ماہِ رمضان المبارک کے ناموں میں
سے ایک نام ’’شہر المواسات‘‘ بھی ہے یعنی غمخواری کا مہینہ۔ غریبوں کی
امداد و اعانت ماہِ رمضان کی عبادات میں سے ایک نہایت ہی ضروری عبادت ہے
جیسا کہ حضور اکرمﷺکے ارشادِ مبارکہ سے واضح ہے۔ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ
وسلم کے حوالے سے فرمایا گیا کہ جب رمضان کا مہینہ آ جاتا تو حضورﷺہر قیدی
کو آزاد فرما دیتے تھے اور ہر سائل کو عطا فرما دیتے تھے۔ (مشکوٰۃ)
ایک اور مقام پر رحمتِ عالم ﷺکے حوالے سے فرمایا گیا۔ ’’حضور اقدس صلی اﷲ
علیہ وسلم سب لوگوں سے زیادہ سخی تھے اور حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی سخاوت
رمضان المبارک میں تمام ایام سے زیادہ ہوا کرتی تھی۔ رمضان میں ہر رات کو
حضرت جبریل علیہ السلام آپ سے ملاقات کرتے تھے اور آپﷺان کو قرآن شریف پڑ
ھاتے تھے جب حضورﷺسے جبریل ملاقات کرتے تھے تو حضورﷺاس ہوا سے بھی زیادہ
سخی ہو جاتے تھے جو تازگی لاتی ہے۔‘‘ (مشکوٰۃ)
ایک اور مقام پر رحمتِ عالمﷺنے انفاق کی طرف رغبت دلاتے ہوئے ارشاد فرماتے
ہیں۔ ’’ بے حساب خرچ کرو اﷲ تمہیں بے حساب عطا فرمائے گا اور اﷲ کی راہ میں
خرچ کرنے سے گریز نہ کرو ورنہ اﷲ تم پر روک لگا دے گا، جتنی استطاعت ہو
صدقہ کرو۔‘‘ (بخاری و مسلم)
ایک اور مقام پر رحمتِ عالمﷺ نے ارشاد فرمایا، اے ابنِ آدم خرچ کرو تم پر
فراخی کی جائے گی۔ (بخاری و مسلم)
سخاوت کی فضیلت بیان کرتے ہوئے رسولِ اعظمﷺنے یہ بھی ارشاد فرمایا: سخی اﷲ
سے قریب، جنت سے قریب اور لوگوں سے قریب ہے اور دوزخ سے دور ہے جب کہ بخیل
اﷲ سے دور، جنت سے دور اور لوگوں سے دور ہے اور سخی جاہل اﷲ کو عابد بخیل
سے زیادہ محبوب ہے۔ (ترمذی)
ایک مقام پر اﷲ عزوجل نے اپنے حبیبﷺکو مومنوں سے صدقات وصول کرنے کا حکم
فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا:
’’(اے پیغمبر!) ان لوگوں کے اموال میں سے صدقہ وصول کر لو! جس کے ذریعے تم
انہیں پاک کر دو گے اور ان کے لئے باعثِ برکت بنو گے، اور ان کے لئے دعا
کرو۔ یقیناً تمہاری دعا ان کے لئے سراپا تسکین ہے، اور اﷲ ہر بات سنتا اور
سب کچھ جانتا ہے۔‘‘ (سورہ توبہ)
مذکورہ آیتِ کریمہ میں صرف وصول کرنے کا حکم ہی حضورﷺکو نہیں دیا گیا بلکہ
صدقات وصول کر کے اس کے ذریعہ ان کو پاک کرنے کے لئے بھی فرمایا اور قربان
جائیے کہ اس کے آگے اﷲ کی راہ میں خرچ کرنے والے کے لئے خود اﷲ عزوجل نے
اپنے محبوبﷺسے دعا کرنے کے لئے فرمایا۔ یقیناً ایک مومن کے لئے اس سے بڑ ھ
کر سعادت اور کیا ہو سکتی ہے کہ حضورﷺخود اس کے لئے دعا فرما دیں۔ بلا شبہہ
دعائے رسولﷺمومنوں کے لئے سامانِ تسکین ہے۔
آج پوری دنیا کا مسلمان سکون چاہتا ہے، یقینا سکون، بے قرار امت کی ضرورتوں
کی تکمیل اور حاجت مندوں کی حاجت برآری، مریضوں کی تیمار داری، غریبوں کی
دستگیری، اقربا پروری اور معاشی بدحالی کی شکار امت کے غموں کے آنسوؤں کو
پونچھ کر ان کے دلوں کو راحت پہنچا کر دولتِ سکون سے مالا مال ہو سکتے ہیں۔
ہم نے اپنے کانوں کو غریبوں کے نالوں کو سننے اور مجبوروں کی آہ اور بے
سہاروں کی چیخ و پکار سننے سے بند کر لیا اور ساز و طرب کی آوازوں میں ایسے
گم ہو گئے گویا یہی ہمارے لئے سامانِ تسکین ہے۔ حاشا و کلا! ایسا ہو ہی
نہیں سکتا بلکہ مجبوروں کی مدد نہ کرنا اور بھوکوں کی بھوک نہ مٹانا اور
پریشان حال کے درد کو محسوس نہ کرنا یہ تو گناہ ہے ہی لیکن ایک ایسی آیت کے
پڑ ھنے کے بعد آپ خود اندازہ لگا سکیں گے کہ بھوکوں کی بھوک کو دور کرنے کے
لئے اگر جد و جہد نہ کی جائے تو انجام کتنا بھیانک ہو گا۔ اس ارشادِ ربانی
کو پڑ ھو اور لرز جاؤ!
