مہمان خوش ہو کر یا نا خوش جا رہا ہے……؟

تیسرا اور آخری عشرہ بھی اب اپنے اختتام کی طرف رواں دواں ہے۔ رمضان کو الوداع کہنے کا وقت آرہا ہے۔ کتنے خوش بخت ہیں وہ لوگ جنکو اس رمضان کی فیوض و برکات سے دامن و دل بھرنے کا موقع ملا اور نہ جانے اگلے برس ہم میں سے کتنے ہوں جن کی قسمت میں اگلا رمضان ہو گا۔ کیوں نہ پھر اس مبارک مہینے کے آخری دنوں اور آخری لمحات کو ضائع نہ کریں اور اپنے خالق و مالک سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کریں اور اپنی اور اپنے چاہنے اور نہ چاہنے والوں کی مغفرت کی بھیک مانگیں۔

اس مرتبہ بھی رمضان ہم نے اپنی غفلت میں اور لاپرواہی میں گزار دیا حالانکہ ہمیں تو اتنا اچھا موقع ملا تھا کہ ہم اپنی بخشش کراتے اور خوب ثواب سمیٹتے مگر ہم تو اتنے لاپروا ہیں کہ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ کب عید کا چاند نظر آئے اور جلدی رمضان گزرے۔

ہمیں اﷲ نے اتنا اچھا موقع دیا کہ ہم اپنے گناہوں سے معافی مانگتے اور اس ماہ کو قیمتی بنا کر اپنی مغفرت کرا لیتے۔ رمضان میں تو ہر رات یہ آواز آتی ہے کہ ہے کوئی جو مجھ سے معافی مانگے میں اسکو بخش دوں گا اور فرشتے یہ آواز پورے مہینے لگاتے رہتے ہیں۔ لیکن ہمارے کانوں پر جوں تک نہ رینگی اور ہم خوابِ غفلت میں رہے حالانکہ اتنی بڑی وعید وارد ہوئی ہے اس شخص کے بارے میں جس کو رمضان شریف کا مہینہ ملے اور وہ اپنی مغفرت نہ کرا سکے۔

حضرت کعبؓ بن عجرہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی کریمﷺنے ارشاد فرمایا کہ منبر کے قریب ہوجاؤ! ہم لوگ حاضر ہوگئے جب حضورﷺنے منبر کے پہلے درجہ پر قدم مبارک رکھا تو فرمایا، آمین۔ جب دوسرے پر قدم رکھا تو فرمایا، آمین۔ جب تیسرے پر قدم رکھا تو فرمایا، آمین۔ جب آپﷺخطبہ سے فارغ ہوکر نیچے اُترے تو ہم نے عرض کیا کہ ہم نے آج آپ سے منبر پر چڑھتے ہوئے ایسی بات سنی جو پہلے کبھی نہیں سنی تھی آپﷺنے ارشادفرمایا کہ اس وقت جبرائیلؑ میرے سامنے آئے تھے جب پہلے درجہ میں قدم رکھا تو انہوں نے کہا کہ ہلاک ہو وہ شخص جس نے رمضان کا مہینہ پایا پھر بھی اس کی مغفرت نہ ہوئی۔ میں نے کہا، آمین۔ پھر جب میں دوسرے درجہ پر چڑھا تو انہوں نے کہا ہلاک ہوجائے وہ شخص جس کے سامنے آپ کا ذکر مبارک ہو اور وہ درود نہ بھیجے میں نے کہا، آمین، جب میں تیسرے درجہ پر چڑھا توانہوں نے کہا ہلاک ہو وہ شخص جس کے سامنے اس کے والدین یا ان میں سے کوئی ایک بڑھاپے کو پاویں اور وہ اس کو جنت میں داخل نہ کرائیں، میں نے کہا، آمین۔

اس حدیث میں حضرت جبرائیلؑ نے تین بد دعائیں دی ہیں اور حضوراقدسﷺنے ان تینوں پرآمین فرمائی۔ ذرا سوچیے! اول تو حضرت جبرائیلؑ جیسے مقرب فرشتے کی بددعا ہی کیا کم تھی اور پھر اقدسﷺکی آمین نے تو اسے جتنی سخت بددعا بنادیا ہے وہ ظاہر ہے۔ اﷲ تعالیٰ ہی اپنے فضل سے ہم لوگوں کو ان تینوں چیزوں سے بچنے کی توفیق عطا فرماویں اور ان برائیوں سے محفوظ رکھیں۔ درمنثور کی بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ خود حضرت جبرائیلؑ نے حضورﷺسے کہا کہ آمین کہو، توحضورﷺنے فرمایا، آمین، جس سے اور بھی زیادہ اہتمام معلوم ہوتا ہے۔

