پاکستان کا آئین پاکستان میں بسنے والے
تمام مذاہب کے پیروکاروں کو مکمل آزادی ، سلامتی اور مساوات فراہم کرتا ہے
۔مذہبی بنیادوں پر کسی کے ساتھ کسی قسم کا امتیاز رکھنے کی اجازت نہیں دیتا
۔آئین پاکستان کا آرٹیکل ۲۰ کے مطابق مذہب کی پیروی اور مذہبی اداروں کے
انتظام کی آزادی کا حق ہر شہری کو حاصل ہے ۔
آرٹیکل ۲۰
قانون امن عامہ اور اخلاق کے تابع ۔
(الف) ہر شہری کو اپنے مذہب کی پیروی کرنے ، اس پر عمل کرنے اور اسکی تبلغ
کرنے کا حق ہوگا اور
(ب) ہر مذہبی گروہ اور اس کے ہر فرقے کو مذہبی ادارے قائم کرنے ۔ برقرار
اور ان کا انتظام کرنے کا حق ہوگا۔
آئین پاکستان کی ایک دفعہ ۲۲ مذہب وغیرہ کے بارے میں تعلیمی اداروں سے
متعلق تحفظات ہے۔
آرٹیکل ۲۲
(۱) کسی تعلیمی ادارے میں تعلیم پانے والے کسی شخص کو مذہبی تعلیم حاصل
کرنے یا کسی مذہبی تقریب میں حصہ لینے یا مذہبی عبادات میں شرکت کرنے پر
مجبور نہیں کیا جائے گا۔اگرایسی تعلیم ، تقریب یا عبادت کا تعلق اس کے اپنے
مذہب کے علا وہ کسی اور مذہب سے ہو۔
(۳) (الف)کسی مذہبی فرقے یا گروہ کو کسی تعلیمی ادارے میں جو کلی طور پر اس
فرقے یا گروہ کے زیر اہتمام چلا یا جاتا ہو ، اس فرقے یا گروہ کے طلباء کو
مذہبی تعلیم دینے کی ممانت نہ ہوگی۔
(ب) کسی شہری کو محض نسل ، مذہب ، ذات یا مقام پیدائش کی بنا پر ایسے
تعلیمی ادارے میں داخل ہونے سے محروم نہیں کیا جائے گا جسے سرکاری محاصل سے
امداد ملتی ہو ۔
پاکستان کے شہریوں چاہے وہ کسی مذہب گروہ فرقے یا رنگ نسل سے تعلق رکھتے
ہوں آئین پاکستان کا آرٹیکل ۲۵ سماجی اور شہری اعتبار سے برابری فراہم کرتا
ہے اور مذہب ذات پات ،جنس یا جائے پیدائش کی بناء پرکسی قسم کے امتیاز کی
اجازت نہیں دیتا ۔پاکستان میں مذہبی اقلیتوں مردوں عورتوں سب کے حقوق برابر
ہیں ۔
آرٹیکل ۲۵
شہریوں سے مساوات
(۱) تمام شہری قانون کی نظر میں برابر ہیں اور قانونی تحفظ کے مساوی طور پر
حقدار ہیں ۔
(۲) محض جنس کی بناء پر کوئی امتیاز نہیں کیا جائے گا۔
پاکستان اقوام تحدہ کے ایک رکن ملک کی حیثیت سے چارٹر آف ہیومن رائٹس کا پا
پند ہے ۔چارٹر آف ہیومن رائٹس کا آرٹیکل ۱۸ ہر شخص کو ضمیر کے مظابق مذہب
کی پیروی کی مکمل آزادی دیتا ہے تاکہ ہر شخص اپنے مذہب پر قائم رہے اور بلا
خوف وخطر مذ ہبی رسوم ادا کرے اور انسانوں میں ایک دوسرے کے مذاہب کی عزت
واحتر م کو فروغ دیتا ہے ۔
دفعہ ۱۸ چارٹر آف ہیومن رائٹس
(۱) ہر شخص کو سوچ ضمیر اور مذہب کی آزادی کا حق حا صل ہوگا اس میں یہ بات
بھی شامل ہوگی کہ وہ اپنے پسند کا مذہب یا عقیدہ رکھ سکے اور اپنے مذاہب
اور عقیدے کی تعلیمات عبادات اور روایات کی بجا آوری کے زریعے انفرادی یا
اجتماعی طور پر نجی سطح پر یا اعلا نیہ طور پر اپنے مذہب یا عقیدے کا اظہار
کر سکے ۔
(۲) کسی شخص پر ایسا جبر نہیں کیا جائے گا جو اپنی پسند کا مذہب یا عقیدہ
رکھنے کی آزادی کی راہ میں رکاوٹ بنے ۔
(۳) کسی شخص کے مذہب یا عقیدے کی آزادی اظہار وہی پابندی لا گو ہوگی جو
قانون نے دوسرے لوگوں کی سلامتی ، نظم و ضبط ، صحت ، اخلا قیات ، بنیادی
