ایک لمحہ تخلیق، ایک لمحہ مخلوق، اور ایک لمحہ خالق:لمحہ
تخلیق وہ ازل جب تمام کائنات ظہور پزیر ہو رہی تھی، لمحہ مخلوق ازل سے ابد
تک کا زمانہ جو ابھی چل رہا ہے ، اور لمحہ خالق یعنی آخرت جب مخلوق کی تمام
طاقت سلب ہو چکی ہو گی اور صرف اور صرف اﷲ رب العزت کی طاقت اپنی تمام جاہ
و جلال لے ساتھ جلوہ فرما ہو گی۔
وقت کا تاثر اس دنیا کے عجیب ترین احساسات میں سے ہے جو سمجھ کے دائرے کو
مماس کی طرح چھو کر گزر جاتا ہے۔اور اتنا دور چلا جاتا ہے کہ سمجھ بیچاری
دیکھتی رہ جاتی ہے۔آج کل تو زندگی بہت محدود ہے ،چند سالوں کی مہمان بن کے
رہ گئی ہے،یا یوں کہہ لیں جہ زندگی کی داستان ایک افسانے کی شکل احتیار کر
چکی ہے۔ لیکن جب زندگی کئی سو سالوں پر محیط ہوتی تھی وقت کا احساس تب بھی
ایسا ہی تھا۔ نہ اس وقت ،وقت کسی کو سمجھ آیا نہ اس وقت وہ کسی کی سمجھ سے
کوئی راہ و ر سم پیدا کرنے کو تیار ہے۔ ہم بے چارے انسان ہی ہیں جو وقت کو
دائرۂ سمجھ میں لانے کی سعئی لا حاصل کرتے رہتے ہیں۔
ایک بہت بڑا عام تصور ہے کہ وقت گزر گیا۔ یہ تصور اس قدر عام ہے کہ اس کے
متعلق سوچنے کی ہمیں ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی۔ وقت نہیں گزرتا بلکہ ہم
گزرجاتے ہیں۔جیسے کہ سڑک نہیں گزرتی ، گاڑی گزر جاتی ہے۔چلتی گاڑی میں یہ
دھوکہ ایک معمولی بات ہے کہ چیزیں ہمیں پیچھے کو یا دائروں میں گھومتی ہوئی
نظر آتی ہیں،جب گاڑی رکتی ہے تو یہ دھوکہ ختم ہو جاتا ہے۔ہم بھی زندگی کی
گاڑی میں وقت کی سڑک پر چل رہے ہیں۔اور ہمیں بھی سڑک پیچھے کو دوڑتی ہوئی
نظر آتی ہے۔ یا دوسرے الفاظ میں ہم وقت کو گزرتا ہوا محسوس کرتے ہیں۔جبکہ
یہ نظری دھوکے کے سوا کچھ نہیں،کیونکہ سڑک پیچھے کو نہیں دوڑتی، وہ تو رُکی
ہوئی ہے اور ہماری زندگی کی گاڑی اس سڑک پر بھاگتی ہوئی جا رہی ہے۔لیکن ہم
کہہ دیتے ہیں کہہ وقت گزرگیا ہے۔کہنے کو کون روک سکتا ہے۔
ایک اور عام غلط فہمی ہے کہ وقت کو اجرامِ فلکی کے ساتھ منسلک کیا جاتا ہے۔
چاند کے گھٹنے اور بڑھنے کے ساتھ زمانہ قدیم میں ہی انسان نے مہینہ کا تصور
جوڑ دیا تھا۔ اور پھر سورج کی حرکت اور برجوں سے گزرنے کو سال سے نسبت دے
سی گئی۔مزید وقت کی چھوٹی تقسیم کے لئے انسان نے گھڑیاں ایجاد کر لیں،اب ہر
موبائل یہ گھڑی اپنے اندر سمائے ہوئے ہے۔لیکن کتنی عجیب بات ہے ان تمام
اجرامِ فلکی، اور تمام دنیا کی گھڑیوں اور تمام دنیا کے موبائلوں کا وقت کے
ساتھ دور دور کا بھی تعلق نہیں ہے۔ایسے ہی سمجھ لیں جیسے پیمانے کا جنس کے
ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے، کپڑے کو گز سے، میٹرسے، فٹ سے، بالشت سے،یا کسی
اور پیمانے سے کپڑے کا پیمانے سے تعلق نہیں بنتا اور یہی بات ہر چیز پر
