صحافی فیض اﷲ خان کو سز اور افغان حکومت کی احسان فراموشی

افغانستان نے پاکستانی پختون صحافی فیض اﷲ خان کو غلطی سے سرحد پار کرنے کے جرم میں چار سال کی سزا سنا کر احسان فراموشی کی حد تمام کردی ۔فیض اﷲ خان ، کراچی کے ان ملنسار اور انسان دوست غیر جانبدار صحافی ہیں ، جو کراچی کے بدترین حالات میں بھی مثبت اور غیر جانبداری سے پیشہ وارنہ سرگرمیاں سر انجام دیتے رہے ہیں۔

کراچی کے غیور و بہادر شہید صحافی ولی خان بابر کی شہادت کی بعد ایک لسٹ حساس اداروں کی جانب سے آئی تھی ، جس میں سابق وزیر داخلہ عبدالرحمن نے بتایا تھا کہ ولی خان بابر کے بعد کراچی کے دس ایسے پختون صحافی ہیں جنھیں دہشت گرد نشانہ بنا سکتے ہیں ، اس لسٹ میں فیض اﷲ خان ، جو اس وقت اے آر وائی چینل میں قوم پرست جماعتوں اور کورٹ رپورٹنگ کی کوریج کیا کرتے تھے ، چوتھے نمبر پر تھے ۔ولی خان بابر پہلے نمبر تھے ، جس کے بعد جن جن صحافیوں کے نام تھے ، ان میں سے چھ صحافیوں نے فوری طور پر پاکستان چھوڑ دیا اور اپنے میڈیا گروپ کی انتظامیہ کو اعتماد میں لیکر ٹریننگ کیلئے بیرون ملک چلے گئے ۔

ان میں فیض اﷲ خان بھی تھے ، جو لندن چلے گئے اور کچھ عرصہ وہیں رہے ، پھر کراچی واپسی کے بعد مقامی چینل سما سے وابستہ ہوئے ، لیکن اس کے بعد دوبارہ اے آروائی کو جوائن کرلیا ۔کراچی میں انھوں نے اپنی سرگرمیاں محدود رکھیں اور بڑی احتیاط کے ساتھ رپورٹنگ کرنے لگے ،بعدازاں وہ کراچی چھوڑ کر خیبر پختونخوا میں چلے گئے اور وہاں اپنے ادارے کے لئے پیشہ وارانہ خدمات سر انجام دینے لگے۔جہاں بد قسمتی سے ان کے ساتھ مذکورہ واقعہ پیش آیا اور افغانستان میں سرحدوں کی حد بندی سے ناواقفیت کی بنا پر غلطی سے سرحد پار کرگئے اور افغان حکومت نے فوری طور پر کیس چارج فریم کرکے انھیں بے دھڑک سزا بھی سنا دی اور صحافتی اقدار کا بھی خیال نہیں کیا۔

فیض اﷲ خان ، ایک خاموش طبع اور انتہائی شریف النفس انسان ہیں ، کراچی میں جس طرح پختونوں کا قتل عام کیا جارہا تھا اس پر ان کا دل ضرور کڑھتا تھا ، لیکن انھوں نے ہمیشہ صحافت اور اپنی پیشہ وارانہ فرائض کو ترجیح دی اور لسانیت یاقوم پرستی سے اجنتاب برتتا ، جس کے سبب ان کی قدر و منز لت میں اضافہ ہو ۔ چونکہ کراچی میں لسانیت کے نام پر دہشت گردوں نے قتل وغارت کا بازار گرم کیا ہوا تھا اور گناہ گار یا بے گناہ کی کوئی تخصیص نہیں تھی اس لئے پختون صحافیوں کو شدید مشکلات کا سامنا اور عدم تحفظ کا احساس رہتا تھا ، لسانی بنیادوں پر علاقوں کی تقسیم کی بنا پر اعلی صلاحیتوں والے نامور صحافی ، کراچی چھوڑنے پر مجبور ہوئے اور ان کئی صحافیوں سے واقف ہوں ، جو کراچی میں دوبارہ آنے کے حوالے سے کان پکڑتے ہیں اور اپنی جان کی عافیت طلب کرتے ہیں۔

افغانستان حکومت نے اتنا بھی نہیں سوچا کہ ان کے لاکھوں افغانی کئی دہاہیوں سے پاکستان میں رہ رہے ہیں ، کھا رہے ہیں اور جائیدادیں بنا رہے ہیں، اور انھیں پاکستان کی شہریوں سے زیادہ مراعات حاصل ہیں ، بلکہ نارا میں رجسٹریشن کرائے بغیر لاکھوں افغانی ، پاکستان میں قیام پذیر ہیں بلکہ کئی افغانی صحافی بھی پاکستان میں روزگار سے وابستہ ہیں اور غیر قانونی طور پر رہتے ہیں۔

