چائے بے حد گرم تھی۔ ناشتے کی
میز پر بیٹھا عمران پھونکیں مار مار کر اسے ٹھنڈا کرنے کی کوشش کر رہاتھا۔
کیونکہ وہ سکول کے لیے لیٹ ہو ر ہاتھا۔ ماں نے ایک پیالی لی اور کپ سے چائے
ٹھنڈی کرنے کیلیے انڈیلنے لگی ۔۔ عمران سے صبر نہیں ہو رہا تھا اس نے جلدی
سے کپ چھیننے کی کوشش کی اور کپ گر گیا ۔ ماں نے غصے سے ہلکا سا تھپڑ دے
مارا۔۔۔ عمران چھٹی جماعت کا طالبعلم تھا ۔ ماں باپ کا بہت لاڈلا بچہ تھا ۔
تھپڑ کی وجہ سے ناراض ہوکر میز سے اٹھ گیا ۔ ناشتہ کیے بغیر سکول جانے لگا
۔ ماں نے پیچھے لپک کر اسے گلے لگا لیا۔ عمران گلے لگ کرکہنے لگا کہ ماں آج
تھپڑ سے بڑی تکلیف ہوئی ہے آج میں گھر نہیں آؤں گا۔ ماں نے مسکراتے ہوئے
کہا بیٹا ایسے نہیں بولتے ۔ماں کی آنکھوں میں غصہ ہوتا ہے دل میں تو پیا ر
ہی پیار ہوتا ہے نا۔۔ خیر عمران سکول تو چلا گیا لیکن ماں کے دل میں ایک
کسک سی رہ گئی کہ آج عمران نے یہ بات کیوں کی۔۔۔
سکول پہنچ کر عمران اس بات کو بھول گیا اور دوستوں کیساتھ وقت گزارنے لگا ۔چھٹی
کا وقت ہوا عمران نے بستہ باندھا اور گھر کی راہ لی ۔ تھوڑے فاصلے پر اسے
ایک قلفی کی ریڑھی نظر آئی ۔ریڑھی والے نے بڑ ے پیار سے عمران کو بلایا اور
قلفی کھانے کے لیے دینے لگا عمران نے انکا ر کیا کہ میرے پاس پیسے نہیں ہیں
مگر ریڑھی والے نے کہا کہ بیٹا میں تو روز ہی ادھر ہوتا ہوں لہذا تم صبح
لیکر آجا دیکھو کتنی گرمی ہے تو بڑوں کو نہ نہیں بولتے۔عمران قلفی کھانے
لگا ۔ چند لمحوں بعد عمران کا سر چکرانے لگا اور وہ بے ہوش ہوگیا ۔ اس کی
آنکھ ایک پر سکون کمرے میں کھلی۔ کمرے میں بالکل خاموشی طاری تھی ۔ عمران
صوفے پر پڑا ہوا تھا ۔پاس ہی ایک ادھیڑ عمر کا آدمی بیہودہ مسکراہٹ لئے اس
کے سر پر ہاتھ پھیر رہا تھا۔ عمران اٹھ بیٹھا اور رونے لگا میں کدھر آگیا
ہوں۔ مجھے میری ماں کے پاس اپنے گھر واپس جانا ہے۔ اس آدمی نے بڑے پیار سے
عمران کی کمر پر ہاتھ رکھا اور کہنے لگا بیٹا آپ کو ایک نئی دنیا میں لے
آئے ہیں جہاں آرام ہے ،سکون ہے ، بڑی بڑی گاڑیاں ہیں ، کھلونے ہیں اور
کھلونے بھی وہ جن سے آگ نکلتی ہے ۔ آپ کو یہاں بہت اچھا لگے گا۔لیکن عمران
ضد کرنے لگا کہ مجھے گھر جانا ہے ۔ اس آدمی نے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے
آپ کی ماں سے بات کی ہے وہ چاہتی ہیں کہ آپ ایک بڑے افسر بنو اور وہ ہر
مہینے آپ کو ملنے آئیں گی یہ سن کر عمران کو کچھ تسلی ہوئی۔ بچہ تھا سنبھل
گیا۔
دوسری طرف عمران کے گھر نہ پہنچنے پر ماں کو غشی کے دورے پر پڑنے لگے۔ سکو
ل سے پتہ کیا تو سب جا چکے تھے۔ اس کے دوستوں نے بھی لا علمی کا اظہار کر
دیا ۔ تھک ہار کر ماں نے عمران کے باپ کو بلوایا اور انہوں نے پولیس میں
رپورٹ کر وادی ۔ پولیس نے رپورٹ درج کر کے معمول کی کاروائی شرو ع کر دی
لیکن دن سے ہفتے اور مہینے ہو گئے مگر اس کا کوئی سراغ نہ ملا ۔ ماں رو
روکے خاموش ہو گئی ۔ باپ تھانے کے چکر کاٹ کر مایوس ہو گیا ۔ آٹھ مہینے گزر
گئے مگر عمران کا کوئی پتہ نہ چلا ۔ عمران کہاں اور کیوں گیا کسی کو کچھ
معلوم نہ تھا ۔
مٹی کے ایک چبوترے پر ایک شخص بیٹھا خطاب کر رہا تھا کہ اﷲ ہی صرف مشکلات
