مسلم امہ، اس کی وحدت اور اس کے فروغ کیلئے اقدامات

آج کی دنیائے اسلام کثرت تعداد کے باوجود جن المناک اور دردناک سانحات و حوادث سے دوچار ہے اس پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ …قافلہ حجاز میں حسین ایک بھی نہیں… ایشیا، افریقہ، یورپ اور مشرق بعید تک پھیلی اُمت مُسلمہ کے 57ممالک اپنی 1.5مسلم اکثریتی آبادی کے باوجود عالمی سطح پر خس و خاشاک سے کمتر حیثیت کے مالک ہیں، عالمی امور میں ان کی شرکت یا رائے نہ ہونے کے برابر ہے اور وہ اپنے دیرینہ حل طلب مسائل کے لئے عالمی استعماری طاقتوں کے رحم و کرم پر ہیں، اپنی کم مائیگی ، بے حیثیتی اور نئے عالمی سرمایہ داری اور اشتراکی پیمانوں کے باعث وہ انہی کے سامنے تگنی کا ناچ بھی ناچ رہے ہیں… امت کا ہر فرد ایک الٰہ ، ایک رسول خاتمی مرتبت ﷺ اور ایک کتاب کا ماننے والا ہے ، وہ آخری الہیاتی کتاب قرآن حکیم جس نے عرب کے صحرا نشینوں کو خبر، نظر، حضر اور اذان سحر میں یکجا اور یکتا کر دیا تھا اسے فراموش کر کے آج یہی امت مغربی مشرکانہ اور الحاد پر مبنی علمی و فکری قوتوں کی محتاج ہو کر رہ گئی ہے، وہ منشور انسانی جو ابن آدم کے تمام بنیادی حقوق کا ضامن اور تمام انسانی مسائل کا جامع حل پیش کر کے انسانیت کو امن ، سلامتی اور صحتمندانہ سرگرمیوں کے فروغ کی دعوت دیتا ہے جس کی وجہ سے مسلم امہ کی حالت اس بے منزل، بے سمت اور بے جہت گروہ سی پو گئی ہے جس کا مستقبل تریک اور فکر و دانش بانجھ ہے، وہ انقلابی نظام جس نے اپنے وقت کی سپر طاقتوں روم و فارس اور بازنطین کو تہہ و بالا کر کے رکھ دیا تھا وہی الوہی نظام جہاں بانی آج … پردیس میں غریب الغرباء ہے۔

مسلم امہ کے معانی، مفہوم اور اغراض و مقاصد........آج کے جدید دور میں وطنیت کے حوالے سے قومیت کی سب سے بڑی شناخت وطنیت ہے، پاکستان کا رہنے والا پاکستانی قومیت رکھتا ہے اسی طرح ہر خطہ کا شہری اسی خطہ کے نام سے منسوب قومیت کا دعویدار ہے جب مسلمانوں کی بحیثیت قوم بات کی جاتی ہے تو یہاں ایک عالمگیر اخوت کی حامل ایک ایسی امت واحدہ کا تصور سامنے آتا ہے جو عربیت و عجمیت سمیت تمام بتان رنگ و خوں اور وطنیت سے ماورء نظر آتا ہے کہ جہاں بحیثیت انسان محمود ایاز میں کوئی برتری، تفاخر یا تفوق حاصل نہیں، اور اگر کوئی امتیازی برتری حاصل بھی ہے تو اس کی اساس تقویٰ ہے۔

قرآن حکیم لگ بھگ نو مقامات پر لفظ "امہ" استعمال کیا ہے، سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر 213 اور سورۃ یونس کی آیت نمبر 47 میں لفظ امت کو بطور "عوام الناس" استعمال کیا گیا گیا ہے، سورۃ ہود کی آیت نمبر 8، سورۃ نحل کی آیت نمبر 36 اور 120 میں لفظ "امت "جماعت کے معنوں میں آیا ہے، اسی طرح سورۃ کی آیت نمبر 213، سورۃ الانبیاء کی آیت نمبر 92 اور سورۃ ہود کی آیت نمبر 118میں پروردگار عالم نے قوم رسول ہاشمی ﷺ کیلئے "امت واحدہ" کا اسم صفت استعمال کیا ہے، سورۃ آل عمران کی آیت نمبر 110 میں اسی امت واحدہ "خیر الامم" بھی قرار دیا گیا ہے، آیت کریمہ میں رب کائنات فرماتا ہے کہ۔
"(مومنو) جتنی امتیں لوگوں میں پیدا ہوئیں تم ان میں سب سے بہتر ہو کہ نیک کام کرنے کو کہتے ہو اور برے کاموں سے منع کرتے ہواور خدا پر ایمان رکھتے ہو، اور اہل کتاب بھی ایمان لے آتے تو ان کے لئے بہت اچھا ہوتا ، ان میں ایمان لانے والے بھی ہیں اور اکثر نا فرمان ہیں"۔

اس آیت کریمہ میں اگر قوم ختمی مرتبت ﷺ کو خیر امہ کہا گیا ہے تو اس کی تین اہم وجوہات بھی بیان کر دی گئی ہیں اور یہی امم سابقہ اور امت مسلمہ کے درمیان خط امتیاز بھی ہے ، فرمایا گیا ہے کہ تم سب سے بہتر امت اس لئے ہو کہ:۔
اولاً…تم لوگ نیک کام کرنے کی تلقین کرتے ہو اس میں ابلاغی ، نظری اور عملی تینوں افعال شامل ہیں ، عمل و ابلاغ صالح ہر وہ بات ہے جس سے انسانیت کی خیر، اصلاح اور ترقی ممکن ہو اور مسلم امہ کا سب سے بڑا فرض اولین اعمال صالح کا فروغ ہے اور یہی قدر دیگر امم سابقہ سے مسلم امہ کو ممتاز کرتی ہے، یہ مساعی جمیلہ امت کے ایک فرد سے لیکر معاشرے تک اور معاشرے سے لیکر عالمگیر منظر نامے تک ایک آئیڈیل ماحول فراہم کرتی ہے۔
ثانیاً… امت مسلہ کا کام محض اعمال صالحہ کے فروغ اور ابلاغ سے مکمل نہیں ہوتا بلکہ یہ امت کے نصب العین کا پہلا مرحلہ ہے، دوسرا مرحلہ نواہی کا آتا ہے اور امت مسلمہ تحریکی سپرٹ سے انسانیت کو ہر اس کام سے روکتی ہے جہاں سے اعمال خبیثہ و باطلہ اپنی تمام تر قہر سامانیوں، ابلیسی سازشوں اور آزاد انسانوں کو دائمی غلامی میں جکڑنے کے سائینٹیفک منصوبوں کے ساتھ رقص کرتے نظر آتے ہیں، وہ شیطان جو اپنے روشن چہروں کے ساتھ کہلاتے تو ابن آدم ہی ہیں مگر ان کے اندر نمرود ، شداد، ہامان ، چنگیز و ہلاکو اور جدید استحصالی نظاموں کے موجدین کی تاریک بد روحیں بسیرا کئے ہوئے ہیں۔
ثالثاً…ً آیت کریمہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ پر ایمان کا بھی ذکر آیا ہے، ایمان باللہ تو امت مسلمہ کی خشت اول ہے، اس کے بغیر تو کوئی شخص امہ کا فرد ہی نہیں بن سکتا ، اگر آیہ کریمہ میں بیان کردہ نکات پر غور کیا جائے تو یہ بات کسی شک و شبہ سے بالا تر ہو کر کہی جا سکتی ہے کہ ایمان باللہ کے بغیر اعمال صالحہ کا فروغ نہ اعمال باطلہ سے نجات کی ہی کوئی صورت نکل سکتی ہے، ایمان اللہ سے بھی وہی بہرہ یاب ہو گا جو امت مسلمہ کا فرد بننے سے پہلے ہی صالحات کا داعی اور نواہی سے اجتناب برتنے والا ہو، صرف یہی نہیں بلکہ وہ اپنے صالح ترین نصب العین کے حصول کیلئے باطل قوتوں کے روبرو کلمہ حق بھی بلند کرنے والا اور عمال باطلہ و خبیثہ کے سامنے اسلام کو ایک ناقابل تسخیر قوت کے طور پر پیش کرنے کا حوصلہ مند داعی بھی ہو۔

مسلم امہ کا نظریہ اور قوم کے تصور میں فرق
قوم علاقائیت، حسب و نسب، مشترکہ مفادات کے اجتماع، زبان اور یکساں کلچر کے اظہار کا نام ہے، قوم میں ہر طرح کے افراد ہوتے ہیں اور اپنے اپنے انفرادی امتیازات کے ساتھ وہ اپنا کردار ادا کرتے ہیں، تاریخ عالم کے صفحات مخصوص قوموں کے تمدن، سیاسی جبروت اور انسانیت کیلئے ان کی ہلاکت خیزیوں کی داستانوں سے بھرے پڑے ہیں، قومی تصور میں افراد کیلئے نہ عمل صالح کی کوئی اہمیت ہے نہ افراد صالح کی شراکت اقتدار کیلئے کوئی شرط، قدیم معاشروں میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون رائج ہوا، آزاد پیدا ہونے والے انسانوں کو دائمی غلامی میں لے لیا گیا بلکہ ان کو اتنا اتنا حقیر بنا دیا گیا کہ اس کی آواز ، سایہ اور اس کو چھو کر آنے والی ہوا کو بھی ناپاک قرار دیکر اس سے انسان ہونے کی حیثیت بھی چھین لی گئی، بعد کے شعوری سماجوں میں جمہوریت کا اجراء تو ہوا مگر اس میں مثالی صالح کردار کے بجائے اسے ووٹ کے ترازو میں تولنے کا چلن عام ہوا ، یہی وجہ ہے کہ قوم کے تصور کے حامل معاشروں میں انرکی عام اور سکون قلب نہ ہونے کے برابر ہے بلکہ انسانیت حکمرانوں اور اشرافیہ کی قہر سامانیوں تلے کراہ رہی ہے۔

