انسان نے جہاں ترقی کے بے شما ر محاذ فتح کیے و ہاں آج
بھی بہت سے ایسے سر بستہ راز ہیں جو اُسے بے قرار ر کھے ہو ئے ہیں،ان میں
سے سب سے ما یوس کُن اور غم ناک کر دینے والا سوال یہ ہے کہ موت کے بعد
میرا کیا ہوگا؟ کیا موت کے بعد بھی کو ئی زندگی ہے ؟ اگر ہے تو اُس کی کیا
حقیقت ہے ؟اُس زندگی میں کا میابی وناکامی کے اسباب کیا ہیں ؟ یہ سوال ہر
انسان کے ذہن میں اسی طر ح مو جود ہے جس طرح زندہ ر ہنے کی حس۔ہر مذہب نے
اپنے پیرو کاروں کو مطمئن کر نے اور اس د نیا کی زندگی میں توازن پیدا کر
نے کے لیے آخرت (زندگی ما بعد زندگی )کا تصور پیش کیا ۔ ان تمام مذاہب میں
جو قدر مشترک ہے وہ یہ ہے کہ تمام مذاہب نے یہ شرط عائد کی کہ آخرت کی
زندگی میں خوشحالی صرف اُس کو نصیب ہو گی جو اس د نیا میں اچھے (انسانی
بہبود کے) کام کر ے گا ۔مگر جو اعمال بد(انسان کش جرائم) کا ارتکاب کر ے گا
اُس کی آئندہ کی زندگی ہمیشہ کے لیے ذلت و رسوائی کا بوجھ بنا دی جا ئے
گی۔مگر بد قسمتی سے جب مذہب کو چڑھاوے ،خدمت ،توفیق،نظرانوں،منتوں ،چادروں
،نیازوں کی صورت میں رشوت ملنے لگی تویہ جنت بھی فقط رؤسا کی ملکیت ہو کر
رہ گئی۔غُر با تو پر یشان تھے ہی مگر یہ بے چینی اُس وقت بامِ عروج پر
پہنچی جب ردِ مذہب کی ہوا چلی ۔جب کسی قوم کے مذہب کو رد کیا گیا تو اُس کے
ساتھ ہی اُس کے تمام اچھے اعمال پر باطل اور شیطانی اعمال کا لیبل لگا کر
رد کر دیا گیا۔جب سماجوں اور تہذیبوں نے اس ظالم اور انسان دشمن فلسفے کو
مذہب کی آغوش میں پروان چڑھا نا شروع کیا تو پھر انسان کی قدر اُن چیزوں سے
بھی کم تر ہو گئی جو کبھی انسان کا صدقہ اُتارکر پھینک د ی جا تیں تھیں ۔آج
صورت حال یہ ہے کہ یہود دعویٰ کر تے ہیں کہ د نیا میں امن کے لیے ضروری ہے
کہ ہر غیر یہودی کو قتل کر د یا جا ئے ۔اہل کلیسا اس پوری د نیا کے انسانوں
کو عیسائیت میں ضم کر نے کا خواب سجا ئے ہو ئے ہے ۔بر ہمن کا اعلان ہے ۔مکتی
صرف ہندو ہو نے اور ہندو کر نے میں ہے ۔مسلم کہتے ہیں سب اہل کفار واجب
القتل ہیں ۔تو اہل طا ئف ،اہل قریش ،اور اپنے عزیزو اقارب کے قاتلوں کو
معاف کر دینے کا ہادی برحق ﷺ کا فلسفہ( سنت) کیا ہوا؟آج تو ہم مسلمانوں کو
یہ بھی نہیں معلوم کہ ہم سے راہ راست پر کون ہے؟ ہم میں مومن کو ن ہے؟کون
حق شناس ہے اور کون گمراہ ہے ؟ہم دوسر ے مذاہب کو مشرک کہہ کر قتل کر تے جا
ر ہے ہیں کیا ہم مو حد ہیں ؟بس فرق اتنا ہے کہ جن کو ہم مشرک کہتے ہیں طلوع
اسلام سے آج تک اُسی عہد کُہن کے شرک میں مبتلا ہیں اور ہم نے وقت کے ساتھ
شرک کو ماڈرن کر لیا ہے ۔دولت ،امریکہ،انگلینڈ،صدارت،وزارت،گدی نشینی،سیٹ ،
حوس،لالچ،خود پسندی ،اقراپروری،ذات، نسل یہ ہمارے معبود نہیں تو کیا ہیں؟
