دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت
کا قیام ایک معجزہ تھا جس نے شیطانی تکون کو آج تک بے چین رکھا ہے۔ دنیائے
عالم پر پاکستان کا ظہور اور جوہری صلاحیت کا حصول ہمارے ازلی دشمنوں کو
ہضم نہیں ہو پایا۔9/11 سے پہلے پاکستان میں سب خیریت تھی۔ اس وقت کی قیادت
نے سوچے سمجھے بغیر نیٹو اتحاد میں شمولیت اختیار کر لی۔ امریکہ کو پاکستان
کے مختلف مقامات پر فوجی اڈے فراہم کر دیئے۔ اور ساتھ ہی نیٹو ممالک کی
جاسوس ایجنسیوں کو پاکستان کے اندر جال بچھانے کی اجازت بھی مل گئی۔ تب سے
اسلام کے نام پر دہشتگردی کے فروغ میں اضافہ ہوا۔ اس دہشتگردی کو خطے میں
نیٹو دہشتگردی کا ردعمل بھی کہہ سکتے ہیں۔ امریکہ کے شیطانی عزائم ہم پر
دہشتگردی کی صورت میں عذاب بن کر برسے ہیں۔ ہیلری کلنٹن کا ایک بیان جس میں
وہ حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہے کہ القاعدہ 2002ء سے پاکستان میں موجود
ہے مگر پاکستانی حکام کو اس کا علم ہی نہیں۔ ایک اور تقریر میں ہیلری نے
دہشتگردی کے دوسرے مراکز کے حوالے سے پنجاب کا نام بھی لیا۔ پاکستان میں
امریکی سفیر کا یہ الزام کہ کوئٹہ میں نام نہاد افغان طالبان شوریٰ کی
موجودگی امریکہ کے لیے گہری تشویش ہے۔ ان بیانات کے ساتھ جہاں یہ خبریں
گردش کر رہی ہیں کہ اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے میں فوجی چھاؤنی کا
قیام اور بلیک واٹر نے پاکستان کے شہروں میں ڈیرے ڈال لیے ہیں۔ اس نازک اور
مشکل دور میں یہ تجویز کہ” دنیا کو’اسلامی انتہا پسندی کی قوتوں سے نجات
بخشنے کی خاطر امریکہ اور بھارت مشترکہ فوجی جارحیت سے آناً فاناً پاکستان
کے ریاستی وجود کا شیرازہ بکھیر کر رکھ دیں“۔ پاکستان کے بے حس، بے شرم، بے
غیرت بھیک منگے اشرافیہ جوہر وقت امریکہ کی تعریف، چاپلوسی، خدمت بجا لانے
میں پیش پیش اور اسکے دربان ہیں کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہونا چاہیے۔
امریکہ اور بھارت کی پاکستان کے خلاف ریاستی دہشتگردی کی یہ پیش گوئی ماہر
سیاسیات، ماہر پاکستانیات سابق امریکی سفارت کار اور جارج واشنگٹن
یونیورسٹی میں پاکستانیات کے استاد جان۔آر۔سمتہ کی سوچی سمجھی اور تحقیق کی
مسلمہ علمی معیاروں میں لپٹی تحریر بعنوانThe Unravelling of Pakistan (مملکت
پاکستان کا شیرازہ بکھیر کر رکھ دینے کی ضرورت)میں کی۔ مقالہ نگار نے
امریکی بھارتی مشترکہ فوجی جارحیت کا نسخہ آزمانے کا مشورہ دیتے وقت
پاکستان کو دشمن کے اسم صفت سے متصف کیا۔ ہمارے ارباب اختیار کی لغت میں
غلامی کا مطلب کامیابی، بے شرمی اور بے غیرتی کامطلب ہنر ہے تو ممکن ہے اس
مقالے میں لفظ Foe کا معنی انکی لغت میں دشمن نہ ہو۔ موصوف کا مشورہ دینے
کی تین بنیادی وجوہات ہیں۔ ۱)پاکستان کا ایٹمی طاقت ہونا ۲)القاعدہ کا مسکن
۳)دہشتگردی کا فروغ۔ تو ان کا جواب یہ ہے کہ جوہری قوت کا حصول گناہ نہیں
ہے اگر گناہ ہے تو سب سے بڑا گناہگار امریکہ ہے جو ان ہتھیاروں کو جاپان پر
استعمال بھی کر چکا ہے۔ چند کہتے ہیں کہ پاکستان القاعدہ کا مسکن ہے اور
چند کہتے ہیں کہ القاعدہ پاکستان میں نہیں۔ رہی بات دہشتگردی کے فروغ کی تو
یہ امریکن جارحیت کا ردعمل ہے امریکہ آج اپنی افواج کو واپس بلالے دہشتگردی
خود بخود ختم ہو جائے گی۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم اپنے دشمنوں کی جنگ لڑ رہے