صادر آتی ہے۔چیز اور پیمانے کو الگ الگ کر کے دیکھنے کی ضرورت ہے بات سمجھ
آسکتی ہے۔یا اسے یوں سمجھ لیں کہ اگر تمام دنیا کی گھڑیاں رک جائیں تو وقت
کو کیا فرق پڑے گا ، کچھ بھی نہیں۔یعنی گاڑی رک جائے سڑک کو فرق نہیں
پڑتا۔اسی طرح سے اجرامِ فلکی رک جائیں وقت کو فرق نہیں پڑے گا بس صرف یہ ہو
گا کہ ہماری پیمائش رکے گی جیسے کپڑے کی پیمائش روک دی جائے کپڑے پر اثر
نہیں پڑتا۔ کیونکہ وقت کا ان سب سے کوئی سروکار ہے ہی نہیں۔وقت اپنی جگہ پے
قائم ہے اگزسٹ کرتا ہے۔انسان آتا ہے، بڑا ہوتا ہے اور چلا جاتا ہے، جیسے
زمیں پر پودا اگتا ہے، نشوونما پاتا ہے اور ایک مدت گزار کر ختم ہو جاتا ہے
زمیں وہیں کی وہیں رہتی ہے ۔وقت بھی اسی طرح ہے۔
وقت کو انسان نے عموماً ماضی، حال اور مستقبل میں تقسیم دی ہے۔لیکن کو بات
قریباً ہر انسان کا ذاتی مشاہدہ ہے وہ یہ ہے کہ کبھی اتنے زیادہ سال پرانی
بات کل ہی کی بات لگتی ہے اور کبھی ایسے لگتی ہے جیسے کوئی خواب ہو کو کبھی
حقیقت رہی نہ ہو۔ کبھی کوئی واقعہ ہوتا ہے اور ایسے لگتا ہے کہ یہ شاید
پہلے بھی ہوا تھا حا لانکہ وہ بات پہلے کبھی ہوئی ہی نہیں ہوتی۔کبھی کبھی
زندگی اتنی ظویل لگتی ہے کہ جس کا اختتام ہی نہ ہو اور کبھی کبھی ایک لمحے
سے زیادہ کچھ سمجھ نہیں آتا۔
قرآنِ پاک نے انسان کوروزِ ازل یا د کرنے کو فرمایا ہے الست بربکم کی بات
کی ہے اور کہا ہے کہ تمام ارواح نے قالو بلیٰ کہا تھا تم اس وقت کو یاد
کرو۔ اس کا مطلب ہے کہ زمانہ ازل انسان کی روح میں موجود ہے ورنہ قرآن
انسان کو وہ وقت یاد کرنے کو ہرگز نہ کہتا جس کو یاد کیا نہیں جا سکتا۔
انسان کو تو اپنی ابتدائی زندگی کے تین چار سال اور بعد کی زندگی کی بہت سی
باتیں بھی یاد نہیں رہتیں۔انسان بھول اور خطا کا مرکب کہا جاتا ہے،انسان کی
یاداشت میں روزِازل موجود ضرور ہے لیکن وہ بھول گیا ہے اور بھولنا زندگی کا
عام مشاہدہ ہے۔قرآن نے یومِآخرت کی بات بھی کی ہے کہ اس دن بھی کوگ دنیا کی
زندگی کو بھول جائیں گے اور یاد کریں گے کہ وہ دنیا میں کوئی ایک شام یا
صبح گزار کر آئے ہیں جبکہ اس دنیا میں وہ کئی سال گزار کر گئے ہوں گے۔
وہ بھولی داستاں ، لو پھر یا د آگئی
نظر کے سامنے ، گھٹا سی چھا گئی
وقت کا احساس دھندلا سا ہی رہتا ہے۔کیسے دھند میں انسان دور تک نہیں دیکھ
سکتا ایسے ہی وقت میں انسان دور تک نہیں دیکھ سکتا۔اور چند گز تک کی بات ہی
رہ جاتی ہے باقی سب دھندلا ہو جاتا ہے۔
قرآنِ پاک نے اسی پیچیدگی کے لحاظ سے ایک واقعہ بیان فرمایا ہے کہ حضرت
عزیرؑ اپنے گدھے اور تازہ کھانے سے ساتھ سفر کرتے کرتے آرام فرما ہوئے تو
ان پر دو طرح کا وقت گزرا۔ایک وقت کے لحاظ سے ان پر ایک سو سال گزر گئے اور
