غزہ پھر لہو لہان: کہاں ہیں حقوق انسانی کے علم بردار؟
(Khursheed Alam Dawood Qasmi, New Delhi)
باسمہ تعالی
ہر طرف آگ ہی آگ، تا حد نگاہ شعلہ ہی شعلہ، زمین سے آسمان تک دھواں ہی
دھواں۔ کہیں بچے خون سے لت پت، تو کہیں بوڑھے، ایک طرف عورتیں چیخ و پکار
میں لگی ہیں، تو دوسری طرف کچھ انسان زخمی لوگوں کو لیے اسپتال کی راہ لے
رہے ہیں۔ پھر اگر عوامی رابطے کی ویب سائٹس پر پوسٹ ہونے والی تصویروں کو
درست تسلیم کر لیا جائے، تو جہاں روتے بلکتے اور خون میں ڈوبے ہوئے شیرخوار
اور معصوم بچوں کی تصویریں ملیں گی، وہیں بے شمار ایسی لاشیں ملیں گی، جس
میں کسی کا ہاتھ تن سے جدا، تو کسی کا پاؤں صاف کٹا ہوا، پھر کسی مردہ کے
پیٹ میں سوراخ، تو کسی کے سینے میں سوراخ اور یہیں پر بس نہیں ہوتا؛ بل کہ
اس سے بھی بڑھ کر، کتنے ایسے مردوں کی بھی تصویریں دکھیں گی، جس کے سر جسم
سے جدا ہے۔ یہ کسی ایسے شہر کی کہانی نہیں ہے جہاں قدرتی آفتیں برپا ہوں،
یا پھر کسی ایسے ملک کی بھی کہاني نہیں ہے جو کسی اپنے ہم پلہ ملک سے جنگ
لڑرہا ہو؛ بل کہ یہ اس نہتے اور معصوم لوگوں کے شہر کی حقیقت ہے جو اپنے ہی
وطن میں رہ کر بے گھر اور پناہ گزینوں جیسی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ یہ
وہ جگہ ہے جس کے باشندگان کو اپنے وطن میں ہونے کے باوجود، دس قدم جانے کے
لیے جامہ تلاشی دینی ہوتی ہے، ان کے پاس کھانے پینے کی اشیاء تو دور کی بات
ہے، انھیں ابتدائی طبی امداد بھی بمشکل ہی بر وقت مل پاتی ہے۔ یہ فلسطینی
شہر "غزہ" ہے۔ غزہ 365 کیلو میٹر کے رقبہ پر مشتمل بچے کھچے فلسطین کا اہم
شہر ہے۔ اس کی سرحد جنوب مغرب سے 11 کیلو میٹر تک مصر سے ملتی، جب کہ مشرق
و شمال میں 51 کیلو میٹر سرحدیں اسرائیل سے ملتی ہے۔ یاسر عرفات کی وفات کے
بعد منعقد ہونے والے الیکشن میں "حماس" کی کام یابی کے بعد، "حماس" نے
اسماعیل ہانیہ کو فلسطین کا وزیر اعظم منتخب کیا؛ لیکن فلسطینی صدر محمود
عباس نے ان کو 2007 میں معزول کردیا، جس کے بعد مسٹر ہانیہ نے "غزہ" میں
اپنی حکومت برقرار رکھا۔ اس طرح غزہ کی حکومت جون 2014 تک "حماس" کے زیر
کنٹرول رہی۔ پھر2/ جون کو آپسی اتحاد و اتفاق کے بعد مشترکہ حکومت تشکیل دی
گئی ہے۔ بہرحال، ماضی کی طرح ایک بار پھر، ظالم و جابر اور ناجائز مملکت
اسرائیل نے غزہ کی پٹی پر بمباری شروع کردی ہے۔ پیر کی شام کو شروع ہونے
والے اس فضائی حملے میں اب 1320 جگہوں پر بمباری کی گئی ہے۔ اس حملے میں،
اس تحریر کو سپرد قرطاس کیے جاتے وقت یعنی 13/جولائی 2014 کی شام تک، 160
افراد کو لقمہء اجل بن چکے ہیں، جن میں اکثریت معصوم بچے اور عورتوں کی ہے؛
جب کہ 1000/ ہزار سے زیادہ شہری زخمی ہوئے ہیں۔ اصل واقعہ یہ ہے کہ گزشتہ
ماہ 12/جون کو تین اسرائیلی لڑکے: ایال افرہ 19، گیلار شار 16 اور نفتلی
