کندھوں پر بکھری چاندی کے جیسے
زلفیں ۔اُونچی خوبصورت ناک۔ہر دم مسکراتا چہرہ ۔سر پر ایک سادہ سی کلاہِ
سفید۔ پر کشش چمک دار آنکھیں۔ڈھیلا ڈھالا مگر نفیس لباس۔بس ایک درویش تھے ۔کتنی
محبت سے ملتے تھے ۔ایک منکسر المزاج،مٹے ہوئے انسان ۔سب کچھ ہونے کے باوجود
سراپا سادگی ۔تکبر نام کو نہیں تھا ان میں ۔کھلے ڈلے بے تکلف آدمی ۔پیشے کے
استاد تھے ۔ اورایک مصلح بھی۔ساتھ والے بتاتے ہیں کہ ایک ہر فن مولا
استاد۔آل راؤنڈر آدمی۔ انگریزی ،عربی،فارسی ،اردو پر عبور ۔علم ریاضی پر
مضبوط دسترس۔اسٹاف کے ساتھ نہایت شفیق ۔اپنے شاگردوں سے بے حد دوستانہ ۔حالات
اور ماحول نے ایک معروف درگاہ کا سجادہ نشین بنا دیا تھا ۔مگر وہ روائتی
صاحبان جُبّہ و دستار کی طرح ان تما م آلائشوں سے پاک تھے جو اس منصب کو
گہنا دیتی ہیں ۔وہ صحیح معنوں میں سجادہ نشین تھے ۔سجادہ عربی زبان کا لفظ
ہے ۔جس کا مطلب ہے چٹائی ۔ان کی عاجزی اور انکساری ان کے سچا سجادہ نشین
ہونے کی دلیل تھی۔اس شعر کا چلتا پھرتا مصداق تھے۔
میں خاک نشیں ہوں میری جاگیر مصلّٰی
شاہوں کو سلامی میرے مسلک میں نہیں ہے
میری مراد صاحبزادہ محمود الحسن صدیقی ہیں ۔جو اب ’’ہیں‘‘ نہیں بلکہ ’’تھے‘‘
ہوچکے ۔خانقاہ عالیہ انوار شریف ،مٖظفرآباد کے روح رواں۔عام لوگ اور عقیدت
مند انھیں ادب اور محبت سے صادق باجی سرکار کہتے ہیں ۔لگ بھگ چار دہائیوں
پرمشتمل تدریسی سفر یادوں سے بھرپور تھا ۔بے شمار شاگرد اور اس زیادہ ان کے
عقیدت مند ۔ایک محبت کرنے والا انسان تھا ۔خلقت اس کی جانب اسی واسطے کھچی
آتی تھی ۔درباروں اور درگاہوں میں بیٹھے مجاوروں اور سجادہ نشینوں والی
کوئی بات نہیں تھی اُن میں۔ انسانوں سے پیار تھا انھیں۔بڑے بڑے خواب تھے ان
کے ۔کئی واقعات سناتے ہیں ان کے جاننے والے ۔ عقیدت مندوں کی روحانی تسکین
کے ساتھ ساتھ ان کے عقائد کی اصلاح پر بھی توجہ دیتے تھے ۔نصیحت بھی اس
ہلکے پھلکے انداز میں کرتے کہ سامنے والا بغیر کسی ناگواری کے اسے قبول کر
لیتا ۔
انوار شریف مڈل اسکول کے ہیڈ ماسٹر تھے ۔ایک اچھے منتظم ۔پورا اسٹاف ان کی
تعریف میں رطب اللسان رہتا ۔چاپلوسی نہیں سچی تعریف عین میرٹ پر۔اسکول کی
بہتری کے بارے میں ہر دم فکر مند ۔ابھی کچھ دن ہوئے اپنی مدت ملازمت کی
تکمیل کی ۔اساتذہ اورطلباء نے بوجھل دلوں سے رخصت کیا ۔یہ رخصت کے لمحات
کیا ہوتے ہیں ۔یہ وہی جانتا ہے جس کا ان سے سابقہ پڑتا ہے ۔ان کے اسٹاف میں
یہ بات گردش کر رہی تھی کہ ’’بابا کے اعزاز میں الوداعی پارٹی کا انعقاد
کیا جائے‘‘ ۔اکثر کی رائے یہ تھی کہ ایک بڑی عالیشان اورصدیقی صاحب کے
شایانِ شان تقریب ہونی چاہیے ۔لیکن کسے معلوم تھا کہ یہ شخص اب اس دنیا کی