امہ کا نظریہ سراسر پاکیزہ اور انسان کی فلاح کا ضامن ہے،امہ کی اساس ہی صالح اور کردار کی مثالی جماعت پر استوار ہوتی ہے جو بالغ نظر، مجتہد خیر و شر کے اعمال و اثرات سے پوری طرح آگاہ، مثالی مقنن (Examplary law maker)اور عالم با صفا ہوتے ہیں، وہ امت کی دائمی اور قابل بھروسہ عملداری پر یقین رکھتے ہیں، اگر وہ امہ کے کسی معاملے میں کردار ادا کرتے ہیں تو باہمی طور پر حلقہ یاراں میں ابریشم کی طرح نرم اور بزم حق و باطل میں فولاد صفت مردان آہن بن کر اپنی ضرب اسدُاللّہی سے صفوں کو الٹ سیتے ہیں، یہ لازوال حقیقت امت مسلمہ کے افراد میں ہی ہوتی ہے کہ وہ وقتی اور ہنگامی مصلحتوں کا شکار نہیں ہوتے، اپنے نصب العین کیلئے وہ آخری حدوں تک چلے جاتے ہیں کیونکہ ان کی مشنری زندگی کا مآل کشور کشائی اور حصول مال و زر نہیں بلکہ حیات جاوید ہوتا ہے جسے شہادت کہتے ہیں، یہ وہ زندگی ہے جہاں فنا نہیں وہاں خود موت کی موت واقع ہو جاتی ہے، امت کی تشکیل کرنے والے یہ وہ معمار ہیں جو بدر میں پیٹوں پر پتھر باندھے 313کی مختصر جمیعت کے ساتھ ٹڈی دل کفار سے ٹکرا جاتے ہیں اور دشت کربلا میں معصومین کو قربان کرنے کے بعد العتش العتش کی دلدوز صدائوں میں بھی باطل کے سامنے کلمہ حق لند کرتے ہوئے اپنے سروں کو نیزوں پر لہرانے کیلئے پیش کر دیتے ہیں، شاید امت مسلمہ کے ان قدوسیوں کی یہی وہ لذت آفرینی ہے جو انہیں اپنے نصب العین کیلئے تقدس بھری جدو جہد کے دوران دو عالم سے بیگانہ کر دیتی ہے … ایسے میں مسلم امہ کی ان پاکیزہ ہستیوں کے مقابلہ میں دنیا کی وطنیت اور لسان و نسب کی حامل کوئی قوم کیا ایک انفرادی مثال ہی پیش کر سکتی ہے جن سے ان کی جرات و بیباکی، ایمان و ایقان اور ہمت و استقلال کا موازنہ کیا جا سکے۔

قوم اور امہ کے اس فرق کی وضاحت کے بعد کیا امت مسلمہ محض ایک تصواراتی یا نظریاتی واہمہ ہی ہے یا انہی الفاظ ربانی میں افضلیت کی حامل داعی الی الخیر اور نہی عن المنکر امہ تاریخ و تہذیب اور فکر و دانش انسانی پر کوئی نقش بھی ثبت کر سکی ہے یا عہد عتیق کی مٹتی اور فنا پذیر تہذیبوں کی صرف آچاریات(Archialogy) کی صورت میں پائی جاتی ہے … یقیناً امت مسلمہ کی ڈیڑھ ہزاری حیات کا وہ گوشہ ہے جس پر نظر ڈالے بغیر امت کو درپیش لمحہ موجود کے مسائل کا ادراک ہو سکتا ہے نہ اسے سمجھا ہی جا سکتا ہے۔

مسلم امہ کے اساسی عناصر اور تہذیب اسلامی کی تشکیل.........امت مسلمہ کی اساس اس پیغام آفاقی پر ہے جس کا آغاز "اقراء" کے لفظ سے حرا کی خلوتوں میں ہوا تھا ، کملی اوڑھنے والا وادی غیر ذی ذرع میں مٹھی بھر جمیعت کے ساتھ اٹھا اور اپنے عہد کے ظالمین، غاصبین، مفسدین اور انسانیت کو رنج و الم میں مبتلا رکھنے والے آلودہ ذہنوں کے باطل خیالات کو اپنے پائوں تلے روندتا فاران کی چوٹی پر خدائے واحد و ژاہد کے آخری دین اور اپنے رب کی طرف سے عنایات و انعامات کی تکمیل کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق ، مساوات اور جامع نظام ہائے سماج و معاش کا اعلان کر دیا کیونکہ امت کے معمار پر فرمانروائے عالم کی طرف سے نازل ہوا اس کی عملی تفسیر خود اس کی ذات بابرکات تھی، قیادت، سیادت، طرز حیات و کلام، مکارم اخلاق ، خلوت و جلوت کے علاوہ انفرادی و عائلی زندگی از خود ایک ایسی ہمہ جہت جامع الصفات روشنی کا مینار ہے جو امہ کے ہر مسئلے اور احتیاج کا آئینہ دار بھی ہے، اس بحث سے قطع نظر کہ مختلف ادوار کے مسلمان حکمرانوں کی قیادت و سیادت کی حیثیت کیا تھی مگر یہ حقیقت بھی اپنی جگہ مسلمہ ہے کہ حریمین الشریفین سے طلوع ہونے والے آفتاب نبوت ﷺ کی کرنیں گیارویں صدی تک نصف کرہ ارضی کو مستنیر کر چکی تھیں ،اسلام کے آفاقی پیغام سے ایک تہزیب جنم لے چکی تھی جس نے رومی پاپائیت، ایرانی مزدکیت، ہندی برہمنیت اور قدیم ترین طوطمیت (Totamism)پر مبنی تہذیبوں کی نیادوں کو ہلا کر رکھ دیا تھا ، اسی تہذیب نے قرطبہ، اشبیلیہ، سکندریہ، دمشق اور بغداد اور دیگر مقامات پر ایسی فکرو دانش کی وہ شمعیں جلائیں کہ آج کی پر تعصب مغربی دنیا لاکھوں پردوں میں اسے پوشیدہ رکھنے کی کوشش کرے یہ بات ام نشرح ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی کہ آج کی مغربی سائنس اور ٹیکنالوجی انہی دانشگاہوں سے فروغ پانے والے علوم و فنون کی ترقی یافتہ شک کا نام ہے،مسلم امہ نے اسلامی تہذیب کی تشکیل میں جو حصہ ڈالا کہ دنیا ان پر آج بھی فخر کرتی ہے۔

ایک زندہ قوم کا عملی اظہار اس کا زندہ تمدن ہوتا ہے، اس کی نمود اس کی فکری قوت کی جارحیت سے نظر آتی ہے، قرون وسطیٰ میں مسلم امہ کی عددی وسعت کے ساتھ ساتھ اس کے تمدن کا اظہار بھی کئی صورتوں میں نظر آتا ہے، علمی فتوحات اور فکری دانش میں جہاں مسلم امہ کے کلیدی افکار کا ابلاغ عملی صورت میں نظر آیا اور جن نئے نئے علوم فنون کو جنم دیا گیا ، یونانی دانشوروں کی تحریروں کو تثلیثی اثرات سے پاک کرتے ہوئے ان کی جھاڑ پونچ کی گئی، یہ علوم و فنون جب اسلامی دانشگاہوں میں رائج کئے گئے تو ایجادات، اخراعات اور دریافتوں کا ایک سیلاب آگیا، کرہ ارضی پر پھیلنے والی اسلامی تعلیمات اور مسلم امہ کی کاوشوں نے کلام اللہ کی تبلیغ اور اقوال رسول ﷺ کو مجتمع کرنے کیلئے علم الحدیث کی ایک ایسی سائنس تشکیل دی کہ آج کے تحقیقی، صحافتی اور ابلاغی اصول اسی سے استنباط کئے جا رہے ہیں ، اسماء الرجال کا علم عہد حاضر کی تاریخ دانی و تاریخ نویسی کی اساس ہے، کیمیا ، ہیئت، طبیعات، طب و حکمت، علم البدان ،علم الانسان(Anthropology) فلسفہ، منطق، علم الکلام الغرض آج کی جدید دنیا میں رائج تمام تر فکری، طبعی، علمی اور عقلی علوم مسلم امہ کے بہترین دماغوں کی دریافتیں ہیں، صرف ایک فکری اور علمی تحریک یعنی معتزلہ کو ہی اگر دیکھا جائے تو عالم اسلام کے اکثر محققین کا اس بات پر اجماع ہے کہ معتزلہ نے مسلم امہ کو عقلی علوم کلام، منطق اور فلسفہ سے آشنا کیا اور بحیثیت امہ اسے صائب الرائے بھی بنایا، ابو واصل اور اس کے جانشینوں کے افکار اور بعد کی شدت پسندانہ اعتزالی افکار سے مکمل اتفاق رائے ضروری نہیں مگر انہوں نے علوم میں تشکیک کا عنصر ڈال کر وہ راہیں ضرور متعین کر دیں اور ا س بات کو بھی مسلمہ حقیقت کا روپ دیدیا کہ مسلم امہ کی اساس کتاب اللہ محض تصوراتی یا دیومالائی داستانوں کا مجموعہ نہیں بلکہ وہ ہر ہر قوم اور ہر جغرافیہ کیلئے ہر شعبہ زندگی کی زندہ تابندہ رہنما و رہبر ہے اور مسلم امہ ان کی اسلامائیزیشن پر یقین رکھتی ہے۔

مسلم امہ کے اسی تمدن کی زندہ جاوید آثاریات آج دنیا میں شکوۃ اسلامی کی داستانیں سنا رہی ہے، ان آثاریات میں مینار، گنبد، خانقاہی و روحانی نظام اتنا ارفع ہے کہ اس نے دنیا کی ہر ثقافت اور کلچر کو بھی متاثر کیا ہے، کسی بھی ملک کی تعمیرات کو اسلام کی آمد سے ما قبل اور بعد سے موازنہ کریں تو بات سمجھ میں آ جاتی ہے، اسی طرح دانش کے حوالے سے بھی مسلم امہ کے اخلاقی سربلندی کے حامل لٹریچر نے دنیا کے ہر ادب اور اس کی تحریک کو متاثر کیا ہے، قرآن عربی مبین میں ہے مگر تکمیل نزول قرآن سے قبل ہی عہد جاہلیت کا عربی ادب اس کے سامنے رکوع سجود میں نظر آتا ہے، جنگ نہاوند کی فتح صرف ایک خطہ زمین کا حصول نہیں تھا بلکہ یہ ایک تسخیر قلب و روح کا ایک ایسا انقلاب تھا جس نے اہرمن و یزدان کے خانوں میں بٹے خدائوں کے بجائے الہٰ وحدہ لاشریک کے سامنے ماتھا ٹیک کر جہاں فارس کا تمدن مکمل طور پر اسلامی رنگ میں رنگ دیا بلکہ فارسی ادب نے ایسے فن پارے تخلیق کئے کہ اس کے بارے میں کہ گیا کہ … ہست قرآں در زبان پہلوی۔

