بان کی اوپر نیچے کی جگہیں کچھ ناموں سے مشہور ہیں جیسا
کہ بٹوے کی ڈاؤو،اب اس کی وجہ تسمیہ کچھ یوں ہے کہ یہاں مغلائی(مغل،مستری)
خاندان کے کچھ گھر ہیں اور یہ جگہ بھی بڑےبڑے پتھروں میں گری ہوئی ہے اب
نام دینے والے نے پتھر توڑنے والوں سے منسوب کیا یا پتھروں کی ؔڈاؤو(ڈھکی
ہوئی جگہ)کی وجہ سے اسے یہ نام نوازا ہے ،کافی عرصہ یہاں تیراکی کا شوق
پورا کیا گیا لیکن اصل نام کی وجہ نہ جان پائے۔تھوڑا اور نیچے کی طرف جاہیں
تو یہ جگہ چیراں نی پڑاٹی کے نام سے مشہور ہے ۔یہاں بڑے بڑے پڑاٹ یعنی
پتھروںکی سیلیں ہیں اس وجہ سے پڑاٹوں کو پڑاٹی کہا اور یہاں بسنے والے ایک
خاندان سے منسوب کرتے ہوئے چیراں نی پڑاٹی کہنا شروع کر دیا ،چیروں کا
ذریعہ معاش ماہی گیری تھا اور بان کا یہ حصہ دوسری جگہوں سے ذرا زیادہ گہرا
تھا اور گہرائی کی وجہ سے مچھلی بھی یہاں زیادہ تھی اس وجہ سے اس خاندان نے
یہا ں بستی بنا لی اور مقامی زبان میں چیر مشہور ہوئے ،اب یہ جگہ تو وایسی
ہی ہے لیکن چیر وائی فائی کی اور روپے پیسے کی وجہ سے سدھن بن گے ۔پراٹی سے
تھوڑی آگے چودھریاں نی مسیت (چودھریوں کی مسجد) ہے جو سیاسی لحاظ سے بھی
بڑی اہم ہے وہ اس طرح کے اس مسجد کے بننے سے شاملاٹ کے سارے تقاضے آت جاتے
رہے اور یوں یہ جگہ برلب بان اور سڑک اپنا ایک مقام بنا گئی۔اس سے آگے باؤے
فتح شیر کا ڈبہورا ہے ڈبہورا ڈب سے اخذ کیا گیا ہے جس کے معانی وہ جگہ جہاں
پانی گولائی اور گہرائی کی شکل میں کھڑا رہتا ہے یا دوسری جگہ کی بانسبت
کچھ گہرا ہوتا ہے ،یہ ڈبہورا اتنا گہرا تو نہ تھا لیکن جب سے اس کی شناسائی
باؤے سے ہوئی تب سے یہ گہرائی پکڑتا گیا کیوں کے باؤا اس سے پتھر نکال نکال
کر اس کو گہرا اور اپنی فصیل اونچی کرتے رہے اور یہ بےنام جگہ اُن سے منسوب
ہوگئی۔اس سے تھوڑی آگے محکمہ امور حیوانات والوں کی ڈسپنسری ہے جہاں دو چار
کمروں پر سرکاری عمارت قائم ہے لیکن سٹاف وہاں بیٹھنے کی زحمت کم ہی کرتا
ہے ۔
یہاں سے ایک پیلی(میدانی جگہ) شروع ہوتی ہے پہلے تو باناں کی پیلی ہوتی تھی
لیکن چند عرصے سے اس کو قادری ہوراں نی پیلی کہا جانے لگا وہ اس لیے کے اس
سے جو کاشت کار زمین کی حد یا باونڈری شروع ہوتی ہے وہ زمین قادری نامی شخص
کی متروکہ اراضی ہے اس وجہ سے یہ پیلی اپنا نام ان سے یا وہ اپنا نام اس سے
منسوب کر بیٹھے۔ جب تک یہ بان کی پیلی تھی ڈورڈنگر کی چہل قدمی بھی ہوتی
تھی اور بچے کوئی کھیل وغیرہ بھی کھیل لیتے تھے لیکن جب سے اس کا نیا نام