ارشاد گرامی ہے: ’’پکڑو اسے۔ اور اس کے گلے میں طوق ڈال دو۔ پھر اسے دوزخ
میں جھونک دو۔ پھر اسے ایسی زنجیر میں پِرو دو جس کی پیمائش ستر ہاتھ کے
برابر ہو۔ یہ نہ تو خدائے بزرگ وبر تر پر ایمان لاتا تھا۔ اور نہ غریب کو
کھانا کھلانے کی ترغیب دیتا تھا۔ لہذا آج یہاں نہ اس کا کوئی یار و مددگار
ہے۔ اور نہ اس کو کوئی کھانے کی چیز میسر ہے، سوائے غِسلین کے۔ جسے
گناہگاروں کے سوا کوئی نہیں کھائے گا۔‘‘ (سورہ الحاقۃ)
مذکورہ آیتِ کریمہ میں بھوکوں کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہ دلانے کے سبب
اور اﷲ پر ایمان نہ لانے کی وجہ سے گلے میں طوق، ستر گز لمبی زنجیر اور آگ
میں ڈالنے کا قیامت میں اﷲ تبارک وتعالیٰ فرشتوں کو حکم دیں گے۔ اس لئے یاد
رکھیں ! خود بھی غریبوں کا خیال رکھیں اور بھوکوں کو کھانا کھلانے کی ترغیب
دلاتے رہیں۔
عہد اول میں نبیﷺنے صحابہ کرام کے اندر اس جذبے کو خوب ابھارا،چنانچہ سیرت
کا مطالعہ کریں تو جگہ جگہ اس کی نمایاں مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ حضرت
عمرؓ فرماتے ہیں کہ غزوہ تبوک کے موقع پر رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے لوگوں
کو انفاق کا حکم دیا۔ میرے پاس اس وقت کافی مال موجود تھا، میں نے دل میں
سوچا کہ آج تو ابوبکرؓ سے بازی لے ہی جاؤں گا۔ چنانچہ اسی غرض سے اپنے مال
کا آدھا حصہ لاکر حضورﷺکی خدمت میں پیش کر دیا۔ آپ نے دریافت کیا کہ گھر
والوں کے لیے کیا چھوڑا ہے میں نے جواب دیا کہ اسی کے مثل ان کے لیے بھی
ہے۔ اسی اثنا میں ابوبکرؓاپنے تمام مال کے ساتھ تشریف لے آئے آپﷺنے یہی
سوال ان سے بھی دہرایا تو انھوں نے جواب دیا کہ ان کے لیے اﷲ اور اس کے
رسول کو چھوڑ آیا ہوں۔اس پر میں نے کہا کہ اب میں کبھی ابوبکر سے سبقت نہیں
لے جا سکتا۔ (ترمذی، ابو داؤد)
غزوہ تبوک ہی کا واقعہ ہے کہ آپﷺلوگوں کو زیادہ سے زیادہ انفاق کرنے کی
ترغیب دے رہے تھے۔ حضرت عثمانؓ کھڑے ہوئے اور فرمایا، اے اﷲ کے رسولﷺمیں اﷲ
کی راہ میں سو اونٹ فراہم کروں گا، آپﷺنے دوبارہ ترغیب دی تو پھر حضرت
عثمان کھڑے ہوئے اور فرمایا، اے اﷲ کے رسول! میں دو سو اونٹ فی سبیل اﷲ دوں
گا۔ پھر تیسری مرتبہ آپﷺنے ترغیب دی تو پھر حضرت عثمانؓکھڑے ہوئے اور بولے،
اے اﷲ کے رسول میں تین سو اونٹ راہ خدا میں دوں گا۔ راوی حدیث حضرت عبد
الرحمان کہتے ہیں کہ ’’میں نے رسول اﷲﷺکو دیکھا کہ آپﷺمنبر سے اترتے ہوئے
کہہ رہے تھے کہ اس کے بعد عثمان کچھ بھی کریں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ (یعنی
اب اگر ان سے کوئی غلطی سرزد ہوجائے تو اﷲ تعالیٰ اس عظیم خدمت کے عوض اس
کو معاف کردے گا)۔ (ترمذی)
سورہ الحدید کی گیارہویں آیت ’’من ذا الذی یقرض اﷲ قرضا حسنا فیضاعفہ لہ‘‘
جب نازل ہوئی تو حضرت ابو الدحداح انصاری نے دریافت فرمایا، اے رسول اﷲ!