محفلوں سے اُکتا سا گیا ہے ۔جس مالک سے عمر بھر لوگوں کو ملانے کا کام کیا
۔اب خود اس کے وصل سے ہمکنار ہونے کے لئے بے تاب ہے ۔منصوبے دھرے کے دھرے
رہ گئے ۔وہ دنیا کے بکھیڑوں کو اسی زمیں پر چھوڑ کر اس مالک برحق کے حضور
پہنچ گیا جس نے زندگی کے ہر دور میں اسے عزت اور مقبولیت سے نوازا۔
کچھ لوگ ہوتے ہیں چھوٹے برتن ۔ذرا معلومات آجائیں تو لگتے ہیں چھلکنے ۔صدیقی
صاحب ایک صاحب علم آدمی تھے ۔دینی علوم پر اچھی دسترس رکھتے تھے ۔ان کے
طالب علمی دور کی کہانیاں سن کر میں کبھی حیران ہو جاتا ہوں ۔مسلکی تعصب سے
بہت دور ۔فساد کی بات کبھی نہیں کی ۔لاہور اوربعض دیگر شہروں میں جن
درسگاہوں سے علم کے موتی سمیٹے، ان میں سے بیش تر ان مسالک کی تھیں جو ان
کی حالیہ معروف مسلکی شناخت سے الگ تھیں ۔یہ ہے رواداری اور علمی دیانت ۔علم
کو مومن کی میراث سمجھتے ہوئے ۔جہاں سے ملا حاصل کر لیا ۔وہ خوبصورت لب
لہجے کے مالک تھے ۔اردو ،عربی ،فارسی اشعار کا بڑا ذخیرہ ان کے ذہن میں
محفوظ تھا ۔وہ فتنہ پرور خطیب نہیں تھے ۔فرقہ بندیوں سے دور بہت دور۔ دلوں
کو جوڑنے والے ایک خوبصورت اور خوب سیرت انسان۔
قبول عام دیکھیے ۔کئی جنازوں میں ان کی اقتدا ء میں ہزاروں لوگوں نے نماز
پڑھی ۔دیکھنے والے بتاتے ہیں کہ ہر مسلک ومشرب کے لوگ کشادہ دلی سے اقتداء
کرتے تھے۔مجھے بھی ایسے کئی ایک موقعے یاد ہیں ۔انکساری ملاحظہ کریں ۔بڑے
بڑے عہدے دار،حکمران،سیاسی زعماء ان کی خدمت میں احترام سے حاضر ہوتے
تھے۔مگر اس سب کے باوجود وہ انتہائی عاجز رہتے۔غریب و امیر سے کھل کربات
کرتے ۔ہر شخص کو اس کے حق کے مطابق وقت دیتے ۔حکمرانوں کی خوشامد کرنے والے
گدی نشینوں کے لئے ان کی زندگی مشعل راہ ہے ۔وہ دین کے بیوپاری نہیں تھے ۔مذہب
کا کاروبار نہیں کرتے تھے ۔وہ بزرگوں کا نام نہیں بیچتے تھے ۔وہ دنیااور
مال منال کی محبت میں اندھے ہرگز نہیں تھے ۔یہ سب وہ علتیں اور بیماریاں
ہیں جنہوں نے ہمارے برصغیر میں درگاہوں سے لوگوں کا اعتماد اور رشتہ کمزور
کر دیا ہے ۔علم کی روایت کمزور پڑی توصرف کرامات پر کام چلانے کی کوشش نے
بہت نقصان پہنچایا ہے تصوف کی روایت کو ۔حالاں کہ ہمارے بزرگ جن کے نام کا
ہم دم بھرتے ہیں ۔علم اور عمل کا پیکر تھے ۔شریعت کے ضابطوں کا بہت پاس تھا
انھیں۔اپنے عہد کے مثالی لوگ تھے۔
تصوّف عربی زبان کا لفظ ہے ۔لفظ ’’صوف‘‘ سے مشتق ہے ۔صوف کا مطلب ہے اُون ۔جس
طرح اُون صاف شفاف اور سفید ہوتی ہے ۔بالکل اسی طرح صوفی کی زندگی بھی بے
داغ ہوتی ہے ۔وہ دوسروں کے سیرت وکردار کو بھی بے داغ بنانے میں اپنی