فرانکیل 16 جو اسرائیلی و امریکی شہریت کا حامل تھا، جو "ویسٹ بینک ریلیجس
اسکول" سے گھر لوٹ رہے تھے، انھیں نامعلوم افراد نے اغوا کرلیا۔ ان کے اغوا
کے بعد، اسرائیلی حکومت کے ساتھ ساتھ فلسطینی صدر محمود عباس نے اس واقعہ
کی مذمت کی اور اغواکاروں کو پکڑنے میں پورے تعاون کی یقین دہانی کرائی؛
لیکن اسرائیلی حکومت نے ان لڑکوں کے اغوا کی ذمے داری، بغیر کسی ثبوت کے "حماس"
اور اس کے اراکین کے سر پر تھوپ ڈالا، جس کا "حماس" نے انکار کیا ہے۔ پھر
اسرائیلی پولیس نے غزہ کے ہزاروں گھروں پر چھاپا مارا؛ لیکن انھیں ان لڑکوں
کی بازیافت میں کوئی کام یابی نہیں ملی۔ پھر ایک لمبے دورانیے کے بعد 30
جون کی شام کو ان کی لاشیں ویسٹ بینک میں برآمد ہوئی۔ اس واقعہ کے متصلا
بعد، یکم جولائی کو، کچھ ناپاک شر پسند اسرائیلیوں نے انتقام کے نشے میں
ایک معصوم فلسطینی 16 سالہ لڑکا محمد ابو خضیر کو اغوا کرلیا، پھر تلاش
بسیار کے چند گھنٹے بعد یکم اور 2/جولائی کی شب میں محمد ابو خضیر کی لاش،
جس کے جسم کا 90 فی صد حصہ جلا ہوا تھا، مشرقی یروشلم کے جنگل میں پائی گئی۔
ان اسرائیلی لڑکوں کے اغوا کی ذمے داری کسی فلسطینی گروپ نے قبول نہیں کی
ہے؛ جب کہ اغوا کے فورا بعد، اسرائیلی خفیہ ایجنسی اور وزیر اعظم نے یہ
دعوی کردیا کہ انھیں "حماس" والوں نے اغوا کرکے قتل کردیا ہے، جب کہ کسی
اور کو اس کی خبر نہیں ہوئی۔ یہ وہ پوائنٹ ہے کہ جس کی وجہ سے اراکین "حماس"
نے اپنے شکوک و شبہات اور تحفظ کا اظہار کیا ہے اور ان لڑکوں کے اغوا کو،
اہالیان غزہ اور "اراکین حماس" پر بمباری کے جواز کے لیے اسرائیلی حکومت کی
طرف سے رچی گئی ایک سازش قرار دیا ہے۔ جہاں ان تین اسرائیلی لڑکوں کی لاش
کے ملنے کے بعد اسرائیلی حکومت نے غزہ پر بمباری کا آغاز کیا، وہیں محمد
ابو خضیر کی زندہ جلائے جانے پر "حماس" والوں نے اسرائیل پر راکٹ داغنا
شروع کردیا۔ پھر کیا تھا اسرائیلی حکومت کو ایک بہانہ ہاتھ لگ گیا کہ "حماس"
والے ہم پر راکٹ داغ رہے ہیں؛ لہذا ہم اپنے "دفاع" میں بم برسا رہے ہیں۔
تعجب تو اس پر ہے کہ آج تک اسرائیلیوں نے کبھی "اقدام" کا اقرار نہیں کیا؛
بل کہ ہمیشہ "دفاع" کی ہی بات کرتا ہے۔ دفاع بھی ایسا کہ فلسطینیوں کے پتھر
اور راکٹ کا دفاع اسرائیل والے بم اور ٹینک سے کرتے ہیں، پھر بھی "حقوق
انسانی کے علم بردار"، "اقوام متحدہ" اور دنیا کے "انصاف پسند قائدین" گہری
نیند میں سوئے ہوئے ہیں اور اگر بہت کچھ ہوگا، اس دہشت گردی کے اختتام پر
ایک رپورٹ تیار کرکے میڈیا والوں کو دے دیں گے۔ اسرائیل نے جو یہ فضائی
حملہ شروع کیا ہے، یہ اپنی نوعیت کا کوئی پہلا حملہ نہیں ہے؛ بل کہ اس سے
قبل بھی کئی بار اس سے زیادہ خطرناک حملہ کرچکا ہے۔ نومبر 2008 کو یاد
