مارشل لاء نہیں تو پھر کیا……؟

مارشل لاء جوکہ پاکستان میں اب تک چار مرتبہ نافذ ہو چکا ہے بظاہر تو اس کے نفاذ کے حالات و اقعات کچھ ہوتے ہیں لیکن درحقیقت اس کے اسباب تا حال معمہ ہیں جو کہ آج تک واضح نہیں ہو سکے۔ لیکن ہر مرتبہ ایسے حالات پیدا کیے گئے کہ جن کی وجہ سے فوج کو حکومت کی باگ دوڑسنبھالنا پڑی اب یہ کام فوج نے اپنی خوشی اور رضا مندی سے کیا یا کسی ایک جنرل کی اپنی خواہش تھی یاکہ دوسرے افسران کی معاونت و رضابھی شامل تھی یا یہ ملک و قوم کے مفاد میں باامر مجبوری نافذکیا گیا۔ یہ ایک الگ بحث ہے مگر بظاہر حالات ایسے ہوئے کہ فوج کو آنا پڑا۔ مملکت خداداد میں پہلا ماشل لاء جنرل ایوب خان نے 1958میں لگایا اور آئین پاکستان کو منسوخ کر دیا۔اس طرح یحیی خان نے 1969میں دوسرا مارشل لاء نافذ کیا جس کا موجب بھی جنرل ایوب اور ان کے تحریر کردہ خط کو گردانا جاتا ہے جبکہ تیسرا مارشل لاء جنرل ضیاء الحق نے1977 میں لگایا جس میں آئین کو منسوخ نہیں کیا گیا بلکہ معطل کردیا گیا تھا اور آخر ی مارشل لاء جنرل پرویز مشرف نے 1999 میں لگایا جس میں انھوں نے ایک نیا عہدہ تخلیق کیا اور چیف مارشل لاء ایڈ منسٹریٹر کی بجائے چیف ایگزیکٹو کے طور پر اپنی ذمہ داریاں سرانجام دی۔

اب موجودہ حالات جس ڈگرپر گامزن ہیں ان میں کیا ہوسکتا ہے ؟مارشل لاء لگ سکتا ہے یا نہیں ؟کیا ایسے حالات پیدا ہوچکے ہیں کہ فوج کو میدان میں اترنا پڑ سکتا ہے وغیرہ ان تمام باتوں کو سمجھنے کیلئے ہمیں سابقہ لگائے جانے والے مارشل لاز کا جائزہ لینا ہوگا تجزیہ کاروں اور مبصرین کی آرا کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا کہ کن حالات و واقعات کی بنا پر ملک میں نافذ آئین کو منسوخ یامعطل کرنا پڑا ۔اگر ہم1969 اور1977کا مارشل لاء کے حوالے سے واقعات و حالات کابنظر غایت تجزیہ اور مشاہدہ کریں تو ہم بخوبی اس کا ادراک حاصل کرسکتے ہیں ان ادوارمیں حالات بہت کشیدہ تھے ملک کے کئی بڑے شہروں میں معمولات زندگی مفلوج ہوچکے تھے اور روز مرہ کے معاملات معطل تھے جلسے جلوس ہڑتالیں احتجاجی مظاہرے اور کئی مقامات پر توڑ پھوڑ کرنے کے واقعات بھی رونماہوچکے تھے صنعتیں بند ہونے جارہی تھی سول اور فوجی انتظامیہ کی پابندی کے باوجود مظاہرے جلسے اور جلوس جاری تھے۔ معاملات حکومت کی رٹ سے باہر ہوچکے تھے۔ملک میں افراتفری اور انتشار کی فضا پرورش پا رہی تھی۔مہنگائی سرابھار رہی تھی لوگوں کا زندگی گزارنا اجیرن بنتا جارہا تھا یہ تھے ملکی کے حالات۔ جبکہ 1999 کے مارشل لاء کے اسباب میں ایک سبب یہ بھی تھا کہ قواعدو ضوابط کی دھجیاں اڑاتے ہوتے فوج کے سربراہ کو تبدیل کیا جارہا تھا جوکہ ایک بھیانک زندگی ہے حالانکہ پرویز مشرف کو ہوا میں ہی فوج کا بھر پور تعاون حاصل تھا۔ جنرل عثمانی ،جنرل محمود و دیگر افسران پرویز مشرف کی سپورٹ میں اپنی فوجی کاروائی میں مصروف تھے اور پھر وہی ہوا کہ وقت کے وزیراعظم کو خمیازہ بھگتنا پڑا اور شاید وہ اسے اپنی زندگی کی سب سے بھیانک غلطی تسلیم کرتے ہیں اور انہیں کرنا بھی چاہیے ۔