کیا اﷲ ہم سے قرض چاہتا ہے؟ آپﷺنے جواب دیا، ہاں ابو الدحداح۔ انھوں نے
کہا، آپ اپنا ہاتھ مجھے دیجیے۔ آپﷺنے اپنا ہاتھ ان کی طرف بڑھایا۔ انہوں نے
آپﷺکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر کہا، ’’میں نے اپنا باغ اپنے رب کو قرض دے
دیا۔‘‘
حضرت عبد اﷲ بن مسعود فرماتے ہیں کہ ’’اس باغ میں چھ سو درخت تھے اور اسی
باغ میں ان کے بیوی بچے رہتے تھے اور ان کا گھر بھی اسی میں تھا۔ آپﷺکے پاس
سے جب وہ لوٹے تو باغ کے باہر ہی سے آواز دی، اے دحداح کی ماں! باغ سے باہر
نکل آؤ، میں نے یہ باغ اپنے رب کو قرض دے دیا۔ وہ بولیں، دحداح کے باپ تم
نے نفع کا سودا کیا۔ پھر اسی وقت اس باغ کو چھوڑ دیا۔‘‘ (مشکواۃ)
مذکورہ بالا واقعات ہماری تاریخ کے سنہری اوراق پر نقش ہیں۔ ان واقعات کو
پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اس وقت اہل ایمان میں انفاق فی سبیل اﷲ کی کیا
اہمیت تھی۔ ان کا ایمان اس قدر پختہ تھا کہ کوئی بھی حکم نازل ہوتا، اس کا
عملی نمونہ پیش کرنے کے لیے تیار رہتے اور اس میں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر
حصہ لیتے، کیا آج امت مسلمہ کے افراد اس کردار کو ادا کرنے کے لیے تیار
ہیں…………؟
آخر میں ایک اپیل ’’الرحمت‘‘ ملک کا ایک معروف دینی ورفاہی ادارہ ہے، جس کی
خدمات کا دائرہ کار معاشرے کے متعدد میدانوں تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ ادارہ
امیر المجاہدین حضرت مولانا محمد مسعود ازہر حفظہ اﷲ تعالی کی زیر امارت
اور مستند اہل علم کی زیرنگرانی رفاہی خدمات سر انجام دے رہا ہے۔ اس ادرے
کا ایک منظم اور وسیع نیٹ ورک ہے جس کے تحت شرعی ضابطوں کے مطابق مسلمانوں
سے ان کی زکوۃ، صدقات، خیرات اور عطیات وصول کیے جاتے ہیں، بعد ازاں جمع
ہونے والی تمام رقوم کو ان کے شرعی حیثیت کے مطابق الگ کیا جاتا ہے تاکہ ہر
رقم اپنے صحیح مصرف میں خرچ کرنے کا انتظام کیا جائے۔
مساجد کی تعمیر، دینی مدارس کا قیام، شہداء کرام کے گھرانوں کی کفالت،
اسیران اسلام کی رہائی اوران کے اہل خانہ کی کفالت، مہاجرین اور دینی خدمات
میں مصروف عمل افراد کا تعاون، قدرتی آفات کے شکار مسلمانوں کی خدمت اور
موجودہ وقت میں شمالی وزیرستان آپریشن متاثرین کی بھرپورامداد وتعاون جیسے
وسیع ومتعدد میدان ایسے ہیں جن میں یہ ادارہ اپنی خدمات سرانجام دے رہا ہے۔
رمضان میں اہل خیر اپنی زکوۃ اور دیگر صدقات کے ذریعے اس ادارے کے ساتھ
بھرپور تعاون کرتے ہیں جو ان کی طرف سے ادارہ اورادارہ کے منتظمین پر مکمل
اعتماد کی دلیل ہے۔ اہل ایمان کو چاہئے مزید بڑھ چڑھ کر اس ادارے کے ساتھ
تعاون فرمائیں اور ان کی حوصلہ افزائی فرمائیں تاکہ خیر کے یہ سلسلے پھلتے
پھولتے رہیں۔ |