کیجییے جب اسرائیل نے غزہ پٹی میں قیامت برپا کر رکھا تھا۔ اس دہشت گردانہ
کاروائی میں اسرائیل نے لیزر گائیڈ بم، کلسٹر بم اور فاسفورس بم جیسے عام
تباہی پھیلانے والے مہلک اسلحہ کا استعمال کیا، جس میں تقریبا 1000/لوگ جاں
بحق ہوئے اور 4100/ افراد زخمی ہوئے تھے اور اسرائیل کو یہ امید تھی کہ "حماس"
والے ہم سے زندگی کی بھیک مانگتے ہوئے سرینڈر کرجائیں گے؛ لیکن جب ایسا کچھ
نہیں ہوا تو شرمندہ ہوکر خود سے جنگ بندی کا اعلان کردیا۔ اسی طرح 2012 میں
اسرائیل نے غزہ کے معصوم لوگوں کو بم و بارود کا نشانہ بنایا؛ لیکن چند
دنوں میں اسرائیل کو یہ دہشت گردی روکنی پڑی۔ یہاں اس نکتہ پر ہمیں ضرور غور
کرنا چاہیے کہ 2012 میں ڈاکٹر محمد مرسی کے صرف چند بیانات اور فون کالس پر
مجبور ہوکر اسرائیل نے کیوں جنگی کاروائی بند کردی؟ وجہ ظاہر ہے کہ اسرائیل
اچھی طرح سمجھ رہا تھا کہ اگر وہ لونگ ٹرم جنگ کرتا ہے تو اب "حماس" والے
تنہا نہیں ہیں؛ بل کہ جہاں مصر سے ڈاکٹر محمد مرسی ــ حفظہ اللہ ــ اسرائیل
کو لگام لگانے کی صلاحیت رکھتے ہیں، وہیں دوسری طرف مصر کے اخوانی جیالے
غزہ میں آکر اسرائیل کو ناکوں چنے چبانے پر مجبور کردے گا؛ لہذا چند دنوں
کے بعد اسرائیل نے دہشت گردی بند کردی۔ آج جب غداروطن اور غدار ملت عبد
الفتاح السیسی نے ڈاکٹر محمد مرسی کا تختہ پلٹ کر اور انھیں اغوا کر کے مصر
کے سیاہ و سفید کا مالک بنا بیٹھا ہے، تو اسرائیل خود کو آزاد تصور کرتا ہے؛
کیوں کہ ایک دفعہ پھر اسرائیل کو السیسی کی صورت میں حسنی مبارک جیسا معاون
و مددگار فراہم ہوگیا ہے۔ اس لیے آج غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے، کوئی بھی
انصاف پسند شخص اس میں مصری غدار السیسی کو برابر کا شریک سمجھے گا۔ اگر
ڈاکٹر محمد مرسی اقتدار میں ہوتا، تو آج ناپاک اسرائیل یہ ہمت نہیں کرپاتا،
جو وہ کر رہا ہے۔ آج اگر ہم کھلی آنکھوں سے عالمی حالات کا مشاہدہ کریں تو
ہمیں معلوم ہوگا کہ "الکفر ملۃ واحدۃ" کی درست تصویر ہمارے سامنے ہے۔ عالم
کفر، اسلام اور اہل اسلام کو ذلیل و رسوا کرنے کے لیے، اپنے اختلافات کو
بھلا کر، ایک پلیٹ فارم پر، ایک جھنڈا تلے جمع ہے۔ مگر اسے بدقسمتی ہی کہئے
کہ عالم اسلام ایک اللہ پر یقین رکھنے، محمد رسول اللہ ــ صلی اللہ علیہ
وسلم ـ کی امت ہونے اور ایک قرآن کریم کو ماننے کے باوجود مختلف فرقوں میں
منقسم ہیں۔ یہ تو عوام کی حالت ہے، جہاں تک خواص اور حکمراں طبقے کا تعلق
ہے؛ تو وہ اپنی کرسی اور عہدے کو محفوظ رکھنے کے لیے کسی طرح کی بہادری اور
شجاعت کا اظہار کرنا نہیں چاہتے؛ بل کہ ان کی بزدلی اور جبن پورے عالم میں
عیاں ہے۔ نہیں تو پھر کیا بات ہے اگر ایک شخص افغانستان میں مرتد ہوکر
عیسائیت قبول کرتا ہے اور ایک خاتون سوڈان میں اسلام سے برگشتہ ہو کر
