معاشرے کی اصلاح ۔۔۔۔۔۔مگر کیسے؟

اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے ،اسمیں ہر طبقے کے متعلق ھدایات موجود ہیں کوئی طبقہ ایسا نہیں کہ جسکے بارے میں اسلام نے کو ئی رہنمائی نہ کی ہواب صرف ضرورت اس بات کی ہے کہ انسان اسلام سے رہنمائی حا صل کرنے کیلئے آمادہ ہو اور اپنا تعلق اپنے حقیقی خالق و مالک سے استوار کرے اور اپنی ہر خواہش کو رب تعالی کے حکم کے سامنے قربان کردے ۔آج ہمارے معاشرے کی یہ دگرگوں حالت کیوں ہے ؟ہمارے گھر کا ماحول غیر اسلامی کیوں ہے؟ہمارے خاندان کا شیرازہ کیوں بکھر رہا ہے؟اور ہمارا معاشرہ اصلاح کی شاہراہ پر کیوں نہیں چل رہا ؟ اسکی وجہ صرف اور صرف دین اسلام سے دوری اور اصلاح معاشرہ کے پیغمبرانہ اصولوں سے انحراف ہے، ہمارے معاشرے میں جو لوگ دیندار سمجھے جاتے ہیں وہ بھی صرف اپنی ذات کی حد تک ہیں ،خود صوم وصلوۃ کے پابند ہیں، دین میں سمجھ بوجھ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور گناہوں سے بچنے کا بھی اہتمام کرتے ہیں لیکن گھر کے ماحول کو بدلنے کی کوئی فکر نہیں اور اپنے اہل خانہ کو دین کی طرف لگانے کا بھی کوئی اہتمام نہیں ، اسلامی تعلیمات نے انسان پر صرف اپنی اصلاح کی ذمہ داری عائد نہیں کی، بلکہ اپنے گھروالوں کی اصلاح کی ذمہ داری بھی اس پر ڈالی ہے،اپنی اولاد ،عزیز واقارب اور اپنے خاندان کو راہ راست پرلانے کا فریضہ بھی گھر کے سربراہ پر عائد کیا ہے،خود حضرات انبیاء علیھم السلام بھی اس فریضے سے مستثنی قرار نہیں دیے گئے ،حتی کہ امام الانبیاء ، فخرالرسل حضرت محمد ﷺ کو نبوت سے سرفراز کرنے کے بعد اﷲ تعالی کی طرف سے جو پہلا تبلیغی حکم دیا گیا وہ یہ تھا ’’وانذر عشیرتک الاقربین ‘‘(کہ اپنے قریبی رشتہ داروں کو اﷲ کے عذاب سے ڈرائیے ) عشیرہ کے معنی کنبہ اور خاندان کے ہیں یعنی تزکیر و ترہیب اپنے گھر سے شروع کریں،چناچہ اسی حکم کی تعمیل میں جناب رسول اﷲ ﷺنے اپنے عزیز و اقارب اور اپنے خاندان کو کھانے پر جمع کیا اور ایک مؤثر خطبہ ارشاد فرمایا’’ائے بنی عبد المطلب ، مجھے اﷲ کیطرف سے تمھارے حق میں کوئی اختیار نہیں ، تم میرے مال میں سے جتنا چاہو مجھ سے لے لو، خدا کی قسم جو چیز میں تمھارے پاس لیکر آیا ہوں مجھے عرب میں کوئی ایسا جوان معلوم نہیں جو اپنی قوم کے پاس اس سے بہتر کوئی چیز لایا ہو ، میں تمھارے پاس دنیا اور آخرت کی بھلائی لایا ہوں اور مجھے اﷲ نے حکم دیا ہے کہ تم کو اسکی طرف دعوت دوں،تم میں سے کون ہے جو اس کام میں میرے ہاتھ مضبوط کرے اور اس کے نتیجے میں میرا بھائی بن جائے ‘‘( تفسیر ابن کثیر ۳۵۱ /۳)

