آج مسلمان فلسطین میں اسرائیل کی
بربریت کا نشانہ بنے ہوئے ہیں گذشتہ روز فلسطین فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام
لاہور کے ایک مقامی ہوٹل میں ایک سیمنار ہو رہا تھا جس میں مختلف مقررین جن
میں سیاسی اور مذہبی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے علامء کرام جناب علامہ
ابتسام الہی ظہیر،مولانا عبدالخبیر آزاد ،مولانا امجد خان،پیر محفوظ مشہدی
،مولانا محمد خان قادری نوجوان سکالر ڈاکٹر تنویر قاسم،امجد گولڈن اور جناب
خرم نواز گنڈہ پور نے اسرائیلی مظالم کی بھر پور مذمت کی جبکہ علماء کرام
نے کہا کہ فلسطین کے نہتے مسلمانوں پر مظالم کرنے والے ظالموں کے خلاف جہاد
فرض ہوچکا ہے مقررین اپنی اپنی باری پر اپنا غم وغصہ نکال رہے تھے اور میں
انکے بارے میں سوچ رہا تھا کہ جو پاکستان میں اسلام کا لبادہ اوڑے خود کش
بمبار تیار کرتے ہیں اور انہیں کبھی مساجد میں کبھی امام بارگاہوں میں تو
کبھی درگاہوں میں بے گناہ اور معصوم مسلمانوں کے خلاف جہاد کرنے بھیج دیتے
ہیں کیا یہ بھی تو کہیں یہودیوں کے ایجنٹ تو نہیں ہیں جو اسلام کو دنیا میں
اس طرح بدنام کررہے ہیں کہ مسلمان اور بلخصوص سنت رسول رکھے ہوئے داڑھی
والا شخص دنیا بھر میں مشکوک سمجھا جانے لگا ہے اور اب تو پاکستان میں بھی
داڑھی والے شخص کو ہمارے مسلمان بھائی شک کی نظروں سے دیکھنا شروع ہو گئے
ہیں کیونکہ ان دہشت گردوں نے اپنے حلیے ہی اس طرح بنا لیے تھے کہ جس طرح
ایک سچے اور پکے مسلمان کا حلیہ ہو تا ہے اب فلسطین میں مسلمانوں پر ظلم کے
پہاڑ توڑے جارہے ہیں ننھے معصوم بچوں کے پیٹ چاک کرکے بے دردی سے شہید کیا
جارہا ہے خواتین سے بدتمیزی اور بزرگوں کو داڑھی سے پکڑ کر گھسیٹا جارہا ہے
غزہ کے معصوم مسلمان مدد کے لیے پکاررہے ہیں تو ہمارے یہ نام نہاد اسلام کے
ٹھیکیداراب اسرائیل کے خلاف جہاد کیوں نہیں کرتے اپنے خود کش بمباروں کو
پاکستانی فوج کے جوانوں کی طرف بھیجنے کی بجائے اسرائیلی غنڈوں کی طرف کیوں
نہیں بھیجتے جو سرعام مسلمانوں کا قتل عام کررہے ہیں اور اس وقت جس بھی ملک
،مذہب اور قوم کے لوگ یا حکومت ا سرائیل مظالم کے خلاف اپنی زبان بند کرکے
گونگے اور بہرے بنے بیٹھے ہیں وہ بھی انہی یہودیوں کے ایجنٹ ہیں کیونکہ
مسلمان مسلمان کا بھائی ہے اور اگر ایک بھائی تکلیف میں ہوتو دوسرے بھائی
کو کیسے صبر اور سکون آسکتا ہے اور جواس وقت مسلمانوں پر مظالم ڈھا رہا ہو
انہیں شہید کررہا ہو خواہ وہ پاکستان کے نام نہاد مذہبی رہنماء ہو جو
طالبان جیسے دہشت گردوں کے ساتھی ہیں اور انکی پشت پناہی کررہے ہیں یا
اقوام متحدہ جیسا منافق ادارہ ہو جسے مسلمانوں پر مظالم نظر نہیں آرہے اور
وہ خاموشی سے مسلمانوں کو شہید ہوتے دیکھ رہا ہے وہ سب یہودی لابی کا حصہ
ہیں اسلام دشمن قوتوں نے ایک طرف پاکستان میں اسلام کو جہاد کے نام پر
بدنام کررکھا ہے تو دوسری طرف معصوم مسلمانوں کو جہادیوں سے دور رکھا جارہا
ہے اور ان تمام مظالم کو دیکھتے ہوئے ہمارے مسلم ممالک کے حکمران بھی خاموش
اور تماشائی بنے ہوئے ہیں بعض اوقات تو یہ ہمارے حکمران ایسے محسوس ہوتے
ہیں کہ جیسے یہ چابی والے کھلونے ہوں کیونکہ جیسے ہی انہیں کسی طرف سے چابی
دی جاتی ہے تو یہ فر فر بولنا شروع کردیتے ہیں مگر یہ اس وقت بولتے ہیں جب
انہیں بولنے کے لیے کہاجاتا ہے میں واپس پھر اسی سیمینار کی طرف آتا ہوں
جہاں پر فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان کے ترجمان صابر کربلائی نے کہا تھا کہ
ہمیں بطور مسلمان ہوتے ہوئے اپنے ان مظلوم مسلمان بھائیوں کے ساتھ اظہار
یکجہتی کرتے ہوئے یہ تو کرنا چاہیے کہ ہم یہودیوں کی بنی ہوئی اشیاء کا
بائیکاٹ کردیں کیونکہ وہ انہی اشیاء کے منافع سے حاصل ہونے والی رقم ہمارے
فلسطینی بھائیوں کے خلاف استعمال کرتے ہیں انکی یہ بات بلکل درست ہے مگر
ہمارے رسول ؐ نے فرمایا تھا کہ جس نے ملاوٹ کی وہ ہم سے نہیں ہے اس لیے
پاکستان میں رہتے ہوئے جو نام نہاد مسلمان ہمیں غیر معیاری اور ملاوٹ والی
اشیاء فروخت کررہے ہیں وہ بھی ہمارے دشمن ہیں کیونکہ انکی غیر معیاری اشیاء
سے ہمارے مسلمان بھائی مختلف بیماریوں کا شکار ہو کر موت کی نیند سو چکے
ہیں ایک طرف سے یہودی ہمارے مسلمان بھائیوں کو شہید کررہے ہیں تو دوسری طرف
ہم میں ہی موجودہمارے دشمن ملاوٹ کے زریعے غیر معیاری اشیاء بنا کر ہمیں
موت کی نیند سلا رہے ہیں ہمارے دونوں دشمن ہیں اور ان دشمنوں کا ہم نے اگر
آج ڈٹ کر مقابلہ نہ کیا تو پھر کل کو آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں
گی کیونکہ ہم نے اپنی ذمہ داری کو پورا نہیں کیا اور اہم بات وہ یہ ہے کہ
امریکہ میں غزہ کیخلاف سب سے بڑا جلوس یہودی نکال رہے ہیں ہم یہاں نقل
مکانی کرنے والے بھائیوں کو بھولے بیٹھے ہیں اور شدید گرمی کے موسم میں
اپنے ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر متاثرین غزہ کی تصاویر اپ لوڈ کرکے خوب جہاد
کررہے ہیں واہ کیا بات ہے ہمارے ٹھنڈے جہاد کی۔ |