دانشور
، استاد الا اساتذہ پروفیسر ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے ڈاکٹر صمدانی کی اس
کتاب پر اپنے رائے کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ’’یادوں کی ما لا‘‘ لفظی اور
معنوی اعتبار سے ایک قابلِ مطالعہ کتاب ہے۔ یہ کتاب مشہور قلم کار ڈاکٹر
رئیس احمد صمدانی کی تصنیف ہے اور ان کے ذاتی تجربوں اور یادداشتوں پر
مشتمل ہے۔ خصوصیت یہ ہے کہ یہ کتاب صرف لائبریرین شپ سے متعلق حضرات کے لیے
نہیں بلکہ استفادۂ عام کا حق ادا کرتی ہے۔ چھوٹے چھوٹے تبصرہ نما خاکوں پر
مشتمل ہے۔لیکن جو کچھ ہے وہ قدر و قیمت میں بلند پایہ ہے۔ صمدانی صاحب ایک
مدت سے لکھ رہے ہیں اور اب بھی ان کا قلم رواں دواں ہے۔ کتاب بلحاظ زبان و
بیان معتبر ہے اور مصنف نے جو کچھ لکھا ہے پورے غور و فکر کے بعد لکھا ہے۔
کم سے کم لفظوں میں زیادہ لکھا ہے اور مختصر نویسی کا حق ادا کیا
ہے۔ یقین ہے کہ کتاب ’’یادوں کی مالا‘‘ رئیس احمد صمدانی کے نام اور کام کو
بلند و بالا کرے گی‘‘۔
ڈاکٹر صمدانی کی خاکوں کی دوسری کتاب ’’جھولی میں ہیرے اور موتی‘‘ کے عنوان
سے ۲۰۱۲ء میں کراچی سے’ فضلی سنز‘ نے شائع کی۔ اس کتاب میں زندہ لوگوں کے
خاکے بھی ہیں اور ان کے بھی جو اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ کتاب کی اہم
خصوصیت یہ ہے کہ ڈاکٹر صمدانی نے اپنی والدہ مرحومہ کا خاکہ ’’میری ماں‘‘
قلم بند کرکے حقِ فرزندگی ادا کیا ہے۔ جو بقول ڈاکٹر صمدانی ’‘’اپنے ان
تمام خاکوں میں مجھے اپنی ماں کا خاکہ لکھ کر جو اطمینان اورسکون میسر
آیاوہ اپنی کسی اور تحریر سے نہیں ملا ،ماں جیسی ہستی جب جدا ہوجاتی ہے اس
وقت یہ احساس شدت سے محسوس ہوتا ہے کہ ہم سے ہماری کس قدر قیمتی شے جدا
ہوگئی ہے‘‘۔انہوں نے اپنا خاکہ بھی ’’ اپنی تلاش‘‘ کے عنوان سے قلم بند کیا
ہے جس میں ان کے بقول انہوں نے ’’ اپنے آپ کو تلاش کرنے کی کوشش کی ہے
‘‘۔یہ خاکہ ہی نہیں بلکہ ان کی مختصر آپ بیتی کہی جاسکتی ہے جس طرح ایک
مصور اپنی مہارت اور ہنر مندی سے پینسل کی لکیروں سے کسی بھی شخصیت کے
خدوخال کو خوبصورت انداز سے نمایاں کردیتا ہے اسی طرح ایک لکھاری خاص طور
پور خاکہ نویس اپنے موضوع کی شخصیت کے رَنگ رُوپ ، چمک دمک، آب و تاب، رنگ
روغن، حتہ کہ چہرہ مہرہ کی ایک ایک کیفیت کو دلچسپ انداز سے اس طرح قلم بند
کرتا ہے کہ پڑھنے والا محسوس کرتا ہے کہ اس نے اس شخصیت کو از خود دیکھا
اور محسوس کیا ہو ۔ ڈاکٹر صمدانی کے لکھے ہوئے خاکے شخصیت کی خوبصورت تصویر
کشی کرتے نظر آتے ہیں۔
ڈاکٹر خالد ندیم جو شعبہ اردو ، جامعہ سرگودھا کے سینئر استاد ہیں نے ڈاکٹر
صمدانی کے بارے میں لکھا ’’شیخوپورہ کی علمی و ادبی تنظیم ’دریچہ‘ کے
دوستوں کے بعد سرگودھا میں اگر کسی ادبی شخصیت نے مجھے متاثر کیا تو وہ
ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی ہیں۔ ان کی رفاقت میرے لیے اس قدر خوش گوار تھی کہ
سرگودھا مجھے اپنے شہر کی طرح محسوس ہونے لگا۔ایک شریف النفس انسان سے مل
کر مَیں نہ صرف خوش ہوا، بلکہ مجھے یوں محسوس ہوا ، مَیں ایک مدتوں سے جس
پُرخلوص انسان کی تلاش میں سرگرداں تھا، ڈاکٹر طاہر تونسوی کے توسط سے آج
مجھے وہ مل گیا ہے ۔ ڈاکٹر صمدانی نے اپنے تخلیقی سفر کوبتد ریج طے کیا ہے
اور اب وہ اس صنف کی اس منزل پر ہیں، جہاں خاکہ نگاری میں ان کا رنگ اپنی
انفرادیت کا اظہار کرنے لگا ہے۔ وہ اپنی نستعلیق شخصیت کی بدولت شگفتہ
سنجیدگی کو اپنانے پر مجبور ہیں، چنانچہ ان کی تحریروں میں روانی، سادگی،
بے ساختگی اور لطافت کا پایا جانا فطری امر ہے۔ ابھی ان کی صورت میں مشرق
کی آنکھ میں کچھ روشنی باقی ہے۔ وہ اپنے موضوع سے متعلق بات کرتے ہوئے اپنی
تہذیبی روایات کو نظر انداز نہیں کرتے‘‘ وہ مزید لکھتے ہیں کہ ڈاکٹر صمدانی
کے خاکوں میں سوانحی معلومات بھی ہیں اور خاکہ نگار کا تخلیقی لمس بھی۔ ان
کے مطالعے سے قاری کو صرف شخصیت کے ماہ و سال سے آشنائی ہوتی ہے، بلکہ بعض
مواقع پر خاکہ نگار کے لب و لہجے اور تاثرات کی مدد سے موضوع کے ساتھ ہم
آہنگ بھی ہونے لگتا ہے۔ انھوں نے بڑی عام فہم اور آسان زبان میں اپنے ہر
موضوع کے بارے میں وہ کچھ لکھ دیا ہے، جو حقیقت ہے۔ ڈاکٹر صمدانی نے روزمرہ
باتوں اور واقعات کو علمی و ادبی رنگ دینے اور محض اسلوب کا جادُو جگانے کے
بجاے حقیقت پسندی کا ثبوت دیا ہے۔ یہ ان کی تحریر کی خصوصیت بھی ہے اور
ہمارے بعض ادیبوں کے لیے باعثِ تقلید بھی‘‘۔
ڈاکٹر صمدانی کے طویل ادبی، تصنیفی و تالیفی سفر سے یہ اندازہ لگانا مشکل
نہیں کہ مقصد کے حصول کی لگن کیا ہوتی ہے اور یہ کہ محنت ،لگن، متانت
اورسنجیدگی سے کیا ہوا انسان کا عمل اُسے معاشرہ میں بہ عزت کرتاہے۔ وہ
طبعاً کم گو ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ خاموشی کے ساتھ ، انعام و اکرام کی خواہش
سے مُبَرّا ہوکر اپنے کام میں لگے رہے ، لکھتے رہے اور چھپتے رہے،یہی ان کی
زندگی کی مَتاع اور انعام و اکرام ہے۔ انہوں نے اس طویل سفر میں جو ادب
تخلیق کیا وہ معیار و مقدار کے اعتبار سے قابل قدر اور قابل ستائش ہے۔ اردو
ادب کے معروف محقق و نقاد ڈاکٹر سلیم اختر نے ڈاکٹر صمدانی کو درویش صفت
انسان قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ’’ ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی نے پیشہ ورانہ
سرگرمیوں کے باوجود ادب اور ادیبوں ، قلم اور اہل قلم، علم اور اہل علم سے
رشتہ استوار رکھا اس کا اظہار دوستوں پر محبت کی روشنائی سے تحریر کردہ
خاکوں سے ہوتا ہے۔ ـ’یادوں کی مالا‘ کے بعد اب ’جھولی میں ہیرے اور موتی‘
