افتخارچودھری کو انصاف ملنا چاہیے

بچپن میں سنتے تھے ایک انصاف کرنے والے جج کے پاس پانچ ولیوں کی طاقت ہوتی ہے، پتا نہیں یہ بات کہاں تک درست ہے اور یہ بھی معلوم نہیں کہ افتخارچودھری کو یہ اعزاز حاصل تھا یا نہیں، مگر ایک بات بڑی عجیب ہے، جو شخص بھی افتخارچودھری سے ٹکرایا، ذلت وخواری اس کا مقدر بنی، خود کو فرعون سمجھنے والے افسران، کسی کو جوابدہ نہ ہونے کا زعم رکھنے والے سیاست دان اور ہر ایک کی عزت پر ہاتھ ڈالنے والے اینکروں کا معاملہ آپ کے سامنے ہے، ان میں سے جس نے بھی افتخارچودھری پر زبان درازی کی، اس کو تھوک کر چاٹنا پڑا، ایسے لوگ عوام کی نظروں سے گرگئے اور بے وقعت ہوکر رہ گئے۔ ملک ریاض چونکہ صدقہ خیرات بہت کرتے ہیں، اس لیے وہ واحد شخص ہیں جو افتخارچودھری سے ٹکرانے کے باوجود عزت بچاگئے، وگرنہ فیصل رضاعابدی سے لے کر مبشرلقمان تک بے توقیر ہونے والوں کی قطار لگی ہوئی ہے، اب شاید اس فہرست میں عمران خان کا اضافہ ہونے کو ہے۔

بلاشبہ عمران خان نے سابق چیف جسٹس کے ساتھ زیادتی کی ہے، ایک ایسا کام جس سے افتخارچودھری کو کوئی لینا دینا نہیں تھا، اسے بنیاد بناکر اس شریف شخص کی عزت کو جلسوں میں اچھالا جارہا ہے۔ جن کے گھروں میں ماں باپ کی عزت کا رواج نہیں، ایسے مادر پدر آزاد کھلنڈروں کو پتھر پکڑاکر اس محسن پاکستان کے پیچھے لگادیا گیا ہے، ان لوگوں نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹوں پر طوفان بدتمیزی برپا کررکھا ہے، ان کی رسی اتنی ڈھیلی کردی گئی ہے کہ وہ صرف بھونکتے ہی نہیں بلکہ کاٹتے بھی ہیں۔ خود عمران خان صاحب نے بھی حد کردی ہے، سیاست میں گرماگرمی کے لیے مخالفین پر طنز کوئی اچھنبے کی بات نہیں، مگر کپتان تو اس سے بھی بڑھ گئے ہیں۔ بھٹو کی بے باکی معروف تھی، وہ مخالفین کے نام بگاڑتے، ان پر فقرے کستے، عوامی اجتماعات میں ان کا مذاق اڑاتے، صرف خود ہی ایسا نہیں کرتے بلکہ جیالوں سے بھی مخالفین کو گالیاں دلواتے، کپتان بھی اسی راستے پر چل نکلا ہے۔ بھٹو کے گالم گلوچ کے انداز کو گلی محلوں کے لونڈے لپاڑوں کے سوا کسی نے پسند کیا ہے اور نہ آج سنجیدہ لوگ عمران خان کے انداز کو پسند کر ر ہے ہیں۔ بھٹو عدلیہ کے ہاتھوں اپنے انجام کو پہنچ گئے، حالانکہ انہوں نے عدلیہ سے ٹکر نہیں لی تھی، سوال یہ ہے کیا عدلیہ سے ٹکر لینے والے کپتان کا انجام بھی بھٹو جیسا ہوگا؟ کیا ان کا سیاسی جنازہ کسی عدالت سے برآمد ہوگا؟

عمران خان کہتے ہیں سابق چیف جسٹس نے انتخابات میں دھاندلی کرائی، جس کا فائدہ نوازشریف کو پہنچا، اس سلسلے میں وہ تین ثبوت پیش کرتے ہیں، نمبر ایک افتخارچودھری نے پابندی کے باوجود عدلیہ کی نگرانی میں انتخابات کرانے کی اجازت دی، نمبردو انہوں نے ریٹرننگ افسران سے خصوصی خطاب کیا اور تیسرا ثبوت یہ کہ افتخارچودھری نے دھاندلی کے خلاف تحریک انصاف کی اپیل کو نہیں سنا۔ یہ تینوں انتہائی بچکانہ اعتراضات ہیں، سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ ان کے افسران آیندہ کسی انتخابات کا حصہ نہیں بنیں گے، مگر معاملہ یہ ہوا 2013ء کے انتخابات سے قبل تحریک انصاف نے زوروشور سے مہم چلانا شروع کردی کہ الیکشن عدلیہ کی نگرانی میں کرائے جائیں، اوپر سے چیف الیکشن کمشنر نے بھی سپریم کورٹ سے درخواست کی کہ وہ عدالتی ا فسران کو ماضی کی طرح ریٹرننگ افسران بنانے کی اجازت دے، چیف جسٹس افتخارچودھری نے کئی اجلاسوں کے بعد تحریک انصاف اور الیکشن کمیشن کے مطالبے پر افسران کو انتخابات میں ڈیوٹی دینے کی اجازت دے دی، اس میں دھاندلی کی کون سی بات ہے؟ دوسرا اعتراض اس سے بھی بودا ہے، افتخارچودھری نے رات کے اندھیرے میں انتخابات میں ڈیوٹی دینے والے افسران سے خطاب نہیں کیا تھا، بلکہ یہ سب میڈیا کی موجودگی میں ہوا اور ان کا خطاب باقاعدہ میڈیا میں رپورٹ بھی ہوا، اس خطاب کی ٹیپ نکال کر سنی جاسکتی ہے، اس میں کسی کو دھاندلی کرانے کی ہدایت نہیں کی جارہی، اگر ان کو عدالتی افسران کے ذریعے دھاندلی کرانا ہوتی تو کیا وہ اس کے لیے جلسے کرتے؟ جہاں تک تحریک انصاف کی دھاندلی کے خلاف اپیل کو نہ سننے کا معاملہ ہے، اس میں یقینا سابق چیف جسٹس سے کوتاہی ہوئی ہے، شاید ان کا خیال یہ تھا کہ اس طرح کی درخواست بازی سے نظام کمزور ہوگا لیکن اگر وہ عمران خان کی درخواست کو سن لیتے تو زیادہ مناسب ہوتا۔

عمران خان کی یہ بات سو فیصد درست ہے کہ انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی ہوئی ہے، ہر جماعت یہی کہہ رہی ہے، اس سارے معاملے کی تحقیقات اور آیندہ اس طرح کی دھاندلیوں سے بچنے کے لیے انتخابی اصلاحات کا مطالبہ بھی بالکل ٹھیک ہے۔ انتخابی ٹریبونلوں کے معاملے پر بھی ہم کپتان کے ساتھ ہیں، ان ٹریبونلوں نے عوام کو مایوسی کے سوا کچھ نہیں دیا، عجیب تماشا لگا رکھا ہے، ان ٹریبونلوں کو 4 ماہ میں انتخابی عذرداریاں نمٹانی تھیں مگر سال گزرنے کے باوجود امیدوار دھکے کھاتے پھررہے ہیں، اگر کوئی ٹریبونل فیصلہ دیتا بھی ہے تو مخالف امیدوار کو اعلیٰ عدلیہ سے حکم امتناع مل جاتا ہے۔ اگر یوں ہی حکم امتناع دینے تھے تو پھر ٹریبونلوں کا ڈراما کیوں رچایا گیا؟ عمران خان کی انتخابی نظام میں اصلاحات اور دھاندلیوں کی تحقیقات کا مطالبہ دراصل ایک قومی مطالبہ ہے، کوئی بھی صاحب شعور شخص اس کی مخالفت نہیں کرسکتا، البتہ کپتان نے ان مطالبات کو تسلیم کرانے کے لیے جو طریقۂ کار اختیار کیا ہے، اس سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ جلسے، جلوس اور لانگ مارچ سب کرتے ہیں، پیپلزپارٹی اور ن لیگ بھی یہ کام کرتی رہی ہیں، اس لیے تحریک انصاف جلسے کرکے کوئی جرم نہیں کررہی، یہ جلسے اس کی مجبوری بھی ہیں، کیونکہ اگر وہ ایسا نہیں کرے گی تو اس کے کارکنان انتخابی شکست کے صدمے سے بکھرجائیں گے، چنانچہ تحریک انصاف کو کارکنوں کو جوڑے رکھنے کے لیے اگلے انتخابات تک دھاندلی کا ایشو زندہ رکھنا ہے، ہمیں ان کے جلسے جلوسوں پر کوئی اعتراض نہیں، وہ شوق سے لانگ مارچ کریں، اعتراض صرف اس زبان پر ہے جو قینچی کی طرح چل رہی ہے۔ میاں برادران اور منے بلاول وزرداری ان کے سیاسی حریف ہیں، ان سے نوک جھونک کوئی سنجیدہ معاملہ نہیں، ہمارے سیاسی کلچر میں مخالفین پر ذاتی حملے کرنے کا رواج ہے، مگر ایک ایسا شخص جس کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں، اسے سیاسی انداز میں سڑکوں پر گھسیٹنا ظلم ہے، اگر کوئی عمران خان کو سمجھا جاسکتا ہے تو سمجھائے، قوم افتخارچودھری کو ہیرو سمجھتی ہے، وہ ان کے خلاف گھٹیا الزام تراشی کا بدلہ اگلے انتخابات میں لے لے گی۔

عمران خان مسلسل عوامی اجتماعات میں سابق چیف جسٹس کی عزت سے کھیل رہے ہیں، جوابی طور پر افتخارچودھری نے بڑے تحمل کا مظاہرہ کیا، ان کی طرف سے کپتان کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں آیا، اب بھی انہوں نے خاموشی سے قانون کے راستے سے عمران خان کو 20 ارب روپے ہرجانے کا نوٹس دیا ہے، سابق چیف جسٹس نے نوٹس میں کہا ہے کہ اگر 14 روز میں معافی نہ مانگی گئی تو وہ عدالت جائیں گے۔ لگتا ایسا ہے کہ عمران خان معافی مانگنے کے موڈ میں نہیں ہیں، تحریک انصاف مقدمہ بازی سے بچنے کے لیے ’’انڈرٹیبل‘‘ معاملہ حل کرنے کی کوشش کرسکتی ہے، مگر اب افتخارچودھری کو عدالت کا رخ کرنا چاہیے، تاکہ قوم کو پتا چل سکے کپتان کے ثبوتوں میں کتنا دم ہے۔ پاکستان میں ہتک عزت کے مقدمات کے فیصلوں کا ریکارڈ کوئی اچھا نہیں ہے، اس طرح کے مقدمات کے عموماً فیصلے نہیں ہوتے، ہزاروں مقدمات عدالتوں کی فائلوں میں گم ہیں، افتخارچودھری کا مقدمہ ان فائلوں کی نذر نہیں ہونا چاہیے، وہ پوری زندگی لوگوں کو انصاف دیتے رہے، آج انہیں بھی انصاف ملنا چاہیے۔
munawar rajput
About the Author: munawar rajput Read More Articles by munawar rajput: 133 Articles with 110916 views i am a working journalist ,.. View More