چین کے مغربی صوبے سنکیانگ میں کئی سرکاری محکموں نے
رمضان کے دوران مسلمان عملہ کے روزہ رکھنے کی پابندی عائد کر دی ہے۔
ایک سرکاری محکمے کی ویب سائٹ پر کہا گیا ہے کہ سرکاری ملازمین روزے نہیں
رکھ سکتے اور نہ ہی دیگر مذہبی سرگرمیوں میں حصہ لے سکتے ہیں۔
|
|
بی بی سی کے مطابق یہ احکامات ایسے وقت آئے ہیں جب سنکیانگ میں گزشتہ کچھ
عرصے سے پرتشدد کارروائیوں کا سلسلہ جاری ہے۔
سنکیانگ کے حکام ان حملوں کا الزام اوغر آبادی پر لگاتے ہیں جبکہ اوغر
رہنما ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں چین پر اوغر علیحدگی پسندوں کے
خطرے کے حوالے سے مبالغہ آرائی کا الزام لگاتے ہیں تاکہ اوغر آبادی کے خلاف
کی خلاف کارروائی کی جا سکے اور ان کی مذہبی اور ثقافتی آزادی پر قدغن
لگائی جا سکے۔
ریاستی ٹی وی بوزہو ریڈیو اور ٹی وی یونیورسٹی نے ویب سائٹ پر لکھا ہے کہ
روزہ رکھنے کی پابندی پارٹی ممبران، اساتذہ اور نوجوانوں پر لگائی گئی ہے۔
ویب سائٹ پر لکھا ہے ’ہم سب کو باور کرانا چاہتے ہیں کہ کسی کو روزہ رکھنے
کی اجازت نہیں ہے۔‘
|
|
بی بی سی کے نامہ نگار مارٹن پیشنس کا کہنا ہے کہ یہ پہلی بار ہے کہ چین
میں روزہ رکھنے پر پابندی عائد کی گئی ہے۔
مسلم رمضان کے دوران طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک روزہ رکھتے ہیں۔ اوغر
آبادی کے زیادہ تر لوگوں نے شکایت کی ہے کہ چین کے قومی رہنماؤں کی طرف سے
ان کی ثقافت پر حملہ ہو رہا ہے۔
پابندی لگانے والے محکموں میں تجارتی معاملات کے محکمہ اور محکمہ موسمیات
بھی شامل ہیں۔
ایک سرکاری ہسپتال نے مسلمان ملازمین سے تحریری طور پر روزہ نہ رکھنے کا
حلف نامہ لیا ہے۔ سرکاری اخبارات میں بھی روزہ سے جسمانی خطرے کے بارے میں
اداریے بھی شائع کیے جا رہے ہیں۔ |