اس حدیث مبارکہ میں تین اعمال پر حضرت جبرائیلؑ نے ہلاکت کی دعا کی اور حضور اکرمﷺنے اس دعا پر آمین کہی، اول وہ شخص کہ جس پر رمضان المبارک گزرجائے اور اس کی بخشش نہ ہو، یعنی رمضان المبارک جیسا خیروبرکت کا زمانہ بھی غفلت اور معاصی میں گزرجائے کہ رمضان المبارک میں مغفرت اور اﷲ جل شانہ کی رحمت بارش کی طرح برستی ہے۔ جس شخص پر رمضان المبارک کا مہینہ بھی اس طرح گزرجائے کہ اس کی بداعمالیوں اور کوتاہیوں کی وجہ سے وہ مغفرت سے محروم رہے تو اس کی مغفرت کے لئے اور کون سا وقت ہوگا اور اُس کی ہلاکت میں کیا تأمل ہے۔ رمضان المبارک میں مغفرت کرانے کی صورت یہ تھی کہ رمضان المبارک کے جو کام ہیں، یعنی روزہ، تراویح، ان کو نہایت اہتمام سے ادا کرنے کے بعد ہر وقت کثرت کے ساتھ اپنے گناہوں سے توبہ واستغفار کرتا۔ اب ذرا سوچیے! کہ کیا ہم نے اپنی مغفرت کرا لی……؟

دوسرا شخص جس کے لئے اس حدیث مبارکہ میں بددعا کی گئی وہ ہے جس کے سامنے نبی کریمﷺکا ذکر مبارک ہو اور وہ درود نہ پڑھے اور بھی بہت سی روایات میں یہ مضمون وارد ہوا ہے۔ اسی وجہ سے بعض علماء کے نزدیک جب بھی نبی کریمﷺکا ذکر مبارک ہوتو سننے والوں پر درود شریف کا پڑھنا واجب ہے۔
اور کیوں نہ ہو کہ آپﷺکے احسانات اُمت پر اس سے کہیں زیادہ ہیں کہ تحریر وتقریر ان کا احصار کرسکے، اس کے علاوہ آپﷺکے حقوق امت پر اس قدر زیادہ ہیں کہ اُن کو دیکھیتے ہوئے درود شریف نہ پڑھنے والوں کے حق میں ہر وعید اور تنبیہ بجا اور موزوں معلوم ہوتی ہے۔

تیسرے وہ شخص جس کے بوڑھے والدین میں سے دونوں یا ایک موجود ہوں اور وہ اُن کی اس قدر خدمت نہ کرے جس کی وجہ سے جنت کا مستحق ہوجائے۔ والدین کے حقوق کی بھی بہت سی احادیث میں تاکید آئی ہے، علماء نے ان کے حقوق میں لکھا ہے کہ مباح امور میں ان کی اطاعت ضرور ی ہے نیز یہ بھی لکھا ہے کہ اُن کی بے ادبی نہ کرے، تکبرسے پیش نہ آئے، اگرچہ وہ مشرک ہوں، اپنی آواز کو اُن کی آواز سے اونچی نہ کرے، ان کا نام لے کر نہ پکارے، کسی کام میں ان سے پیش قدمی نہ کرے، امربالمعروف اورنہی عن المنکر میں نرمی کرے اگر قبول نہ کریں تو بھی ان کے ساتھ حسنِ سلوک کرتا رہے اور ہدایت کی دعا کرتا رہے، غرض ہر بات میں ان کا بہت احترام ملحوظ رکھے۔ ایک صحابیؓ نے حضورﷺسے دریافت کیا کہ والدین کا کیا حق ہے۔آپﷺنے فرمایا، کہ وہ تیری جنت ہیں یا جہنم یعنی ان کی رضا جنت ہے اور ناراضگی جہنم ہے۔

جولوگ کسی غفلت سے اس میں کوتاہی کرچکے ہیں اور اب ان کے والدین موجود نہیں، شریعت مطہرہ میں اس کی تلافی بھی موجود ہے۔ ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ جس کے والدین اس حالت میں مرگئے ہوں کہ وہ ان کی نافرمانی کرتا ہو تواُن کے لئے کثرت سے دعا اور استغفار کرنے سے مطیع شمار ہوگا۔ ایک دوسری حدیث میں وارد ہے کہ بہترین بھلائی باپ کی بعد اس کے ملنے والوں سے حسن سلوک ہے۔

اﷲ تبارک و تعالیٰ ہماری حفاظت فرمائیں۔ بات یہ ہو رہی تھی کہ رمضان المبارک کے آخری ایام ہیں، اس میں اپنے رب کو راضی کر کے اپنی مغفرت کرالیں اور اس وعید سے بچ جائیں۔
رمضان جا رہا ہے، کیا خیال آ رہا ہے؟
مہمان جا رہا ہے کیا محسوس ہو رہا ہے؟
تراویح بھی ہو رہی ہیں قرآن بھی پڑھ رہے ہیں
کیا تقویٰ آ رہا ہے……؟
جنت کھلی ہوئی ہے شیطان بھی اب تو بند ہے
کون پھر گناہ پر اکسا رہا ہے……؟
چند دن ہیں اور باقی،بوجھ گناہ کاہے کافی
آؤ بخشوا لیں!آخری عشرہ آ رہا ہے
کمر بستہ ہو جائیں، صدقہ خیرات کو بڑھائیں
دیکھیں کون رسول اﷲ کی سنت کو اپنا رہا ہے
یارب زندگی دے کہ لیلۃ القدر کو پا لیں!
اس ایک رات میں ہزار مہینہ کی عبادت کما لیں
دیا زندگی کا بجھتا جا رہا ہے!
اگر قدر کی مہماں کی اﷲ قدر کرے گا ہماری
سوچ لو!مہمان خوش ہو کر یا نا خوش جا رہا ہے
Abdul Hafeez Ameerpuri
About the Author: Abdul Hafeez Ameerpuri Read More Articles by Abdul Hafeez Ameerpuri: 27 Articles with 46474 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.