آہ :ماسٹرممتاز

سبق وفاکاپڑھایاتھاممتازنے
سبھی کواپنابنایاتھاممتازنے
کوئی جوجاتاہے روتے ہیں اہل خانہ ہی
مگرخودجاتے اہلِ دھنوں کورُلایاتھاممتازنے

22 مئی 2008ءراقم کی زندگی کاوہ تاریک دِن تھاجب میری سماعتوں میں وہ خبربذریعہ موبائل فون آن پڑی جس نے میرے جِسم کے رونگٹے کھڑے کردیئے۔ خبریہ تھی کہ ماسٹرممتازایک سڑک حادثے میں دُنیافانی سے کوچ کرگئے ۔ ایساسُنتے ہی میرے دِل ودِماغ پرغم کے بادل چھاگئے جن سے باہرنکلنابہت مشکل ہورہاتھا۔دِل نہیں مان رہاتھامگرحقیقت آخرحقیقت ہے جس کوتسلیم کرنااِنسان کی مجبوری ہے ۔ میں نے اس دلخراش خبرکی تصدیق کرنے کےلئے اپنے چھوٹے بھائی محمدعارف کوفون کیاتوکچھ بھی بتائے بغیروہ بھی بے ساختہ روپڑا۔ جس سے اندازہ ہوگیاکہ شایداللہ تعالیٰ نے ماسٹرممتازصاحب کی زندگی کے دِن اِتنے ہی لکھے تھے ۔ (اِناًللہِ واِناًالیہِ رَجِعوُن) اللہ تعالیٰ کاقرآن پاک میں فرمان ہے کہ ہرنفس کوموت کامزہ چکھناہے ۔ اللہ تعالیٰ کے فرمان کوذہن میں رکھتے ہوئے مجھے اس تلخ ودِلخراش خبرکی سچائی کوتسلیم کرناپڑا۔

ماسٹرممتازکاجنم9اکتوبر1964ءکوضلع جموں کی بلاک بھلوال کے دوردرازگاﺅں دھنوں میں شہاب دین پمبلہ کے گھرہوا ۔ ابتدائی تعلیم آبائی گاﺅں میں ہی حاصل کی اوربعدمیں جدیدتعلیم کے حصول کےلئے گوجراینڈبکروال ہوسٹل جموں میں داخلہ حاصل کرکے تعلیم کے زیورسے آراستہ ہوئے۔ دورانِ تعلیم ہی اُن کومحکمہ تعلیم میںبحیثیت مُعلّم ملازمت مِل گئی ۔ درس وتدریس کے فرائض انجام دینے کے ساتھ ساتھ انہوں نے تعلیم کوبھی جاری رکھا۔مرحوم ماسٹرممتازایک خوش طبیعت، خوش اخلاق، بلندکرداراورذمہ دارشخص تھاجنھوں نے ہمیشہ دوسروں کی خوشی کےلئے کام کیا۔

