میں کیوں لکھتا ہوں
(Dr Rais Samdani, Karachi)
لکھنے کا عمل تخلیق کے
زمرہ میں آتا ہے۔ گویا لکھنے والا اپنے خیالات، نظریات اور فکر کو جب قلم
کی زبان عطا کرتا ہے ، اس کی سوچ تحریر کا روپ دھارتی ہے تو تخلیق عمل میں
آتی ہے گویا لکھاری دیگر فنکاروں اور ہنر مندوں کی طرح ایک تخلیق کار، قلم
کار ، فن کاریا ہنر مند ہی ہوتا ہے۔ لکھنے کا تعلق لکھاری کے تحت الشعو ر
میں موجود وہ حس ہوتی جسے قلم کار اپنے ارادہ کو مدِ مقابل لاتے ہوئے قلم
کو جنبش دیتا ہے تو الفاظ اور جملے قرطاس پر تحریر کا روپ دہار لیتے ہیں۔
لکھنے کی وجوہات کیا ہوتی ہے، قلم کار کیوں لکھتا ہے؟ اس سوالیہ عنوان کے
تحت اپنی رائے کے اظہار کی دعوت جنگ اخبار کے میڈ ویک میگزین میں دی گئی ہے۔
یہ ایک اچھا اور منفرد موضوع ہے۔ بظاہر عام سا لگتاہے لیکن یہ اپنے اندر
گہرائی و گیرائی لیے ہوئے ہے۔ میَں بھی ایک ادنیٰ سا قلم کار ہوں جسے عرف
عام میں لکھاری بھی کہا جاتا ہے۔یہ موضوع اس بات کا تقاضہ نہیں کرتا کہ میں
اس تفصیل میں جاؤں کہ میں نے اب تک کیا کیا لکھا ہے، کن کن موضوعات پر لکھا
ہے۔ اتنا کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ میں گزشتہ ۳۷ برس سے لکھ رہا ہوں۔ میں
نے کبھی اپنے آپ سے یہ سوال نہیں کیا کہ میں کیوں لکھ رہاہوں؟ بس ایک سلسلہ
ہے جو مسلسل جاری ہے۔ روز نامہ جنگ کی اس دعوت کو پڑھ کر یہ خیال آیا کہ
واقعی یہ سوچا جائے کی آخر ایسی کون سی مجبوریاں اور مشکلات ہیں یا خوبیاں
اور کشش ہے جو مجھے مسلسل لکھنے اور چھپنے پر مجبور کیے ہوئے ہیں۔ میں کئی
ہفتوں سے یہ کالم پڑھ رہا ہوں اور سوچ و فکر میں ہوں کہ آخر میَں کیوں لکھ
رہا ہوں ۔جب کہ مجھے کوئی چیز مجبور نہیں کرتی کہ میں ایسا کروں۔ میں پیشہ
ور لکھا ری بھی نہیں یعنی میَں اخبار نویس بھی نہیں، کالم نویس بھی نہیں
پھر آخر کیوں میں نے لکھنے کو ایک خود ساختہ مجبوری کے طور پر اپنا یا ہوا
ہے۔
شاعری ہو یا نثرنگاری ان کا تعلق انسان کے جذبات و احساسات سے ہوتا ہے۔ جس
طرح شعر کسی بھی شاعر کے ذہن میں غیب سے آتے ہیں، بعض شعرا کا کہنا ہے کہ
وہ خود شعر نہیں کہتے بلکہ کوئی طاقت ان سے یہ کام کراتی ہے۔ میرے خیال میں
یہ غیبی طاقت شاعر یا نثر لکھنے والے کے وہ جذبات اور احساسات ہوتے ہیں جن
کا اظہار شاعر اپنے شعرکے ذریعہ اور نثا نگار اپنی نثری تحریر سے کرتا ہے۔
اپنے ان احساسات کا اظہار کر کے اسے ذہنی اور قلبی راحت میسر آتی ہے۔ جس
طرح ایک مصور اپنا شاہکار تخلیق کرنے کے بعد اطمینان اور خوشی محسوس کرتا
ہے اسی طرح شاعر اور نثر نگار اپنی تخلیق کو کاغذ پر بکھرا دیکھ کر دلی
خوشی محسوس کرتا ہے اور یہی وہ جذبہ اور احساسات ہوتے ہیں جو ایک لکھنے
والے کو آئندہ بھی لکھتے رہنے پر مجبور کرتے ہیں۔قلم کار کے جذبات کے حوالہ
سے اپنے استادڈاکٹر الا کرم سبزواری صاحب کے احساسات اور شیرکرنا چاہوں
گا۔وہ استاد ہیں کئی کتابوں ، بے شمار مضامین کے خالق ہیں ریٹائر ہوگئے،
سعودی عرب اور اب امریکہ اور پاکستان میں آتے جاتے ہیں پر لکھنے پڑھنے سے
ایسے چمٹے ہوئے ہیں کہ جیسے دیوار پر دیمک ، مجھے علم ہے لکھنے پڑھنے سے
انہیں مالی منفعت بالکل نہیں اور نہ ہی انہیں اس کی ضرورت ہے۔ وہ کہا کرتے
ہیں کہ جب میری کوئی نئی کتاب چھپ کر آتی ہے تو مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ
جیسے میرا ایک بیٹا اور پیدا ہو گیا ہو۔ عمر کے اعتبار سے وہ اس وقت ستھر
سے اوپر کے ہیں، ماشا ء اﷲ تین بیٹے امریکہ میں مستقل مقیم ہیں۔ یہ ہے وہ