علاوہ ازیں میں ذاتی طورپر متعدد واقعات کا گواہ ہوں کہ جب افغانستان کا کوئی شہری ، سفری دستاویزات نہ ہونے کی وجہ سے پکڑے بھی جاتے ہیں تو ، دوران حراست ، مقامی عدالتیں ان کی جوڈیشنل ریمانڈ کے عرصے کو ہی سزا تصور کرکے انھیں رہا کرنے کاحکم دیتی ہے ، میں ذاتی طور پر ایک ایسے واقعے کا بھی گواہ ہوں کہ افغانستان سے تعلق رکھنے والی ایک فیملی غیر قانونی طور کراچی ائیر پورٹ سے سعودی عرب جانے کی کوشش میں جعلی پاسپورٹ اور ویزے کی بنا پر گرفتار ہوئی اور انھیں ڈسٹرکٹ جیل ملیر کراچی اور ان چار افراد کی تین خواتین کو سینڑل جیل ، خواتین کراچی میں جوڈیشنل ریمانڈ پر بھیجا گیا ، ان کے کیس ڈسٹرکٹ ملیر کی عدالت میں چل رہا تھا ، تاریخوں میں پیشی کے دوران ، ایڈیشنل جج نے ایف آئی اے کے احکام کو ڈانٹا کہ حج کی نیت سے جانے والوں کو واپس افغانستان بھیج دیتے ، انھیں جیل کیوں بھیجا ، پھر انھوں نے خود افغان کونسل جنرل کو فون کیا کہ آپ کے شہری یہاں ہیں ، ان کے جانے کیلئے ٹرانسپورٹ کا بندوبست کریں ، پھر افغان جنرل کونسل نے اگلی تاریخ میں کورٹ کو ٹائم پریڈ دیکر انھیں بس میں بٹھا کر طورخم بارڈر روانہ کیا۔

یہی نہیں بلکہ لاتعداد ایسے مقدمات ہیں اور کئی مقدمات میرے سامنے بھی آئے کہ جیلوں میں ان سے کوئی مشقت نہیں لی جاتی تھی اور انھیں عام قیدیوں کی طرح ہر چیز کی سہولت فراہم کی جاتی تھی ، نیز عدالتیں انھیں ، قبول داری کرنے پر ان کی جوڈیشنل ریمانڈ کے ایام کو ہی سزا قرار دیکر معمولی جرمانوں کے ساتھ انھیں جلد از جلد رہا کرنے کا حکم دیتی ۔ وہ معمولی جرمانہ بھی جیل کے قیدی آپس میں چندہ کرکے ادا کرتے اور انھیں سفری اخراجات کیلئے رقم اور اپنے صاف کپڑے بھی مہیا کرتے ، اگر کوئی افغانی بزرگ ہوتا تو بعض قیدی ان کی دعاؤں کیلئے ان کی دن رات خدمت بھی کیا کرتے تھے۔انھیں قید میں ہونے کا احسا س بھی نہیں ہونے دیتے تھے بلکہ ان کا رویہ بہت احسن ہوتا تھا۔

افغانستان حکومت کو یہ بھی سوچنا چاہیے کہ گناہ گار اور بے گناہ میں کافی فرق ہوتا ہے ، جب فیض اﷲ خان پر جاسوسی کا کوئی الزام ثابت نہیں ہوا ، ان کی حراست کے عرصے کو ہی بطور سزا بنا کر پاکستانی حکام کے حوالے کیا جاسکتا تھا ۔

لیکن افغانستان نے پاکستان کے احسانات پر جس طرح کا رویہ اپنایاہوا ہے اس سے پاکستانی عوام اور خاص طور پر پختون عوام میں بد گمانیاں جنم لے رہی ہیں، لاکھوں پختون پاکستان میں کروڑوں کا مالک بن چکے ہیں ، اب بھی طورخم بارڈر سے خود کو ، مریض، کہہ کر بغیر سفری کاغذات و ستاویزات کے پاکستان میں علاج کا بہانہ بنا کر آتے ہیں اور ان کی کوئی روک ٹوخ نہیں ہے ۔افغانستان کو ایسے عمل سے گریز کرنا چاہیے ۔

افغانستان کی جنگ کی وجہ سے پاکستان کی سلامتی خطرے میں پڑے ہوئی ہے اور ان کی جنگ ، پاکستان پر مسلط ہے ، انھیں ایسے اقدامات سے گریز کرنا چاہیے جس سے پاکستان کا اعتماد کھو دے۔

سابق وزیر داخلہ رحمان ملک نے افغانی وزیر داخلہ سے رابطہ تو کیا ہے اور حسب سابق انھوں نے یقین دہانیاں کرائیں ہیں ، لیکن پاکستان کی تمام صحافی تنظیموں کو اس معاملے میں خاموش نہیں بیٹھنا چاہیے ،کیونکہ یہ معاملہ صرف فیض اﷲ خان کا نہیں ، بلکہ صحافت کی رٹ کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے ۔ افغانستان نے مصرکی طرح صحافیوں کو سزا دینے کی روش کو اپنایا ہے ، اگر افغانستان کایہی رویہ رہا تو میڈیا تنظیموں کو مربوط عمل کو اپنا ہوگا ، انھیں صرف رسمی بیانات دیکر گلو خلاصی نہیں کرنی چاہیے ، بلکہ سنجیدگی کے ساتھ ملک گیر سطح پر اجتماعی آواز اٹھانی چاہیے۔

پاکستان یا غیر ممالک میں صحافی کے ساتھ ناروا سلوک انتہائی افسوس ناک ہے ، میڈیا گروپ کیا کر رہا ہے یا نہیں ، لیکن اندرونی خبر یہی ہے کہ ایک بڑے میڈیا گروپ کے ایک پختون اینکر نے دوسرے میڈیا گروپ کو نیچا دیکھانے کیلئے اپنے افغانستان کے تعلقات کا ناجائز فائدہ اٹھایا ہے ، گزشتہ دنوں ایک پروگرام میں اس بد تمیز صحافی نے تمام بیک ڈور معاملات کو ذاتی انا کے خاطر خراب کیا تھا جو قابل مذمت ہے
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 744217 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.