جنابِ محمدعربی اﷲ صلی اﷲ علیہ وعلی آلہ وصحبہ وسلم نے
فرمایا:
۱: بیشک اﷲ تعالی نے فرض کیا ہے تم پر رمضان کا روزہ او رسنت قرار دیا ہے
اس (کی راتوں ) کا قیام، پس جو شخص اس کا روزہ رکھے اور اس (کی راتوں)میں
قیام کرے ،اس پرایمان لاکر (یعنی صیام وقیام کودین کا حکم سمجھے ، ثواب طلب
کرنے کی نیت سے او ر یقینی سمجھ کر ،تو ہوگا وہ عمل کفّارہ (مٹانے والا )
گذ رے ہوئے گناہوں کا (یعنی جو اس سے صغیرہ گناہ ہوئے ہیں ماضی میں، وہ سب
معاف ہوجاوئینگے ،لہذا اس مہینہ میں بہت نیکیاں کرنی چاہیئں ،کیونکہ اس میں
ایک فرض ادا کرنے سے ستّر فرضوں کا،اورکوئی نفل کام کرنے سے فرض کام کے
برابر ثواب ملتاہے )۔
۲: جس نے اعتکاف کیا دس دن (اخیر عشرۂ) رمضان میں،توہوگا وہ (اعتکاف )مثل
دو حج او ر دو رعمروں کے، (یعنی دوحج اور دوعمروں کا ثوا ب اسے ملے گا) ۔
۳: جس نے اعتکاف کیا عبادت جان کر اور ثواب حاصل کرنے کے لئے، اس کے گذشتہ
گناہ بخش دئے جائینگے ۔
لیلۃ القدر(قدر ومنزلت والی رات) کی فضیلت کے بارے میں حق تعالی فرماتے ہیں
:لیلۃ القدر خیرمن الف شھر، یعنی لیلۃ القدر بہترہے ہزار مہینوں سے، مطلب
یہ ہے کہ اس رات میں عبادت کرنے کا اس قدر ثواب ہے کہ اس کے سوا اور ایام
میں ہزار مہینے عبادت کرنے سے بھی اس قدر ثواب نہیں میسر ہوسکتا ،جتنا ثواب
اس ایک رات میں عبادت کرنے سے مل جاتاہے ۔
اس آیت کا شان نزول امام سیوطی نے لباب النقول میں یوں بیان کیاہے ، رسول
اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے بنی اسرائیل میں سے ایک آدمی کا تذکرہ فرمایا، جس
نے ہزار مہینے اﷲ تعالی کے راستے میں لگائے تھے ،تو تعجب ہوامسلمانوں کو اس
بات سے ،نازل فرمائیں اﷲ تعالی نے یہ آیتیں: (انا انزلناہ فی لیلۃ القدر
وما ادراک ما لیلۃ القدر ،لیلۃ القدر خیر من الف شھر )یعنی یہ شبِ قدر بہتر
ہے ان ہزار مہینوں سے جو اس اسرائیلی مرد نے اﷲ تعالی کے راستہ میں لگائے
تھے ۔
دوسری روایت میں یہ ہے کہ بنی اسرائیل میں ایک مرد تھا جو رات کو عبادت
کرتا تھا ،صبح کو جہاد کرتاتھا ،یہ عمل کیا اس نے ہزار مہینے ، پس نازل
فرمائی اﷲ تعالی نے :( لیلۃ القدر خیر من الف شھر )یعنی ان ہزار مہینوں سے
جن میں اس مرد نے عبادت وجہاد کیاتھا ،یہ ایک رات بہتر ہے ۔
۴:حدیث میں ہے ، یہ مہینہ (یعنی رمضان )تمہارے پاس آگیا اور اس میں ایک
ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہترہے ،جو شخص اس رات (کی برکت ،اطاعت
وعبادت )سے محروم کیا گیا ،وہ تمام بھلائیوں سے محروم ہوا ،او رنہیں محروم
کیا جاتاہے اس کی برکتوں سے مگربڑاہی محروم وحقیقی نامراد ۔
۵: بیشک اگر اﷲ چاہتا، تو تم کو لیلۃ القدر پر مطلع کردیتا (لیکن بعض
حکمتوں سے بالتعیین اس پر مطلع نہیں کیا )لہذا اس کو (رمضان کے سات ) آخری
راتوں میں تلاش کرو، (کہ ان راتوں میں غالب گمان شب قدر کا ہے اور تلاش
کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ان راتوں میں جاگو اور عبادت کرو تاکہ تمہیں لیلۃ
القدر میسر ہوجاوئے )۔
۶: لیلۃ القدر ہر رمضان میں ہوتی ہے۔
۷: لیلۃ القدر ستائیسویں شب (رمضان کو ہوتی ہے )(اس رات کی تعیین میں بڑا
اختلاف ہے، مگر مشہور قول یہی ہے کہ ستائیسویں کو شب قدر ہوتی ہے ،بہتر یہ
ہے کہ اگر ہمّت اور قوت ہو،تو اخیر کی د س راتوں میں اعتکاف کرے یا کم ازکم
جاگے رہے ، اس میں یہ ضروری نہیں کہ کچھ نظر آئے، جب ہی اس کی برکت میسّر
ہو، بلکہ کچھ نظر آئے یا نہ آئے عبادت کرے او ربرکت حاصل کرے ۔ مقصود یہی
ہے کہ اس رات کی برکت اور اس قدر ثواب کوحاصل کیاجائے ،کسی چیز کا نظر آنا
مقصود یا ضروری نہیں)۔
۸: جو بیدا ررہا (عید )الفطر کی رات اور عید الاضحی کی رات میں نہ مردہ
ہوگا ،اس کا دل جس دن سارے دل مردہ ہونگے، (یعنی قیامت کے دن کی دہشتوں سے
محفوظ رہیگا ،جس روز کہ لوگ قیامت کی سختیوں سے پریشان ہونگے )۔ |