تعلیم کی اہمیت سے کوئی بھی شخص
انکارنہیں کر سکتا۔معاشرے اور اقوام کی ترقی میں تعلیم کو مرکزی اہمیت حاصل
ہے۔اسلام میں حصول علم ایک فرض کی حیثیت رکھتا ہے۔ قرآن کریم میں بار بار
حصول علم کی تاکید کی گئی۔ وحی کی ابتداء ہی اقراء کے لفظ سے ہوئی۔ تاریخ
شاہد ہے کہ وہی قوم ترقی کرتی ہے جس کے افراد زیور علم سے آراستہ ہوں۔ سچ
تو یہ ہے کہ بغیر علم کے انسان خدا کو بھی نہیں پہچان سکتا اور نہ ہی دنیا
کا کوئی کام صحیح طور پر انجام دے سکتا ہے۔حصولِ علم کی ترغیب ہمیں ہمارے
پیارے نبی ﷺ کے مبارک فرمانِ عالیشان سے بھی ملتی ہے چنانچہ ایک حدیث پاک
کا مفہوم ہے کہ علم حاصل کرواگرچہ تمہیں چین جانا پڑے۔(شعب الایمان، الحدیث۱۶۶۳،
ج۲، ص۲۵۴)اِس (حدیثِ پاک)سے علمِ دین کی بے انتہا اہمیت ثابت ہو تی ہے کہ
اُس زمانہ میں جبکہ ہوائی جہاز،ریل اور موٹر نہیں تھے، عرب سے ملکِ چین
پہنچنا کتنا مشکل کام تھا مگر ہمارے نبی کریم ﷺارشاد فرما رہے ہیں کہ اگرچہ
تم کو عرب سے ملک چین جانا پڑے لیکن علم دین ضرور حاصل کرو اس سے غفلت ہر
گز نہ برتو۔
علم شمع زندگی ہے، علم تنویر حیات
علم سے تسخیر ہوتی ہے ساری کائنات
اوکھائی میمن برادری کی نئی نسل کی تعلیمی میدان میں کارکردگی کا اندازہ
اوکھائی میمن برادری کی 2006-07میں ہونے والی مردم شماری کے اعداد و شمارکے
ذریعے کیا جاسکتا ہے ۔ اس سروے رپورٹ کے مطابق برادری میں ان پڑھ لوگوں کا
تناسب تقریباً ۶ فیصد، پرائمری تک تعلیم حاصل کرنے والوں کا تناسب
تقریباً۲۵ فیصد، مڈل تک تعلیم حاصل کرنے والوں کا تناسب تقریباً ۲۲ فیصد،
میٹرک پاس کرنے والوں کا تناسب تقریباً۱۶ فیصد ہے جبکہ انٹرمیڈیٹ پاس
طالبعلموں کا تناسب تقریباً ۹ فیصد ہے جبکہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والوں کا
تناسب تقریباً ۶ فیصد ہے۔ان اعداد و شمار کی مدد سے معلوم ہوتا ہے کہ
اوکھائی میمن برادری کا تعلیمی میدان میں کردار خاطر خواں نہیں ہے ۔اس کے
علاوہ اوکھائی میمن برادری میں ڈاکٹر، انجینئر، وکیل اور جرنلسٹ بھی ہمیں
گنتی کے ہی ملیں گے جبکہ خواتین میں بھی وکیل ، لیڈی ڈاکٹر یاانجینئر کا
تناسب نہ ہونے کے برابر ہے۔
اٹھو کہ حشر نہ ہوگا پھر کبھی
دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا
اوکھائی میمن برادری کی نئی نسل کی تعلیمی میدان میں غیر تسلی بخش کارکردگی
کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اوکھائی میمن برادری کے چند ایک لوگ اپنی نوجوان
اولادوں کو اعلیٰ تعلیم سے روکتی ہے کہ اگر بیٹاتعلیم حاصل کرنے لگا تو اس
کا کاروبار کون سنبھالے گا اور دوسری طرف معاشی تنگی کی بناء پر اسے کام پر
لگا دیا جاتا ہے جبکہ وہ زبردست صلاحیتوں کا مالک ہوتا ہے۔اس کے بر عکس جن
کے والدین باشعور سوچ کے مالک ہوتے ہیں توان کی اولاد بھی تعلیم جیسی دولت
سے مالا مال ہو کر معاشرے میں باوقار زندگی گزارتی ہے۔