ہیں؟ کیا ہم اپنے دشمنوں کے اتحادی ہیں؟ اس سوال کے جواب میں پہلے برصغیر
کی تاریخ میں دہشتگردی کے سیاق و سباق کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
برصغیر کی تاریخ گواہ ہے کہ بیسویں صدی میں سن ساٹھ کی دہائی برصغیر میں
دہشتگردی کے آغاز کا زمانہ تھا۔ جب مشرقی پاکستان میں تخریب کاری کی خاطر
بھارت نے مکتی باہنی کے دہشتگردوں کو تربیت دینا شروع کی۔ اس دہشتگردی کے
نتیجے میں پاکستان کا مشرقی بازو کاٹ کر رکھ دیا گیا۔ آج بھی مقبوضہ کشمیر
میں تحریک آزادی کے مجاہدین کے خلاف بھارتی افواج اور جاسوسی اداروں کی
دہشتگردی اپنے عروج پر ہے۔ دہشتگردی کی جنگ میں بھارت حسبِ سابق پاکستان کے
ساتھ دشمنی کی راہ پر گامزن ہے اور امریکہ پورے خطے میں بھارت کی بالادستی
قائم کرنے میں کوشاں ہے۔ نیٹو اتحاد کا سب سے بڑا مقصد دنیائے عرب میں
اسرائیل اور دنیائے عجم میں بھارت کی بالادستی کا قیام ہے۔ اس کا واضح ثبوت
وزیرستان آپریشن کے آغاز پر پاک افغان سرحد پر نیٹو افواج کی چوکیوں کا
خاتمہ ہے جو پاکستان کے ساتھ غدّاری اور دہشتگردوں کے ساتھ وفاداری کے
مترادف ہے۔ تو پھر کیا ہم خطے میں بھارت کی بالادستی کی جنگ میں دادِ شجاعت
دے رہے ہیں؟ یہ دادِ شجاعت ہے یا دادِ ندامت؟
زیر نظر تحقیقی مقالے کا ابتدائی اور افتتاحی پیراگراف حذف کر دیں تو
پاکستان کی اشرافیہ کے ذہن و ذوق کا حقیقت پر منی تجزیہ قرار دیا جائے گا۔
مقالہ نگار کا کہنا ہے کہ ”پاکستان کے سیاستدان ہمیشہ اپنے مخصوص ذاتی اور
گروہی مفادات کے حصول میں سرگرداں رہتے ہیں۔ انہیں قومی مفادات کو ذاتی
مفادات کی خاطر بالائے طاق رکھنے کے گر خوب آتے ہیں“۔انہیں غصہ اس بات پر
ہے کہ پاکستان کے سیکولر دانشور بھی دل ہی دل میں پاکستان کی اسلامی شناخت
کا دم بھرتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ ریڈیکل اسلام کے فروغ کو روکنا پاکستان کے
اہل سیاست اور اہل دانش کے بس کی بات نہیں۔ اس صورتحال سے امریکہ اور نیٹو
اتحاد کو یہ جان لینا چاہیے کہ پاکستان ان کے کسی کام کا نہیں۔ لہٰذا
پاکستان کے وجود سے نجات ہی میں دنیا کی نجات پوشیدہ ہے۔ غور طلب بات ہے کہ
پاکستان میں اصلاح احوال کی بجائے پاکستان کے انہدام کے خواب کیوں دیکھے جا
رہے ہیں؟ اس سوال کا جواب ایران کی مثال میں چھپا ہے۔ ایرانی انقلاب نے
ایران کو تو تباہ نہیں کیا، ایران کی امریکہ غلام شہنشائیت کو دفن کیا ہے۔
شاید مغرب کا دانشور اس امکان سے لرزاں ہو کہ کہیں پاکستان میں بھی ایران
جیسا انقلاب نمودار نہ ہو جائے۔ اگر ایسا ہو گیا تو دنیائے عجم میں بھارت
کی بالادستی کی جنگ میں نیٹو اتحاد کو منہ کی کھانا پڑیگی۔ پاکستان کو فرنٹ
لائن اتحادی ہونے پر بے انتہا جانی و مالی قربانیوں کا ثمر کیا ملا؟ خدارا!
ہوش کے ناخن لیں، امریکہ کسی کا دوست نہیں۔ امریکہ اپنے شیطانی عزائم کی
غرض سے ہمیں نت نئے مسائل میں الجھائے رکھنا چاہتا ہے۔ ہمیں اپنی طاقت،
اتحاد اور قوت کا رخ طاغوتی قوتوں کی خلاف موڑنا ہوگا۔ ہمارے تمام مسائل کی
جڑ بیرونی مداخلت ہے۔ ہمیں دنیا کو بتانا ہوگا کہ دنیا کی نجات پاکستان کے
ریاستی وجود کو مٹانے میں نہیں۔ اور ہمیں بھی یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ہماری
بھلائی، سلامتی، خودمختاری، رعب اور دبدبہ اسی میں ہے کہ ہم امریکہ و نیٹو
اتحاد سے علیحدگی اختیار کر لیں۔ |