اعلیٰ اوصاف
(Mansha Fareedi, Dera Ghazi Khan)
اچھے اوصاف کے حامل افرادی ہی
اعلیٰ مقام پا سکتے ہیں ۔ ’’ اوصاف ‘‘ وصف کی جمع ہے ۔ جو خوبی کے معنی کے
طور پر لیا جاتا ہے ۔ اچھی اور نیک خوبی کے خوگر لوگ ہی ان مقامات پر فائز
ہو سکتے ہیں ۔ ہاں ۔۔۔۔ جو ان ’’ اوصاف ‘‘ کے متلاشی نہیں انہیں یہ مقامات
و مراتب حاصل ہی نہیں ہو سکتے ۔ ضروری امر ہے کہ اچھے ’’ اوصاف ‘‘ کی تلاش
اور جستجو جاری رکھی جائے تاکہ دنیا اور دنیا والوں کی نظر میں اپنی
امتیازی حیثیت بر قرار رہ سکے ۔ یہ الگ بات کہ عموماً اہل دنیا ان ’’اوصاف
‘‘ کو خاطر میں نہیں لاتے بلکہ بد عنوانی وغیرہ ان کے پسند یدہ عنوانات ہیں
۔
ہمارے ہاں ’’ اوصاف ‘‘ کو جانچنے کا پیمانہ ایک نہیں مختلف ہیں۔ کچھ لوگوں
کے نزدیک محض حصول دولت کے گر بہترین ’’اوصاف ‘‘ ہیں جن کے ذریعے اعلیٰ
مقامات تک رسائی ہوسکتی ہے ۔ جبکہ کوکچھ لوگ دکھا وے کی عبادت ( ریا کاری)
کو اچھا وصف قرار دیتے ہیں ۔ معاشرے میں یہ بدعت عام ہے کہ جھوٹی سیاست پر
مبنی جھوٹے سیاسی دعووں ، وعدوں اور نعرہ بازی کو مراتب کے حصول کے کلیئے
تصور کیے جاتے ہیں ۔ ان تمام باتوں کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ لیکن
سچائی کچھ اور ہی ہے ۔ زندگی میں ایک ایسا مو ڑ بھی آجاتا ہے کہ جہاں ان
اصولوں سے بھی یقین اٹھ جاتا ہے ۔ تو ایسے میں پریشان حال اور غیر مطمئین
انسان اس سچائی کی تلاش میں سنجیدہ ہو جاتا ہے جو اسے اطمینان قلب عطا کرے
یعنی وہ اس مرتبے سے تنگ آ جاتا ہے جو اسے بد عنوانی سے کمائی ہوئی دولت ،
جھوٹی سیاست کاری اور دکھاوے کی عبادت سے حاصل ہو چکا ہوتا ہے ۔( آج کا
انسان جھوٹی انا کی خاطر ذہنی سطح پر شدید خلفشار کا شکار ہے ) ۔ ان صورتوں
میں انسان اصلی ترازو کی ضرورت محسوس کرتا ہے ۔جو اسے اچھے اوصاف کے حصول
کیلئے رہنمائی کرے ۔ اچھے ’’ اوصاف ‘‘ کے حصول کی تلاش اور جستجو میں یہ
خیال بھی ہے کہ انسان ایک طرح سے گناہ مسلسل کامرتکب ہے ۔ یہاں جو سرمایہ
دار انہ نظام چل رہا ہے وہ ظلم کے زمرے میں آتا ہے ۔ رائج سرمایہ دارانہ
نظام اپنے سے کمزور عوام ( بے زبان جانوروں ) کے اجسام سے خون کو نچوڑنے کا
عمل ہے اس سے مرادیہ لی جاتی ہے کہ بڑی مچھلی چھوٹی مچھلیوں کو کھا ئے جا
رہی ہے ۔ یہ دونوں عمل مساوی ہیں ۔ اسی طرح اگر موجودہ سیاسی نظام پر تبصرہ
کیا جائے تو اس کے نتائج بھی حسب توقع دیگر رائج Systemsکے مساوی ہیں ۔ اگر
آج کا انسان اپنی اصلاح کے عمل کی ریاضت اور محنت شاقہ سے خود کو گزارے تو
مطلوبہ اہداف جو راست سمت ہے کے تعین میں آسانی پیدا ہو سکتی ہے ۔ اپنے
اندر کی سیاہی کو اگر نیت کی سچائی کے ذریعے زیر کرنے کے ارادے کو اخلاص
اور صدق دل سے عملی جامہ پہنانے کی سعی کی جائے تو یقینا سر خروئی حاصل ہو
سکتی ہے ۔ شرط پھر بھی سچائی ہے کھوٹ اور ملاوٹ نیتوں کو زنگ آلودہ کردیتے
ہیں ۔ جب ہمارے ذہنوں میں جھوٹا رعب و دبدبہ پانے کی ہوس ہوگی تو اس صورت
میں سچائی کا اعلیٰ مقام و مرتبہ حاصل ہوگا ۔ ۔۔۔۔؟ یقینا یہ وہ خواب ہے جو
کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا ۔ مقدس اور اعلیٰ ’’اوصاف ‘ سے مقام و مرتبہ
کسی بھی بد خواہ اور ابلیسی فکر کے ہاتھوں پامال نہیں ہوسکتا ۔ اعلیٰ’’
اوصاف ‘‘ نیتوں کی سچائی کے نتیجے میں ملتے ہیں ناکہ بغض و حسد کی فنکاریوں
کے ذریعے۔۔۔۔ً ! کیونکہ روباہی ( لومڑی کی سی عیاری) تمام عمر ذلت و رسوائی
کی دلدل میں دھکیل دیتی ہے ۔ مذہب اور ذہنی سطح پر ترقی یافتہ شعور (
معاشرے ) خوشامد اور چاپلوسی کو ملعون قرار دیتے ہیں ۔ خواہ دنیا میں اعلیٰ
ترین عہدہ بھی میسر ہو ۔ |
|