ہارڈنگ پبلک لا ئبریری دھلی اور خیر پور پبلک لائبریری کے لائبریرین۔فرحت اﷲ بیگ
(Dr Rais Samdani, Karachi)
پاکستان میں لا ئبریرین شپ کے
پیشے کی ترقی اُن اکا برین لا ئبریری سائنس کی مرہون منت ہے جنہوں نے آزادی
کے پر چم تلے ہندوستان سے پاکستان ہجرت کی۔انہو ں نے پاکستان میں لائبریرین
شپ کے پودے کا بیج بویا، اس کی آبیاری کی اور اپنی تما م زندگی اس پیشے کے
فروغ اور ترقی کے لئے وقف کر تے ہو ئے اسے ایک تناور درخت بنا دیا جس کے
فیض سے آج نئی نسل فیض یاب ہو رہی ہے۔ ان محترم شخصیا ت میں ڈاکٹر
عبدالمعیدجنہو ں نے ۱۹۴۷ء میں لا ہور کو اپنا مسکن بنایا اور بہت جلد کر
اچی منتقل ہو گئے۔آپ ابتدا میں سندھ یونیورسٹی اور پھر کر اچی یونیورسٹی کے
لا ئبریرین ہوئے، سید ولا یت حسین شاہ (۱۹۴۵ء سے ۱۹۵۰ء) ایس ایم کالج کے لا
ئبریرین تھے ، بعد ازاں لیا قت لا ئبریری کے لا ئبریرین ہو ئے، فضل الٰہی
بھی لا ہور سے کر اچی آگئے اور لیاقت لا ئبریری (۱۹۵۰ء۔۱۹۵۱ء) سے منسلک ہو
گئے، ابن حسن قیصر بھی لا ہور سے کر اچی منتقل ہوگئے اور ۱۹۵۲ء میں لیا قت
لا ئبریری سے منسلک ہو گئے، محمد شفیع مرحوم نے ۱۹۴۷ء میں پاکستان ہجرت کی
اور قومی اسمبلی کے لا ئبریرین ہوگئے، آپ ۱۹۵۸ء تک اس سے منسلک رہے، اختر
ایچ صدیقی این ای ڈی انجینیئرنگ گورنمنٹ کالج کے (۱۹۴۸ء۔۱۹۵۱ء) لائبریرین
تھے، جمیل نقوی مر حوم جنہو ں نے ۱۹۴۸ء میں پاکستان ہجرت کی ، ہندوستان میں
لا ئبریرین شپ کے پیشے سے منسلک تھے ،آپ انڈین لا ئبریری ایسو سی ایشن سے
بھی وابستہ رہ چکے تھے، کر اچی میں پاکستان ادارہ فروغ برآمدات سے منسلک ہو
گئے اور فر حت اﷲ بیگ دہلی کی ہارڈنگ پبلک لا ئبریری سے وابستہ تھے آپ نے
۱۹۴۸ء میں پا کستان ہجرت کی اور سیکریٹیریٹ لا ئبریری کے لا ئبریرین (۱۹۴۸ء
۔ ۱۹۵۵ء) ہوئے۔ کراچی میں ابتدائی لا ئبریری سر گرمیاں انہی احباب کی مرہون
منت تھیں۔کراچی لائبریری ایسو سی ایشن ۱۹۴۹ء میں اور پا کستان ببلوگرافیکل
ورکنگ گروپ ۱۹۵۰ء میں معرض وجود میں آئے یہی ادارے بعد میں پاکستان لا
ئبریری ایسو سی ایشن کے قیام کاسبب بنے۔یہ قابل احترام شخصیات اور بعض دیگر
جن میں خان بہادر خلیفہ محمداسد اﷲ خان،ڈاکٹر عبد ا لصبوح قا سمی، ڈاکٹر
محمد علی قاضی، خواجہ نور الٰہی، الطاف شوکت، اے رحیم، ، نور محمد خان،،
عبداﷲ خان شامل ہیں پاکستان لا ئبریرین شپ کے حقیقی pioneers ہیں۔
فرحت اﷲ بیگ اس وقت پاکستان لا ئبریرین شپ کے بزرگ ترین لا ئبریرین ہیں جو