پڑا تب سے ارٹیکل ۵۸بی لاگو ہو گیا اب چڑی پَر نہیں مار سکتی کے مصداق ہے ۔
اس سے آگے محمد خان ہوراں نے توت ہیں،کھبی کھبی یہاں بڑے گھنے توتوں کے
درخت ہوتے تھے جو لوگ مال مویشی کہ پانی پلانے لے جاتے تھے وہ خود ان توتوں
کی چھاں میں آرام فرماتے تھے وقت بدلا حالات بدلے نہ وہ لوگ رہے نہ وہ توت
رہے نہ وہ مزاج رہے آج وہ جگہ تو ہے لیکن وہ ساری باتیں آئی گئی ہوئی۔یہاں
سے آگے بان کا کنارہ مندو ہوراں نا دندا بن جاتا ہے محمد شریف نام کے آدمی
سے منسوب جگہ (rock)دندا ، اب یہ محرحوم شریف سے مندو کیسے بنے اس کی اج تک
سمجھ نہ آ سکی، یہ شارٹ کٹ کی ستم ظریفی نہ صرف ان کا مقدر ٹھہری بلکہ اس
کی زد میں ان کی زوجہ متحرمہ بھی پوری پوری رہی، اُن کا نام ماں باپ نے بڑے
مان گمان سے امرت بی بی رکھا تھا لیکن ساری زندگی وہ بھی ترس گئی کہ اُ ن
کو کوئی امرت کہے حروف کے کفایت شعاروں نے اُن کو ابرو کے علاوہ کبھی کچھ
نہ کہا ، اور تو اور اُ ن کے گھر والے بھی اُ ن کا اصل نام بھُول گے ، ابھی
حال ہی میں مصنف کا گذر ان کی تُربت کے پاس سے ہوا تو کتبے پر بھی اِبرو
لکھا پایا ،یوں امرت مٹی کا ڈھیر بن گئی۔ وقت بڑا بے نیاز ہے اس نے جہاں
علی قلی کو شیرافگن مہروانسا۶ کو نور جہاں اور نوردین کو شہنشاہ جہانگیر
بنا دیا وہی محمد شریف کو مندو اور امرت بی بی بنا کر سرک گیا ،گویا بان کا
یہ حصہ مندو کا دندا بن گیا اور اسی نام سے مشہور ہوا-
اس سے آگے عنایت اللہ کینٹاں والے کا دندا ہے کینٹ ایک کھردرا قسم کا پتھر
ہے اور وہ پتھر ان کی الاٹ منٹ اراضی میں آتا ہے کافی عرصہ تک ان کا ذریعہ
معاش سنگ فروشی رہا اس لیے پتھر ان سے اور وہ پتھر سے یوُں وابستہ ہوئے کے
لوگ یہی سمجھنے لگے کے کینٹ ان کی قوم یا کنیت ہے ۔ بان یہاں سے ایک موڑ لے
کر ھلہ اور پیلاں کے درمیان سے گزرتی ہوئی توتاں والے گراٹ کو اللہ حافظ
کہتی ہوئی دُور نکل جاتی ہے اور مصنف واپس سیری کی طرف پلٹتا ہے کیونکہ
سیری نالہ بان ہی ہے مطلوب و مقصود مصنف۔۔۔۔
جمعہ اور اتوار کو یہ بان مکمل وقف انساء ہو جاتی ہے ، ان دنوں میں بان کی
رونق قابل دید ہوتی ہے، خواتین جب رنگ برنگے کپڑے سوکنے کی خاطر آس پاس کی
پیلیوں میں ڈالتی ہیں تو دُور سے یہی گمان ہوتا ہے کہ قوسِ قزح کے سارے رنگ
دھرتی پر اُتر آئے ہیں۔عورتوں کے سروں پر ہلتے جُلتے آنچل ایسے ہی دیکھائی
دیتے ہیں جیسے تتلیاں اُڑ اُڑ کر بیٹھ رہی ہیں، راہ چلتے رہگیروں کے دل میں