عیسائیت کو گلے لگاتی ہے، پھر ان کو ان کے ملکوں میں جیسے ہی پھانسی کی سزا
سنائی جاتی پوری دنیا سراپا احتجاج بن جاتی ہے، حقوق انسانی کی تنظیمیں جوش
میں آجاتی اور کچھ ممالک تو ان کے مذہبی جذبات کا احترام کرتے ہوئے، اپنے
ممالک کا فری ویزا فراہم کرکے ان کو پناہ فراہم کرتے ہیں۔ اگر مسلم ممالک
کے حکمرانوں اسلام اور مسلمانوں کے لیے ایسا کچھ کرنے کا جذبہ ہوجائے، تو
پھر فلسطین اور قدس و اقصی کا مسئلہ منٹوں میں حل ہوجائے گا اور اسرائیل کو
اپنی حیثیت کا بھی اندازہ ہوجائے گا۔ مسلم ممالک کے حکمراں فلسطینیوں اور
مسجد اقصی کی خاطر ایسا نہیں کرسکتے؛ جب کہ آج دنیا میں مسلمانوں کے زیر
اقتدار 57 ممالک۔ اگر یہ سب کے سب متحد ہوتے تو اسرائیل کو منٹوں میں صفحہ
ہستی سے مٹا سکتے تھے؛ لیکن ان ممالک کے حکمراں آپس میں بری طرح دست و
گریباں ہیں، ان میں نفرت و عداوت کوٹ کوٹ کر بھری اور ہر ایک خود کو بڑا
قائد سمجھنے کی تاریخی غلطی کررہا ہے۔ دوسری طرف انھیں اپنا عیش و آرام سب
سے زیادہ پیارا ہے۔ وہ اس بات سے بھی خائف ہیں اگر وہ فلسطینیوں اور مسجد
اقصی کی بات کریں گے تو "قصر ابیض" میں براجمان ان کا آقا اور اس کے حلفاء
ان سے ناراض ہوجائیں گے۔ ان کی عیاشیوں اور خر مستیوں کے سامان کی فراہمی
بند کردی جائے۔ ممکن ہے یہ بھی ہوسکتا ہے کہ صدام حسین اور معمر قذافی کی
طرح ان کو نیست و نابود کردیا جائے۔ آج اسرائیل فلسطینیوں پر عموما اور "اہالیان
غزہ" اور "اراکین حماس" پر خصوصا جو ظلم و جور کررہا ہے، اس کا مقصد فلسطین
کے نام سے باقی ماندہ زمین کے چند ٹکڑوں کو ہتھیانا اور مسجد اقصی پر مکمل
کنٹرول کرکے اس کی جگہ "ہیکل سلیمانی" تعمیر کرنا ہے۔ اب اس کے ان مقاصد کے
حصول میں جو بھی آرے آئے گا، اس کا وہ یہی حشر کرے گا جو "حماس" والوں کا
کر رہا ہے۔ فلسطین اور مسجد اقصی کی حفاظت کے لیے آج "حماس" والے اپنے
جانوں کی قربانی اور خون کا عطیہ پیش کررہے ہیں؛ جب کہ یہ واضح ہے کہ مسجد
اقصی کی حفاظت کی ذمے داری صرف "حماس" والے یا فلسطینیوں کی نہیں ہے؛ بل کہ
یہ عالم اسلام کی مشترکہ ذمے داری ہے۔ اس باوجود بھی قضیہ مسجد اقصی کےلیے
کوئی بولنے کو تیار نہیں۔ خیر، آج فلسطینیوں کا خون بہ رہا ہے، وہ اسرائیل
کے بموں اور ٹینکوں استقبال کرکے عند اللہ سرخرو ہو رہے ہیں۔ مجھے امید ہے
کہ وہ قیامت کے دن اللہ کے فضل و کرم سے سربلند ہوں گے۔ وہ سب شہداء و
صالحین کی صف میں ہوں گے؛ لیکن میں شب و روز یہ سوچتا رہتا ہوں کہ یہ مسلم
حکمراں جن کو اللہ نے حکومت کی طاقت و قوت اور نعمت سے نوازا ہے، وہ کس منہ
سے پاک پروردگار کے سامنے ہوں گے۔ اے فلسطینی مجاہد! تم پہ ہو لاکھوں سلام/
عہد حاضر کے ہو زاہد، تم پہ ہو لاکھوں سلام/ عزم فولادی تمھارا ہے یہودیت
کی موت/ تم ہو صابر، تم ہو عابد، تم پہ ہو لاکھوں سلام۔ |
|