مسلم امہ نے تمدن اسلامی کا ڈنکا ہندوستان میں بھی بجایا تو ہند کے ہر شعبہ زندگی میں تبدیلی کے نئے ظہور کے ساتھ عربی ، فارسی اور سنسکرت کے اختلاط سے مسلم امہ کے افکار و دانش کی مبلغ اور نگہبان نئی زبان اردو کی تشکیل کا عمل شروع ہوا یہ معجزہ نما عمل اس قدر سریع الحرکت تھا کہ اس کے فروغ اور ابلاغ میں آسمان ہند پر روشن ان صالحین نے اہم کردار ادا کیا زبان اردو نہ صرف مسلمانوں کے اظہار بیان اور رابطے کا ذریعہ بنی بلکہ دنیا کے نقشے پر دین اسلام کے نام پر قائم ہونے والی مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان کی قومی زبان بھی قرار پائی جبکہ آج یہ دنیا کی طاقتور زبانوں میں شمار ہوتی ہے، یہی اس زندہ تمدن کی عملی تفسیر ہے جو مسلم امہ کے افکار و خیالات اور تصورات و یخیلات کا ہمہ جہت اور طاقتور ترجمان ہے اور دنیا کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی شناخت کا نشان بھی… یہ تھا مسلم امہ کا درخشاں ماضی اور اس کا پیغام سرمدی مگر سوال یہ ہے کہ آج کی مسلم امہ کہاں کھڑی ہے اور اس کا مآل کیا ہے؟
مسلم امہ کے تابناک ماضی کا زوال،نو آبادیاتی غلامی کا دور اور اس کے اثرات.........وہ مسلم امہ جس نے سیاست و سیادت، فکر و فن اور سائنس و ٹیکنالوجی سمیت ہر شعبہ زندگی کو ترقی سے ہمکنار کیا تھا ، جس نے صرف ایک جدا گانہ اسلامی تہزیب کی بنیاد رکھی تھی اور جہاں سے دنیا کی پہلی یونیورسٹی نے جنم لیا تھا آخر وہ کیا اسباب و عوامل تھے جنہوں نے بارھویں صدی سے اسے زوال آمادہ کیا اور وہ اس قہر مذلت میں گر گئی کہ جن بے تمدن انسانوں کو امہ کے بہترین دماغوں اور دانشگاہوں نے شب تاریک کے سمندروں سے نکال کر اجالوں سے متعارف کرایا تھا جب ان کو زباں ملی تو وہی پتھر مسلم امہ پر ہی برس پڑے۔

مسلم امہ کی انسانیت کیلئے خدمات سے انکار تو ممکن نہیں مگر جب تک مسلم امہ کے دماغ فکر و دانش کی راہوں پر چلتے رہے انہیں دنیاوی و دینی رفعتیں حاصل ہوتی رہیں، جب انہوں نے اپنے مآل سے بے پرواہ ہو کر طائوس و رباب کو شمشیر و سناں پر فوقیت دینی شروع کی تو امہ کے سیاسی اقتدار اور فکر و دانش کے مراکز ثقل کی کشش بھی بے توانا ہو کر رہ گئی، یوں تو مسلم امہ کا شیرازہ گیارویں صدی میں ہی ناہل حکمرانوں کی عیاشیوں ، نان ایشوز پر توانائیاں صرف کرنے اور سازشوں کی دلدل کی وسعت کی شکل میں بکھرنا شروع ہو گیا تھا جس کی انتہا سقوط بغداد (1258)کی شکل میں سامنے آئی اور خلیفۃ المسلمین کہلاوانے والے معتصم باللہ کو اپنی آخری چند سانسیں لینے سے قبل ہلاکو خان کا یہ طعنہ بھی سننا
پڑا کہ یہ مال و زر اور جواہرات تم اگر کھا نہیں سکتے تو یہ کس لئے جمع کئے ہوئے تھے؟ تم نے ملک و قوم کو بچانے اور مجھ (ہلاکو خان) کو روکنے کیلئے سپاہ کیوں تیار نہیں کی، اگر تم امور جہاں بانی کے شناور ہوتے تو تمہیں یہ دن نہ دیکھنا پڑتا… جی ہاں ، سیاسی اقتدار ریاست کے دیگر ستونوں کو قائم رکھنے کی قوت فراہم کرتا ہے مگر اس کیئے اپنے گھوڑے اور تیر و تفنگ ہر وقت اپ ڈیت اور تیار رکھنے پڑتے ہیں ، ان تقاضوں سے عاری معتصم باللہ کا وجود جونہی ہاتھیوں اور گھوڑوں کے نیچے کچلا گیا اسی لمحے مسلم امہ کی کشش ثقل کا نیوکلس بھی بکھر گیا، عراق و حجاز اور شام و فلسطین جیسے مسلم امہ کے سیاسی اقتدار اور علم و فن کے مراکز صلیبی جنونیوں کے پائوں تلے روندے جانے لگے، نورالدین زنگی اور صلاح الدین ایوبی نے تہذی اسلامی اور مسلم امہ کی اس ٹمٹماتی شمع کو فروزاں رکھنے کی کوشش تو کی مگر کب تلک…آخر تیرویں صدی کے آغاز میںچشم فلک نے مسلم سپین کو بھی ٹوٹتے دیکھا اور نوبت بہ ایں جا رسید کہ مسلم امہ کو جہالت اور بے توقیری کی تاریک دبیز چادر نے اپنے اندر اس قدر سمویا کہ اس کی آئندہ نسلیں اپنے حیات پرور ماضی اور سطوت شوکت اسلامی سے نا شناسا ہو کر دین و دنیا سے بھی بیگانہ اور تہی دست ہو گئیں، یورپ عہد تاریک سے نکل کر نشاۃ ثانیہ کیلئے انگڑائیاں لینے لگا،1096ء میں اکسفورڈ اور 1209ء میں کیمبرج جیسی مسیحی دانشگاہیں قائم ہوئیںجہاں سے جدید یورپی تمدن کے معمار پیدا ہوئے اور سنہری اسلامی اصولوں کی اساس پر ہی اپنی تہزیب کی اٹھان میں حصہ لیا، میراث خلیل تو تثلیث کے فرزند گمشدہ خزینہ سمجھ کر لے گئے ، ان خزانوں نے تہذیب یورپ کیلئے تو آکسجن کا کام دیا لیکن مسلم امہ کا مرد بیمار آخری ہچکیاں لینے لگا… یہی وہ وقت تھا جب یورپ کے اکٹوپس نے اپنے بازو پھیلائے، مشرق و مغرب تک پھیلی ناتواں مسلم امہ فرانس اور برطانیہ سمیت دیگر یورپی اقوام کی دائمی غلامی میں آتی گئی، صرف ترکی اور ایران ایسے ممالک تھے جنہوں نے اس تاریک اور نازک دور میں بھی اپنی آزادی اور خود مختاری برقرار رکھی مگر امہ کی مجموعی غلامی کے سامنے یہ آزادی ہیچ تھی ، حرص و ہوس کی کشمکش کے دوران ترک قوم اپنی آزادی بیسویں صدی کے دوسرے عشرے میں گنوا بیٹھا، خلافت کا شیراز بکھرا ، اغیار کے مقاصد پورے ہوئے اور پھر ایک بار پورا عالم اسلام پھر ایک بار ٹکڑوں میں بٹ گیا ، ہادی برحقﷺ نے فاران کی چوٹیوں پر اپنے خطبہ حجۃ الوداع میں عہد جاہلیت کے جس تصور عرب و عجم کو پائوں تلے روند دیا تھا ، وطنیت، لسانیت اور خون کے جن امتیازات کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا تھا وہ طمطراق سے اک بار پھر ابھر کر سامنے آ گئے تھے، ان تعصبات نے جتنا امہ کے اتحاد ، مساوات، اجتماعی فکر و دانش اور سیاسی اقتدار کو نقصان پہنچایا وہ 12ویں صدی میں صلیبی اور 19ویں صدی میں لارنس آف عریبیہ نے بھی نہیں پہنچایا تھا، مسلم امہ کو نیچ دکھانے کیلئے آٹھ صدی قبل صلیبیوں کے جو مقاصد تھے آج اکیسویں صدی میں بھی استعماری سامراج، نو آبادیاتی نظام اور سرمایہ داریت کے بھی یہی مقاصد ہیں۔

گزشتہ آٹھ سو سالوں میں مسلمانوں کی کم و بیش 35سے 40پشتیں گذری ہیں، جینیٹکس کے اصول کے تحت ہر چوتھی نسل جغرافیائی، موسمیاتی اور دیگر عوامل کے تحت اپنے خواص مکمل طور پر بدل لیتی ہے ، مسلمانوں نے سقوط بغداد کے بعد جن ہولناکیوں سے خود کو گزارایا اپنی تہذیبی و تمدنی اقدار اور دینی سپرٹ کے بغیر ایشیا ، یورپ یا کسی بھی خطہ ارضی پر سیاسی اقتدار بھی حاصل کیااس سے امہ کی مجموعی اٹھان کم اور دیگر تہذیبوں کے ساتھ اختلاط ، کسی حد تک مسلم تمدن کی نمود اور فروغ بھی نظر آیا،محمود غزنوی خود کو افغانستان اور ہند میں خلافت بنو عباس کا نائب سمجھتا تھا، اس کے ہند پر سترہ حملے محض یہاں کی دولت اور زمین پر قبضہ کیلئے نہیں تھے بلکہ مسلم امہ کا کروڑوں دیوی دیوتائوں کے دیار ہند میں ایک جارحانہ سیلاب تھا، ہند نے یہ سیلاب پہلے آریائوں اور ٹیکسلا کی تہذیب کو تباہ کرنے والے ہنوں کی صورت میں دیکھا تھا اور ایک زندہ تمدن کے ساتھ مسلم امہ کی صورت میں، یہ تسلسل 1857ء تک جاری رہا، پھر یہاں بھی غلامی کی دبیز چادر تن گئی تا ہم 1947ء اسلامی نظریہ کی اساس پر دنیائے اسلام کی پہلی مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان قائم ہوئی جو بلا شبہ مسلم امہ کی پہلی ایٹمی قوت کی تاجوری ایک عالمی مثال ہے۔