فضل تعالیٰ اپنی زندگی کے ۹۰ بر س مکمل کر چکے ہیں۔ پاکستان میں آپ کی لا
ئبریری خدمات ۵۶ برسوں پر محیط ہیں۔ راقم الحروف نے آپ سے بروز جمعرات ۳۰
ستمبر ۲۰۰۴ء آپ کی قیام گاہ واقع ناظم آباد میں ملاقات کی اور لا ئبریری
پروفیشن کے حوالے سے گفتگو کی، آپ کی صحت بہتر ہے، چل پھر لیتے ہیں لیکن آپ
کی یادداشت اور قوت سماعت عمر کے باعث متاثر ہو چکی ہے پھر بھی آپ نے اپنے
ماضی کی یادداشتوں کو بیان کر نے کی بھر پور کوشش کی جسے میں نے قلم میں نے
قلم بند کیا۔بیگ صاحب اپنے ذاتی مکان کی پہلی منزل پر رہتے ہیں زمینی منزل
پر ان کے ایک صاحبزادے اسد اﷲ بیگ قیام پزیر ہیں جو علامہ اقبال اوپن
یونیورسٹی میں اسسٹنٹ ڈائیریکٹر ہیں۔ بیگ صاحب تک پہنچنے میں کچھ مشکلات
پیش آئیں ، کافی دیر انتظار کے بعد ان کی بیٹی جو ان ہی کے ساتھ رہتی ہیں
سے اپنا تعارف کرایا اور ساتھ ہی مدعا بھی بیان کیا ، انہیں یہ با ت سننے
کے بعد قدرِاطمینان ہوا کہ میں بیگ صاحب کا ہم پیشہ ہوں۔ اسی دوران ڈاکٹر
معید کا ذکر بھی انہوں نے کیا وہ معید صاحب کی بیٹی عطیہ سے بھی واقف تھیں۔
اس طرح انہوں نے میری اور بیگ صاحب کی ملا قات کا اہتما م کر دیا۔ اس مرحلے
میں اسدا ﷲبیگ کی بیگم بھی معاون ثابت ہوئیں ،بیگ صاحب تک پہنچنے میں انہوں
نے ہی میری مدد کی۔ بیگ صاحب اُسی وقت سو کر اٹھے تھے ۔ فوری طور پر انہیں
بھی پہچاننے میں دشورای ہو ئی، ایک دو حوالوں کے بعدآپ گفتگو پر آمادہ ہو
گئے۔
بیگ صاحب نے بتایا کہ میرا تعلق دہلی سے ہے، میں دہلی ہی میں اگست ۱۹۱۴ء
میں پیدا ہوا اور اب میری عمر ۹۰ برس ہو چکی ہے۔ آپ نے ہندوستان سے ماسٹر
کیا اور دہلی کی ہارڈنگ پبلک لا ئبریری میں ۱۳ بر س (۱۹۳۵ء ۔ ۱۹۴۸ء) لا
ئبریری خدمات انجام دیں۔ آپ نے بتایا کہ ہارڈنگ لا ئبریری میں ڈاکٹر رنگا
ناتھن کی سر پرستی میں ایک ورکشاپ منعقد ہو ئی تھی انہو ں نے اس ورکشاپ میں
شمولیت اختیار کی۔ ہارڈنگ لا ئبریری ہندوستان میں لا ئبریری سرگرمیوں کا مر
کز ہوا کر تی تھی۔ ڈاکٹر عبدالمعید نے اسی لا ئبریری سے لا ئبریری سائنس کی
تر بیت بھی حاصل کی تھی۔ آپ نے بتا یا کہ معید صاحب سے ان کی پہلی ملاقات
دہلی کی اسی لا ئبریری میں ہو ئی تھی۔ انہی دنو ں اس لا ئبریری میں آل
انڈیا لا ئبریری کانفرنس بھی منعقد ہو ئی ۔جس کے انتظامی امور میں بیگ صاحب
نے بھر پور کر دار ادا کیا ۔
آپ ۱۹۴۸ء میں پاکستان آگئے اور کر اچی میں مستقل سکونت اختیار کی ۔ لا