کبھی یہ منظر دیکھنے کو جی چاہتا بھی ہے لیکن حیا کے تقاضے اڑے آ جاتے ہیں
اور نگاہیں جُھکی کی جُھکی ہی رہتی ہیں کے ساحل ختم ہو جاتا ہے ۔
جمعہ اور اتوار کے علاوہ بان سوتنوں کے ہتھے چڑھ جاتی ہے، بان کی بےبسی اُس
وقت دیکھی نہیں جاتی جب گدھا بان ریت بجری نکالنے کی خاطر اپنے گدھوں اور
کدال بیلچوں سے اس پر حملہ آوار ہو جاتے ہیں، صاف ستھرے پانی کا ستاناس ہو
جاتا ہے ہتھلی جیسی ہموار سطح کو پل بھر میں بڑے بڑے گڑھوں میں بدل دیتے
ہیں، لیکن یہ بے زبان، گدھا بانوں کا یہ ناروا سلوک خندہ پیشانی سے سہہ
جاتی ہے کہ اس ریت بجری سے کئی پیٹ پلتے ہیں۔ جو حصہ گدھا بانوں کی نظر سے
اُجھل رہا وہاں ٹریکٹر ٹرالی والے وارد ہو جاتے ہیں ، پُرسکون بان میں
ٹرالی کے ہچکولوں کا شور ٹریکٹر کے منہ کھلے سلنسر کا دھواں ٹاہروں کی
چڑچڑاہٹ ابرارالحق کے گانے ( وہی سن سکتا ہے جو دو میل دور ہو ) ایک ہنگامہ
سا برپا کر دیتے ہیں ،پورے دن کا جودوستم سہہ کر بھی شام کو پھر اپنی روانی
پر آجاتی ہے کیونکہ سائیں چیر کا گھراٹ بھی تو اسے ہی چلانا ہوتا ہے ۔
بان کے اُس پار کبھی بڑی رونقیں ہوا کرتی تھیں جب بیل دوڑائی گھڑسواری نیزہ
بازی ہوا کرتی ، کبھی کشتی کبڈی کے مقابلے ہوا کرتے کبھی فٹبال کا میچ ہوتا
لیکن اب وہ ساری باتیں قصے کہانیاں بن گئی، اب لوگوں کے شوق بدل گے نہ تو
دوڑنے والے بیل رہے نہ گھڑسواری کے شوقین رہے کشتی کبڈی جوانوں کا کھیل تھا
اللہ بھلا کرے انٹرنیٹ بنانے والے کا کے سارے کام ہی اُس نے چھڑا دیے، اب
جوان ماؤس کو پکڑنا ہی اپنا فن سمجھتے ہیں آج کے لونڈے کیا جانیں وینی
پھڑنا کیا ہوتا ہے ۔اب اُس پار کا ساحل بھی ویسا نہ رہا اُس سارے میدان میں
کاشت کاری شروع کردی کہ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری ۔
اب جو جگہ قادری ہوراں نی پیلی ہے کبھی یہ چیانیاں ہوا کرتی تھی ،چیانیاں
کی تعریف پرانے لوگ یُوں کرتے ہیں کے یہاں کافروں(ہندوؤں) کو جلایا جاتا
تھا اس لیے اس کو چیانیاں کہتے ہیں یعنی شمشاں گھاٹ ہوا کرتا تھا ،جو
کافر(ہندو) مر جاتا اُس کو وہاں لے جاکر جلایا کرتے تھے (دیکھا جائے تو
طریقہ الگ ہے جب کے جلاتے تو مسلمان بھی ہیں لیکن ان کے جلانے کے لیے نہ تو
جگہ کا تعین ہوتا ہے نہ زندہ اور میرے ہوئے کی شرط ہوتی ہے اور نہ ہی
ہندوؤں کی طرح لکڑیوں کی ضروت ہوتی ہے بلکہ باتوں سے جلا کر رکھ کر دیتے