گزشتہ آٹھ صدیوں نے مسلم امہ کو اپنے تہذیبی ، ثقافتی اور علمی و فکری ورثہ سے بھی تہی دست کر دیا، اجتماعی اور تہہ در تہہ زوال اور محرومیوں نے انہیں اپنے مراکز سے دور تو کر ہی دیا ، دین ان کے نزدیک محض عبادات کی نظیر بن کر رہ گیا، نماز اور روزہ تک وہ محدود ہو کر رہ گئے ، دین کی سیاسی شان و شوکت، نظام اقتصاد و سماج اور آفاقیت کو انہوں نے فراموش کر دیا اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلم امہ سیاسی، سماجی، مسلکی اور فرقہ وارانہ گروہ بندی میں بٹتی چلی گئی ساتھ ہی ساتھ وہ جنونیت جو صلیبیوں کا خاصا تھی ان کی دیکھا دیکھی مسلم امہ میں بھی جڑھ پکڑتی گئی، کشت و خون کا بازار گرم ہوااور مسلمانوں کے ہاتھوں مسلمانوں کے خون کے چھینٹے اڑنے لگے، جدید ترکی کا راستہ استور کرنے کیلئے ہزاروں محدثین،مجتہدین اور بڑی بڑی دینی، علمی و فکری دانشگاہوں میں مصروف اساتذہ کو خون میں نہلا دیا گیا، عرب و حجاز کو نئی شکل دینے کیلئے اہل بیت نبوتﷺ، صحابہ کرام اور دیگر مقدس ہستیوں کی ابدی آرام گاہوں تہس نہس کر کے رکھ دیا گیا، دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت پاکستان کو سیاسی اور گروہی مفادات کی بھینٹ چڑھا کر دو لخت کر دیا گیا، صدام حسین کی عاقبت نا اندیش قیادت نے پہلے ایران کے ساتھ دس سالہ جنگ مسلم امہ کے دفاعی اور سٹریٹجک مفادات کو بیحد نقصان پہنچایا اور بعد میں آزاد عرب برادر ملک کویت پر چڑھائی کر کے غاصب امریکی سامراج کا مشرق وسطیٰ میں در اندازی کا راستہ ہموار کیا،صدام خود تو پیوند خاک ہوا لیکن قوم کو ایک ایسی دلدل میں پھنسا گیا کہ ہر روز دھماکے، میزائل ، راکٹ باری اور روزانہ سینکڑوں ہلاکتیں ان کا مقدر بن گئی ہیں،افغانستان میں سوویت یونین کو نکالنے کیلئے پہلے عالمی سامراج نے القاعدہ اور طالبان کی پرورش کی اور کمیونزم کے خاتمہ کے بعد انہیں تخت کابل پر بٹھا دیا ، مغربی مفادات پورے نہ ہونے پر عالمی سامراج پھر خوفناک آتش و آہن کے ساتھ دو عشروں تک عالمی طاقتوں کی رسہ کشی کے دوران معذور افغان قوم پر ٹوٹ پڑا اور اب صورتحال یہ ہے کہ طالبان کی عفریت کابل اور اسلام آباد کے اقتدار اعلیٰ کیلئے چیلنج بن گیا ہے۔

مسلم امہ پر صدیوں کی غلامی اور جہالت کا یہ اثر پڑ ا ہے کہ جب پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے نتیجے میں سامراج کی زوال آمادہ جبروت نے انہیں آزادی دینا پڑی تو آزاد ہونے والے مسلم ممالک میں جہاں بیں، جہاں دارا ور جہانگیر فکرو دانش اور قیادت کا فقدان تھا، ان کی مثال گئو خانے میں بندھی اس گائے کی سی تھی جس نے انکھ کھلتے ہی زنجیر کو اپنے گلے میں پرا پایا، اس کا کام چارا کھان اور دودھ دینا تھا، جب اس کی زنجیر ٹوٹی تو اسے پتہ ہی نہیں تھا کہ وہ بھوک مٹانے کیلئے کس طرف جائے، نا آشنا راستوں گزرتے لڑھک گئی اور جاں گنوا بیٹھی یا جنگلمیں درندوں کا نوالہ بن گئی، آج کی مسلم امہ کی بھی حالت یہی ہے ، مصر میں اخوان المسلمین کو اقتدار سے ہٹا کر سامراج کے پٹھو جنرل کو اقتدار سونپ دیا گیا ہے، مشرق وسطیٰ میں تہذیب جدید کے ناسور یہودی نا جائز ریاست ارائیل مسلم امہ کیلئے مستقل سوہان روح بنا ہوا ہے،دوسری طرف ارض موعود یعنی فلسطین کے اصل وارث فلسطینی اسی اسرائیل کی بربریت کا نشانہ بنے ہوئے ہیں،شام میں اس کے باشندوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا ہے،کشمیر میں بزدل بھارتی سینا ہر روز ایک نیا شہر خموشاں آباد کر رہی ہے، کشمیری عصمتوں کا نیلام گھر لگا ہوا ہے، بھارت، تھائی لینڈ اور اب سری لنکا میں مسلم قوم کا وجود مٹانے کی کوششیں ہو رہی ہیںجبکہ 57اسلامی ممالک کی ڈیڑھ کروڑ آبادی کی بے توقیری اور سیاسی کم وزنی کا یہ عالم ہے کہ یہودی سازشیں ان کے ایمان و ایقان کیلئے بھی چیلنج بن کر سامنے آ رہی ہیں،9/11 کے واقعات کے بعد دنیا کو پیغام امن سنانے والے سلامتی کے دین دہشتگردی سے جوڑ دیا گیا ہے گویا مسلم امہ کا ہر فرد دہشتگرد ہے، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مسلم امہ کا ہر فرد قرآن کے انسانیت کیلئے سلامتی اور امن کے اس پیغام کو بھلا بیٹھا ہے کہ "جس نے نا حق ایک انسان کو قتل کیا اس نے پوری انسانیت کو قتل کیااور جس نے کسی ایک انسان کی جان بچائی گویا اس نے پوری انسانیت کو زندہ کر دیا"(سورۃ المائدہ، آیت 32)

اس لئے اب وقت آ گیا ہے کہ مسلم امہ بدلتی دنیا میں اپنے مقاصد کا از سر نو تعین کرے، اسلامی نشاۃ ثانیہ ، قرآن کی آفاقی تعلیمات کے احیاء اور یکتا و یکجا ہو کر اپنے حرم کی پاسبانی کیلئے پھر اٹھے اور اقوام عالم کو بتائے کہ ہم مراکش سے انڈونیشیا تک اپنے دین کی پاسبانی کیلئے تیار ہیں اور دنیا کے امن و سلامتی کے سب سے بڑے داعی حضرت محمد ﷺکے پروانے ہیں جس کی تشکیل کردہ مسلم امہ آج بھی انسانی سلامتی اور دنیا کے امن و آشتی کی امین ہے۔

جدید دنیائے اسلام اور اس کی سٹریٹیجک اہمیت........کشمیر ،فلسطین، قبرص اور چچنیاجیسے مسلم امہ کے حل طلب قضیوں سمیت عالم اسلام کی جدید تشکیل پر نظر ڈالی جائے تو کرہ ارض پر اسلامی ممالک انتہائی اہم سٹریٹیجک خطوں میں واقع ہیں، ان میں ڈیڑھ ارب سے زائد نفوس پر مشتمل امت مسلمہ بستی ہے جو دنیا کی آبادی کا 25فیصد ہے، اسی خطے میں پاکستان جیسے ایٹمی اور ملائیشیا جیسے اقتصادی سپر پاور کے علاوہ دنیا کے ٹاپ 10امیر ترین اسلامی ممالک سر فہرست ہیں، یہاں اس افسوسناک اور عبرتناک حقیقت کا بھی اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ انہی ممالک کے پہلو بہ پہلو وہ اسلامی ممالک بھی موجود ہیں جو انارکی، طوائف الملوکی اور داخلی انتشار کی وجہ سے افالاس اور جہالت کی آخری حدوں کو چھو رہے ہیں، عالم اسلام میں اعلانیہ اسلامی جمہوریائیں کہلوانے والے ممالک میں پاکستان، ایران، افغانستان، ماریطانیہ، سعودی عرب اور یمن شامل ہیں جبکہ سیکولر اسلامی ممالک میں الجزائر، اردن، البانیہ، ازبکستان، آذر بائیجان،برونائی دارالسلام، بوسنیا ، بورکینو فاسو، بنگلہ دیش، تاجکستان، ترکمانستان، ترکی ، تیونس، چاڈ ،کویت، گیمبیا، گنی، قازقستان، کوسووو، کرغیزستان، لیبیا، مالدیپ، مالی، مراکش، متحدہ عرب امارات، ملائیشیا، نائیجیریا، سینیگال، فلسطین، قبرص، کشمیر، شام اور لبنان شامل ہیں، انڈونیشیا، جبوتی، سوڈان اور سیرالیون اتنی زحمت بھی گوارہ نہیں کرتے کہ وہ خود کو امہ کا حصہ ہی ظاہر کر سکیں،امہ کی اہم ترین ممالک مصر، شام، عراق اور افغانستان بری طرح خانہ جنگی میں الجھے ہوئے ہیں اور اپنے ہی عوام کے خلاف کارروائیاں کر کے انہیں فتح کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں،سوڈان اور انڈونیشیا کو تقسیم کر وسائل سے مالا مال خطے مسیحوں کو دے دئے گئے ہیں.

انفرادی سطھ پر بھی دیکھیں تودنیا کے ٹاپ 10امیر ترین افراد میں سے سب کا تعلق مسلم امہ سے ہے، ان میں سے چار افراد شہزادہ ولید بن طلال ،محمد ال عمودی،محمد بن عیسیٰ الجابراور سلیمان الرجاعی سعودی باشندے ہیں جن کی مجموعی دولت کا حجم 50بلین ڈالر لگایا گیا ہے، یہ کتنی افسوسناک صورتحال ہے کہ اس سے عالم اسلام میں سرمایہکاری کم اور مغربی دنیا کے ممالک کے بنکوں میں زیادہ سے زیادہ انوسٹمنٹ ہو رہی ہے،یہ بات بھی حتمی طور پر کہی جا سکتی ہے کہ مغربی دنیا کی ترقی کا انحصار اسی ملکی اور انفرادی دولت کے بل بوتے پر ہے،بد قسمتی یہ ہے کہ غیروں کے ہاتھوں میں یہی سرمایہ ری سائیکل ہو کر مسلم ممالک کو بھاری سود پر لوٹایا جا رہا ہے،ہر ملک عالمی مالیاتی ادارے (IMF) عالمی بنک اور مغربی مالیاتی کنشورشئیم کے قرضوں تلے کراہ رہا ہے ،مسلم ممالک کے باہمی اختلافات انہیں اس بات پر مجبور کر ہے ہیں کہ وہ ایک دوسرے پر فوجی برتری کیلئے قرضے لیکر دفاعی ٹیکنالوجی پر کھربوں ڈالر خرچ کر رہے ہیں۔