خاکوں کا تازہ مجموعہ پیش ہے جو دس خاکوں ، اپنے بارے میں ایک مضمون ، ماضی
کی یادوں کے حوالہ سے دو مضامین اور ایک رپوتاژ پر مشتمل ہے۔ یہ ہیں وہ
ہیرے اور موتی جن سے اس درویش صفت انسان کی جھولی بھری ہے۔ اس میں میرے ان
دو عزیز دوستوں ڈاکٹر طاہر تونسوی اور عبد الوہاب خان سلیم کے خاکے بھی
شامل ہیں۔ ان کی محبت سرمایہ حیات ہے۔ ان کے علاوہ فیض احمد فیضؔ داکٹر
عبدالسلام، عبد الستار ایدھی کے خاکے بھی ہیں رئیس صمدانی صاحب نے والدہ
محترمہ کا خاکہ بھی قلم بند کیا ہے ۔فرزندگی کے اسلوب میں۔مجھے یقین ہے کہ
شخصیت اور شخصیت نگاری سے دلچسپی رکھنے والے خوش ذوق قارئین سے یہ کتاب داد
کے ہیرے اور تحسین کے موتی حاصل کرے گی‘‘۔
۲۰۱۲ء سے ان کے مضامین روزنامہ جنگ کے سنڈے میگزین اور مڈویک میگزین میں
شائع ہورہے ہیں۔ ان میں مضامین میں ’’میں کیوں لکھتا ہوں،پیکر الفت، ملنسار
مسیحا حکیم محمد سعید: نام ہی نہیں ، عمل کے بھی سعید تھے ہم سے بچھڑے ۱۴
برس بیت گئے،ایک رشتہ: جس نے دنیا میں صرف میری آواز سنی اور ۔۔،
مَولِدُالنّنِی ﷺ: حضرت محمد ﷺ اس مبارک گھر میں پیدا ہوئے، اب یہاں
’’مکتبۃمکۃ المکرمۃ‘‘ (لائبریری) قائم ہے، ادب‘ روبہ زوال نہیں ہوسکتا! اہل
قلم متحرک ہیں اور ادب تشکیل پر رہا ہے ،شاعرِ عوام‘ حبیب جالب کی مزاحمتی
شاعری؍ ایسے دستورکو‘ صبح بے نور کو‘ میں نہیں مانتا ، میں نہیں جانتا؍
انہوں نے ہر آمر وقت کے سامنے کلمہ حق بلند کیا، جس کی پاداش میں زندگی بھر
آزمائشوں سے گزرے، ’کتاب حاضر، قاری غائب: کمپیوٹراسکرین کسی طور مطبوعہ
نگارش کا متبادل نہیں‘۔،بابائے اردومولوی عبد الحق :انہوں نے اردو کی ترویج
کے لیے گراں قدر خدمات انجام دیں، بہترین مبصر‘لوک داستانوں کے امین۔ شین
عین رخصت ہوئے،سلام: ایک مسنون عمل، اسلام کا بنیادی شعار، یہ معاشرے میں
امن وسلامتی کے فروغ کا اہم اور مؤثر ذریعہ ہے، اردوادب میں دیباچہ نگاری
کی روایت۔ تقریظ صرف ثنائی نہیں ، اصلاحی بھی ہونی چاہیے، تَبصِرَہ نگاری
ادب کی منفرد صنف اور یاد سے تیری دلِ دردآشنا معمور ہے۔۔ میری ماں بطور
خاص شامل ہیں۔ ان سے قبل بھی ان کے مضامین روزنامہ نوائے وقت، روزنامہ
مقدمہ اور روزنامہ جنگ میں شائع ہو چکے ہیں۔
۲۰۱۳ء میں ان کے مضامین کی اشاعت نے ایک نئی جہت اختیار کی اور ان کے
مضامین اردو کی ایک معروف اور سب سے زیادہ دیکھی اور پڑھی جانے والی ویب
سائٹ ’’ہماری ویبHamariweb) پر آن لائن ہونا شروع ہوئے ۔اب تک ان کے
تقریباً ۸۰ مضامین ہماری ویب پر أن لائن ہوچکے ہیں۔ ان مضامین میں پہلے سے
شائع شدہ مضامین بھی ہیں اور نئے لکھے گئے مضامین بھی ان مضامین کوویب سائٹ
https://www.hamariweb.com/articles/userarticles.aspx?id=11511پر پڑھا
جاسکتا ہے ۔
