حکومت مارچ اور نصیبو

 انور مسعود ہمارے ملک کے نامور ہر دلعزیز اور معروف شاعر ہیں۔اردو اور پنجابی میں شعر کہتے ہیں اور واقعی سماں باندھ دیتے ہیں۔عموماََ مزاحیہ شاعری کرتے ہیں لیکن ان کی سنجیدہ شاعری کی سماعت کے دوران بھی بڑے بڑوں کی آنکھیں انسوؤں سے تر ہو جاتی ہیں۔خصوصاََ جب وہ اپنی مشہورِ زمانہ نظم "ماں"سناتے ہیں تو سامعین ماں کی اپنی اولاد کے لئے محبت اور پیار کو محسوس کر کے اور اولاد کی بے حسی اور بے اعتنائی دیکھ کے زارو قطار روتے ہیں۔اس نظم میں ایک کردار بشیرا دیر سے سکول آتا ہے تو استاد اس سے دیر سے آنے کی وجہ جاننا چاہتا ہے ۔بشیرا ایک اور ہم جماعت اکرم کی طرف اشارہ کر کے کہتا ہے کہ اس کی ماں ہمارے گھر آئی تھی۔اس کا منہ سوجھا ہوا تھا۔اس کے دانتوں سے خون بہہ رہا تھا۔اس بری حالت میں بھی جو اس کے بیٹے نے بنائی تھی، اسے اپنے زخموں دکھ اور تکلیف کا نہیں اس ناہنجار ہی کا خیال تھا اوراسے فکر تھی کہ میرا بیٹا بغیر ناشتہ کئے سکول چلا گیا ہے۔بھوک سے اس کا برا حال ہوگا ۔تم اس کا یہ ناشتہ اسے پہنچا دینا۔لوگ یہ نظم سنتے ہیں دھاڑیں مار کے روتے ہیں۔یہ ماں کی شخصیت کا ایک رخ ہے۔

دوسرا رخ عموماََ جس پہ بات نہیں کی جاتی وہ بہت مکروہ ہے۔ وہ بھی ماں ہی ہے جو اس معاشرے میں بیٹیوں سے پیشہ کراتی ہے۔ماں ہی اپنے بچے خود اپنے ہاتھوں سے قتل کرتی ہے اور ماں ہی چند ٹکوں کے عوض اپنے لختِ جگر بیچ بھی دیتی ہے۔آئے دن ہم یہ بھی سنتے ہیں کہ چھ بچوں کی ماں اپنے نورِ نظرزمانے کی ٹھوکروں کے حوالے کر کے آشنا کے ساتھ بھاگ گئی۔یہ تصویر کا دوسرا رخ ہے اور انتہائی مکروہ۔اسی کراہت کی بنیاد پہ ایسا کوئی واقعہ ہو بھی جائے تو اس پہ فوراََ مٹی ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ماں کے آفاقی تصور کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔پھر حکم اکثریت پہ لگتا ہے۔سو ماؤں میں سے ستانوے مائیں اکرم کی ماں جیسی ہوتی ہیں اور باقی کی تین یہ کریہہ حرکتیں کرتی ہیں۔

ریاست بھی کہتے ہیں کہ ماں جیسی ہوتی ہے۔اسے ماں جیسا ہونا چاہئیے۔ بچہ یعنی بد تمیز ہو۔اکھڑ ہو ضدی ہو ریاست اس کے سدھار کی ترکیب کرتی ہے۔اسے مزید سہولتیں رعائتیں اور پیار دیتی ہے تا کہ وہ راہِ راست پہ آ جائے۔ بعض اوقات تو اس کے ناجائز مطالبات تک مانتی ہے۔اتمامِ حجت نہیں کرتی حقیقتاََ معاملات میں سدھار لانے کی کوشش کرتی ہے۔

دنیا میں ایسی ریاستیں ہیں جو ماں کے جیسا سلوک اپنے شہریوں کے ساتھ کرتی ہیں۔ایسا انہی ریاستوں میں ہوتا ہے جہاں انصاف ہوتا ہے۔ جہاں انسانی حقوق کا خیال رکھا جاتا ہے۔جہاں مافیاز نہیں عوام کی حکمرانی ہے۔جہاں عوامی نمائندے عوام کو جوابدہ ہیں۔ایسی ریاستوں کی تعداد لیکن آٹے میں نمک کے برابر ہے۔اسے بدقسمتی کہئیے یا کچھ اور ایسی ریاستیں مسلمانوں کے ہاں کہیں نظر نہیں آتیں۔اکثر مسلم ریاستیں قبضہ گروپوں کے تسلط میں ہیں۔جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔اسی لئے جہاں کہیں کسی دوسرے طاقتور کو موقع ملتا ہے وہ عوام کو بے وقوف بنا کے پہلے حکمران کو ہٹا کے خود زمامِ اقتدار سنبھالتا ہے اور پھر وہی کچھ کرتا ہے جو پہلا حکمران کر رہا تھا۔عرب بہارمسلمانوں میں بیداری کی لہر نہیں تھی بلکہ یہ اسی نفرت کا شاخسانہ تھا جو مدتوں سے لوگوں کے دلوں میں پل رہی تھی اور جسے اغیار نے انتہائی خوبصورتی سے مسلمانوں کو مزید تقسیم در تقسیم کے لئے استعمال کیا۔یہی وجہ ہے کہ اب یہ سارا خطہ بد امنی کا شکار ہے بلکہ ٹوٹ پھوٹ کا۔اگلی نصف صدی تک یہ لوگ یونہی لڑتے رہیں گے۔مسلمانوں کی نشاطِ ثانیہ کا خواب خواب ہی رہے گا۔