مسلم امہ کی موجودہ عالمی سیاسی صورتحال.........اس وقت اقوام متحدہ میں مسلم اسلامی ممالک کی تعداد 45جبکہ موتمر عالم اسلامی (OIC) میں یہ تعداد 57ہے، ان ممالک میں ایک اسلامی ایٹمی طاقت پاکستان بھی شامل ہے تا ہم اگر دیکھا جائے تو دنیا میں اقتصادی بنیادوں پر جو تقسیم کی گئی ہے ان میں غالب تعداد الامی ممالک یا تین چوتھائی مسلم امہ کا تعلق تیسری دنیا سے ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اکثر مسلم ممالک سیاسی طور پر عدم استحکام کا شکار ہیں ،ان کا اقتدار اعلیٰ عالمی قوتوں کے رحم و کرم پر ہے، یہ ممالک اپنی اقتصادی احتیاجات کیلئے بھی اکثر عالمی مالیاتی اداروں کے منت کش رہے ہیں، وہ اسلامی ممالک جہاں دولت کی ریل پیل موجود ہے مگر ان کی قیادت عوامی مسائل سے لاتعلق اور علم و جہالت کے تفوق سے ناآشنا ہے، اکثر اسلامی ممالک میں یورپی اور امریکی اثر و نفوذ اتنا زیادہ ہے کہ وہاں کی لیڈر شپ اپنے عوام کے بجائے ان ممالک کے سفیروں کے سامنے جوابدہ ہوتی ہے، تیل کی دولت سے مالامال ممالک میں بادشاہت اور جہاں جمہوریت ہے بھی تو وہ بھی لنگڑی لولی ہے،موجودہ عالم اسلام بھی عالمی استعماری قوتوں کا تقسیم اور تخلیق کردہ ہے، بیرونی نوآبادیاتی نطام جہاں جہاں بھی اسلامی ممالک میں آیا وہاں امہ کی سیاسی کی وحدت اور سیاسی برتری کا دیوالیہ نکال دیا گیا اور پھر عالمی قوتوں نے اپنے اپنے مفادات کے تحت اسلامی امہ کو چھوٹے چھوٹے گوشوں میں بانٹ کر ان پر اپنی بالواسطہ اور براہ راست حکمرانی کو مزید آسان بنا دیا اور وہاں ایسے حکمران بٹھا دئیے جو امہ کی وسیع تر سوچ سے عاری اور اپنی تمام تر توانائیاں غیر ملکی آقائوں کے مفادات پر صرف کرنے والے تھے، ایک صدی کے دوران نو آبادیاتی استبداد سے آزادی حاصل کرنے والے ممالک کی اکثریت پہلے تو سرمایہ داری اور کمیونزم جیسے بلاکوں میں بٹی رہی، 1990ء میں کمیونزم کے سیاسی اقتدار کے صفحہ ہستی سے مٹ جانے کے بعد بعض مسلم ممالک یتیمی کی کیفیت میں چلے گئے اور مجبوراً انہیں بھی کیپیٹل ازم کے دامن میں پناہ لینا پڑی، ایک جانب پہلی اور دوسری عالمی جنگیں مسلم امہ کیلئے آزادی کا خوشگوار جھونکا ثابت ہوئیں مگر دوسری جانب عرب اسرائیل، عراق و ایران ، پاک بھارت اور چیکو سلاویکیہ کی شکست ریخت کی جنگوں مسلم امہ کا ہی مجموعی نا قابل تلافی سیاسی اور اقصادی نقصان رہا،اس دوران چند ممالک کی وحدت مزید تقسیم ہو گئی، جنوبی سوڈان اور مشرقی تیمور کی علیحدگی سے امہ کے سیاسی اقتدار میں بھی ضعف آیا اور آج سورتحال یہہے کہ امہ کے کشمیر، فلسطین، شام، عراق، افغانستان، قبرص اور شیشان سمیت کتنے مسائل حل طلب ہیں لیکن مجلس اقوام عالم (UNO)ان پر اپنی آنکھیں بند کئے ہوئے ہے، سری لنکا، مایانمر (برما) اور تھائی لینڈ میں بدھ بھکشو مسلمانوں جان مال اور عزت و آبرو سے کھیلنے میں مصروف ہیں مگر عالمی ٹھیکیداروں کے کانوں پر جوں بھی نہیں رینگ رہی ہے۔

عالم اسلام کے تمام ممالک کی عالمی سطح پر جو حیثیت ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں یہاں تک کہ بعض اسلامی ممالک کے ناموں سے عالمی رائے عامہ آگاہ نہیں، ان ممالک کی داخلی صورت حال بھی کوئی ایسی مستحسن نہیں، افریقہ میں مسیحوں کی شراکت اقتدار سے خطرات لاحق ہیں اور مسلم سوڈان کی تقسیم اس کا پہلا شاخسانہ ہے، اکثر افریقی مسلم ممالک میں پسماندگی کی وجہ وہاں مخلص اور با صلاحیت قیادت کا قحط الرجال ہے اور وہ اغیار کی کٹھ پتلیوں کا کردار نبھا رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ نائیجیریا میں بوکو حرام اور مصر میں اخوان المسلمون کے پرچم تلے حالات کے ستائے عوام جمع ہو رہے ہیں اور ان دونوں تنظیمون سے نمٹنے کیلئے وہاں کی حکومتیں جس جس طرح کے ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہیں کہ الحذر و الاماں… صومالیہ میں حکومتی سرپرستی میں "الشباب" کے بحری قذاقوں نے بین الاقوامی بحری راستوں پر اودھم مچایا ہوا ہے، ان کی کارروائیوں سے عالمی برادری جس پیغام سے آشنا ہو رہی ہے مسلم امہ کا صومالیائی چیپٹر قذاقوں اور لٹیروں پر مشتمل ہے، ایشیاء میں اس وقت شام سیاسی استحکام میں سر فہرست ہے جہاں کی ایک جائز حکومت کو دنیا بھر کء فسطائی حکومتیں ختم کرنے کیلئے جمع ہو گئی ہیں، ہاں بشار السد کی حکومت شامی عوام کو قابل قبول نہیں تو ووٹ کی طاقت سے وہ اسے گھر بھیج سکتے ہیں لیکن استعماری خارجی قوتیں "عرب بہار" کے عنوان سے جو لرزہ خیز وارداتیں تیونس، مصر اور لیبیا میں کر چکے ہیں وہ شامی اقتدار اعلیٰ کے ساتھ بھی یہی کرنے والے تھے مگر شامی عوام نے ان مٹھی بھر بیرونی عناصر کی شرپسندوں اور کرائے کے سپاہیوں کے ذریعے نقب لگانے کی اس واردات کو ناکام بنا دیا، اس کے لئے شامی قوم کو اپنے تین لاکھ شہریوں کے ہمسایہ ممالک میں مہاجر بنانے ، اڑھائی لاکھ ہموطنوں اور اپنے دینی و ثقافتی ورثہ کی تباہی کی قربانی بھی دینا پڑی ہے، عراق میں تازہ تشدد کی تازہ اور خوفناک لہر کے دوران ایک اور نئی مسلح تنظیم اسلامک سٹیٹ آف عراق اینڈ سیریا (ISIS) یا داعش منظر عام پر آئی ہے جس نے تین عراقی صوبوں پر قبضہ کے بعد دارالحکومت بغداد کی جانب پیشقدمی شروع کر دی ہے، اس کے رد عمل میں ایک اور عراقی ملیشیا "مہدی آرمی" نے جنم لیا ہے جس کے جدید اور بھاری اسلحہ سے لیس جنگجو عراق کے تمام شہروں میں ذریعے اپنی قوت کا اظہار کر رہے ہیں، ایسے میں عراق کا سیاسی مستقبل کیا ہو گا، کیا وہ مزید کئی ریاستتوں میں بٹ جائے گا؟ فی الحال اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا ،افغانستان میں بھی افغان قیادت کی عاقبت نااندیشی ہمسایہ سوویت یونین اپنے داخلی اور خارجی امور میں مداخلت کا موقع فراہم کیا اور پھر 1980ء کے بعد اس سرزمین پر سرمایہ داریت اور اشتراکیت کی ایسی خونریز جنگ لڑی گئی جس نے پوری افغان قوم کو اپاہج اور مہاجر بنا کر رکھ دیا، رہی سہی کسر امری قیادت میں نیٹو فورسز تباہی اور بربادی کے پھریرے لہراتے ہوئیپوری کر دی اب تین بار امریکی حامد کرزئی اقتدار کے بعد افغانستان نئی قیدت کی طرف دیکھ رہا ہے،افغانستان ایک نہایت اہم خطہ میں واقع ہے اسے قوویت یونین کے چنگل سے چھڑانے کیلئے القعدا کی پرورش کی گئی، پھر القاعدہ قیادت اور حکومت اور اس کیخلاف امریکی اقدامات، ملا عمر سے کرزئی تک اقتدار کی جنگ نے افغانستان کو کھنڈر اور داخلی انفراسٹکچر اور اپنی مذہبی و ثقافتی شناخت سے بھی دیوالیہ اور محروم کر دیا ہے، عالمی رینکنگ میں اس افغانستان دنیا کا مفلسی کی حد تک غریب اور تعلیمی حوالے سے جہالت میں سر فہرست ہے، لمحہ موجود میں امریکہ اور نیٹو فورسز اپنا بوریا بستر سمیٹ کر واپس جا رہی ہیں، اس جنگ میں فرنٹ لائن کا کردار ادا کرنے والے پاکستان کو ورثہ میں طالبان ملیشیاء ملی جس کی تخریبی کاروائیوں میں ابھی تک نصف لاکھ پاکستانی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں یا معذور ہو گئے ہیں مجبوراً ان کے خلاف پاکستانی بہادر مسلح افواج آپریشن کا آخری آپشن کا ستعمال کر رہی ہیں، پاکستان میں اب داخلی طور کسی حد تک سیاسی استحکام موجود ہے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی بھی۔

مسلم امہ کی اندرون خانہ غیر مطمئن سے اپنے تو اپنے اغیار بھی آگاہ ہیں، امہ مخالف قوتیں ایک صدی بعد نیو ورلڈ آرڈر کی منصوبہ بندی میں مصروف ہیں مگر مسلم امہ اس وقت جس نازک دور سے گزر رہی ہے اس نہ صرف اس کے وسائل کی تعمیری سرگرمیوں میں کمی آ رہی ہے بلکہ یہ وسائل غیروں کی جیب میں اسلحہ کی فروخت اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کنسلٹنسی کی صورت میں جا رہے ہیں، امیر اسلامی ممالک اپنے حال میں مست ہیںاور مفلس ممالک اپنے اپنے داخلی انتشار ، مشکلات اور صعوبتوں کراہ رہے ہیں اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔

مسلم امہ کی فکری اور تعلیمی صورتحال..........مسلم امہ کے 57ممالک بالخصوص حجاز ،عراق و شام قرون وسطیٰ کے ایسے علمی کشش ثقل کے مراکز تھے جہاں کی علمی اور فکری شعائیں جاہل یورپ سمیت دنیا بھر کو روشن کررہی تھیں، مدینۃ النبی کے مکتب رسول یا جائے اصحاب صفہ ، مسجد نبوی سے لیکر جامع قزوین اور الازہر تک علمی فتوحات کا ایک ایسا دور گزرا ہے جس پر مسلم امہ آج بھی فخر کر رہی ہے مگر جب مسلم امہ کا سیاسی اقتدار گرہن زدہ ہوا توعلمو فکر کے سر چشمے خشک ہوتے چلے گئے، تیرھویں سے سترھویں صدی تک مسلمامہ کی علم سے نا شناسائی کی شب تاریک مزید طویل ہو گئی ، فرانس اور برطانہ سمیت نوآبادیاتی نظام کی ٹھیکیدار اقوام نے ناتواں مسلم امہ کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑا تو گویاہر مسلم فرد کوآہنی دستار پہنا کر ذہنی طور پر مفلوج کر دیا گیابلکہ صدیوںکی غلامی نے ان سے انکی شناخت بھی چین لی،علم و فن سے بے بہرہ مسلم امہ کے بعض ممالک نے آزادی تو حاصل کر لی مگر شعور کی ان بلندیوں کو نہ چھو سکے جس کے وہ مستحق تھے، انہوں نے اپنے اپنے ملکوں میں سکولاور جامعات تو قائم کر لیں لیکن تدریسی عملہ ترقی یافتہ ملکوں سے ہی درآمد کرنا پڑا ، سیاسی انفرا سٹرکچر کی تشکیل کیلئے استعماری بیورو کریسی اور سائنسی میدان میں انہی مسیحی و یہودی علماء کا سہارا لیا گیا جن کے رگ و پے مسلم امہ سے نفرتوں اور تعصباتی فکر و خیال سے لتھڑے ہوئے تھے، انہوں نے امہ کیلئے جو دماغ تیر کئے وہ اپنی ملت کیلئے کم اور اپنے اساتذہ کی قوموں کیلئے زیادہ مفید تھے اور ان کے پاس چند ایک کے سوا یہ سوچ ہی نہیں تھی کہ وہ اپنی ملت بیضا کی سائنسی، عقلی، مادی اور شعوری تربیت کیسے کریں، وہ اسی پسماندہ مسلم امہ کا فرد ہونے کے باوجود پہلے اور اب بھی اسے اجڈ ، گنوار، بے عقل اور بیوقوف خیال کرتے ہیں، وہ جسمانی طور پر اپنے ملکوں میں ہوتے ہیں مگر ان کی روح دیار فرنگ میں بٹکتی نظر آتی ہے اور مسلم امہ کیلئے مثبت یا منفی وہی کچھ کھوجتے اور چوچتے ہیں جو انہیں بدیسی اساتذہ بریف کرتے ہیں۔

ایٹمی پاکستان میں اٹامک انرجی کمیشن 1956ء قائم کیا گیا مگر اس کی سائنسی فتوحات ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور ڈاکٹر اشفاق احمد خان کی آمد کے بعد ہی ممکن ہو سکیں، پاکستان ان مایہ ناز ساہنسدانوں کی کاوشوں سے 18مئی 1998ء کو اکٹھے چھے تجربات کر کے مسلم امہ کی پہلی ایٹمی طاقت ہونے کا عزاز حاصل کیا، عراقی سائنسدانوں نے اس طرف پیشقدمی کی تو اسرائیل نے اس کا ایٹمی مرکز ہی تباہ کر دیا ،ایران عالمی برادری کے دبائو اور مذاکرات کے باوجود اپنا پر امن ایٹمی پروگرام جاری رکھے ہوئے ہے اور کی جامعات میں جوہری سائنسز کو خصوصی اہمیت دی جارہی ہے حالانکہ استعماری قوتیں ایران کے کئی مایہ ناز سائنسدانوں کو جاں بحق بھی کر چکی ہیں یہی وجہ ہے کہ مسلم امہ میں سب سے زیادہ سائنسدان اور پی ایچ ڈی سکالرز یران اور پاکستان میں پائے جاتے ہیں مگر افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ مسلم امہ کی جامعات استعماری قوتوں کی دانشگاہوں سے علمی، سائنسی، فنی اور تجربی طور پر بہت پیچھے ہیں، نئے علوم و فنون، تھیوریز، تجربات اور تحقیق کے شعبوں میں عالمی جامعات کی فہرست میں ان کا نام ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا، اسلامی ممالک کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ مسلم امہ کی بہترین جامعات سے فارغ التحصیل سکالرز اور ماہرین کی بجائے مغربی دانشگاہوں کے ماہرین کو ترجیح دی جاتی ہے جس سے یہ امر واضح ہو جاتا ہے کہ مسلم امہ کے باوسائل ممالک خود اپنے تعلیمی اداروں کی نفی کر رہے ہیں، دوسری طرف یہ عالم ہے کہ ترقی یافتہ اہم تعلیمی، مالیاتی، سائنسی اور دیگر اداروں میں مسلم امہ کی انہی جامعات سے فارغ التحصیل بہترین دماغ خدمات انجام دے رہے ہیں، اب مسلم امہ اسی کو "ذہانت کا فرار" یا Brain drainسے تعبیر کر رہی ہے۔

انٹرنیٹ عہد جدید کی ایک انقلابی ایجاد ہے،اب اسے جدید دنیا تعلیمی مقاصد کیلئے بھی استعمال کر رہی ہے،دنیا بھر کے اخبارات، میگزین، ریسرچ جرنل، لائیبریریاں، ریڈیو، ٹی وی غرض سائنس اور فلسفہ سمیت ہر ہر علم کی تازہ ترین اپڈیٹس بھی انٹر نیٹ پر دستیاب ہیں، ترقی یافتہ دنیا کی جامعات کا ہر شعبہ اس کی بدولت ایک دوسرے کے ساتھ تعلیم و تعلم کیلئے براہ راست مربوط ہے،طلباء اپنے اساتذہ سے آن لائن لیکچر لیتے ہیں، علمی انکوائری کرتے ہیں … لیکن …اس قدر اہم ٹیکنالوجی سے مسلم ممالک کتنا استفادہ کرتے ہیں، اس بارے میں ایک معجز نما حقیقت سامنے آئی ہے کہ جس طرح اسلام دنیا کا سب سے زیادہ پھیلنے والا زندہ مذہب ہے اسی طرح انٹرنیٹ پر کل مواد کا 60فیصد اسلام کی تبلیغ و اشاعت اور مسلم امہ سے متعلق حقائق پر مبنی ہے، سائنسی اور طبعی علوم کی درمیانی شکل عقلی علوم پر مشتمل ہوتی ہے ان علوم میں منطق، فلسفہ، کلام اور علم تصوف شامل ہیں، ان میں فلسفہ علوم العروس کہلاتا ہے اس سمیت مسلم امہ کی جامعات میں انیسویں صدی کے آخر تک ریاضی و الجبراء اور ان عقلی علوم کی تحصیل لازمی تھی،بر صغیر کی عہد جدید کی انگریزوں کی قائم کردہ جامعات میں فلسفہ کا مضمون پڑھایا جاتا تھا، پنجاب یونیورسٹی، علی گڑھ مسلم کالج اور جامعہ ملیہ اسلامیہ جیسے تعلیمی گہواروں اور دارالندوہ ، دارالمصنفین سے شاعر مشرق علامہ اقبال سمیت ایسے ایسے شہسوار علم نے جنم لیا کہ مسلم امہ ان کی گرانقدر علمی خدمات پر نازاں و فرحان ہے، بد قسمتی یہ یہاں ایک اور علمی حقیقت نہایت دلسوزی کے ساتھ کہنا پڑتی ہے کہ پاکستان کی تمام جامعت سے ان عقلی علوم کو بے دخل کر دیا گیا ہے بلکہ اب پاکستانی معاشرے میں ان عقلی علوم کے علاوہ فارسی جیسی علوم و فنون سے بھرپور مادر اردو زندہ و تابندہ زبان کے بارے میں جو جاہلانہ رویوں پر مبنی بات مہی جاتی ہے کہ "پڑھو فارسی، بیچو تیل" جبکہ عقلی علوم کے علماء کی یہ کہ کر تضحیک کی جاتی ہے کہ "فلسفی پاگل ہوتے ہیں"۔

مسلم امہ میں علم کی بے قدری کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ حکمران ہی تعلیمی اور علمی فکر سے نا بلد ہیں، وہ اپنی عیاشیوں کیلئے تو اربوں روے کے فنڈز مختص کرتے ہیں مگر تعیل کے فروغ کے معاملے میں ان کی ترجیحات اپنے اپنے ذہنی افق کے مطابق اتنی ہی پست ہوتی ہیں، ذیل میں اس کا اندازہ سی آئی اے کی تازہ مرتبہ World Fact Book کے مطابق کچھ اس طرح سے ہے۔
٭…دنیاء اسلام میں ساڑھے چھ کروڑھ افراد ناخواندہ ہیں ان میں دو تہائی خواتین ہیں۔
٭…جنوبی ایشیا کے اسلامی ممالک میں ہر چھوتا بچہ غربت کی وجہ سے تعلیم کو خیرباد کہنے پر مجبور ہے۔
٭…عرب دنیا میں تین کروڑ 10لاکھ سکول جانے والے بچوں میں 1995-2012کے دوران اضافہ ہوا ہے۔
٭…عالم اسلام کے ممالک میں کسی ایک نظام تعلیم پر کوئی معاشرہ آمادہ نہیں اسکی وجہ سے مسلم ممالک میں امیر اور غریب کی خلیج میں اضافہ ہوا ہے، امراء اپنے بچوں کو مہنگے پرائیویٹ سکولوں میں بھیجتے ہیں جبکہ کم وسائل کے حامل بچے روائیتی سرکاری تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔
٭…مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے 16ممالک نے تعلیم سب کیلئے نعرہ لگایا ہے اور وہ یہ ٹارگٹ 2015ء تک حاصل کریں گے۔
٭…جنوبی اور مغربی ایشیا کے اسمای ممالک میں 66.4فیصد افراد نا خواندہ ہیں جبکہ اسی خطہ میں 43.6فیصد خواتین لکھ اور پڑھ سکتی ہیں۔ جنوبی افریقہ اور مشرق وسطیٰ میں 71.7مرد اور 47.8خواتین لکھنے اور پڑھنے کی اہلیت رکھتی ہیں۔

آج کے معیار کے مطابق کسی ملک کا علمی معیار اس کا کی تعلیم سے لگایا جاتا ہے، مسلم امہ میں اس وقت عالم اسلام میں کویت، تاجکستان، قازقستان، اور ترکمانستان میں خواندگی کا تناسب 97فیصد ہے، ترکی اور ایران سائنسی تحقیق میں سب سے آگے ہیں، متحدہ عرب امارات میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی اعلیٰ معیار کی یونیورسٹیاں قائم کی گئی ہیں، حکومت پاکستان کے جاری کردہ اقتصادی سروے بابت سال 2013-14کے مطابق پاکستان میں خواندگی کا تناسب 58فیصد ہے ان میں 70فیصد مرد اور 47فیصد خواتین شامل ہیں، اسی سال 91 فیصد نئے بچے سکولوں میں داخل کئے گئے