22 مئی 2008 کواپنی خوشیاں دوسروں کےلئے قربان کرنے والے ماسٹرممتازکواُس وقت موت کے فرشتے نے آگھیراجب وہ محکمہ تعلیم کی جانب سے کروائی جارہی بی ایڈٹریننگ کاامتحان دینے کےلئے جموںگئے ہوئے تھے کہ امتحان ختم ہونے کے بعدجموں سے واپس آبائی گاﺅں دھنوں اپنے چھوٹے بھائی ماسٹرشوکت کے ساتھ موٹرسائیکل پرسوارہوکرجارہے تھے کہ بن تالاب کے قریب رائے پورموڑکے مقام پرمخالف سمت سے آرہی ایک میٹاڈورنے موٹرسائیکل کواپنی لپیٹ میں لیکرزوردارٹکرماردی ۔ اس سڑک حادثے میں موٹرسائیکل ڈرائیوریعنی ماسٹرشوکت بھی شدیدزخمی ہوالیکن ماسٹرممتازاپنے بوڑھے ماں، باپ، بھائیوں، بہنوں، بیوی ، بچوں ورشتہ داروں کوچھوڑ کراس دُنیافانی سے کوچ کرگئے۔ا س حادثے کولواحقین کبھی نہیں بھولیں گے کیونکہ اس حادثے نے والدین سے اُن کانیک فرزند، بیوی سے اُس کاخاوند، بچوں سے اُن کاشفیق باپ اورعلاقہ سے اُس کاہونہارنوجوان چھین لیا۔ماسٹرممتازکی موت کی خبرآناًفاناً میں دھنوں اوراس کے گردونواح کے علاقوں کے ساتھ ساتھ پوری ریاست میں جنگل کے آگ کی طرح پھیل گئی ۔پورے علاقے میں صفِ ماتم بچھ گئی تھی جس کے باعث ہرطرف آہ وبکاءکا سماں چھاگیاکیونکہ ماسٹرممتازکی وفات سے مرحوم کے بوڑھے والدین، جواں سال بیوی، کمسن بچوں پرتوجیسے قیامت ٹوٹ پڑی تھی ۔(راقم کی قلم مناظربیان کرنے سے قاصرہے)راقم چونکہ تعلیم وکاروبارکے سلسلے میں جموں شہرمیں تھا،نے بھی فوراً مرحوم کے جنازے میں شرکت کےلئے اپنے آبائی گاﺅں دھنوں کی راہ لی۔علاقے میں ہرکوئی غمگین تھا، اشک بارآنکھوں سے مرحوم کے جنازے میں ہزاروں لوگوں نے شرکت کی اورراقم نے بھی آخری بارمرحوم کے مسکراتے حسین چہرے کی زیارت کی۔اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرماکراُسے جنت الفردوس میں جگہ نصیب فرمائے ۔ اورلواحقین کویہ دردناک صدمہ برداشت کرنے کی ہمت عطاکرے ۔ (آمین)

راقم باضابطہ طورپرمرحوم ماسٹرممتازصاحب کاشاگردتونہیں رہالیکن پھربھی اُن سے را قم نے بہت کچھ سیکھاکیونکہ وہ علم کے پیکرتھے جہاں بھی وہ جاتے اُن سے لوگو ں کوکچھ نہ کچھ ضرورسیکھنے کوملتا، اللہ تعالیٰ نے شایداُنہیں اُستادکی ملازمت فراہم کرکے دوسروں کواخلاق کادرس دینے کی ذمہ داری سونپی ہوئی تھی جوانہوں نے آخری دم تک نہایت ہی خوش اسلوبی سے انجام دی۔راقم نے پرائمری سکول دھنوں سے ابتدائی تعلیم حاصل کی، جب راقم سکول جایاکرتاتھااُن دِنوں مرحوم ماسٹرممتازکی ڈیوٹی گورنمنٹ پرائمری سکول دھنگ میں تھی ، جب بھی میں گھرسے سکول جارہاہوتاتوماسٹرصاحب مجھے راستے میں اپنے سکول کی جانب جاتے ہوئے ملتے ۔ ادب سے سلام کرنے کے سِواکوئی لفظ مُنہ سے ڈرکے مارے نہیں نکلتا تھا۔پرائمری سکول کی تعلیم کے بعدمیں تعلیم کے سلسلے میں جموں آگیا، جس کے باعث مجھے ماسٹرصاحب کے ساتھ ملنے کاموقعہ کم ہی ملتاتھا ۔ایک دومرتبہ موقعہ ملاتواُنہوں نے تعلیم کے بارے پوچھااورزندگی میں اچھااِنسان بننے کی تلقین کی ۔باتیں مختصرہی تھیں لیکن الفا ظ میں وہ تاثیرتھی کہ وہ آج بھی دِل ودِماغ میںچھائے ہوئے ہیں ۔میں آج محسوس کرتاہوںکہ اُن کی باتوں میں پختگی ہوتی تھی اورہرلفظ کے پیچھے ایک حسین وزریں رازپوشیدہ ہوتاتھا، جوباتیں ہوئیں وہ بعدمیںحقیقت کی آئینہ دارثابت ہوئیں۔ مرحوم کی مثبت سوچ اوراخلاق نے مجھے حددرجہ متاثرکیاکیونکہ وہ ہمیشہ دوسروں کے بارے میں اچھاسوچتے، اچھی صلاح دیتے اورزندگی میں آگے بڑھنے کےلئے جدوجہدجاری رکھنے کی تلقین کرتے۔اگرکسی شخص کاکسی کے ساتھ کوئی جھگڑاہوتاتواُسے بات چیت کے ذریعے سلجھانے کی کوشش کرتے ۔گاﺅں کے لوگوں کواللہ کے بہتردین اسلام کے قریب رکھنے کےلئے جامع مسجددھنوں کی تنظیمی کمیٹی کے صدرکے فرائض بھی انہوں نے نہایت خوش اسلوبی سے انجام دیئے۔