ئبریری میں اپنی ملازمت کے با رے میں آپ نے بتایا کہ ڈپٹی سیکریٹری تعلیم
اختر حسین رائے پو ری تھے انہوں نے آپ کا تقرر بحیثیت لا ئبریرین
سیکریٹیریٹ لا ئبریری جو اس وقت قو می لا ئبریری بھی تھی کر دیا۔ میں جب اس
لائبریری میں آگیا تو یہ لائبریری کر اچی کے لائبریرینز کی سر گرمیوں کا مر
کز بن گئی۔ میرے پاس تمام لو گ جمع رہتے۔ کراچی میں لا ئبریری سر گرمیوں کی
ابتدا اسی سیکریٹیریٹ لا ئبریری سے ہو ئی جس نے ایک قو می تحریک کی صورت
اختیار کر لی۔ آپ نے بتایا کہ ان لوگوں میں جن کی کوششوں سے پہلے کراچی لا
ئبریری ایسو سی ایشن اسکول آف لا ئبریرین شپ ، پاکستان ببلو گرافیکل ورکنگ
گروپ اور پھر قومی انجمن پاکستان لا ئبریری ایسو سی ایشن قائم ہو ئی ڈاکٹر
عبدالمعید، فضل الٰہی ،سید ولایت حسین شاہ، محمد شفیع، جمیل نقوی، ابن حسن
قیصر، نور محمد خان، اختر ایچ صدیقی اور وہ خود شامل تھے۔آپ نے کہا کہ ہم
نے مل کر لائبریریز اور لا ئبریری پروفیشن کی تر قی کے منصوبے تشکیل دیئے۔
سب لوگ انتہائی خلوص، لگن اور محنت سے کام کیا کر تے تھے۔ لوگ اپنی اپنی
ڈیو ٹی ادا کر کے لا ئبریری آجاتے اور دیر تک منصوبہ بندی کر تے رہتے۔
۱۹۴۹ء میں کراچی لائبریری ایسو سی ایشن کی بنیاد رکھ دی گئی،اس کے پہلے صدر
حسن علی اے رحمان اور سیکریٹری سید ولایت حسین شاہ تھے۔ اس کے تحت کچھ
پروگرام تشکیل دئے ۱۹۵۲ء میں اس ایسو سی ایشن کے تحت ایک لا ئبریری اسکول
قائم ہو گیا، محمد شفیع اس کے ڈائریکٹر بنے اور ولایت صاحب سیکریٹری۔ یہ لا
ئبریری اسکول صحیح معنوں میں انڈر گریجویٹ سطح پر ملک کا پہلا لا ئبریری
اسکول تھا۔ جس نے اس پیشے کی جا نب لوگوں کو مائل کیاجو لوگ اس کورس میں
آئے انہوں نے بعد میں اس پروفیشن کے لئے بہت کام کیا ۔ ان میں خاص طور پر
ڈاکٹر انیس خورشید اور عادل عثما نی قابل ذکر ہیں جن کی لا ئبریری پروفیشن
کے لئے بڑی خدمات ہیں۔ یہ دونو ں حضرات ڈاکٹر عبدالمعید کے جانشین بھی ہو
ئے یعنی ڈاکٹر انیس خورشید شعبہ کے سربراہ اور عادل عثمانی یونیورسٹی
لائبریرین ہوئے۔
کے ایل اے کے بعد پاکستان ببلوگرا فیکل ورکنگ گروپ قائم ہوا۔ اس کے قیام
میں ڈاکٹر معید کی خدمات قابل ذکر ہیں۔ اس ادارے کے قیام میں بین الا قوامی
ادارے یونسکو اورحکو مت پاکستان نے بھی دلچسپی لی تھی۔ کتا بیات کے شعبے
میں یہ ملک کا اولین کتا بیاتی ادارہ تھا۔ اس کے قیام کے سلسلے میں کراچی
یونیورسٹی لا ئبریری مر کز تھی۔ اس کے قیام کے سلسلے میں پہلی میٹنگ اسی لا
