جہاں سورج غروب نہ ہو وہاں روزہ کیسے ممکن

ناروے کی آبادی 50 لاکھ ہے جس میں ایک لاکھ 94 ہزار لوگ مسلمان ہیں، یعنی کہ وہ تارکینِ وطن جو یا تو مسلمان ملک سے ناروے آئے یا وہ جو پیدا تو ناروے میں ہوئے مگر ان کے والدین کا تعلق کسی مسلمان ملک سے ہے۔

ناروے کی مسلمان آبادی میں پاکستانیوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ پچھلے 30 برسوں سے پاکستانی، ناروے کی سب سے بڑی غیر مغربی اقلیت ہیں۔ ملک بھر میں اس وقت 34 ہزار پاکستانی آباد ہیں۔ ان میں سے 23 ہزار اوسلو میں مقیم ہیں، یہاں تک کہ شہر کے ایک علاقے کو ’لٹل پاکستان‘ یا چھوٹا پاکستان بھی کہا جاتا ہے۔
 

image


یہ ایک نئی پیش رفت ہے کہ شمالی کرہ کے علاقوں میں اتنی بڑی تعداد میں مسلمان آباد ہوں۔ اس پھلتی پھولتی مسلمان آبادی کے لیے ناروے میں سو سے زیادہ مساجد ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ملک بھر میں رمضان کے اوقات کے کے سلسلے میں ایک سنجیدہ بحث بھی جاری ہے۔ یعنی سحر اور افطار کے اوقات کی پابندی کب اور کیسے کی جائے۔ جوں جوں سورج نکلنے اور ڈھلنے میں وقفہ کم ہوتا جا رہا ہے، یہ بحث زور پکڑتی جا رہی ہے۔

اس حوالے سے ناروے کی سب سے بڑی مسجد، جماعت اہلِ سنۃ کے امام قاری محمود الحسن کہتے ہیں کہ ملک میں اب ’کچھ ماڈرن قسم کے مسلمان یہ کہنے لگے ہیں کہ اللہ نے اسلام کے اندر بڑی آسانی رکھی ہے۔ تو اپنی آسانی کے لیے وہ بجائے قرآن کے وہ اپنی عقل استعمال کرتے ہیں۔‘

بوسنیا سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر فاروق ترزک نے اسلام آباد میں قائم انٹر نیشنل اسلامک یونیورسٹی سے ڈگری حاصل کی ہے اور اب اوسلو’اسلامی کمیونٹی آف بوسنیا ہرزیگووینا‘ کے امام کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ناروے میں کچھ تارکین وطن اپنے آبائی ممالک کے اوقات کے مطابق سحر و افطار کرتے ہیں۔ ڈاکٹر فاروق یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ ’جب سورج اتنے زیادہ دیر کے لیے طلوع یا غروب رہتا ہے تو بنیادی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ’کیا ہم سورج کو معیار بنائے رکھیں گے؟‘

ثمینہ بھٹی پاکستان کی پیدائش ہیں لیکن 1980 کی دہائی میں ناروے آئیں۔ تب سے ان کا پورا خاندان اوسلو میں مقیم ہے۔ ان کے خاندان کے لوگ سارے روزے رکھتے ہیں۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ ملازمت اور دو چھوٹے بچوں کے ساتھ 20 گھنٹوں کا روزہ رکھنا کافی مشکل ہے۔

رات کے تقریبا 11 بجے افطار کے بعد وہ نماز اور تراویح پڑھنے اپنی مقامی مسجد جاتی ہیں۔ جب تک وہ واپس گھر پہنچتی ہیں، تقریبا ڈیڑھ بجے سحری کی تیاری میں مصروف ہو جاتی ہیں۔ یوں ان کی نیند کم رہتی ہے اور کام پر توجہ دینا مشکل ہوتا ہے۔
 

image

مختلف مذہبی رہنماؤں نے اس سلسلے میں مختلف تجاویز پیش کی ہیں کہ لمبے دنوں سے کیسے نمٹا جائے۔ اس مسئلے پر بحث سحر و افطار کے لیے قریب کے کسی اسلامی ملک کو معیار بنانے سے لیکر مکہ کی پیروی تک محیط ہے۔