کوششیں صرف کرتا ہے ۔وہ اپنے عقیدت مندوں کے نذرانوں اور ان کی جیبوں پر
نگاہ رکھنے کی بجائے انہیں علم اور اصلاح کے موتی بانٹتا ہے ۔وہ ان سے کچھ
بھی بدلہ نہیں مانگتا ۔اﷲ پاک سے روزحشربہتر جزا کی امید پر جیتا ہے ۔صدیقی
صاحب صحیح معنوں میں ایک مبلغ تھے۔ان کے کئی واقعات ایسے بھی مشہور ہیں ،جن
سے پتہ چلتا ہے کہ مذاق ہی مذاق میں اپنے عقیدت مندوں کی اصلاح کر دیتے ۔سامنے
والا بات بھی سمجھ جاتا واراس کی دل آزاری بھی نہ ہوتی ۔آج دین کی تبلیغ کے
دعوے داروں کو اِسی انداز کی ضرورت ہے ۔وہ لوگوں سے ان کے بولی میں ان کے
محاورے میں بات کریں تو لوگ اپنائیت محسوس کر کے ان کی بات کو ہاتھوں ہاتھ
لیں گے ۔قرآن میں جس موعظت اور حکمت سے لوگوں کی دین کی طرف بلانے کی ترغیب
دی گئی ہے اس کے سنجیدہ مطالعے کی ضرورت ہے ۔
محمود الحسن صدیقی کا وژن دیکھئے ۔درگاہ پر خطیر نذرانے پیش کئے جاتے ۔دور
دراز سے عقیدت گسار آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے۔ مگر صدیقی صاحب نے کبھی ان
نذرانوں کو اپنی پراپرٹی بنانے پر خرچ نہیں کیا ۔ان کے بہت قریبی دوست
بتاتے ہیں کہ صدیقی صاحب انوار شریف میں ایک اسلامی یونیورسٹی قائم کرنا
چاہتے تھے ۔کیسا درویش بندہ تھا ۔کہتا تھا’’یہ (ہدیے نذرانے) لوگوں کا مال
ہے ۔سو ان کی فلاح پر خرچ ہونا چاہیے ۔‘‘اسلامی یونیورسٹی بنے گی توعوام
میں آگہی اور شعور پھیلے گا ۔یہ ہے اصل کام ۔ایسا کا م جس سے سوسائٹی کے
عام انسانوں کا بھلا ہو ۔دین کو بدنام ان مولویوں،خطیبوں اور نام نہاد گدی
نشینوں نے کیا ہے ،جو لوگو ں کی جیبوں پر نگاہ رکھتے ہیں ۔امیروں اور مال
داروں کی دولت پر رالیں ٹپکاتے ہیں ۔اپناسفر گدی نشینی سے شروع کر کے تخت
نشینی کی دوڑ میں شامل ہو جاتے ہیں ۔دین کے ہر حکم کو پامال کرتے ہیں ۔خود
کو شریعت سے آزاد جتاتے ہیں۔ایسا بالکل نہیں کہ ہمارا ماضی بانجھ ہے ۔بہت
تابناک ہے ۔اس مردم خیز دھرتی نے حضرت علی ہجویریؒ،حضرت بابا بلھے
شاہؒ،حضرت معین الدین چشتیؒ جیسے نابغۂ روزگار افراد پیدا کئے ۔جن کی ساری
زندگی انسانیت کی فلاح اور صلاح کے واسطے وقف تھی ۔وہ ڈیڑھ ڈیڑھ انچ کی
مسجد بنا کر اپنے مسلک کا کاروبار نہیں کرتے تھے ۔وہ کافر کافرکا کھیل نہیں
کھیلتے تھے ۔یہی وجہ ہے لوگ بلا تفریقِ مذہب ان کی عقیدت کا دم بھرتے ہیں ۔آج
تک ان کی محبت انسانوں کے دلوں میں قائم ہے اور رہتے زمانوں تک جاگزیں رہے
گی ۔
صدیقی صاحب اپنی ذات میں انجمن تھے ۔روایتی مذہبی شناخت والے لوگوں کی طرح
خشک مزاج اور کھردرے بالکل نہیں تھے ۔ان کے قریبی لوگ ان کی میٹھی میٹھی
باتوں سے لطف اٹھاتے تھے ۔ان کی حسِ مزاح بھی خوب تیز تھی ۔دلیل سے بات