ہیں )اب چونکہ ظاہری کافروں کا خاتمہ ہو گیا ہے اس لیے چیانیاں کو بھی وہ
حثیت حاصل نہ رہی اور اب سیدھی سادی پیلی رہ گئی۔چیانیاں سے اوپر سڑک ہے جو
سیری بازار کو جاتی ہے اس کے دونوں اطراف لوگ کا رین بسیرا ہے ،چیانیاں سے
اُوپر برلب سڑک اسی قادری نامی آدمی کا گھر ہے جس کے نام سے پیلی منسوب ہے
یہ گھر پرانے بادشاہوں کے قلعہ نما محلات کی طرح کا ہے جس میں مکھی مچھر تو
دور کی بات گرمی سردی بھی پوچھ کر داخل ہوتی ہیں بنوانے والے نے نہ جانے کس
آرٹیکیٹ سے نقشہ لے کر اس محل کو بنوایا کہ آپ کہیں سے بھی آئیں اپ کو اس
کا در و دروازہ نہیں ملے گا اس میں کھڑکی تو کھڑکی روشندان نام کی بھی کوئی
چیز آپکی باریک بین نظروں میں نہ آ سکے گی، شاید ہندوؤں کی بلند پوسٹ کے
تحت ایسا کیا گیا ہے جو ان کے جنوب مغرب میں واقع ہے ،البتہ یہ مکان کسی
خفیہ کاریگر کی صلاحیوتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔اس سے تقریباً دس پندرہ
میٹر آگے بی بی عظمت کا گھر ہے جو اتنا خاص تو نہیں ہے لیکن بی بی عظمت کے
حسنُ اخلاق کی وجہ سے کافی مشہور ہے عفیفہ کواللہ صحت دے اچھی عورت ہیں رنگ
و شکل کی کمی قدرت نے اعلٰی اوصاف سے پوری کر دی۔ اُن کے سامنے سڑک کے
دوسرے کنارے بابے معمے(بابا امام دین)کا گھر ہے اس کی وجہ تسمیہ کیا ہو
سکتی ہے بس کسی حرف کنجوس نے یہاں بھی اپنا کام دکھا دیا کہ اچھے بھلے امام
دین کو معمہ بنا دیا۔
اس سے آگے حنیفے ملک کی کوٹھی ہے جسے قدرت نے حاجی حنیف بنا دیا اس کوٹھی
سے دائیں بائیں دو راستے نکلتے ہیں بائیں والا سیدپور کو اور دائیں والا
پارلے موڑے کو جاتا ہے،پارلہ موڑہ وہ جگہ ہے جو سیری شہر کے بلکل سامنے ہے
شاید اسی لیے سیری والوں نے اُسے پارلہ موڑہ کہا ہو گا لیکن حیران کن بات
یہ ہے کے اُس موڑے والے بھی اس کو پارلہ موڑہ ہی کہتے ہیں اور جو اس سے آگے
کے گاؤں ہیں وہ بھی اس کو پارلہ موڑہ ہی کہتے ہیں۔ حالانکہ اس موڑے میں
اکثریت مستریوں کی ہے اس کو مستریوں کا موڑہ بھی کہہ سکتے تھے لکین ایسا
ہوا نہیں اور یہ موڑہ پارلہ موڑہ ہی رہا۔
حنیفے ملک کی کوٹھی سے سیدھے آگے جاتے ہوئے سیری بازار کا آغاز ڈاکخانے سے
ہوتا ہے یہ ڈاک خانہ یوُں تو بہت قدیم وقتوں کا ہے لیکن جہاں اب یہ واقع ہے
یہاں اسے اتنا عرصہ نہیں ہوا یہ ڈاکخانہ پہلے صوفی بیرو(صوفی بیرولی) جو کہ
ڈاکخانے کے بابو (پوسٹ ماسٹر)بھی تھے اُن کے گھر میں ہوا کرتا تھا اس کی
نشانی یہ تھی کہ لکڑی کی ایک پٹ والی الماری تھی جس کے اوپر اُن کے فرزند