وجہ جس کی وجہ سے ایک لکھاری بے غرض ہو کر ، مالی منفعت سے قطعہ نظر لکھتا
ہے۔ میرے پیش نظر بھی کبھی مالی منفعت نہیں رہی، میں صرف اور صرف اس لیے
لکھتا ہوں کہ مجھے اس عمل سے گزرنے کے بعد جو سکون اور راحت میسر آتی ہے وہ
کھانا کھانے کے بعد بھی نصیب نہیں ہوتی۔یہی جذبہ مجھے قلم ہاتھ میں لیے
رہنے پر مجبور کیے ہوئے ہے۔جہاں تک میری تحریر سے دوسروں کو فوائدحاصل ہونے
کا تعلق ہے میری نظر میں اس کی حیثیت ثانوی ہے لیکن جو کچھ بھی لکھا جاتا
ہے خواہ نثر میں ہو یا نظم میں ہو اس کے فوائد سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔
اس کی تفصیل میں جانے کا مطلب اس موضوع کو طول دینے کے سوا کچھ نہیں۔ میرے
لکھنے کی وجوہات حسب ذیل ہیں۔
۱۔ لکھنے سے مجھے ذہنی اور قلبی راحت اورسکون ملتا ہے۔
۲۔ لکھنے سے میں ذہنی طو ر پر صحت مند رہتا ہوں۔
۳۔ لکھنے کا عمل مجھے غیر ضروری کاموں سے محفوظ رکھتا ہے
۴۔ لکھنے کی عادت نے مجھے مطالعہ کا عادی بنا یا ہوا ہے۔
۵۔ میں جو کچھ بھی لکھتا ہوں لٹریچر میں اضافہ کا باعث ہوتا ہے
۶۔ میری تحریر سے اگر وہ طلبہ کے لیے ہوتی ہے تو انہیں نصابی ضروریات میں
فائدہ پہچاتی ہے
۷۔ میری تحریر میں اگر مزاح ہوتا ہے تو گو یا پڑھنے والے کو لمحہ بھر کے
لیے میں نے راحت اور خوشی پہنچائی۔
۸۔ شخصیات میرا موضوع ہوتے ہیں ۔ میری تحریر سے شخصیت کے مختلف پہلو اور اس
کی زندگی کی کہانی محفوظ ہوسکی
۹۔ میں اس لیے بھی لکھتا ہوں کہ اپنی زندگی کے اچھے یا برے تجربات آئندہ
آنے والی نسلوں کے لیے چھوڑ جاؤں۔ شاید کبھی ان کے
کام آئیں
۱۰۔ آخر ی بات یہ کہ میں اس وجہ سے لکھتا ہوں کہ لکھنے کی ابتدا پڑھنے سے
ہوتی ہے اور مالک کائینات نے اپنے بندوں کی ہدایت کے لیے جو کلام اپنے
پیارے نبی حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم پر اتاراا س کا پہلا لفظ ـ’’پڑھ‘‘ ہی
تو ہے گویا ہمیں پڑھنے اور لکھنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ ایسا کرکے گویا ہم
اپنے خالق کے حکم کی تعمیل کر رہے ہیں۔
میری نظر میں لکھنے کا تعلق جبر سے ہر گز نہیں، نہ تو شاعر جبراً ایسا کرتے
ہیں اور نہ ہی نثر نگار جبراً لکھتے ہیں ۔ شاعری اور نثر دونوں کا تعلق
تخلیق کار کی خواہش، مرضی و منشاء سے ہوتاہے۔ میرے موضوعات عام طو پر
شخصیات ہوتی ہیں۔ کسی کسی پر میں ایک ہی نششت میں پر لکھ لیتا ہوں ، بعض
بعض پر مہینوں لگ جاتے ہیں اور بعض ایسے بھی کہ جنہوں نے مجھ سے اشاروں
کناروں میں اس خواہش کا اظہار کیا کہ میں ان پر قلم اٹھاؤں سالوں گزرجانے
کے بعد بھی طبیعت اس جانب مائل نہیں ہوئی۔ اردو کے ایک ادیب ڈاکٹر انیس
ناگی نے لکھنے کو ایک جنون قرار د یا ہے، میں ڈاکٹر ناگی کی اس رائے سے
اتفاق کرتا ہوں ، واقعی لکھنا ایک جنونی کیفیت کا نام ہے۔احباب کو مختلف
قسم کی عادتیں ہوتی ہیں اور وہ بھی جنون کی حد تک، سیگریٹ نوشی، پان خوری،
نسوار خوری، چائے پینے کی عادت وغیرہ وغیرہ ، اسی طرح جسے لکھنے کی عادت
ہوجائے، شاعری کرتا ہو وہ عادت اس کے لیے جنون ہی ہوا کرتی ہے۔ ڈکٹر ناگی
نے کہا کہ ’بس عمر اسی جنونی کیفیت میں گزرگئی ہے۔ مجھے کوئی گلہ نہیں کہ
مجھے تسلیم نہیں کیا گیا۔ مجھے انعامات نہیں دئے گئے ۔ میں اپنی بقا لکھنے
میں ہی پاتا ہوں‘۔ گویا لکھنے والا اپنی بقا اسی میں سمجھتا ہے کہ وہ لکھتا
رہے اور چھپتا رہے۔میَں بھی اپنی بقا اسی میں پاتا ہوں کہ میں لکھتا رہوں
اور چھپتا رہوں۔
(شائع شدہ۔روزنامہ جنگ کراچی۔ مڈویک میگزین۔۳۰ مئی تا ۵ جون ۲۰۱۲ء، ص ۔۴) |
|