ئبریری مین غالباً اگست ۱۹۵۳ء میں ہو ئی تھی اس میں ڈاکٹر معید، ولایت
صاحب، جعفری صاحب، میں اور اختر صدیقی شریک تھے۔ اس کی تشکیل میں کوئی ایک
سال لگ گیا ۱۹۵۴ء میں گروپ کی پہلی مجلس منتظمہ تشکیل پا ئی۔گروپ کے صدر
حکومت پاکستان کے مشیر تعلیم ایم ایس محی الدین کو منتخب کیا گیا جب کہ
شفیع صاحب، معید صاحب نائب صدر ، سیکریٹری ولایت صاحب، جوائنٹ سیکریٹری
جمیل نقوی اور مجھے (فرحت اﷲ بیگ)خازن بنایا گیا دیگر لوگوں میں اے آر غنی،
ابن حسن قیصر اور اختر ایچ صدیقی شامل تھے۔
۱۹۵۵ء میں میرا تقرر خیر پور پبلک لا ئبریری کے لا ئبریرین کی حیثیت سے ہو
گیا۔ یہ بر صغیر کی ایک قدیم پبلک لا ئبریری تھی۔ میں نے اسی سال ایک بین
الا قوامی سیمینار میں پاکستان کی نمائندگی بھی کی تھی۔ خیر پور پبلک لا
ئبریری میں میرا تقرر اس وقت کے ایک وزیر ممتاز حسین قزلباش اور ڈاکٹر
محمود حسین نے کیا تھا۔ بیگ صاحب نے اس لا ئبریری میں ۱۹ جولائی ۱۹۵۵ء سے ۷
اگست ۱۹۷۱ء تک خدمات انجام دیں۔ بقول ڈاکٹر اﷲ رکھیو بٹ سندھ کے محکمہ
ثقافت کے تحت یہ واحد لا ئبریری ہے جو پیشہ ورانہ اور انتظامی اعتبار سے
مستحکم ہے۔ پہلے لائبریرین جناب بیگ صاحب (۱۹۵۷ء۔۱۹۷۱ء) ایک بیرون ملک کے
فارغ التحصیل، ماہر اور تجربہ کار تھے ، جنہو ں نے لا ئبریری کو مستحکم
بنیادوں پرقائم کیا۔ ۱۹۶۱ء میں بیگ صاحب آسٹریلیا تشریف لے گئے جہاں سے
انہو ں نے لا ئبریری سائنس میں ڈپلومہ حاصل کیا۔ آسٹریلیا کے قیام کے دوران
آپ نے لا ئبریری کی تر قی کی منصوبہ بندی کی جس پر بعد ازاں عمل درآمد بھی
ہوا۔ لا ئبریری کی نئی عمارت کا افتتاح اس وقت کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی
بھٹونے ۱۶ مارچ ۱۹۶۵ء کو کیا ۔ فر حت اﷲ بیگ صاحب جو لا ئبریرین ہو نے کے
علاوہ لا ئبریری کمیٹی کے رکن بھی تھے خطبہ استقبالیہ پیش کیا۔اس لا ئبریری
کا موجودہ نام’’ سچل سر مست سندھ گورنمنٹ پبلک لا ئبریری‘‘ ہے۔ خیر پور میں
قیام کے دوران بیگ صاحب نے ۱۹۷۰ء میں سندھ لا ئبریری ایسو سی ایشن کی بنیاد
بھی رکھی۔ بیگ صاحب سے یہ ملاقات اس اعتبار سے مفید تھی کہ اس میں آپ نے
پاکستان لا ئبریرین شپ کی ابتدائی تاریخ کے بعض نکات بیان کئے جو تاحال عام
لوگوں کے علم میں نہیں تھے۔ یہ بزرگ پاکستان لا ئبریرین شپ کا ایک قیمتی
سرمایہ ہیں، اﷲتعالیٰ انہیں سلامت رکھے۔ آمین۔
( مطبوعہ پاکستان لائبریری و انفارمیشن سائنس جرنل جلد۳۵شمارہ ۴۔ دسمبر
۲۰۰۴ء) |
|