نے بڑی خوش خطی سے ڈاک خانہ لکھا ہوا تھا یہ الماری اُن کے گھر کے برآمدے
میں ایک طرف پڑی ہوئی تھی جس کے قریب ہی مرغیوں کا بڑا سا ڈربہ بھی تھا اور
کچھ شریر طرز کی مرغیاں اپنے ڈربے سے بیزار ہو کر اسی کے اوپر بیٹھی رہتی
تھیں۔ اب ایک پٹ والی الماری میں کچھ بے رنگ(بیرنگ اُن خطوں کو کہا جاتا
تھا جو بغیر ٹکٹ کے ہوتے تھے)اور کچھ بنا لفافے (پوسٹل کارڈ)کے ہوتے تھے
لکین بیرنگ خطوں کو دیکھ کر ڈاک والوں کے چہرے پر کچھ رنگ آجاتا تھا جب کے
خط لینے والے کے چہرے کا رنگ اُڑ جاتا تھا وہ اس لیے کے بیرنگ خط کے خط
لینے والے کو کچھ اضافی رقم دے کر خط وصول کرنا پڑتا تھا ،دوسری وجہ اس کی
یہ سمجھی جاتی تھی کہ کوئی ایمرجنسی ہے ۔ اس لیے لینے اور دینے والوں کے
چہرے رنگ بدلتے تھے لیکن اُن کی کفیت الگ ہوتی تھی ۔ اب جو خط بیرنگ ہوتا
تھا وہ جلد پونچتا تھا اور جو کچھ رنگ (ٹکٹ)لے کر آتا تھا وہ اُس وقت تک
الماری میں ہی رہتا تھا جب تک مرغیاں اس کا رنگ بگاڑ نہ دیتیں، سیری کے
گردونواح کے لوگوں کو سیری کسی نہ کسی کام سے لازمی آنا ہوتا تھا کیونکہ
سیری ہی اُن کا مرکز تھا اور ضروریات زندگی یہاں سے ہی وابستہ تھیں میاں
عبدالحکیم جو راج گیری کے ساتھ ساتھ حکمت اور نکاح کے کام بھی سر انجام
دیتے تھے وہ اور حکیم پیراں دتہ بھی صوفی بیرولی صاحب کے پڑوسی تھے سو
بازار آنے والا پورے شیڈول اور مینو کے ساتھ آتا کہ میاں جی کو ختم شریف کا
کہنا ہے حکیم صاحب سے فولادی شربت لینا ہے ڈاک خانے سے خط کا پتہ کرنا ہے
اور بشیر سے بال کٹوا کر صوفی صفدر سے گُڑ اور کھل باڑے بھی لانے ہیں اور
پھر اپنے محلے کی قاصدی کا انجام بھی اسی نیکوکار کو دینے پڑتے یوُں
رنگدار(ٹکٹ والا) خط اپنی منزل تک پہنچ جاتا۔ ورنہ کبھی ایسا بھی ہوتا کے
خط لکھنے والا خط سے پہلے گھر پہنچ جاتا اور پھر وہی ایک پٹ والی الماری سے
مرغیوں کے سنڈاس سے بھرا خط لے جاتا۔ وقت بدلہ لوگ بدلے جگہیں بدل گئی اب
حکیم پیراں دتہ جی کا مکان حکیم ہوراں ناں کہنھار(کھنڈر) بن گیا اور اُن کے
سپوتوں نے وہ جگہ فروخت کر کے پرانی یادوں سے چھٹکارا پالیا اور گھر بان کے
اس پار بنا لیا۔ ڈاکخانہ الماری سے نکل کر دو منزلہ عمارت میں آگیا جس کی
وجہ سے اس جگہ کا نام سیری ڈاکخانہ ہوگیا آج اس ڈاک خانے میں وہی خوش خط
لکھاری(خالد ولد صوفی بیرولی) بابو(پوسٹ ماسٹر) ہے، آپ یُوں کہہ سکتے ہیں
کے ڈاک خانہ ابھی تک گھر میں ہی ہے۔ |