اور اب جو حالات ہیں وہ 1999 سے کئی زیادہ بدتر ہیں مختصر یہ ہے کہ مارشل لاء کو، اس کے نافذ کرنے والے بھی برا خیال کرتے ہیں ان کے مطابق مارشل لاء کسی بھی ملک و قوم کی ترقی اور خوش حالی کے لئے انتہائی مہلک ہے۔ بعض نے اسے غیر فائدہ مند اور بے سود قرار دیا اور کچھ نے اس بات کا دفاع بھی کیا کہ ملکی حالات و واقعات اور ملکی سلامتی کیلئے اس کی ضرورت پیش آئی۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان چاروں مارشل لاز کے نفاذ کے باوجود اسکی وجوہات کو ختم یاکم کرنے کی کوشش کی گئی ۔کیا ہمارے سیاستدان جو جمہوریت کا ڈھنڈوراپیٹتے ہیں۔ جمہوریت کو اپنا اوڑھنا بچھونا سمجھتے ہیں آمریت کو اپنی موت گردانتے ہیں ان لوگوں نے ایسے کیا اقدامات کیے کہ ملک میں مارشل لاء کی نوبت ہی نا آئے ۔جی ہاں! انہوں نے ایسا کچھ نہیں کیا بلکہ گذشتہ کئی ہفتوں سے ایسی کئی فاش غلطیاں کی اور بیانات جاری کیے کہ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ما رشل لاء اب لگا کہ تب لگا۔ لیکن بھلا ہو جنرل راحیل شریف اور ان کی ٹیم کاکہ جنہوں نے تحمل و برداشت کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ کچھ لوگ اسے این آراو کا شاخسانہ بھی قرار دیتے ہیں کہ 3 انتخابات تک مارشل لاء نہیں لگے گا۔جمہوریت جمہوریت کھیلنے والوں کو صرف اپنے مفادات کیلئے ہی جمہوریت نظر آتی ہے۔سابق چیف جسٹس آف پاکستان تصدق حسین جیلانی نے ریٹائرمنٹ کے موقع پر کہا کہ’’ ایسی جمہوریت نہیں چل سکتی جو زندگی میں مثبت تبدیلی نہ لا سکے‘‘۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ پاکستان کی جمہوریت سے عوام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا ہے اورپھر اہل اقتدارسیاستدانوں کا بار بار یہ گردان کرنا کہ جمہوریت کو خطرہ ہے اس بات کی دلالت کرتا ہے کہ وہ جسے جمہوریت مانتے ہیں اور جس میں انہیں بے لگام لوٹ مار کی آزادی کے موقع حاصل ہیں وہ ختم نہ ہوجائے۔بہرحال پا کستان حالت جنگ میں ہے ۔ پاکستان ملکی غیر ملکی دہشت گردی سے مختلف محاذ پرنبردآزماہے ضرب عضب آپریشن کی بنا پر جہاں دہشت گردی کے مسئلے سے چھٹکارا مل رہا ہے وہیں پر آئی ڈی پیز کی ایڈجسٹ منٹ اور ان کا واپسی مسئلہ منہ پھاڑے نگلنے کو تیار کھڑا ہے۔ ان حالات میں اگر پاکستان آرمی کے لئے آرٹیکل245 کوجواز بنا کر مختلف شہروں میں جلسے جلوس کو کنٹرول کرنے کیلئے ڈپیوٹ کیا جائے۔ شہر اقتدار کو 3 ماہ کیلئے فوج کی تحویل میں دے دیا جائے تویہ حکومت کی ناکامی اورنا اہلی کا ثبوت ہے اورنااہل حکومت ملک و قوم کے مفاد میں کسی بھی طرح قبول نہیں۔ اگر سیاست دان ملک وقوم کے لئے اور بالخصوص اپنے لئے مخلص ہیں تو پھر انہیں ایسے حالات پیدا کرنے ہوں گے کہ آرمی کو اس طرف دیکھنا ہی نہ پڑے ۔اور یہ بھی سمجھایا جائے کہ مارشل لاء تو پھر کیا اقدامات ملک و قوم کے بہترین مفاد میں ہیں۔
liaquat ali mughal
About the Author: liaquat ali mughal Read More Articles by liaquat ali mughal: 238 Articles with 211701 views me,working as lecturer in govt. degree college kahror pacca in computer science from 2000 to till now... View More