سعودی عرب کے شہر جدہ میں اپنے قیام کے دوران انہوں نے اپنی تحریر کو ایک
نیا رنگ دیا اور کئی مضامین سفر نامہ کی صورت میں تحریر کیے۔جن میں’’سعودی
عرب کے شہر جدہ کی ’پانی پر تیرتی مسجد‘،جدہ میں قائم شاہ فہد فاؤنٹین،مکہ
لائبریری ۔ سعودی عربیہ میں ایک دن، اماں حوا کے شہر جدہ کاپاکستان انٹر
نیشنل اسکول حب الوطنی اور پاکستانیت کی اعلیٰ مثال اور دیگر مضامین شامل
ہیں۔ انہوں نے رپورتاژ، آپ بیتی ’’اپنی تلاش‘‘ کے عنوان سے لکھی، اپنے والد
اور اپنی ماں پر بھی مضامین تحریر کیے۔ جامعہ سرگودھا میں رہے تو وہاں کی
شخصیات کو اپنا موضوع بنا یا اور ایک مضمون ’’دال‘ جھال چکیاں (سرگودھا)
دی‘ تحریر کیا جو ہماری ویب پر آن لائن ہے۔ کتابوں پر اظہار خیال یا تبصرے
بھی کیے۔ بے شمار کتابوں پر ان کے تبصرے رسائل میں شائع ہوچکے ہیں۔ تبصرہ
نگاری پر ان کا مضمون روزنامہ جنگ میں شائع ہوا۔
ڈاکٹر صمدانی نے جامعہ کراچی سے سیاسیات اور لائبریری سائنس میں ماسٹر اور
جامعہ ہمدرد سے سوشل سائنسز میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ حکیم محمد سعید
پر ڈاکٹر صمدانی پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے والے پہلے محقق ہیں ادب کی
مختلف اصناف پر ڈاکٹر صمدانی کی تحریریں شائع ہوچکی ہیں ان میں تنقید و
تحقیق ان کے خاص موضوعات رہے، تاریخی موضوعات سے انہیں خاص دلچسپی رہی ہے۔
ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی کے آباؤاجداکا تعلق ہندوستان کے ضلع مظفر نگر سے
ہے۔ شاعر مزدور احسان دانشؔ کا وطن بھی مظفر نگر ہی تھا۔ بقول ڈاکٹر طاہر
تونسوی ’یہی وجہ ہے کے ڈاکٹر صمدانی ، احسان دانش کی طرح محنتی ، واقعات و
مناظر کی تصویر کشی اور مستقل مزاجی کے ساتھ کام کرنے والے لکھا ری ہیں‘۔
ڈاکٹر صمدانی ایک شاعر خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے خاندان کے کئی
احباب صاحب
دیوان شاعر گزرے ہیں۔ انہیں شاعری وراثت میں ملی ہے ۔ اپنی اسی خصوصیت کا
ذکر انہوں نے اپنے اس شعر میں اس طرح کیا ہے
ہوکیوں نہ ناز مجھے سخنوری پہ رئیسؔ
میرے ہی اجداد کا ورثہ ہے جو مجھے ملا ہے
ڈاکٹر صمدانی پنجاب کے شہر میلسی میں پیدا ہوئے لیکن ان کی پوری زندگی شہر
کراچی میں گزری۔اپنی جنم بھومی کے بارے میں ان کا ایک شعر اس طرح ہے۔
میلسی ہے ایک شہر ، پانچ دریاؤں کی سرزمین پر
میں ہوں رئیسؔ اُسی آسماں کا ایک ستارہ
شاعری ان کے مزاج کا حصہ ہے لیکن انہوں نے شاعری کو اپنی پہچان نہیں بنا
یا۔ شعر کہے لیکن ضرورت کے وقت ۔ وہ اپنے آپ کو مشاعروں کا شاعر بھی نہیں
کہتے۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کی شاعری آورد ہے آمد نہیں۔ شاعری کا آغاز
کب ہوا یقین سے نہیں کہا جاسکتا۔ ا’ن کی غزلیں، نظمں اور قطعات مختلف جگہ