پاکستان اسلامی دنیا کا وہ ملک ہے جو بہت مدت سے سامراج کے د ل میں کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے۔لولی لنگڑی ہی سہی،آمریت کے سائے ہی میں سہی لیکن یہاں بہرطور اقتدار میں عوام کی شرکت رہی ہے۔آمریت کے لئے غم و غصے کا وہ عالم نہیں جو ان عرب ریاستوں میں تھا۔یہی وجہ ہے کہ یہاں ابھی تک حالات قابو میں ہیں۔اب شاید وہ وقت آ گیا ہے جب پاکستان کو قابو کرنے کے لئے اندر کی طاقتوں کو استعمال کی کوشش کی جائے گی۔میں نہیں سمجھتا کہ عمران خان یا طاہر القادری دانستہ ان طاقتوں کے آلہ کار بنیں گے ۔خدا گواہ طاہر القادری اور عمران خان کا موقف بڑا واضح اور حقیقت پسندانہ ہے لیکن جائز مقاصد کے لئے شروع کی گئی کسی بھی تحریک کو غیبی امداد حاصل ہو گی۔ ماڈل ٹاؤن جیسا ایک آدھ واقعہ جلتی پہ تیل کا کام کرے گا۔ صرف حکومت نہیں جائے گی اس کے نتیجے میں ریاست کو خطرات لاحق ہوں گے۔عوام کو سڑکوں پہ لانا آسان ہے لیکن سڑک پہ انہیں قابو میں رکھنا ایک مشکل امر۔لاکھوں کے ہجوم میں کوئی بھی تخریبی کاروائی انتہائی آسان ہوتی ہے اس کے بعد پھر یہ بھس کی آگ ہے جو خود بخود پھیلتی چلی جاتی ہے۔

ریاست ماں کے جیسی ہوتی تو مذاکرات کا راستہ اختیار کرتی۔جائز مطالبات کو ماننے کی یقین دہانی کرواتی۔شفاف انتخاب کے لئے ملک کی دوسری سیاسی پارٹیوں کے ساتھ مل کے کوئی لائحہ عمل ترتیب دیتی۔حکومت لگتا ہے خود ملک کو انارکی کی طرف دھکیلنے میں غیر ملکی قوتوں کی آلہ کار ہے۔مذاکرات کی بجائے ابھی تک اس کے وزیر جلتی پہ تیل ڈال رہے ہیں۔احتجاج کرنے والوں کی شہہ دے رہے ہیں۔انہیں اکسا رہے ہیں کہ وہ باہر نکل کے دکھائیں۔رانا ثناء اﷲ مائنڈ سیٹ ابھی تک اس انتہائی خطرناک صورت حال کو نصیبو لعل کے" منجی تلے ڈانگ پھیردا ""سٹریٹیجی "کے تحت قابو کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔احتجاجی قیادت کو گرفتار کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔کیا سوچ پہ پہرے لگ سکتے ہیں۔کیا ضمیر گرفتار کئے جا سکتے ہیں۔حکومت کمزور وکٹ پہ ہے ۔کھیل جاری رکھنا ہے تو اسے ہی دانش سے کام لینا ہوگا۔ ہم حالتِ جنگ میں ہیں۔جنگ کے ہنگام نئے محاذ کوئی انتہائی بے وقوف سپہ سالار بھی اس وقت تک نہیں کھولتا جب تک اسے اپنی کامیابی کا دوسو فیصد یقین نہ ہو۔

احتجاجی سیاست کرنے والے بھی غور کر لیں کہ ان کے احتجاج کے نتیجے میں کہیں ملک کو نقصان تو نہیں پہنچے گا۔ اس تحریک میں بھی کہیں امریکی ڈالر ایک دم سے تو سستا نہیں ہو جائے گا جیسے تحریک نظام مصطفےٰ کے دوران سستا ہو گیا تھا۔کہیں نادانستگی میں ہم کسی دوسرے کے آلہ کار تو بننے نہیں جا رہے۔ حکومت پہ ذمہ داری البتہ بہت ہے۔حکومت اس کا سیاسی میدان میں مقابلہ کرے۔وقت پہ حق نہ دیا جائے تو پھر کچھ بڑھا کے دینا پڑتا ہے یا اپنا بھی چھن جاتا ہے۔مافیاز کی حکومت اب زیادہ دیر نہیں چل سکتی۔ عوام اقتدار میں شمولیت چاہتے ہیں۔وقت آ گیا ہے کہ انہیں اقتدار میں شامل کیا جائے۔چودہ اگست سے پہلے بلدیاتی انتخاب کا اعلان ،انتخابی اصلا حات پہ مذاکرات کا آغاز،ایک آل پارٹیز کانفرنس احتجاجی سیاست کے غبارے سے ہوا نکال سکتی ہے۔مجھے یقین ہے کہ عمران خان خود بھی اب اس دیو ہیکل احتجاجی تحریک سے پریشان ہیں اور انہیں سمجھ نہیں آرہی کہ وہ اس جن کو کیونکر قابو میں لائیں۔حکومت اس سلسلے میں ان کی مدد کر سکتی ہے۔ رہے طاہر القادری تو وہ خانہ زاد ہیں اور اگر کسی کے ایجنڈے پہ نہیں تو ایک "جادو کی جھپھی"انہیں قابو کرنے کو کافی ہے لیکن گردن میں اتفاق کا سریا ڈالے حکمران یہ کر سکیں گے؟لگتا تو نہیں پر شاید
Malik Abdul Rahman jami
About the Author: Malik Abdul Rahman jami Read More Articles by Malik Abdul Rahman jami: 283 Articles with 268398 views I am from Abbottabad presently living at Wah.I retired as Lt Col from Pak Army. I have done masters in International Relation and Political Science. F.. View More