بچوں کی پرورش

دنیا کے ہر ماں باپ کیلئے ان کا بچہ نہایت اہم ہوتا ہے اور تمام بچے معصوم اور اچھے ہوتے ہیں لیکن ان کی پرورش کرنا والدین کے لئے نہایت کٹھن اور صبر آمیز عمل کے علاوہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے دوران پرورش اکثر والدین کو مختلف واقعات کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے اور کئی بار وہ اپنے آپ کو بے یار ومددگار بھی سمجھنے لگتے ہیں کیونکہ بچے ان کا کہا نہیں مانتے اور ضد کرتے ہیں یہ ہی وہ لمحات ہوتے ہیں جب والدین کو صبر اور برداشت کا دامن نہیں چھوڑنا چاہئے بلکہ بچوں کو پیار و محبت، اخلاق سے سمجھانے کی کوشش کرنی چاہئے نہ کہ مار پیٹ سے۔

مغربی ممالک میں بچوں کی پرورش ڈسپلن اور نظام کے تحت کی جاتی ہے جس میں وقت کا ایک اہم کردار ہے مثلاً وقت پر انہیں کھلانا پلانا، سیر و تفریح کرانا، ہوم ورک سے لے کر سونے کا بھی وقت مقرر کر رکھا ہے بظاہر یہ سب ایک مشینی زندگی دکھائی دیتی ہے لیکن اسی مشینی نظام کے تحت ہی یہ بچے پروان چڑھتے اور وقت کی قدر کرنے کے ساتھ خاص طور سے والدین کے تعاون سے زندگی گزارتے ہیں۔

جبکہ پاکستان یا دیگرایشین ممالک میں وقت کی قدر نہیں کی جاتی اور جب جی میں آتا ہے بے ربط و ضبط طریقے سے زندگی گزارے کو ترجیح دی جاتی ہے جس سے والدین اور بچوں کے مابین چپقلش یا کون فلکٹ پیدا ہو جاتا ہے اور انہیں وجوہات پر بچے والدین سے تعاون نہیں کرتے۔ اکثر والدین کی زبان پر یہ شکوہ صبح و شام رہتا ہے کہ بچے کہنا نہیں مانتے اپنی بات منوانا چاہتے ہیں اور اگر ان کی بات نہ مانو تو ضد کرتے ہیں انہیں ماں باپ کا کوئی خیال نہیں ہوتا وغیرہ وغیرہ۔والدین کو سوچنا چاہئے کہ بچے بچپن کے جس دور سے گزر رہے ہوتے ہیں وہ ان کے سیکھنے کا دور ہوتا ہے آپ بچوں کے ساتھ جس طریقے سے بھی پیش آئیں اس عمر میں وہ آپ کے رویوں سے کوئی نتیجہ اخذ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ،بیشتر ماؤں کا یہ خیال ہوتا ہے کہ غصہ اور ڈانٹ ڈپٹ سے وہ شرارتی اور ضدی بچوں کو قابو کر سکتی ہیں لیکن یہ ان کی غلط فہمی ہوتی ہے کہ بچہ مار پیٹ سے سبق حاصل کرے گا اور اپنی ضد یا شرارت چھوڑ دے گا انکی یہ کوشش عارضی ہوتی ہے کیونکہ بچے پھر اپنی ڈگر پر چل پڑتے ہیں اورپھر ماؤں کی جانب سے یہ الزام عائد ہوتا ہے کہ وہ ڈھیٹ ہو گئے ہیں۔

ماہر نفسیات ان چار نکات پر زور دیتے ہیں۔تخلیق۔ٹیم ورک ۔آزاد سوچ و عمل۔دو طرفہ تعاون۔