ملائیشیا میں مہاتیر بن محمد نے نئی اقتصادی ڈاکٹرائن اپنائی اور ملک کو مشرق بعید کا اکنامک آئیکون بنا دیا ، بنگلپ دیش میں داکٹر محمد یونس نے امداد باہمی کا نظریہ عملی طور پر اپنا کر ملک کو انقلابی اقتصادی ٹائیگر بنا دیا ،ڈاکٹر قدیر، ڈاکٹر اشفاق اور ڈاکٹر ثمر مبارک مند کی سائنسی فتوحات پاکستان کو مسلم امہ واحد ایٹمی قوت کے اعزاز سے سرفراز کر گئیں، ایران نے شہنشائیت کی بساط کو لپیٹ کر جو اسلامی شورائی نظام اپنایااور سائنسی علوم کو ہر شعبہ حیات پر فوقیت دی اس سے وہ دنیا بھر کی عالمی طاقتوں کے سامنے نہ صرف چٹان بن کر ابھرا بلکہ غیر اعلانیہ ایٹمی قوت کا درجہ بھی پا لیا۔

اس وقت عالم اسلام کے وہ علمی مراکز جہاں سے دنیا بھر کے علوم فنون کے سرچشمے پھوٹتے تھے اب ان کے سوتے خشک ہو چکے ہیں،اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ مسلم امہ نئے علوم و فنون ، تحقیق، تھیوریز، ایجادات و اختراعات کیلئے مغرب کی محتاج ہے،یہ ایک حقیقت ہے کہ جس خطہ یا قوم سے کوئی علم و فن منسوب ہوتا ہے وہ اپنا ظہور اور تمدنی نمود اسی قوم کی سماجی و عمرانی اقدار کے ساتھ کرتا ہے ، مغربی تمدن اگرچہ اقصادی اور سماجی لحاظ سے آسودہ حال اور ذہنی طور پر آزاد ہے مگر اس کی اکثر اقدار مسلم امی کی اساسی فطرت سے بھی متصادم ہیں، مغربی ماہرین بشریات (Anthropologists) اس کیفیت کو "تہذیبوں کا تصادم" یا Clash of civilizationsکہتے ہیں، بنظر غائر دیکھا جائے تو یہ مغربی اقدار قدرت کے نظام معاش سے متصادم ہیں، جب مغربی تہزیب سے نئے افکار، علوم و فنون اور ٹیکنالوجی سے استفادہ کرنے کی کوشش کی جائیگی تو وہ غیر بر کو مانوس انداز سے اسلام سمیت ہر تمدنی فکر اور تدبر کو بھی جکڑنے کی کوشش کرے گا ،اس کا صرف حیاتیات (Biology)کی تازہ ترین تحقیق جو دراصل انسانی دماغ کو جکڑنے کی ایک کوشش ہے اس کی مثال کلوننگ (Cloning) اور دماغی نقشہ سازی (Mind maping) کے عملی نظریات اور تجربات اور امریکی جینیوم پروجکٹس سے دی جا سکتی ہے جس کے تحت ہر انسان کی کاپی بنانا ،اسے روبوٹ کی طرح اپنی من مرضی سے چلانا اور اس کی فطری اساس پر مبنی جینیٹکس میں تبدیلی لانا مقصود ہے،یہ درست ہے کہ مغرب میں سائنس کائنات کی لا محدود وسعتوں میں جھانکنے کی کوششیں کر رہی ہے، کائنات کے مختصر ترین ایٹم کو بھی پھاڑ کر رکھ دیا گیا ہے، چاند کے بعد مریخ کو بھی تاراج کر لیا گیا ہے، ہلاکت خیز اور مختصر ترین وائرس کی دریافت کے بعد اس کی جراحی کے علاوہ اس کی حیات کا منبع کھوجنے کی کوششیں بھی عروج پر ہیں، یہ سب کچھ صرف اس لئے ہو رہا ہے کہ عہد جدید میں مسلم امہ کو پھر کیسے تسخیر کیا جائے، علوم فنون اور سائنس کے ان مراکز سے جو قطرہ قطرہ معلومات ریلیز کی جاتی ہیں اسلامی دنیا کی جامعات صرف انہی پر قناعت کر رہی ہیں، علمی اور فکری محتاجی کا یہ عالم ہے کہ پی ایچ ڈی کی ڈگری کیلئے بھی ہم مغرب کی طرف دیکھتے ہیں، ان مغربی افکار و دانش کا یہ اثر ہوا ہے کہ مسلم دنیا میں ایک اور ہی طرح کا طبقہ سامنے آ رہا ہے جو فرد تو ملت اسلامیہ کا ہے اس کا دماغ مغربی ہے ، وہ نہ صرف مسلم بلکہ مغربی معاشرے کیلئے بھی نا موزوں ہو گیا ہے۔

پس چہ باید کرد……؟مسلم دنیا کے پاس بیترین جغرافیائی لوکیشن، وسائل اور اعلیٰ ترین فکری اور علمی دماغ موجود ہیں، موتمر عالم اسلامی (OIC)کا پلیٹ فارم بھی موجود ہے، اسلامی ترقیاتی بنک بھی فعال کردار ادا کر رہا ہے مگر امہ کے پاس بد قسمتی سے اقوام متحدہ جیسا کوئی فورم نہیں جو مسلم دنیا کے سیاسی، اقتصادی اور کوئی قابل قبول، موثر اور جامع حل پیش کر کے اس پر عملدرآمد بھی کروا سکے، اقوام متحدہ طرز کی متوازی اسلامی اقوام متحدہ کا تصور اسلامی دنیا میں عشروں سے موجود ہے، سابق مصری صدر جمال عبدالناصر نے اس کیلئے پان اسلامیزم کی اصطلاح بھی متعارف کرائی تھی، مگر مسلم امہ کی تمام تر مساعی کے باوجود صرف او آئی سی ہی تشکیل دی جا سکی، یہ بات بھی غنیمت ہے کہ مسلم دنیا کو محدود پیمانے پر ہی سہی مگر کوئی پلیٹ فارم تو میسر ہوا ہے،اس کے قیام سے آج تک جو بھی علاقائی تنازعات سامنے آئے ہیں اس میں وہ کوئی موثر کردار ادا نہیں کر سکی ہے،اب تو عالمی فورمز پر بھی موتمر عالم اسلامی کو OICکے بجائے …Oh I see کہا جا رہا ہے، اس لئے معاصر دنیا کی بدلتی ترجیحات اور تقاضوں کے مطابق مسلم دنیا کو او آئی سی کا متبادل یا متوازی اقوام متحدہ بنانے کی ضرورت ہے جس کے بھی وہی ذ یلی ادارے ہوں جو نیو یارک کی اقوام متحدہ کے ادرے ہیں۔

مسلم امہ کا اتحاد و یکجہتی.........جدید دنیا میں یہ ضرورت اب ناگزیر ہوچکی ہے کہ امہ کی جغرافیائی اکائیاں علاقائی و نسلی تعصبات سے بالا تر ہو کر اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ کریں، ان کا ایک معبود، ایک رسول ختمی مرتبتﷺ اور ہر صورتحال پر محیط آخری صحیفہ بھی موجود ہے، جس طرح حج کے موقع پر وطنیت ، لسانیت، نسبیت اور دیگر اختلافات دم توڑ دیتے ہیں، ایسے ہی مسلم امہ عالمی فورمز پر اپنے ہر مسئلہ پر اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کرے اور جب بھی کوئی ملک اسلام کی توہین کا مرتکب ہو تو اس کے خلاف اقتصادی مقاطع سمیت مشترکہ اقدامات کئے جائیں۔

مسلم امہ کا سرمایہ امہ کیلئے.........مسلم امہ کے 57ملکوں کی حکومتیں ، اشرافیہ اور امراء نے اپنے لامحدود خزانے مغربی تجوریوں میں رکھے ہوئے ہیں، مغربی ممالک کے اپنے سرمائے سے کئی گنا زیادہ اسلامی ممالک کی یہ دھن دولت ان ممالک کی معیشت کو نہ صرف مستحکم کر رہی ہے ہے بلکہ وہاں آسودہ حالی، وسائل کی فراوانی، اور جو معاشی آزادی نظر آ رہی ہے وہ اسی دولت کی مرہون منت ہے اس سلسلے میں مسلم ماہری اقتصاد کا ایک عالمی فورم بنانے کی ضرورت ہے مو مسلم ممالک اور افراد کی دھن دولت کو ایک ایسی مثبت سرمیہ کاری کیلئے جامع منصوبے پیش کر سکیں جس سے مسلم دنیا کے صحرا بھی لہلہاتے کھیتوں میں بدل سکیں، اس کی مثال یوں دی جا سکتی ہے کہ خلیجی ریاستیں نصف صدی قبل محض صحرا تھے مگر وہاں کے روشن خیال اور نے اقتصادی وژن کے حامل حکمرانوں نے جب اپنے سرمائے کو اپنے صحرائوں میں سرمایہ کاری کیلئے استعمال کیا تو متحدہ عرب امارات، قطر ، کویت، بحرین اور دیگر خلیجی ریاستیں دنیا کی بہترین فلاحی ریاستیں بننے کے علاوہ امیر ترین ممالک کے روپ میں بھی ڈھل گئیں،رقبے میں ان چھوٹی ریاستوں نے مغرب سے بھی آگے بڑھ کر کر عالمی تجارتی مراکز کی حیثیت حاصل کر لی، سعودی عرب نے اپنے سرمائے سے صحرائوں کو زرعی زمینوں میں بدل کر زراعت میں خود کفالت حاصل کر لی ہے ،یہی کام عالم اسلام کے دیگر ممالک میں بھی ہو سکتا ہے، شرط صرف یہ ہے کہ امہ کے سرمایہ کاروں کے سامنے قابل عمل اور جامع منصوبے اور فری ٹریڈ زون قائم کئے جائیں ، اسلامی ترقیاتی بنک حکومتوں کو انٹرسٹ فری قرضے فراہم کرے گا اور ٹیکنیکل معاونت بھی دے گا تو یقیناً مسلم دنیا بھی اقتصادی ترقی سے ہمکنار ہو سکے گی اور یہاں بھی خشحالی آئے گی،روزگار کے مواقع بڑھیں گے اور مسلم امہ کا سرمایہ مسلم امہ میں ہی گردش کر کے گراس روٹ لیول پر مثبت اثرات مرتب گا۔