اسی طرح ایک دوسری آیت میں اﷲ تعالی نے مومنین سے خطاب کے ذریے اسی بات کی تنبیہ فرمائی چناچہ ارشاد ہے ـــ’’یا ایھا الذین آمنو ا قوا انفسکم واھلیکم نارا‘‘ ائے ایمان والو ! بچاو اپنے آپ کو اور اپنے اہل خانہ کو جہنم کی آگ سے ۔ اسکی تشریح کرتے ہوے مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع ؒ رقمطراز ہیں۔ لفظ اہلیکم میں اہل و عیال جن میں بیوی ،اولاد ،باندیاں اور غلام سب داخل ہیں اور بعید نہیں کہ ہمہ وقتی نوکر ، چاکر ، خادم بھی غلام باندیوں کے حکم میں ہوں ۔ (معارف القرآن) اس آیت میں گھر کے سربراہ کو حکم دیا جا رہا ہے کہ خود بھی دوزخ کے عذاب سے بچے اور جو لوگ اسکی تربیت و کفالت اور ماتحتی میں رہتے ہیں انکو بھی عذاب سے بچائے ۔ چناچہ جب یہ آیت نازل ہوی تو حضرت عمر بن خطا ب ؓ حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوے اور عرض کیا یا رسول اﷲ ﷺ! اپنے آپ کو دوزخ سے بچانے کی فکر کی جائے یہ بات تو سمجھ میں آ گئی لیکن اہل و عیال کو کس طرح دوزخ سے بچائیں ؟ آپﷺ نے فرمایا : اپنے اہل و عیال کو دو زخ سے بچانے کا طریقہ یہ کہ اﷲ تعالی نے آہکو جن کاموں کے کرنے کا ․حکم دیا ہے تم بھی ان کاموں کے کرنے کا اپنے اہل و عیال کو حکم دو اور جن کاموں سے اﷲ تعالی نے منع کیا ہے تم بھی ان کاموں سے اپنے اہل و عیال کو منع کردو ، یہ عمل انکو دوزخ کی آگ سے بچا سکے گا ۔حضرات فقہائے کرام نے فرمایا ہے یہ آیت ہر انسان پر ایک فرض عائد کرتی ہے کہ وہ اپنی بیوی اور اولاد کو فرائض شرعیہ اور حلال وحرام کے احکام کی تعلیم دیں اور اس پر عمل کرانے کی عملی کوشش کرے۔حدیث میں آتا ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا : انسان کا اپنی اولاد کو ادب سکھانا ایک صاع غلہ صدقہ کرنے سے بہتر ہے ، نیز فرمایا :کسی باپ نے پنے بچے کو اچھے ادب سے بڑھ کر کوئی ہدیہ نہیں دیا ۔ (مشکوٗۃ ۴۲۳)ان دونو ں احادیث میں آپﷺ نے اولاد کی تعلیم و تربیت پر کتنا زور دیا ہے انکی تعلیم و تربیت اور ادب سکھانے کو صدقہ کرنے سے افضل قرار دیا ہے،جب اولاد کی تربیت اچھی ہوگی تو ظاہر ہے کہ وہ والدین کیلئے سکون قلب اور نیک نامی کا باعث بنے گی۔ بعض حضرات یہ عذر بیان کرتے ہیں کہ ہم نے بہت کوشش کی اپنے گھر کے ماحول کو درست کرنے کی اور اپنی اولاد کو اچھی تربیت دینے کی لیکن زمانہ کی ہوا ہی ایسی چل پڑٰ ی ہے کہ اولاد ہماری وعظ و نصیحت کا کوئی اثر لینے کو تیار ہی نہیں اور نہ ہی ہماری بات پر کان دھرنے کو تیار ہے تو اسمیں ہمارا کیا قصور ہے؟لیکن یہ خیال محض ایک دھوکہ ہے حقیقت کچھ بھی نہیں ،سوال یہ ہے کہ آپ نے کتنی کوشش کی ہے کتنے اضطراب اور کتنے سوز دل کیساتھ انکو سمجھانے کی کوشش کی ہے؟ آپکی اولاد اگر جسمانی طور پر بیماری میں مبتلا ء ہو جائے یا خدا نہ کرے آگ میں چھلانگ لگانے کی خواہش ظاہر کرے تو اسوقت آپ اپنے دل میں کتنی تڑپ محسوس کرینگے اور یہ تڑپ آپکو کیسے کیسے مشکل ترین مراحل سے گذرنے پر مجبور کرے گی لیکن یہ سب کچھ سہ لینے کا آپ میں حوصلہ موجود ہوگا اور آپ بے تاب ہوں گے کہ کب یہ گھڑی آئے کہ میں اپنے بیٹے کو صحت و عافیت کیساتھ دیکھوں اور یہ مشکل وقت ہم سے ٹلے،سوال یہ ہے کہ آپ نے کبھی اپنے بیٹے کو گناہوں کی چکی میـں پستے دیکھ کر اس قدر پریشانی اٹھائی ہے اور اتنی تڑپ محسوس کی ہے جتنی اسکی بیماری کی حالت میں محسوس کی تھی؟