تخلیق سے مراد یہ ہے کہ بچوں کے سامنے کبھی منفی گفتگو نہ کی جائے اور ہمیشہ تعمیری یا تخلیقی مثالیں دیں جائیں ۔ٹیم ورک سے یہ مراد ہے کہ بچے کی پرورش میں ماں اور باپ دونوں کی شمولیت لازمی ہے ۔آزاد سوچ اور عمل سے آپ بچوں کی دلجوئی اور حوصلہ افزائی کرنے میں قدم بہ قدم ساتھ رہیں۔ اور دو طرفہ تعاون سے یہ مراد ہے کہ جب تک آپ بچوں سے تعاون نہیں کریں گے وہ اپنے آپ کو اکیلا محسوس کریں گے اور ان کے مستقبل پر گہرا اثر پڑ سکتا ہے ۔ماہرین کا کہنا ہے کہ بچے کی پرورش اس طرز پر کی جائے جس سے اس کی شخصی آزادی متاثر نہ ہو، بچے کی شخصیت(پرسینالٹی) کی تکمیل کیلئے ضروری ہے کہ والدین ہمیشہ اپنی بات کو فوقیت نہ دیں بلکہ بچے کی رائے کا بھی خیر مقدم کریں بچے کیلئے صحیع اور غلط کا فیصلہ ہمیشہ خود کرنے کی بجائے بچے کو صحیع اور غلط میں فرق کرنا سکھائیں تاکہ وقت پڑنے پر وہ اپنے لئے بہترین فیصلہ کر سکے ،والدین کا فرض ہے کہ بچے میں چھپی صلاحیتیں باہر لانے میں اسکی مدد کریں بحیثیت والدین بچوں کو سوچنے پر مجبور کریں نہ کہ بچے کو محض ایک روبوٹ بنائیں جو صرف آپ کے اشاروں پر چلے، بچے کی شخصی آزادی مجروح کئے بغیر اس کو ایک پر اعتماد انسان بنائیں جو ایک مضبوط قوت ارادی اور قوت فیصلہ کا مالک ہو ،اس عمل سے آپ دیکھیں گے کہ بچہ نہ صرف آپ کا فرمانبردار اور تابعدار ہے بلکہ ایک مکمل اور بہترین شخصیت بھی جو معاشرے میں اپنا کردار بخوبی نبھا سکتا ہے، زور زبردستی سے بچے فرمانبردار تو ضرور بن جاتے ہیں مگر خود اعتمادی کی کمی کے باعث مزاحمت نہیں کر پاتے اس لئے ایک وقت ایسا آتا ہے کہ بچے راہ نجات اختیار کرنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں یا باغی ہو جاتے ہیں ۔بچوں کو ڈانٹ یا مار کر اپنی بات منوانا مسئلے کا حل نہیں،یاد رکھیں بچوں کی غلطی پر طنز کرنے اور ان کو طعنہ دینے کی بجائے اگر آپ انہیں واضح الفاظ میں بتا دیں کہ آپ کیا چاہتے ہیں تو وہ آپ کی بات پر غور کریں گے بچے عمل کیلئے ہر وقت تیار رہتے ہیں انہیں صحیع ہدایات کی ضرورت ہوتی ہے ، یہ کسی صورت میں ممکن نہیں کہ آپ بچوں کو ماریں پیٹیں ،طعنے دیں، طنز کریں اور یہ بھی چاہیں کہ وہ آپ کی ہر بات پر چوں چرا عمل کریں ۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ بچوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کیلئے اخلاق ، پیا ر ومحبت سے واضح الفاظ میں مخاطب ہوں کہ ہم آپ کی تھوڑی توجہ چاہتے ہیں کیا آپ ہماری بات سنیں گے وغیرہ وغیرہ۔ بچوں کے ساتھ ایسا رویہ اختیار کریں کہ آپ کو ان سے کہنا منوانا نہ پڑے بلکہ وہ خود بخود آپ کا کہنا مانیں ،انہیں غیر ضروری لیکچر نہ دیں ، حکم چلانے کی بجائے پیار سے درخواست کریں جس سے وہ آپ کی ہر بات مانیں گے اور جب بچے آپ کی بات پر عمل کریں تو انکی حوصلہ افزائی کریں تاکہ وہ ہمیشہ آپ کا کہا مانتے رہیں ۔

بچوں کی نفسیات اور والدین کے فرائض ۔جرمنی میں اس ٹائٹل پر گزشتہ سال ایک کتاب کی نمائش ہوئی جس میں ماہرین نے چند ایسے زرین اصول بتائے جن پر عمل کرنے سے نہ صرف والدین بچوں سے مطلوبہ تعاون حاصل کر سکتے ہیں بلکہ انہیں ایک پر اعتماد شخصیت بھی بنا سکتے ہیں ۔ 1۔بچوں سے تعاون کریں اور کروائیں بچوں کو محض حکم نہ دیں نہ ان پر حکم چلائیں ۔2۔بچوں کو بہت پیار اور توجہ سے سنیں بیچ میں نہ ٹوکیں ان کو اپنی بات ضرور پوری کرنے دیں ان کے مسائل سنے بغیر حل تجویز نہ کریں ۔3۔ بچوں سے تعاون حاصل کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ آپ بچوں کو آرگومینٹ دے کر سمجھائیں نہ کہ کسی بات پر جھنجھلا کر سزا دیں ۔ 4 ۔ والدین بچوں کے لئے لیڈر کی حیثیت رکھتے ہیں جس کا کام بچوں کو صحیع اور درست سمت میں رہنمائی کرنا ہے نہ کہ ان سے زبردستی اپنے مطالبات منوانا ۔ 5۔بچوں کو کنٹرول کرنے کیلئے مار پیٹ کی بجائے ان کو محدود وقت یا الٹی میٹم دیں اور خبردار کردیں اگر انہوں نے اس عرصے میں اپنی غلطی نہیں سدھاری تو پھر وہ سزا کے مستحق ہونگے ۔یاد رکھئے جب بھی بچے کنٹرول سے باہر ہوتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کہیں نہ کہیں انکی بنیادی ضرویات کو نظر انداز کیا گیا ہے ۔اس بات کو ذہن نشین کرنا لازمی ہے کہ اپنے بچے کا موازنہ کسی دوسرے بچے سے مت کریں مثال کہ طور پر یہ مت کہیں کہ فلاں کا بچہ ایسا ہے اور تم اس جیسے نہیں،یہ غیر ضروری موازنہ بچے کو احساس کمتری میں مبتلا کر سکتا ہے اس کے ناپختہ ذہن میں بچپن سے ہی ایسی باتیں ڈالنے سے گریز کریں کیونکہ قدرتی طور پر ہر بچہ دوسرے سے مختلف ہوتا ہے اسی طرح ہر بچے میں مختلف صلاحیتیں پائی جاتی ہیں ،ہر غلطی پر بچے کی سرزنش نہ کریں اور سب کے سامنے تو بالکل نہیں بچے غلطی کرتے ہیں اور پھر انہیں غلطیوں سے سیکھتے ہیں۔