ان کا گدھا نابود ہو گیا اور دوسرا وقت ان پر اس طرح سے گزرا کہ جیسے ایک
لمحہ گزرا ہو اور ان کا کھانا ترو تازہ رہا۔واقعہ معراج بھی اس تناظر میں
بہت اہمیت کا حامل ہے ایک طرف کئی دنوں، مہینوں اور سالوں پر محیط سفر ہے
اور دوسری طرف ایک لمحہ ہی گزر رہا ہے: کنڈی ہل رہی ہے، وضو کا پانی ابھی
بہہ رہا ہے، بستر ابھی گرم ہے جبکہ یہ چیزیں تو آن کی آن میں رک جاتی ہیں،
بہہ جاتی ہیں اور ٹھنڈی ہو جاتی ہیں۔یہاں بھی وقت کا کم از کم دوہرا
تصوراور حقیقت پیش کی گئی ہے۔جبکہ وقت کا تصور کم از کم تہرا ہے۔ یعنی
ماضی، حال اور مستقبل۔قرآن ان تینوں زمانوں کو اکٹھا کر دیتا ہے اور حقیقت
بھی یہی ہے۔وقت کی صرف ایک ڈائیمنشن پر یقین کرنا ممکن نہیں کیونکہ ماضی
اور حال تو ہر کسی کے ساتھ منسلک ہے ہی۔ مستقبل کا انکار یا یقین مرضی ،
مشاہدے اور عقیدے پر منحصر ہے۔
تینوں زمانوں کو اکٹھا سمجھنا ہی دانشمندی ہے اور ان میں سے کسی کا انکار
ناسمجھی اور نادانی ہے۔
قیامت کا دن پچاس ہزار سالوں کا بتایا جاتا ہے۔ اس کے لحاظ سے ہم اپنی چند
دہا ئیوں کی زندگی کے متعلق سوچیں تو یہ ایک لمحہ بھی بنتی۔اگر بنتی بھی تو
بس ایک لمحہ۔اس ایک لمحے میں ابدیت پوشیدہ ہے،اس میں ازل بھی ہے اور ابد
بھی ہے۔ اسی ایک لمحے پر لا محدود زمانے منحصر ہیں،یہاں انگریزی زبان کے
صوفی شاعر ولیم بلیک (William Blake) کا ذکر مناسب رہے گا:
To see a world in a grain of sand
And a heaven in a wild flower.
Hold infinity in the palm of your hand
And eternity in an hour.
(Auguries of Innocence Lines:1-4)
ابدیت اور گھنٹہ کو ایک احساس میں پیش کرنا ایک حقیقت اور مجاز کو اکٹھا
کرنے والی بات ہے لیکن یہ بات ہے بھی۔بات سمجھ پر منحصر ہوتی ہے۔لمحہ میں
زندگی گزر جاتی ہے ۔
ایک لمحہ ہی ہوتا ہے جو زندگی بنا دیتا ہے اور ایک لمحہ ہی ہوتا ہے جو
زندگی بگاڑ دیتا ہے۔ گوتم بدھ پر ایک لمحے نے اثر کیا اور وہ بادشاہ سے
فقیر ہو گیا۔اور ایک بہت بڑے مذہب کا بانی بن گیا،ایک بہت بڑی فکر کا نقیب
ثابت ہوا،ایک لمحہ ہی تھا جب سکندر نے دنیا فتح کرنے کاعزم کیا اور دنیا کی
تاریخ میں امر ہو گیا۔ایک لمحہ ہی تھا جب جاپان کے شہروں پر ایٹم بم گرائے
گئے اور دنیا نے قیامت کے مناظر دیکھے، ایک لمحہ ہی ہوتا ہے جب لاکھوں
انسانوں کو تہہ تیغ کر دینے کا حکم جاری کیا جاتا ہے،ایک لمحہ ہی ہوتا ہے
جب کسی کی سزائے موت رہائی میں بدل دی جاتی ہے،ایک لمحہ ہی ہوتا ہے جب کوئی
آنکھوں کے رستے دل میں اتر جاتا ہے،اور ایک لمحہ ہی ہوتا ہے جب کوئی آنکھوں
کے رستے دل سے اتر جاتا ہے،ایک لمحہ میں ایمان اتر آتا ہے اور ایک لمحہ میں
ایمان نکل جاتا ہے،ایک لمحہ میں اپنائیت بن جاتی ہے اور ایک لمحہ میں
