لفظی اعتبار سے ٹماٹر اور ڈاکٹر
میں دو تہائی مماثلت پائی جاتی ہے۔ڈاکٹر اور ٹماٹرمیں’’ٹر‘‘دو حرفی متماثل
حصہ ہے جس کے معنی ہماری مادری زبان کے مطابق’’ سفیدجھوٹ‘‘ کے ہوتے ہیں اول
الذکر(ٹماٹر) کا مطلوبہ رنگ اور ثانی الذکر کاعلامتی رنگ ( ریڈ کراس )بھی
ایک جیسا یعنی سرخ ہے ۔اس لحاظ سے یہاں پر’ ’ سفید جھوٹ ‘‘کو ہم ’’سرخ جھوٹ
‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔اور اس سرخ جھوٹ کا واقعاً یہ دونوں (ڈاکٹر اور ٹماٹر)
عملی نمونہ ہیں کیونکہ ٹماٹر کی طرح ڈاکٹرکے ظاہر و باطن میں بھی ایک واضع
تضاد پایا جاتا ہے۔اوائلِ عمری میں سرخ میووں کا مزہ چکھنے کے بعد میرے کام
و دہن نے سرخ رنگ کو مٹھاس کی علامت گردانا تھا لیکن جب پہلی مرتبہ پکے ہوے
سرخ ٹماٹر کو میں نے سرخ رنگ سیب کی مانند چکھا تومٹھاس کا احساس کھٹائی
میں پڑ گیا اور غالب کا شعرغیر شعوری طو ر میرے لا شعور میں میں گونجا
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دھوکہ دیتے ہیں یہ بازی گر کھلا
غالب چونکہ ایک آفاقی شاعر تھے اس لئے وہ ستاروں کی دنیا سے استعارہ ڈھونڈ
نکالنے پر مجبور تھے اگر وہ زمینی بلکہ’’ ذرعی‘‘ شا عر ہوتے تواسے مذکورہ
شعر کہنے کے لئے خوامخواہ آسمانوں کی سیر کو نہ نکلنا پڑھتا وہ اس شعر کو
یوں بھی کہہ سکتے تھے
ہیں’’ ٹماٹر‘‘ کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دھوکہ دیتے ہیں یہ بازی گر کھلا
غالب کی بدقسمتی یہ بھی ہے کہ قدیم دور میں زندگی گزار کر چلے گئے اگر وہ
ہمارے دور میں زندگی گزار رہے ہوتے تو ضرور ٹماٹر کا دوسرا متبادل اور
موزوں لفظ اس کے لئے ’’ ڈاکٹر‘‘ ہی ہوتا ۔مجھے یقین ہے کہ اس سلسلے میں کسی
بھی ایسے شخص کو کوئی اعتراض نہیں ہو گا جس کا واسطہ پرائیویٹ پریکٹشنر سے
پڑا ہو۔ را قم کاوا سطہ بھی ایک ایسے ہی ڈاکٹر سے پڑا جس نے مجھے چند ایک
ٹسٹ کرانے کا مشورہ دیا اور ساتھ ہی یہ بھی بتا دیا کہ یہ سب کے سب ٹسٹ اس
کی ایک منظور نظر میڈیکل لیبمیں ہی ہونے چاہئے اتنا ہی نہیں اس لیب کا محلِ
وقوع ، اتہ پتہ اور گلی کوچوں کی ہیتِ ترکیبی کا نقشہ کچھ اس طرح سے کھینچا
گویا کو ئی ٹورسٹ گائیڈکسی فرنگی سیاح کو اپنے جال میں پھنسانے کی ٹوہ میں
ہو ۔اس وقت مجھے یہ احساس ہو ا کہ یہ شخص بظاہر تو ڈاکٹر ہے لیکن بباطن ایک
پیدائشی ٹورسٹ گائیڈ ہی ہے ۔ اس دو رخے پن کا مظاہرہ ڈاکٹر حضرات ہسپتال
اور پرائیویٹ کلینک (میں بھی کیا کرتے ہیں ۔ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کابیماروں
کے ساتھ رویہ دیکھ کر کسی کنجوس سرمایہ دار کی تصویر آنکھوں میں پھرتی ہے
جس کے سا منے کو ئی گدا گر ہاتھ پھیلائے بیٹھا ہو مگر یہی ڈاکٹر پرائیویٹ
کلینک میں علاج کرنے لگے تو اس کی کایا پلٹ جاتی ہے نہ وہ زبان کی تندی اور
تلخی ہوتی ہے اور نہ ہی رویہ میں روکھا پن جو گورنمنٹ ہسپتالوں میں ایک
ڈاکٹر کا خاصا ہوا کرتا ہے ۔یہاں ان کا روپ اور رنگ سو فی صد مختلف ہوا
کرتا ہے ۔بد اخلاقی یکا یک اخلاق کا روپ دھارن کرتی ہے ۔چہرے پر ہیبت ناک
غصے کے آثار بناوٹی مسکراہٹ میں کچھ یوں بدل جاتی ہے جیسے کوئی سنجیدہ مزاج
فلمی اداکار از راہ مجبوری مزاحیہ کردار ادا کرنے کیلئے وقتی طور کیمرے کے
سامنے آیا ہو۔ ہسپتال میں بیمار اگر یہ کہے کہ اسے کیا کھانا چاہئے تو دو
ٹوک جواب یہی ملے گا ، زہر ! اس کے برعکس یہی سوال پرائیویٹ کلینک میں ہو
جائے تو جواب ہوگا سوائے ٹماٹر جوکچھ من میں آئے!