آج کے ترقی یافتہ دور نے والدین پر ذمہ داریوں کا بوجھ مزید بڑھا دیا ہے اب بچوں کے مشاغل میں اضافے کی وجہ سے غیر ضروری سرگرمیوں پر نظر رکھنا بھی والدین کی ذمہ داریوں میں شامل ہو گیا ہے کیونکہ کومپیوٹر ،انٹرنیٹ موبائل فونز کے رحجان سے والدین کی ذمہ داریاں کئی گنا بڑھ گئی ہیں ۔دیکھا جائے تو بچوں کو جدید ٹیکنالوجی سے روشناس کروانا بھی ایک ذمہ داری اور فرائض میں شامل ہو گیا ہے کیونکہ جو والدین اپنے بچوں کو ان جدید آلات سے آگاہ نہیں کرتے وہ بچوں کی ذہنی نشو نما اور سیکھنے کے عمل کو روک دیتے ہیں نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ بچے محدود معلومات کے سبب دیگر بچوں کی طرح معلومات اور رائے کا اظہار نہیں کر پاتے اسلئے آج کے ترقی یافتہ دور میں بچوں کو ان آلات سے محروم رکھنا عقلمندی نہیں بلکہ عقلمندی یہ ہے کہ انہیں تمام سہولتیں فراہم کی جائیں لیکن ان کے مشاغل اور سرگرمیوں پر گہری نظر بھی رکھیں ۔بلاشبہ کمپیوٹر دور جدید کی مؤثر ایجاد ہے لیکن اس کے بھی منفی اور مثبت دونوں پہلو ہیں ،کمپیوٹر کے علاوہ موبائل فون کا استعمال بھی بچوں میں تیزی سے بڑھ رہا ہے بچوں میں سمجھ بوجھ آتی نہیں کہ والدین انہیں موبائل فون تھما دیتے ہیں ،یہ ضروری نہیں کہ آپ اپنے بچے کی ہر جائز و ناجائز فرمائش پوری کریں ۔یاد رہے کہ حد سے زیادہ آزادی بھی بگاڑ کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے، والدین کا فرض ہے کہ شعور آنے تک انہیں موبائل فون دینے سے گریز کریں اسکا حد سے زیادہ استعمال صحت اور تعلیم دونوں کو متاثر کر سکتا ہے ۔ ترقی کے اس دور میں والدین بچوں کو کمپیوٹر انٹر نیٹ اور موبائل جیسی سہولتوں سے محروم نہیں کر سکتے اسلئے والدین بچوں کو جدید آلات سے ضرورروشناس کروائیں لیکن ساتھ ہی ان کے مثبت اور منفی پہلوؤں سے آگاہ بھی کریں اور ان پر کڑی نظر رکھیں کیونکہ کھلی چھوٹ دینا ان کیلئے مضر ہے بلکہ کوشش کریں کہ ابتدا ہی سے ان کی تربیت اس انداز سے کریں کہ وہ خود اچھائی اور برائی میں تمیز کرنا سیکھ جائیں اس کے ساتھ ساتھ بچوں کو کمپیوٹر اور موبائل فون پر فالتو وقت گزاری کے بجائے باغبانی، تارئخی ،جغرافیائی کتابیں پڑھنا ، کھیل کود جیسے مشاغل اپنانے کی ترغیب دیں تاکہ وہ اخلاقی اور سماجی برائیوں سے بچ سکیں ۔
Shahid Shakil
About the Author: Shahid Shakil Read More Articles by Shahid Shakil: 250 Articles with 246411 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.