آج پھر ہمیں وہی سوال درپیش ہے کہ مر نے کے بعد ہمارا کیا ہوگا؟ اگر ہم
اپنے مذہب کے ساتھ مخلص ہو تے تو آج ہم اس کشمکش کا شکار نہ ہو تے ۔ہم
مولوی صاحب کے منہ سے جنت کی نوید سننے کے لیے بے چین ر ہتے ہیں ہم اُن کو
پڑھے اور پڑھا ئے جا نے والے قرآن ، تسبیحات اور ذکر اذکار گن گن کر بتا تے
ہیں ۔کب کب اور کہاں کہاں نیک کام کیے وہاں پر تاریخ ،لاگت اور ا پنے نام
کے ایصالِ ثواب کی تختی لگا تے ہیں ، کہیں فرشتے غلطی یا کر پشن سے ہمارا
ثواب کسی اور کے کھا تے میں نہ لکھ دیں ۔اور اگر ہم نے ایصالِ ثواب کی تختی
نہ لگا ئی تونیکیوں کے رجسٹر میں ہمارا نام درج ہو نے سے نہ ر ہ جا ئے ۔کیا
ہمیں قرآن کی وہ تعلیم بھول گئی کہ اﷲ تعالیٰ کے پاس تمھارے جانوروں کا
گوشت پہنچتا ہے اور نہ خون؟کیا ہمیں قرآن کی وہ آیت بھی بھول گئی کہ تم جو
بھی عمل کر تے ہو اﷲ خوب خبر ر کھنے والا ہے ؟
اُوپر بیان کردہ صورت حال بتاتی ہے کہ ہمیں اﷲ کے بندوں سے محبت نہیں ،اﷲ
کی جنت سے محبت نہیں ۔ ہم کو یہ و ہم کھا ئے جا ر ہا ہے کہ بنک میں محفوظ
رقم کی طرح ہمارے اعمال بھی محفوظ ہوں اور ہمیں ایک نیکی کے بدلے ہزار نیکی
کا(سود) ثواب مل جائے ۔نیک اعمال انسانوں کو بچا نے کے لیے تھے نہ کہ
انسانوں کو قتل کر کے نیک اعمال بچانا۔
جب ہمیں یہ ہی معلوم نہیں کہ ہمارے ساتھ کیا معاملہ ہو نے والا ہے اور یہ
بات پیغمبروں ،والیوں ،درویشوں، قلندروں،اماموں تک کو معلوم نہیں ۔ تو پھر
ہم کس حیثیت سے جنت اور دوزخ کے سرٹیفیکیٹ تقسیم کر ر ہے ہیں ؟
ہمیں سب سے پہلے انسان کو انسان کے خوف سے نکالنا ہو گا ۔آج کا انسان ہاتھی
اور شیر کے قریب سے بے خوف گزر سکتا ہے ۔ مگر ایک آدمی جب اپنے اہل و عیال
کے ساتھ گھر سے نکلتا ہے توخالی گلی میں سے تو وہ آرام سے گزر سکتا ہے مگر
جب اُس کے ذہن میں یہ خیال آتا ہے کہ کو ئی آد می کسی کو نے میں سے نہ نکل
آئے یہ خیال آتے ہی اُس کی جان پر بن جا تی ہے ۔کسی اجنبی شہر میں اجنبی
رکشے یا کار میں بیٹھے ، باوجود اس کے کہ اُس نے اُس کے ساتھ اُجرت طے کی
ہو تی ہے اور یہ کہ وہ اُس کو باحفاظت منزل پر لے جا نے کا پابند ہو تا ہے
مگر مسافر گاڑی والے سے اور گاڑی والا مسافر سے ڈر ر ہا ہو تا ہے ۔دلچسپ
بات یہ کہ دونوں مسلمان ہیں۔پہلے مسلمان کے دل سے مسلمان کا ڈر نکالو۔پھر
انسانوں کے دل سے مسلمان کا ڈر نکالو ۔اﷲ کے وعدے کے مطا بق د نیا کے
حکمران تم ہی ہو گے اگر مومن ہو ئے تو ۔ورنہ خود ہی اپنے ہاتھوں ا پنی
قبریں کھودتے رہو گئے۔اغیار سے شکست و ذلت سے دو چار ہو تے ر ہو گے ۔نیک
کام بھی ذہنی سکون میسر نہ کر سکیں گے جب تک اپنی بقا کے دشمن بنے ر ہو گے
، یعنی جب تک انسانوں کے دشمن بنے ر ہو گے۔ |