کرتے تھے ۔اور ہاں وہ بات کرتے تھے پھٹ نہیں مارتے تھے ۔ اپنی بڑائی اور
بزرگی جتانے کی عادت نہیں تھی انھیں۔ہر شخص سے اس کی سطح کے مطابق بات کرتے
تھے۔
مجھے ایک واقعہ یاد آیا۔ابھی چندماہ قبل انوار شریف کالج کے گیٹ کے سامنے
سڑک پر ان سے ملاقات ہوئی ۔یہ اچانک ملاقات تھی ۔محبت سے سلام لیا ۔اور
ساتھ ماتھے پر ایک عدد بوسہ بھی ۔یہ ان کی محبت کی علامت تھی۔ جسے سب جانتے
ہیں ۔میرے والدِ محترم بھی ہمراہ تھے ۔اُن کا صدیقی صاحب سے بڑا پرانا اور
بے تکلف تعلق ہے ۔بہت کھلا مذاق بھی ۔مجھے نہیں معلوم کیوں؟لیکن انہوں نے
جاننے کے باوجود پوچھا ’’تمہارے ابو کا نام کیا ہے؟ میں نے بتایا ۔میں نے
گرائمر کی رو سے اسم جمع بولا جو کہ معروف ہے ۔انہوں نے اصلاح کرتے ہوئے یہ
الفاظ کہے۔’’بیٹے یوں نہیں ہے بلکہ یوں ہے ۔جب بھی نام بولوتو مصدر بولو‘‘
۔یہ عربی ادب سے اُن کے شغف کی دلیل تھی۔یہ بات اپنی جگہ کہ ابھی تک میں
اپنے موقف پر قائم ہوں ۔میں ان سے اس موضوع پر بات بھی کرنا چاہتا تھا۔ پر
قدرت نے اُن سے ملاقات میں شتابی کر لی ۔مجھے دُکھ اور دِلی رنج ہے کہ ایک
عظیم علمی اور روحانی شخص سے استفادے کا موقع نہ مل سکا۔
صدیقی صاحب چلے گئے ۔خوش قسمت ہیں ۔اپنے محبوب حقیقی سے ملاقات کے لئے
رمضان المبارک کا مہینہ ملا ۔اور اس پر مستزاد یہ کہ محب اور محبوب کی یہ
ملاقات جمعے کی مبارک ساعتوں میں ہورہی ہے۔صاحبان علم جانتے ہیں کہ رمضان
میں دنیا سے پردہ کر جانے والے افراد کے بارے میں کیا کیا فضائل ہیں۔دِل
کٹتا ہے اُن کو مرحوم لکھتے ہوئے ۔وہ ان تمام عظیم انسانوں کی صف میں اپنے
مالک کے حضور دست بستہ کھڑے ہوں گے ،جنہوں نے اﷲ کی مخلوق سے محبت کی ۔مخدوم
بننے کی بجائے اُن کی خدمت کی ۔صدیقی صاحب اُسی عاجزی اور انکساری کے ساتھ
اﷲ کے دربار میں حاضر ہوں گے ۔اپنی خوبصورت زلفوں اور ہنس مکھ چہرے کے ساتھ
۔کتنی انکساری سے ہاتھ باندھے سر جھکائے اﷲ کے حضور ایستادہ ہوں گے۔بہرکیف
وہ بھی انسان تھے ۔انسان سے خطاء کا سرزد ہو جاتا بعید از قیاس ہر گز
نہیں۔معصوم صرف انبیاء کرام ؑ کی ہستیاں ہوتی ہیں ۔ہم سب محمود الحسن صدیقی
صاحب کے چاہنے والے مالکِ ارض وسماء سے ان کی کامل مغفرت اورجنت الفردوس
میں بلند درجات کی دُعا مانگتے ہیں۔پس ماندگان کے لئے صبر اور اجر۔خدا ان
کے چاہنے والوں کو ان کی علمی اور روحانی وراثت سے استفادے کی توفیق دے ۔چاہنے
والوں کو صدیقی صاحب کے خوابوں کی تکمیل کی توفیق دے ۔اسلامی یونیورسٹی کا
خواب شرمندۂ تعبیر ہو کر انسانوں میں شعور وآگہی پھیلنے کا ذریعہ بنے ۔اورامت
میں اتفاق و اتحاد کی فضاء قائم ہو۔آمین !رہے نام اﷲ کا۔ |