اوکھائی میمن برادری تعلیم نسواں کے حوالے سے بھی بہت کمزور ہے ۔ یہی وجہ
سے اوکھائی میمن برادری میں بہت سی ایسی خواتین بھی ہیں جنہوں نے کبھی
اسکول کی شکل تک نہیں دیکھی ۔جو خود تعلیم سے محروم ہوں وہ معاشی حالات و
مسائل کا مقابلہ کس طرح کر سکیں گی۔ عورت برے حالات میں گھر کا سہارا بن
سکتی ہے۔تعلیم کی بدولت اپنے خاندان کا دکھ بانٹ سکتی ہے۔
خواہشوں سے نہیں گرتے پھل جولی میں
وقت کی شاخ کو تادیر ہلانا ہوگا
کچھ نہیں ہوگا اندھیروں کو برا کہنے سے
اپنے حصے کا دیا خود ہی جلانا ہوگا
اوکھائی میمن برادری میں اعلیٰ تعلیم کے حوالے سے بہترین سہولتیں موجود ہیں
مگران اسکیموں سے خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھایا جاتالہذا ضرورت اس امر کی ہے
کہ ان بہترین اسکیموں سے فائدہ اٹھایا جائے تاکہ اس کے دو رس نتائج برآمد
ہوسکیں اور برادری تعلیم کے میدان میں ترقی کر سکے۔ برادری میں تعلیم کے
فروغ کے لیئے اوکھائی میمن یوتھ سروسز کا قیام 1969 عمل میں لایا گیا مگر
43سال گزر جانے کے بعد بھی اس کے ممبران کی تعدادتقریباً 1900ہے ۔ اگر
برادری کی مردم شماری رپورٹ پر نگاہ دوڑائی جائے تو برادری میں میٹرک اور
اس سے زائد پڑھے لکھے افراد کے تناسب کو دیکھتے ہوئے یہ بات وثوق سے کہی جا
سکتی ہے کہ یہ تعداد غیر تسلی بخش ہے۔تعلیمی میدان میں ترقی کرنے کے لیئے
برادری کو اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ اوکھائی میمن یوتھ سروسز
کومزید استحکام ملے اور یہ تنظیم زیادہ مضبوطی سے برادری کی فلاح و بہبود
کے لیئے کام کرسکے۔علاوہ ازیں اگر ہم تعلیمی میدان میں ترقی کے خواہاں ہیں
تو ہمیں کاروبار کیساتھ ساتھ تعلیم کو بھی اپنانا ہوگا۔ اس ضمن میں تمام
برادری کی ذمہ داری ہے کہ وہ تعلیمی میدان میں آگے بڑھیں خصوصاً برادری کے
والدین اپنی اولاد کو اعلیٰ تعلیم دلوانے کی ہر ممکن کوشش کریں کیونکہ
مشاہدے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ کنبہ میں کسی ایک فرد کے اعلیٰ تعلیم
یافتہ ہو جانے سے آئندہ آنے والی نسلیں معاشی خوشحالی سے مستفید ہو جایا
کرتی ہے۔ اوکھائی میمن برادری کی فلاحی تنظمیوں کی جانب سے برادری میں اہم
سنگ میل عبور کرنے والے طالبعلموں کووقتاً فوقتاً مراعات سے نوازا جاتا ہے
مگر اکثر دیکھا گیا ہے کہ اوکھائی میمن یوتھ سروسز کے گولڈ میڈلسٹ برادری
کی فلاح و بہبود کے حوالے سے آگے نہیں آتے۔اگر اوکھائی میمن برادری کے
اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ صرف کھنڈی سطح پر بھی اپنی مصروفیا ت میں سے کچھ وقت
نکال کرکھنڈی کے کم پڑھے لکھے افرادکواپنے تجربے کی روشنی میں مفید مشورے
فراہم کریں تو اس سے برادری کے لوگوں میں تعلیم کی ایک لہر دوڑ سکتی ہے
کیونکہ ایک تناور درخت لگانے کے لیئے سب سے پہلے ایک چھوٹے سے پودے کو
اگانا ضروری ہے۔
افراد کے ہاتھوں میں ہیں اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ |