زندہ باد وسعت اللہ خان زندہ باد

وطن عزیز کے سب سے بڑے اور پسماندہ ترین صوبے بلوچستان کے بارے میں بی بی سی کے معروف تجزیہ نگار جناب وسعت اللہ خان نے ”ایک پھولی ہوئی لاش“ کے عنوان سے اپنے کالم میں عالمی بینک کی تازہ رپورٹ کے حوالے سے لکھا ہے کہ پچھلے33 برس میں پنجاب کے معاشی حجم میں 4 گنا، سندھ اور صوبہ سرحد کے معاشی حجم میں3.6 گنا اور بلوچستان کے اقتصادی حجم میں محض2.7 گنا اضافہ ہوا ہے۔4 عشرے پہلے بھی بلوچستان وفاق کا غریب ترین صوبہ تھا اور آج بھی حالات اسی طرح برقرار ہیں بلکہ ملکی معیشت کے پھیلاؤ کے تناظر میں دیکھا جائے تو بلوچستان کل کے مقابلے میں آج زیادہ غریب ہے۔ سماجی ترقی کے10 معیارات جن میں تعلیم، صحت و صفائی اور صاف پانی کی سہولتیں بھی شامل ہیں ان سب میں بلوچستان وفاقی اکائیوں میں پست ترین سطح پر ہے۔

عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں پانی کی87 فیصد زرعی و انسانی ضروریات دریائے سندھ اور اس کے معاون دریاؤں پر مشتمل آبی نظام سے پوری ہوتی ہیں لیکن بلوچستان کا صرف 5 فیصد رقبہ دریائے سندھ کے آبی نظام سے جڑا ہوا ہے اور بقیہ95فیصد رقبہ بارانی یا خشک ہے۔ اگرچہ پاکستان کی آدھی سے زیادہ معدنی دولت بلوچستان میں ہے لیکن معدنیات سے حاصل قومی پیداوار میں بلوچستان کی حصہ داری محض بیس فیصد کے لگ بھگ ہے۔1994-95 میں پاکستان کی56 فیصد گیس کی ضروریات بلوچستان سے پوری ہوتی تھیں۔10برس بعد گیس کی قومی پیداوار میں بلوچستان کا حصہ محض25 فیصد رہ گیا اور موجودہ گیس ذخائر بھی اگلے15 برس میں خالی ہوجائیں گے۔ دیکھا جائے تو عالمی بینک کی اس رپورٹ میں کچھ بھی ایسا نیا نہیں ہے جس پر حیرت ہو لیکن ایک عالمی ادارے کی اس طرح کی رپورٹ سے یہ ضرور ظاہر ہوتا ہے کہ بلوچستان کی پسماندگی کا مسئلہ اب ایک ایسی پھولی ہوئی لاش بن گیا ہے جسے ہر کوئی صاف صاف دیکھ سکتا ہے۔ آپ اس لاش کو بھارتی مداخلت، مٹھی بھر شرپسند، استحصالی سردار یا بلوچوں کی اکثریت محبِ وطن ہے جیسی سرکاری اصطلاحات کے کچرے سے وقتی طور پر ڈھانپ تو سکتے ہیں لیکن اس کی سڑاند کو کیسے چھپائیں گے۔ سنا ہے حکومت اور پارلیمنٹ کوئی بلوچستان پیکج لا رہی ہے۔ کوئی تو معلوم کرے کہ یہ پیکیج کس بیل گاڑی پر آرہا ہے کہ اب تک ان تک پہنچ ہی نہیں پایا جن کی کہیں بھی پہنچ نہیں ہے۔ وہ جو کہتے ہیں کہ۔۔۔ باتوں سے میرا زخم تو اچھا نہیں ہوگا۔

قارئین کرام وسعت اللہ خان صوبہ بلوچستان کی اس قدر بد حالی پر اپنے کالم میں آگے چل کر سیاستدانوں کو تو مجبوریوں اور مصلحتوں کا اسیر قرار دیتے ہوئے اتنا نہیں کوستے لیکن وہ میڈیا کی جانب سے اس ضمن میں آنکھیں بند کرنے پر اپنے انتہائی غم غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کیا ان حالات میں میڈیا کی صرف یہی ذمہ داری رہ گئی ہے کہ وہ بلوچستان کے کسی سیاستدان یا قوم پرست رہنماء کو مباحثے میں بلا کر اس کا مرثیہ سنے اور اظہار افسوس کے بعد یہ سمجھ کر چین کی نیند سو جائے کہ اس نے اپنا کردار ادا کر دیا ہے۔

قارئین یہی وہ نکتہ ہے جس نے ہمارے شیخو جی کو وسعت اللہ صاحب کے کالم پر تبصرہ کرنے پر مجبور کر دیا۔ گزشتہ روز ہم حسب معمول ان سے ملنے گئے تو سلام دعا کے بعد انہوں نے مزید کوئی دوسری بات کئے کہا یار بدقسمتی کی اس سے بڑی بات ہمارے لئے اور کیا ہو گی کہ وطن عزیز آج جن گھمبیر مسائل سے دوچار ہے اور اس کا ہم سب کو بخوبی ادراک بھی ہے لیکن اس کے باوجود ہم اپنے ذاتی مفادات کو مقدم رکھے ہوئے ہیں۔

ہمارے استفسار پر کہ وہ کیسے ؟
شیخو جی نے کہا کہ آپ بھی کمال آدمی ہو۔ یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے کیونکہ کوئی شخص اگر بیمار ہو جائے تو اسے علاج معالجے کے لئے اس کے لگتے ڈاکٹر کے پاس لے جاتے ہیں تاکہ وہ جلد صحت یاب ہو کر معاشرے کا فعال فرد بن سکے جبکہ وطن عزیز کی حالت ایسے کینسر زدہ مریض جیسی ہو چکی ہے جو آخری اسٹیج پر ہے لیکن ہم سب اپنی اپنی جگہ اپنا اپنا راگ آلاپ رہے ہیں اور وطن عزیز جس کو ہم ہی نہیں پوری امہ اپنا اور اپنے مذہب کا قلعہ قرار دیتی ہے کی حالت زار کو بہتر بنانے کے لئے کوئی اجتماعی اقدام نہیں اٹھا رہے ۔

عوام کو اپنی روزی روٹی کی پڑی ہے۔ سیاست دان اپنی حکومت اور اپوزیشن چمکانے کے چکر سے نہیں نکل پا رہے، میڈیا اپنے آپ کو عقل کل قرار دئیے جا رہا ہے، فوج اپنے سابقہ جرنیلوں کا کیا دھرا صاف کرنے پر مجبور ہے، دانشور طبقہ دبک کر بیٹھا ملکی حالات پر کڑھ رہا ہے، علماء دین اپنی اپنی ڈیڑھ ڈیڑھ انچ کی مساجد میں براجمان مذہب و ملت کی بربادی کا تماشا دیکھنے سمیت عوام اور حکمرانوں کو کوس رہے ہیں، حالانکہ وقت کا تقاضا تو یہ ہے کہ ہم سب اپنے تمام تر اختلافات بھلا کر، مفادات بلائے طاق رکھ کر سب سے پہلے اپنی دھرتی ماں کا تحفظ یقینی بنائیں اور اس کو اس قدر مستحکم کریں کہ کسی ناہنجار کو اس کی طرف میلی آنکھ تک دیکھنے کی جرات نہ ہو سکے تاہم شکر ہے کہ وسعت اللہ اور اس جیسے دیگر درد دل رکھنے والے اہل قلم حضرت ابراہیم کو آتش نمرود سے بچانے کے لئے کوشش کرنے والی اس چڑیا کی سنت ادا کر رہے ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ وسعت اللہ خان اور دیگر ایسے ہی اہل قلم کے زور تحریر میں مزید برکت عطا فرمائے اور ہم سب کو اپنی رشدو ہدایت نصیب کرے۔(آمین ) خ&
Tanveer Hussain Babar
About the Author: Tanveer Hussain Babar Read More Articles by Tanveer Hussain Babar: 85 Articles with 122489 views What i say about my self,i am struggling to become a use full person of my Family,Street,City,Country and the World.So remember me in your Prayers.Tha.. View More