تو ان لمبے دنوں سے نمٹنے کے لیے علما نے اس سال کیا فیصلہ کیا ہے؟

اس سوال کے جواب میں قاری محمود الحسن کا کہنا ہے کہ ناروے کے مختلف حصوں میں مختلف آپشنز پیش کیے گئے ہیں۔ ’شمالی ناروے جہاں سورج طلوع اور غروب نہیں ہوتا، وہاں شریعت یہ کہتی ہے کہ یا تو اپنے قریبی مسلم ملک کے اوقات کی پابندی کریں، یا اوسلو کی، یا وہ سعودی عرب کے اوقات کی پابندی کریں۔‘

اس کے برعکس ملک کے جنوبی علاقے ، جیسے کہ اوسلو میں ناروے کے علما نے ایک مخصوص وقت مقرر کیا ہوا ہے۔ اوسلو میں موسم گرما کے دن انتہائی طویل ہوتے ہیں اور ایک روزہ 20 گھنٹوں تک کا ہوسکتا ہے لیکن قاری محمود کے مطابق چونکہ یہاں ’سورج باقائدہ طلوع اور غروب ہوتا ہے، یہاں کے مسلمان مقامی وقت کی ہی پابندی کریں گے۔‘

جب میں نے ڈاکٹر فاروق ترزک سے پوچھا کہ ناروے جیسے ملکوں کے بارے میں علما رمضان کے اوقات کے موضوع پر کیا کہتے ہیں تو انھوں کہا کہ ’ اس سوال کا ایک مشہور جواب تو یہی ہے کہ اگر آپ کسی ایسی جگہ ہیں جہاں دن اور رات کے اوقات میں اتنا زیادہ فرق نہیں ہو تو آپ کو اپنے قریب ترین مقام کے اوقات کی پیروی کرنی چاہیے جہاں دن رات کے اوقات نارمل ہوں۔‘

لیکن انھوں نے مذید بتایا کہ ناروے میں کچھ لوگ انفرادی طور پر اس تجویز پر عمل کرتے ہیں لیکن بطور ادارہ اسے ناروے میں نہ تو کسی مسجد نے قبول کیا ہے اور نہ ہی کسی تنظیم نے۔

لمبے دن اور رمضان کے اوقات پر بحث کے باوجود اوسلو کے مسلمان اس سال سورج کی پہلی اور آخری کرن کے مطابق ہی روزے رکھ رہے ہیں، اور یہ کرنیں ثمینہ بھٹی جیسے روزے داروں کے روز و شب پر بہت اثر انداز ہوتی ہیں۔

ڈاکٹر فاروق ترزک کے مطابق اکثر نارویجین مسلمان یہ چاہتے ہیں کہ رمضان کے اوقات کے سلسلے میں نئے طریقے تلاش کیے جائیں۔ وہ کہتے ہیں ’چونکہ فقہ میں یہ بحث نہیں ہوئی اس لیے اجتہاد کی گنجائش ہے۔‘

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اگلے سال بھی ناروے کے مسلمانوں کو مقامی وقت کی پابندی کرنی ہو گی؟ لیکن شاید نارویجین مسلمانوں کو اس بات سے حوصلہ افزائی مل سکتی ہے کہ جب رمضان موسم سرما کے مہینوں میں آئےگا تب ان کے لیے اتنی ہی آسانی ہو گی۔

بشکریہ: (قندیل شام - بی بی سی اردو)
YOU MAY ALSO LIKE:

Ramadan is a holy month of restraint observed every year by Muslims around the world, when they must refrain from eating, and drinking between sunrise and sunset. But since the Islamic calendar follows the lunar cycle, the month of Ramadan gets pushed back 11 days every year. Because of this, Ramadan is now shifting from the shorter winter days of fasting to the much longer and warmer summer days.