ایک بات تو ہماری فہم سے بالا ہے کہ اس قدر مماثلت کے باوجود بھی نہ جانے
ڈاکٹر صاحبان کو بیچارے ٹماٹر کے ساتھ کیا خدا لگی بیر ہے کہ وہ اسے بدنام
کرنے پر ہمہ وقت مستعد نظر آتے ہیں ۔اس حوالے سے ٹماٹر کو بد سے برا بدنام
والا معاملہ در پیش ہے ایسے کیسے ہو سکتا ہے کہ قسم بہ قسم بیماروں کے لئے
ایک اکیلا ٹماٹر ہی مضر ہو ۔ کیا قدرت نے کسی بھی بیماری کے لئے اس ٹما ٹر
میں شفا ء نہیں رکھی ہے ؟آپ خدا نا خواستہ کسی بھی بیماری میں مبتلاہوں اور
کسی بھی ڈاکٹر کے پاس چلے جائے پرہیز کے نام پر سب سے پہلی کاری ضرب اسی
ٹماٹر پر لگتی ہے ۔ اس وقت انسان کو حیران ہونے کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں
رہتا جب ایک ڈاکٹر دو متضاد بیماریوں کے سلسلے میں بیمار کو اسی ایک چیز
یعنی ٹماٹر سے بچنے کا مشورہ دیتا ہے۔مثلاً دست کیلئے اگر ٹماٹر موافق نہیں
تو قبض کیلئے موافق ہونا چاہئے لیکن ان جدید اطباء کی منطق ہی نرالی ہیں وہ
دونوں مریضوں کیلئے اس ایک اکیلی شئے سے بچنے کی تاکید کرتے تھکتے نہیں بعض
اوقات بیمار کو اس کے سوا سب کچھ کھانے کا مشورہ دیا جاتا ہے عجیب اتفاق یہ
ہے کہ اس معاملے میں بانت بانت کی بولی بولنے والے ڈاکٹر متفق نظر آتے ہیں
ہڈیوں کا جوڑ توڑ والا ڈاکٹر ہو یا ماہر امراضِ معادہ ، گردوں کے امراض کا
ماہر ہو یا دردِ دل کا معالج،یونانی ہو یا غیر یونانی ، سرکاری ہو یا غیر
سرکاری ، انگریزی ہو یا دیسی ، تورانی ،افغانی ،اعجمی ہو یا عربی سب ہاتھ
دھو کر اسی ٹماٹر کے ہی پیچھے پڑے ہیں اس کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہو سکتی
ہے کہ اس ٹماٹر نے ڈاکٹروں کی پیشہ ورانہ طینت کو دنیا کے سامنے فاش کیا ہے
اگر یہ ٹماٹر نہ ہوتا توان کی حقیقت کو فاش کرنے کے لئے کس شئے کی مثال پیش
کی جاسکتی تھی بغیرٹماٹر ڈاکٹر دنیا میں بلا تشبیہ ہوتا۔ اور بلا تشبیہ شئے
کے متعلق اظہار خیال کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے۔
بہر کیف ہر دو ازلی حریف (ڈاکٹر اور ٹماٹر) اپنے تمام دو رخے پن کے ساتھ
ہماری ناگزیر اور نا خوش گوار مجبوری بن چکے ہیں ۔ جب تک منہ میں دانت اور
پیٹ میں آنت ہے ان سے جان چھڑا نا ممکن ہی نہیں ۔جیتے جی ڈاکٹروں سے کنارہ
کش رہنے کی ہماری تمنا پوری نہیں ہو پائے گی۔اپنی آخری سانس تک اس نا گزیر
بلا سے ہمارا کسی نہ کسی بہانے سے واسطہ پڑھ ہی جائے گااور ان سے واسطہ
پڑنے کامطلب ہے اپنی تمام رغبتوں کے باوجود ٹماٹر سے بچے رہنے کی تلقین۔مگر
جس طرح ڈاکٹر سے بچنا ہمارے بس کی بات نہیں ہے اسی طرح ٹماٹر کواپنے کام و
دہن سے نکال باہر کرنا ہمارے ہاتھ میں نہیں ہیں ۔یہاں بھی انسان مجبور محض
دکھائی دیتا ہے ۔اور مجبوری کا خاتمہ صرف اور صرف ایک ہی چیز سے ممکن ہے
اور وہ ہے موت!مگر یہ ڈاکٹر صاحبان ہی ہیں جو ہمارے دل میں موت سے بچنے کی
بچگانہ امید کو برقراررکھتے ہیں اور یہ ٹماٹر ہی ہے جو مر مر کے جئے جانے
کے مزے ہمیں آشنا کرتا ہے رشید احمد صدیقی مرحوم کا بھلا ہو انہوں نے پتے
کی بات کہی تھی کہ ’’ڈاکٹر نہ ہو تو موت آسان اور زندگی دلچسپ بن
جائے‘‘میری اتنی اوقات کہاں کہ ڈاکٹر صاحبان کے متعلق لب کشائی کروں البتہ
بے زبان ٹماٹر کے متعلق یہ ضرور کہوں گا کہ ٹماٹر نہ ہوں تو زندگی کا مزہ
کرکرا ہو جائے۔ |