عالمی مالیاتی اداروں سے نجات.........مسلم امہ اس وقت عالمی مالیاتی اداروں کے چنگل میں بری طرح پھنسی ہوئی ہے،صورتحال اب یہ ہو چکی ہے کہ آئی ایم ایف، عالمی بنک اور دیگر ساہوکار اداروں کا قرض اتارنے کیلئے بھی مزید قرض حاصل کیا جا رہا ہے، کوئی اسلامی ملک ایسا نہی جو ان اداروں کا مقروض نہ ہو، قرضوں کی اساس پر قائم اسلامی ملکوں کی جیو پولیٹیکل اکانومی ان ملکوں میں ترقی کی بجائے ان عالمی اداروں کیلئے ایک ایسی پائپ لائن بن گئی ہے جو مسلم امہ کے ہر فرد کی رگوں خون کا آخری قطرہ بھی نچوڑ رہی ہے، ستم بالائے ستم یہ ہے کہ سرمایہ بھی مسلم امہ کا ہے مگر ان عالمی مالیاتی اداروں کے منیجرز ایک ایسا میکنزم قائم کئے ہوئے ہیں کہ مسلم امہ اپنے ہی سرمائے کو قرض کی صورت میں حاصل کر کے اس پر بھاری سود بھی ادا کرنے پر مجبور ہے اس عمل سے خود تو دن بدن محتاج ، مجبور اور مقہور ہو ریہی ہے اور عالمی سامراج کو غنی کر رہی ہے، ہر اسلامی ملک کے جی ڈی پی کا تقریباً تین سے سات فیصد قرضوں کی ادائیگی اور دیگر بقایا رقم دفاعی اخراجات، دفاعی ٹیکنالوجی ، لبی لمبی گاڑیوں ، پرتعش اشیاء اور مہنگی ترین کاسمیٹکس پر خرچ ہو رہی ہے،دانش کا تقضا تو یہ ہے کہ مسلم امہ کا بھی ان مالیاتی اداروں کی طرز پر ایک ایسا ادارہ تشکیل دیا جانا چاہئے جو مسلم ممالک کیلئے قرضوں کی فراہمی کی حکمت عملی تیار کرے اور اسی صورت میں ممکن ہے کہ اسلامی دنیا کے مالیاتی آئیکون مغربی ممالک کی تجریوں سے اپنا سرمایہ نکال کر مسلم امہ کے ماہرین اقتصاد کے حوالے کریں، پھر یہی عالمی سامراج کشکول لئے مسلم امہ مالیاتی اداروں کے سامنے کھڑا ہو سکتا ہے۔

مشترکہ دفاعی نظام.......یقیناً دفاعی نظام کسی بھی ملک کی بقا اور سلامتی کا ضامن ہوتا ہے دنیا کی وہ اقوام جن کا جغرافیہ اور مفادات مشترک ہوتے ہیں وہ اپنی اقتصادی ، سیاسی اور دفاعی نظام کو بھی اشتراک باہمی کے نظام پر استوار کرتے ہیں اس کی بہترین مثال یورپی یونین کی ہے جو دفاعی لحاظ سے ایک مشترکہ پلیٹ فارم نیٹو (NATO) کے تحت یورپ سمیت کسی بھی خطے میں دفاعی حکمت عملی اختیار کرتی ہے،اسی طرح مسلم امہ کی 57اکائیاں بھی مشترکہ دفاعی نظام اپنا سکتی ہیں،اس کیلئے مغرب سے دفاعی ٹیکنالوجی درآمد کرنے کے بجائے مسلم دنیا کے ارزاں ترین افرادی قوت سے استفادہ کر کے بحری بیڑوں سے لیکر ڈرون تک تیار کئے جا سکتے ہیں ، اسلامی دنیا میں دفاعی ماہرین کی قلت کی وہ صورتحال نہیںجو چند عشرے پہلے تھی،آج ہر شعبہ زندگی کی ترقی کیلئے مسلم امہ کے پاس بہترین دماغ موجود ہیںاور وقت کا تقاضا ہے کہ ان کو ایک پلیٹ فارم مہیا کر کے ان کی صلاحیتوں سے استفادہ کیا جائے۔

جدید دفاعی نظام میں کسی بھی ملک کا ایٹمی پروگرام اہم کردار ادا کرتا ہے مگر عالمی استعمار کسی صورت یہ بات برداشت نہیں کر سکتا کہ کوئی اسلامی ملک جوہری طاقت کا درجہ حاصل کر لے، پاکستان اسلامی دنیا کا واحد اور اعلانیہ ایٹمی ملک ہے جس نے ایٹم بم بنا کر جنوب مشرقی ایشیاء میں طاقت کا توازن برابر کر دیا ہے، پاکستانی ایٹمی پروگرام صرف اپنے ہی ملک کیلئے ہی نہیں بلکہ عالم اسلام کی سلامتی کا بھی ظامن ہے، عالمی قوتیں پاکستان کے اس ایٹمی پراگرام کے خلاف ہر طرح کی سازشی نظریات پر عمل درآمد میں مصروف ہیں، بار ہا ایٹمی عدم پھیلائو کے معاہدے پر دستخطوں کیلئے بھی پاکستان کو مجبور کرنے کی کوشش کی گئی مگر پاکستانی قیادت نے دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس جال کو تار تار کردیا آکر کار استعماری قوتوں نے پاکستان کو ایٹمی قوت تسلیم کرتے ہوئے اسے عالمی ایٹمی کلب کی ممبر شپ بھی دینا پڑی، اب اس ایٹمی صلاحیت کے بعد یہ صورتحال ہے کہ امہ کے خلاف جارحانہ اقدام سے پہلے ہر مسلم دشمن ملک ایک ہزار بار یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ اگر وہ جارحیت کا مرتکب ہوا تا پاکستان اسے صفحہ ہستی سے مٹا دیگا، اس کے بعد عالمی استعماری قوتوں نے اپنی حکمت عملی تبدیل کر کے اسلامی ممالک کے اندر غیر مطمئن عناصر کے ذریعے انارکی اور انتشار و خلفشار شروع کردیا ہے، اور وہ عالم اسلام کی خوابیدہ قیادت کی نا اہلی سے بھر پور فائدہ اٹھانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

مخلص، پروگریسو اور روشن خیال قیادت کی ضرورت........ سب باتوں کی آخری بات یہ ہے کہ مسلم امہ کے پاس با اثر عالمی مرعوبیت سے بالا تر پروگریسو اور روشن خیال قیادت کا فقدان ہے، عالمی سیست اور سفارتکاری میں مصر کے اقوام متحدہ میں سابق جنرل سیکرٹری بطروس غالی، مشرق وسطیٰ کے امور سے متعلق اسی ملک کے لخدار باہمی، شہزادہ حسن بن طلال، پاکستان کے مرحوم آغا شاہی، اور اسی طرح کی با اثر شخصیات اگر چاہتیں تو مسلم امہ کا عالمی برادری میں امیج بہت بڑھ سکتا تھا، ظاہری طور مسلمان مگر باطنی لحاظ سے تاریک تر وثن کے مالک بااثر مسلم حکمران بھی غیروں کے آلہ کار ہیں تا ہم ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو متعصب مشرکانہ مسیحی معاشروں میں اسلامی تشخص کی شمعیں روشن کئے ہوئے ہیں ، یورپ میں اسلامی مراکز انہی افراد کے مرہون منت ہیں ، دنیا بھر میں این جی اوز کی فنڈنگ بھی یہی کرتے ہیں ، کہیں بھی کوئی قدرتی آفت آئے تو وہاں کی حکومتوں سے بھی پہلے وہ مصیبت زدہ اسلامی بھائیوں کی مدد کیلئے آ پہنچتے ہیں، انہی کی کوششوں سے تثلیث کے مرکز ویٹی کن سٹی میں گرایںند اسلامی مرکز 15شعبان ک کام شروع کر چکا ہے جہاں کلیسائوں کی ٹن ٹن کی آوازوں میں صدائے اللہ اکبر بلند ہو رہی ہے،اس سارے نیٹ ورک کو مسلم امہ کو ایک ایسا مرکز فراہم کرنا چاہئے جہاں سے مخلس اور صالح قیادت سامنے آئے اور امہ کی قیادت سنبھالے۔

دعوت و تبلیغ دین.........فکری محاذ پر علم اسلام کو بے شمار چیلنجز درپیش ہیں،یہود ہنود کے گٹھ جوڑ سے نہ صرف نئے علوم و فنون اور ثقافتی یلغار سے مسلم نوجوان نسل کو گمراہ کیا جا رہا ہے بلکہ انہیں اپنے معاشروں میں مس فٹ بھی کیا جا رہا ہے،ان چیلنجز سے نمٹنے کیلئے ضروری ہے کہ مسلم امہ فقہی اختلافات ، گروہ بندی،فرقہ پرستی اور عرب و عجم کے اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر ایک ایسا دینی اور دہشتگردی سے منسوب مسلم امہ کے امیج کو ایک روشن خیال ، آفاقی اور عالمگیر انداز میں دنیا کے سامنے پیش کرے اس کیلئے مسلم دنیا کے ذرائع ابلاغ اتنے مضبوط، با اعتماد اور بااثر ہوں کہ دنیا ان کے پیغام پر کان دھرے اور اسلام کے آفاقی پیغام کو قبول کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہ کرے۔

حرف آخر .........رزم گاہ حیات عہد حاضر میں مسلم امہ کیلئے پھولوں کی سیج نہیں کانٹوں کا تاج ہے، حق و باطل کی کشمکش میں ظاہری طور پر باطل کا پلہ بھاری نظر آتا ہے مگر فتح آکر کار حق کی ہوتی ہے، یہاں تہذیب اسلامی کا وہ ضارحانہ تشخص بھی اس کی ملت کی کمزوریوں کے باعث دائو پر لگ گیا ہے، کچھ عالمی سازشیں ہیں اور کچھ اپنو کی مہربانیاں ، اب بھی وقت ہے کہ مسلم امہ بیدار ہو اور اسلامی تہزیبی تشخص کے احیاء کیلئے متحد ہو، ورنہ زمانہ ایسی قوموں کو کبھی معاف نہیں کرتا جو اپنے مآل سے بے پرواہ مستی میں روز شب بسر کرنے کی عادی ہوتی ہیں، مسلم امہ اس قسم کے متعدد انقلابات سے گزر بھی چکی ہے اس لئے بدلتے جدید دنیا کے حالات کا تقاضا یہ ہے کہ مسلم امہ ہر طرح کے اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر "اللہ کی رسی کو مضبوتی سے تھامے"، قوموں کی عالمی برادری میں سر اٹھا کر زندہ رہنے کی یہی تدبیر ہے بصورت دیگر :۔
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں

Mohammed Obaidullah Alvi
About the Author: Mohammed Obaidullah Alvi Read More Articles by Mohammed Obaidullah Alvi: 52 Articles with 64781 views I am Pakistani Islamabad based Journalist, Historian, Theologists and Anthropologist... View More