بیگانگی اپناآپ منوالیتی ہے، ایک لمحہ ہی موت کا پیامبر ہوتا ہے اور ایک
لمحہ ہی زندگی کی نوید سناتا ہے، ایک لمحہ دل کو سکون سے بھر دیتا ہے اور
لمحہ سکون برباد کر دیتا ہے، ایک لمحہ کامیابی کی سر بلندی لاتا ہے اور ایک
لمحہ شکست کی شرمندگی سے دو چار کر دیتا ہے،ایک لمحہ زندگی کا خواب بن جاتا
ہے اور ایک لمحہ زندگی کا عذاب بن جاتا ہے،ایک لمحہ ایک لمبی کتاب لکھوا
جاتا ہے اور ایک لمحہ ایک لمبی تحریر سمجھا جاتا ہے،ایک لمہ ایجادات کا
نقیب بن جاتا ہے اور زندگی کے انداز بدل کے رکھ دیتا ہے، ایک لمحہ نئی
سوچیں دے جاتا ہے اور آنے والے کئی زمانے انہی سوچوں کے سہارے زندگی بسر کر
جاتے ہیں۔ میرؔ صاحب نے کیا خوب فرمایا ہے:
ہستی اپنی حباب کی سی ہے
یہ نمائش سراب کی سی ہے
حباب کی زندگی ایک لمحے سے زیادہ ہو ہی نہیں سکتی۔بس زندگی کا لمحہ ایک
لمحے کا مرہونِ منت ہے۔انگلش میں کہتے ہیںFirst impression is the last
impression:
اب پہلا تااثر ایک لمحے پر مبنی ہے اور نا جانے کب تلک قائم رہے۔ انگریزی
زبان کی مشہور ناول نگارJane Austen کا مشہور ناولPride and Prejudice اسی
ایک لمحہ کی بات کرتا ہے جب غرور اور تعصب دلوں میں اتر جاتے ہیں اور پھر
ایک زمانے تک ساتھ نہیں چھوڑتے۔ادب ایسی ہزاروں مثالوں سے بھرا پڑا ہے اور
زندگی بھی۔
قسمت بھی ایک لمحہ کی بات بن جاتی ہے،کہا جاتا ہے Fortune knocks at your
door but once.یعنی قسمت آپ کے دروازے پر دستک دیتی ہے لیکن ایک بار ۔وہ
ایک بار ایک لمحہ ہے جب قسمت سنور جائے یا بگڑ جائے۔
آج کل flashکا زمانہ ہے ایک فلیش میں اتنا مواد ایک سے دوسری جگہ منتقل ہو
جاتا ہے کہ عقل کو دھنگ رہ جانے کے سوا کچھ سجھائی نہیں دیتا۔ایک فلیش آناً
فاناً یہ کام کر گزرتا ہے یہی ایک لمحہ ہے جو سوچ کے دائرے سے گزرتا ہے اور
اسے وہ کچھ دے جاتا ہے جس کا اس نے کبھی سوچا نہیں ہوتا۔
کبھی ایک لمحہ پھیل کر ہزاروں صدیوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے اور کبھی
ہزاروں صدیاں ایک لمحے میں سمٹ آتی ہیں۔
نظر سے نظر ملنا ایک لمحے کی بات ہے لیکن اس سے دل پر جو اثرات پڑتے ہیں مر
کر بھی نہیں جاتے۔بے شمار داستانیں اسی ایک لمحے کی پیدا وار ہیں۔
نظر سے گرنا اور نظر میں سمانا بھی ایک لمحاتی کاروائی ہے،جس سے دنیا ادھر
سے ادھر ہو جاتی ہے۔نظر کا اٹھنا اور نظر کا جھکنا بھی لمحات ہی کا تقاضا
کرتا ہے اور انہی لمحات میں زندگی اور موت کے فیصلے سنا دیئے جاتے ہیں۔
الغرض لمحات ہماری زندگی کے لمحے کوبنانے یا بگاڑنے میں انتہائی زیادہ
اہمیت رکھتے ہیں۔اس لیے ہمیں لمحات کی قدر کرنی چاہئے تاکہ ہماری زندگی کا
لمحہ بھی قابلِ قدر بن سکے۔ |