اگر آپنے اس قدر کوشش کرڈالی ہے اور اتنی تڑپ محسوس کی ہے تو بلا شبہ آپ نے اپنا فرض بجا طور پر ادا کردیا ہے اور آپکی کوشش کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جائگا ،لیکن اگر معاملہ اسکے برعکس ہے یعنی آپ نے اتنی کوشش نہیں کی کہ جتنی کرنی چاہیے تھی یا آپ نے اتنی لگن اوار کاوش کا مظاہرہ نہیں کیا جتنا دنیاوی بیماری پر کیا تھا تو بیشک آپکے انداز تربیت میں کوتاہی ہے،جب آپ دنیاوی معاملات میں اسکے ساتھ سختی کا برتاو کرتے ہیں تو کیا وجہ ہے دین کے معاملہ میں اتنی نرمی کیوں اختیار کی گئی کہ ایک دو دفعہ کہدینے یا چند بار ڈانٹ ڈپٹ پر اکتفاء کر لینے کو فرض کی ادائیگی سمجھ لیا گیا ۔جس ہمت و کوشش اور فکر و لگن سے آپ ان کے لیے روزگار تلاش کرتے ہیں اتنی ہی فکر و لگن اسکی اصلا ح کیطرف کیوں نہیں کرتے ۔بہرنوع!اوالاد کی تربیت و اصلاح کیلئے سوز قلب ،توجہ اور خشوع وخضوع کیساتھ دعا کیجیے اور ساتھ ساتھ انکی تعلیم و تربیت پر بھی بھر پور توجہ دی جائے تو بہت جلد اسکے ثمرات ظاہر ہو سکتے ہیں ،جب ایک فرد اپنی اصلاح کیطرف پوری توجہ مبذول کریگا تو اس سے ایک اچھا معاشرہ وجود میں آیگااور جب ایک معاشرہ اپنی صحیح راہ کیطرف چل پڑیگا تو دھیرے دھیرے اسکے اچھے اثرات پوری قوم میں منتقل ہونگے اور پوری قوم میں اصلاح کا جذبہ بیدار ہوگا ۔آخر میں معاشرے کی اصلا ح کیطرف متوجہ کرتے ہوے حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی کا در ددل ملاحظہ ہوــ ’’اگر آپ اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ آپکا دین برحق ہے اور مرنے کے بعد جزا وسزا کے مراحل پیش آنے والے ہیں تو خدا کیلئے اپنی اولاد کو بھی اس جزا و سزا کے دن کے واسطے تیا ر کیجیے،اسے ضروری تعلیم دلوائیے ،اسکے ذہن کی شروع ہی سے ایسی تربیت کیجیئے کہ اس میں نیکیوں کا شوق اور گناہوں سے نفرت پیدا ہو،اسکی صحبت اور اسکا ماحول درست رکھنے کا اہتمام کیجیئے ،اپنے گھروں کو تلاوت قرآن اور اسلاف امت کے تذکروں سے آباد کیجیئے،گھر میں کوئی ایسا وقت نکالیے جس میں سارے گھر والے اجتماعی طور پر دینی کتب کا مطالعہ کریں ،اپنے ذاتی عمل کو ایسا دلکش بنا ئیے کہ اولاد اسکی تقلید کرنے میں فخر محسوس کرے،اپنے اہل وعیال اور اقارب و احباب کے حق میں اﷲ تعالی سے دعائیں کیجیئے کہ اﷲ تعالی انھیں صراط مستقیم پر گامزن ہونے اور رہنے کی توفیق عطا فرمائے‘‘۔ان باتوں پر اگر خلوص دل سے عمل کر لیا جائے تو ہم اپنے گھر اور معاشرے کو ایک بہترین معاشرہ بنا سکتے ہیں۔اﷲ تعالی ہم سب کو اسکی توفیق عطا فرمائے آمین۔
Mufti Muhammad Asghar
About the Author: Mufti Muhammad Asghar Read More Articles by Mufti Muhammad Asghar: 11 Articles with 12955 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.