حقوق اور آزادی کی حفاظت کو مدنظر رکھتے ہوئے عائد کی ہے۔
(۴) اس میثاق میں شریک ممالک والدین اور جہاں وہ موجو د نہ ہوں قانونی سر
پر ستوں کی اس آزادی کا احترام کرنے کا عہد کرتے ہیں کہ وہ اپنے اپنے عقیدے
کے مطابق اپنے بچوں کو مذہبی واخلا قی تعلیم دلائیں ۔
پاکستان کے آئین کاآرٹیکل ۳۶کے مطابق ریا ست اقلیتوں کے حقوق اور مفادات کا
تحفظ کرے گی اور آئین کے ہی آرٹیکل ۸کے مطابق بنیادی حقوق کے نقیض یا منافی
قوانین کالعدم ہوں گیااور پاکستان چارٹر آف ہیومن رائٹس پر بھی عمل درآمد
کا پابند ہے ۔ آئین پاکستان کے مطابق پاکستان ایک اسلامی جمہوریہ ہے اور
اسلامی تعلیمات کے مطابق سب کو مذہبی آزادی حا صل ہے اور اسلام میں دین میں
جبر کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور ہر ایک کو اپنے مذہب ما ننے کی آزادی حاصل
ہے اسی طرح دنیا کے ہر معاشرے کی طرح پاکستان میں بھی آئین فرد کی سلامتی
کو اہمعیت دیتا ہے چاہے وہ کسی بھی مذہب ، ذات پات ، رنگ نسل سے تعلق رکھتا
ہو اس وقت تک اسکی جان نہیں لی جاسکتی سوائے اس کہ قانون اسکی اجازت دے ۔
آرٹیکل ۹ آئین پاکستان
فرد کی سلامتی
کسی شخص کو زندگی یا آزادی سے محروم نہیں کیا جائے گاسوائے اسکہ قانون اسکی
اجازت دے ۔
اسلامی تعلیمات کے مطابق اسلامی ریاست پر اس امر کی پابند ہے کہ اپنے ہر
شہری کی جان کو تحفظ فراہم کرے۔میدان عرفات میں حضرت محمد نے فرما یا تھا
نہ تم کسی پر ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے گا۔حضرت علی کا قول ہے ہر
ظالم سے نفرت کرو اور ہر مظلوم کی نصرت کرو ۔ اسی طرح نجران کے عیسائیوں کے
ساتھ جو حضرت محمد مصطفی نے معاہدہ کیا وہ پورا کا پورا اقلیتوں کے حقوق
انکی جان ومال اور مذہبی آزادی کے متعلق ہے ۔اسلام امن محبت اور بھائی
چارگی کا درس دیتا ہے اور دنیا کہ تمام مذاہب امن اور یگانگت کا درس دیتے
ہیں ۔پاکستان میں آئین کے مطابق اقلیتوں کو مساوی حقوق ، مساویانہ سلوک اور
انکو مذہبی اور معاشرتی آزادی کا تحفظ حاصل ہے لیکن عملی طور پر ہمارے
معاشرے میں کچھ نظر نہیں آتا ۔ہمارے معاشرے میں عملا اقلیتوں کو ایک کمزور
اور لا وارث طبقہ سمجھا جاتا ہے اور سماجی اور مذہبی عدم رواداری جیسے
مسائل سے دو چار ہیں ۔اسکی وجہ صرف اور صرف یہ ہیکہ ہمارے آئین اور قانون
پر سختی سے آج تک عمل درآمد نہیں ہو ا اور ایک آمر کے دور میں بنے وہ
قوانین جو آئین پاکستان سے متصادم ہیں کالعدم قرار نہیں دیئے گئے جس سے
غیرمسلم طبقات کے خلا ف ان قوانین کا استعما ل اپنی ذاتی عناد اور دشمنیوں
اور مقاصد کے حصول کے لیئے ہونے لگااور اقلیت عدم تحفظ کا شکار ہوگئی اور
لوگوں نے انصاف کے فطری اصول اور قانون سے ہٹ کر جانیں لیں جس کی اجازت نہ
قانون دیتا ہے اور نہ مذہب کیونکہ جب تک جرم ثابت نہ ہوجائے ملزم کو مجرم
قرار نہیں دیا جاسکتا ۔اس لیئے ریاست کے لیئے لازم ہے کہ ایسے قوانین جو
آئین پاکستان سے متصادم ہیں فوری کالعدم قرار دیئے جائیں اور آئین اور
قانون پر سختی سے عمل درآمد یقینی بنایا جائے تاکہ اس ملک میں مذہبی اکثریت
اور اقلیت کا جھگڑا ختم ہوجائے اور یہ ملک امن کا گہوارہ بن جائے۔ |