شائع ہوچکے ہیں۔ ان کا رجحان حمد و نعت نگاری کے جانب زیادہ ہے۔ اس کی وجہ
ان کے آباؤ اجداد کا نعت گو شاعر ہونا ہے۔سماجی اورمعاشرتی موضوعات پر
انہوں نے زیادہ توجہ دی ہے۔ اﷲ تبارک و تعالیٰ نے
متعدد بار عمرہ کی سعادت نصیب فرمائی ۔ خانہ کعبہ پر حاضری کے موقع پر کہا
مانگنے تو بہت کچھ گیا تھا ، پر ہوا عجب حال
تھے اشک جاری ، اندر تھا ایک طلا تم بر پا
سوچتا ہی رہا کروں پیش اپنی سیاہ کاریاں
نہ دل نے دیا ساتھ نہ زباں پہ ہی کچھ آسکا
اسی حوالے سے ان کے یہ اشعار ان کے اندر کی کیفیت کا اظہار اچھی طرح کرتے
ہیں
کچھ ایسی تصویر بس گئی ہے دل میں کعبہ شریف کی
آنکھوں میں ہر دم رہتی ہے تصویر کعبہ شریف کی
پیاس بجھی ہے ، نہ بجھے گی یہ تو ہے مجھے معلوم
پھر بھی اک چاہت سی لگی رہتی ہے کعبہ شریف کی
روضۂ رسولﷺ پر حاضری کے احساسات کو منظوم میں اس طرح بیان کیا
بلاوے پہ نبیؐ کے میں مدینے آگیا ہوں
خوش ہوں زندگی میں یہ مرتبہ پا گیا ہوں
کہاں میں بے کس و بے نوا کہا ں میرا نصیب
مدینہ کی فضاء میں شفاء پا گیا ہوں
تھی تمنا ر یاض الجنہ میں ہو ایک سجدہ نصیب
جبیں کو جنت میں جھکا نے کا اعزاز پا گیا ہوں
نگاہیں کیسے ہٹتیں رئیسؔ رو ضے کی جالیوں سے
برسوں کی پیاس کا احساس پا گیا ہوں
ان کے چند اشعار ملاحظہ ہوں
رفتہ گانِ عہد کو یاد رکھنا چاہتا ہوں
ہے یہ ایک فرض سو نبھا نا چاہتا ہوں
زندگی کے سفر میں جو ہوا حاصل رئیسؔ
زندگی کو بہ احترام لوٹا نا چاہتا ہوں
حصول علم ہے ہر ایک کام سے بہتر
دوست نہیں ہے کوئی کتاب سے بہتر
صاف گوئی بھی کیا بلا کی چیز ہے رئیسؔ
کر دیتی ہے اپنو کوبھی پرایا پل بھر میں
خوف نہیں زرا بھی فشار کا مجھے رئیسؔ
ہے زمیں کو معلوم کہ نبی ؑکا عاشق ہوں میں
کاتبِ اعمال کے خوف سے کانپ جاتا ہوں
سوار کاندھوں پہ ہر دم مصروف ِ کار ہیں وہ
پاتا نہیں ہوں حوصلہ جو ثنا ء اُس کی لکھوں
پر سخن وروں کا یہ بھی دستور رہا ہے
مَیں بھی عاشق ہوں رئیسؔ حسان بن ثابت کا
پر ان جیسی نبی ؑ سے محبت کہاں سے لاؤں
شکریہ کے عنوان سے ڈاکٹر صمدانی کے یہ اشعار دیکھئے
مرقدتک میرے ساتھ آنے والو تمہارا شکریہ
میری خاطر زحمت اٹھانے والو تمہارا شکریہ
ہے اب جوسفر باقی کرلیں گے وہ تنہا ہی ہم
حوصلہ بڑھا کرلحد تک پہنچانے والو تمہارا شکریہ
اگلا پَڑاؤ ہے کٹھن اوررستہ بھی ہے اڑچن اڑچن
مغفرت کی دعا دینے والو تمہارا شکریہ
منزل اب قریب ہے سوال و جواب کی
کٹھن وقت میں ساتھ نبھا نے والو تمہارا شکریہ
بنا تھا جس خاک سے ر ئیس ؔ آپہنچی ہے منزل پہ وہ
مٹھی بھر خاک نجھاور کرنے والو تمہارا شکریہ
ڈاکٹر صمدانی کے اس شعر پر اپنی بات کو ختم کرتا ہوں۔ اﷲ تعالیٰ انہیں عمر
دراز عطا کرے۔ آمین
یوہی کبھی کسی دن اچا نک کام تمام ہوگا میرا
دیکھتے ہی رہ جائیں گے احباب حال میرا |
|