جوں جوں میراذہن بالغ ہوتاگیاتوں توں میرے ذہن ودِل میں میرے دِل میں ماسٹرصاحب کے تئیں قدرومنزلت وعقیدت بڑھتی گئی کیونکہ چندلمحوں کی مختصربات چیت مجھے بارباراُن کے بلنداخلاق وکردارپرسوچنے پرمجبورکرتی اوراُن کی کہی ہوئی باتوں پرعمل کرنے کےلئے اُکستاتی ۔ میرادِل بہت چاہتاتھاکہ ماسٹرصاحب سے کھل کرباتیں کروں لیکن اُن کے پاس جاکردِل ودِماغ میں خوف وڈرکی کیفیت طاری ہوجاتی ۔جس کے باعث میں مرحوم ماسٹرصاحب کے ساتھ کھل کربات نہ کرسکاجس کادُکھ مجھے پوری عمررہے گا۔

ماسٹرصاحب جب بھی کسی سے ملتے توچہرے پرہمیشہ ہلکی سی مسکان ہوتی ، بات کرنے کالہجہ نرم ہوتاجودوسروں کوتہذیب سے بات کرنے اورچہرے کی کیفیت پیش کرنے کے آداب سکھاتا!ماسٹرصاحب دوسروں کوذمہ داریاں وفرائض نبھانے کی تلقین کرتے اورخودبھی اپنے حصےّ کی ذمہ داریاں بہترطریقے سے انجام دیتے ۔مرحوم ماسٹرممتازصاحب کی شخصیت اورزندگی کے مختلف پہلوﺅں پرروشنی ڈالی جائے توکئی کتابیں تحریرکی جاسکتی ہیں لیکن مختصراِتناہی کہوں گاکہ ماسٹرممتازصاحب کی پوری زندگی ایک کتاب کی مانندہے جس کے ایک ایک حرف پرعمل کرکے علاقہ کے نوجوانوں کواُن کے اصولوں کوفروغ دیناچاہیئے ۔آخرمیں اِتناہی کہوں گاکہ مرحوم ماسٹرممتازنے اپنی زندگی میں اپنے حصےّ کے فرائض وذمہ داریاں اداکرنے میں کوئی کسرباقی نہ رکھی اوراُن کی وفات سے جموں میں وہ خلاپیداہواہے جس کاپُرہوناممکن نہیں۔۔اللہ تعالیٰ سے دُعاہے کہ مرحوم ماسٹرممتازصاحب کوجنت الفردوس میں جگہ نصیب فرمائے اورہمیں اُن کے اچھے اورسنہری اصولوں پرعمل پیراہونے کی توفیق عطاکرے۔(آمین)

Tariq Ibrar
About the Author: Tariq Ibrar Read More Articles by Tariq Ibrar: 64 Articles with 58041 views Ehsan na jitlana............. View More