کو حل کرنے والا اور غم اور تکلیفوں کا دور کرنے والا ہے ۔ عمران اپنی عمر
کے لگ بھگ تیس لڑکوں کیساتھ بیٹھا اس آدمی کو سن رہا تھا ۔ اس کی آواز بے
حد سریلی اور دلوں کو موہ لینے والی تھی اور اس کا بیان نہایت فصاحت اور
بلاغت پر مشتمل تھا۔ اس نے کہا کہ آج کل ہر شخص ہی کسی نہ کسی پریشانی میں
مبتلا ہے کسی کو روٹی کی فکر ہے کوئی کاروبار کی فکر میں اور کوئی اپنی
آخرت کے خوف میں مبتلا ہے مگر ہم آپ کی یہ تمام تکالیف ختم کرکے آپ کو اﷲ
تعالیٰ کے قریب کرنے اور اسے راضی رکھنے کا ایک شاندار طریقہ بتائیں گے جو
کہ سیدھا جنت کی طرف لے کر جاتا ہے ہم آپ کو صحیح اور غلط کا فرق بتائیں گے
اور آپ لوگ آج سے ہمارے اس مشن کا حصہ ہو ۔۔۔یہاں آپ کو کوئی تکلیف نہیں ہو
گی اور ہر آسائش میسر ہو گی ۔ آپ کے والدین نے یہاں آپ کو ایک اچھا انسان
بننے کیلئے چھوڑا ہے تاکہ آپ ان کی پریشانیوں کو ختم کرسکیں اور اﷲ کی
خوشنودی بھی حاصل کر کے اپنی آخرت سنوار سکیں ۔
اس مختصر سے خطاب کے بعد وہ سب کو ایک حال کی طرف بھیج دیتا ہے اور ان
کیساتھ چھ آدمی اور بھی ہیں جو ان کی رہنمائی کرتے ہیں۔ حال میں اور بھی بے
شمار لوگ موجود ہیں جو اپنے کاموں میں مشغول ہیں ۔ اور پھر ان سب کو کھانا
پیش کیا جاتا ہے جس کو کھانے کے بعد وہ سب آپس میں باتیں کرنے لگتے ہیں سب
کی عمریں بارہ سے اٹھارہ سال کے لگ بھگ تھیں اور کسی کو معلوم نہیں تھا کہ
وہ یہاں کیوں لائے گئے ہیں ۔ کھانے کے بعد ان کو ایک بے حد لذیذ قہوہ پیش
کیا گیا جس نے انہیں مدہو شی کی کیفیت میں مبتلا کر دیا ۔پھر انہیں ایک فلم
دکھائی گئی جس میں دو لڑکوں کو دکھایا گیا جو اپنے گھر والوں کی خوشحالی
کیلئے اپنے جسم کیساتھ بارود باندھ کر ان لوگوں کو مار دیتے ہیں جو اﷲ کی
مخلوق کیساتھ ظلم اور ناانصافی کرتے ہیں جس کا صلہ انہیں جنت کی صورت میں
ملتا ہے ۔ فلم چل رہی تھی ساتھ ہی دو نوجوان بیٹھے سگریٹ پی رہے تھے۔ فلم
کے ساتھ ساتھ انہوں نے لڑکوں کو جوش دلا نا شروع کیا کہ اگر ہم سب بھی اس
طرح ظلم کا خاتمہ کریں گے تو اﷲ خوش ہوگا ۔ فلم میں باقاعدہ دکھایا جاتا ہے
کہ کس طرح ان دو لڑکوں کے مرنے کے بعد ان کے گھر والوں کو مراعات مہیا کی
جاتی ہیں اور ان کا ہر طرح سے خیال رکھا جاتا ہے ۔ ان دو لڑکوں کے ماں باپ
، بہن بھائی بھی دکھاتے ہیں جو ان کی قربانی سے بہت خوش ہیں اور ان کو
دعائیں دیتے ہیں ۔ یہی نہیں بلکہ فلم میں مزید دکھایا گیا کہ آخرت میں ان
دو لڑکوں کو کس طرح جنت ملے گی اور جنت کا نظارہ بھی دکھایا گیا سبھی لڑکے
یہ دیکھ خوش ہونے لگے ساتھ بیٹھے دو نوجوان مزید کہنے لگے کہ اگر ہم بھی
ایسا کام کریں گے تو ہماری بھی فلم بنے گی گھر والے سکون سے رہ سکیں گے ۔
اﷲ جنت دے گا اور دنیا سے ظلم بھی ختم ہو گا۔ اس کے ساتھ ہی فلم ختم کرتے
ہیں اور تمام لڑکے سونے کیلئے شاندار بستروں پر چلے جاتے ہیں ۔ کچھ مہینوں
تک ان لڑکوں کو یہی تربیت دی جاتی رہی ۔ اعلی قسم کا کھانا مہیا کیا جاتا ۔
سکون کی نیند سوتے فلموں سے دل خوش کرتے اور ساتھ ساتھ نشہ آور قہوہ کے
عادی ہوتے چلے گئے ۔تاکہ ان کے دماغوں سے ان کی پچھلی زندگی کو آہستہ آہستہ
ختم کیا جائے اور اسی نئی زندگی میں ان کو ڈھالا جا سکے۔ |