پاکستان کی بد قسمتی رہی ہے کہ اسے اپنی بقا کے لیے ہر
چیز باہر سے درآمد کرنا پڑتی ہے ، پاکستان کے قیام کے بعد جب گندم کم پڑی
تو اس نے امریکا کا انتخاب کرتے ہوئے،خوئے غلامی کا طوق اپنے گلے میں ڈال
لیا۔اس کے بعد قرضوں کے نام پر آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے تلوے ہمارے
حکمران چاٹنے لگے تو اپنی دُم ہلاتے ہوئے معاشی پالیساں بھی پاکستانی عوام
پر اصلاحات کے نام پر مسلط کرتے رہے، قدرتی خزانوں اور معدنی وسائل سے مالا
مال مملکت کو حکمرانوں نے اپنے کمیشن کے عوض ، سود کے عذاب میں اس قدر
پھنسا دیا کہ آ ج ایٹمی کشکول لیے، دربدر بھیک مانگتے نظر آتے ہیں ماضی
میں دیے جانے والے دعوے کہ کشکول توڑ دیے جائیں گے ۔
کون حکومت کو گرانا چاہتا ہے؟ وزیر اعظم نواز شریف نے چند ہفتے قبل ایک
سوال کے جواب میں کہا تھا کہ جو حکومت کو گرانا چاہتے ہیں وہ پاکستان کو
ترقی کرتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتے۔ حکومت میں شریک افراد کو عموماً یہ غلط
فہمی ہوتی ہے کہ وہ خود ہی ملک ہیں۔
میں وزیر اعظم سے اختلاف کر سکتا ہوں کیونکہ میرے خیال میں عوام میں تین
طرح کے لوگ ہیں جو حکومت گرانا چاہتے ہیں۔ پہلے نمبر پر تو وہ ہیں جن کی
حکومت میں کوئی شراکت یا حصہ داری نہیں ہے اور وہ ’’اسٹیٹس کو‘‘ توڑنا
چاہتے ہیں تا کہ ان کو اقتدار میں آنے کا ایک موقع مل سکے۔ دوسرے نمبر پر
وہ ہیں جو اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ پاکستان کو اصلاحات کی ضرورت ہے اور
مسلم لیگ (ن) کی حکومت صرف ’’اسٹیٹس کو‘‘ قائم رکھے ہوئے ہے۔ یہ لوگ ماضی
میں ناکام ہو چکے ہیں اور اس دفعہ بھی وہ ناکام ہی ہوں گے۔
لہٰذا اصلاحاتی حکومت کے قیام کے لیے ان لوگوں کو ہٹانا پڑے گا۔ تیسرے نمبر
پر وہ لوگ ہیں جن کی تعداد سب سے زیادہ ہے اور جنہوں نے انتخاب میں کامیابی
کے بعد مسلم لیگ (ن) میں شرکت کی ہے اور ان لوگوں کے لیے لازمی ہے کہ انھیں
توانائی کے بحران سے ریلیف دیا جائے اور افراط زر سے بھی ان کو ریلیف دیا
جائے لیکن حکومت ان کی توقعات پر پورا اترنے میں ناکام رہی ہے۔ پاکستان
پیپلز پارٹی کی طرف سے روائتی اپوزیشن کا کردار نبھانے میں عدم دلچسپی کی
بنا پر عمران خان اپوزیشن کے اکلوتے لیڈر کے طور پر نمایاں ہوئے ہیں، جنہوں
نے بڑی کامیابی سے متذکرہ تینوں گروپوں کو اپنے گرد اکٹھا کر لیا ہے اور وہ
مؤثر انداز سے وزیر اعظم نواز شریف کو چیلنج کر رہے ہیں۔
انھوں نے انتخابات میں دھاندلی کے حوالے سے حکومت کے خلاف جو مہم شروع کر
رکھی ہے اس میں متذکرہ تینوں گروپ خان کی حمایت کر رہے ہیں۔ خان کی حمایت
کی اساس شمال وسطی پنجاب کے شہری علاقوں میں قائم ہے جس نے خان کو ایک
مؤثر سیاسی قوت بنا دیا ہے۔ حکومت پنجاب کی طرف سے ماڈل ٹاؤن میں طاہر
القادری کے معاملے کو غلط انداز سے ڈیل کرنے کے باعث، جو کہ عمران خان کے
ایک اہم اتحادی ہیں، حالات کو بگاڑ لیا ہے۔ طاہر القادری ایک بریلوی لیڈر
ہیں ان کو بھی وہ تمام فوائد حاصل ہیں جو دیگر ممتاز مذہبی لیڈروں کو حاصل
ہیں۔ یعنی اسکولوں اور مدرسوں کا ایک مکمل نیٹ ورک… ان کا اسکولوں کا وسیع
نظام عمران خان کے لیے اضافی مدد کا باعث ہے اور شہری علاقوں میں ان کی
حمایت میں کئی گنا زیادہ اضافہ ہو رہا ہے۔ اس معاملے کو مزید تقویت پہنچانے
کے لیے گجرات کے چوہدری اور شیخ رشید بھی اکٹھے ہیں اور حکومت مخالف تحریک
کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔
سیاست کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ’’امکانات کا فائدہ اٹھانے کا فن ہے‘‘
حکومت کا یہ پہلا سال سیاست کی متذکرہ تعریف کی نفی کرتے گزرا ہے۔
جمہوریتوں میں اور بالخصوص پارلیمنٹری جمہوری حکومتوں کے دو اہم فرائض ہوتے
ہیں اور وہ ہیں حکومت کرنا اور سیاست کرنا۔ جن میں سے کسی ایک معاملے میں
بھی حکومت کی ناکامی پیچیدہ مضمرات پیدا کرنے کا باعث بن جاتی ہے۔ پاکستان
مسلم لیگ نواز کے معاملے میں یہ ان کی پالیسیاں ہیں جو کہ ناکام ہو رہی
ہیں۔
حکمران پارٹی کی کامیابی اس میں ہے کہ وہ اپوزیشن کو حکومت کے خلاف تحریک
کے لیے لوگوں کو سڑکوں پر باہر نکالنے کا موقع نہ دے اور وزیر اعظم براہ
راست منتخب ہونے والے 32 قومی اسمبلی کے اراکین کو اپنے ساتھ ملانے میں
کامیاب نہیں ہو سکے اس وجہ سے انھیں اب اپنے اقتدار کے لیے خطرہ محسوس ہو
رہا ہے جس کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔ حکمرانی
کرنے کے لیے بادشاہ کو بہت بڑے حوصلے کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے۔ جس دن وزیر
اعظم نے اپنے عہدے کا حلف لیا تھا تو جو ان کو جانتے ہیں انھوں نے پیش گوئی
کی تھی کہ وہ اپنے مخالف سیاست دانوں سے ضرور انتقام لیں گے۔ وزیر اعظم نے
ثابت کیا کہ ان کے بارے میں ایسا سوچنے والے صحیح تھے۔
آج کی سیاست اور سیاستدانوں کے رویوں پر کیا بات کروں؟ دلیل سے خالی
بیانات اور اَنا کو سات آسمانوں تک اونچا کرنے کے بعد صرف اور صرف شعبدہ
بازیوں سے مرقع سیاسی میدان کو کس زاویے سے جانچوں، سوچ کر بھی ذہنی تکلیف
ہوتی ہے۔ کوئی بھی شخص اپنے فرائض پورے نہیں کر رہا۔ پھر کیسا گلہ اور کیسی
شکایت! ہم تمام لوگ سترویں یا حد اٹھارویں صدی کے شعور میں زندہ ہیں۔
اکیسوی صدی میں داخل ہونے کا تو تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ میں اپنے ملک
کو ترقی پذیر نہیں گردانتا بلکہ معاشی اور معاشرتی اعتبار سے یہ ایک
(Primitive) قدیم ملک ہے! تمام دنیا کے ممالک سے علیحدہ اور سب سے اچھوتا!
کسی بھی وزیر اعظم، صدر یا وزیر اعلیٰ کے آنے یا جانے سے کوئی فرق نہیں
پڑتا۔ لوگ اور ان کے مسائل وہیں کے وہیں رہتے ہیں۔ یہ اس نظام کی اصلیت ہے۔
ہر اَمر عبث ہے۔
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان بھی انقلاب کا سندیسہ لیکر چلے ہیں، اس
لیے انھوں نے واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ وہ اسلام آباد واپس آنے کے لیے
نہیں جا رہے ۔ ویسے بھی کون کم بخت ہے جو اسلام آباد جا کر واپس آنا
چاہتا ہے ، ورنہ پاکستان کے جتنے عوامی نام نہاد نمائندوں کو دیکھ لیں کہ
جو بھی ایوانوں میں گیا ہے،ان کے حلقے کے عوام انھیں تلاش ہی کرتے رہتے ہیں
۔ عمران خان بذات خود اچھے انسان ہونگے ، لیکن یہ بھی قادری صاحب کی طرح
روز خواب بُنتے ہیں لیکن ان کی ٹوکری میں بھی گندے انڈے موجود ہیں۔ دنیا نے
یہ تماشا بھی دیکھا کہ انقلاب کے داعی آئی ڈی پیزکے پاس جانے سے گریزاں
رہے اور ان سے کوسوں دور بیٹھ کر مرغ پلاؤ اور سیخ کباب کھاتے رہے،کاش وہ
بھی دیکھ لیتے کہ جن انگاروں پرگوشت بھنا گیا،اس انگاروں پر معصوم عوام کس
قدر جھلس رہے ہیں ۔ آفرین ہے پاکستان کے بہادرسپہ سالار پر،کہ انھوں نے
چاند رات جوانوں کے ساتھ محاذ جنگ پر گذاری اور عید کا دن بھی ، بلکہ آئی
ڈی پیز کے معصوم بچوں کے ساتھ بھی گھل مل گئے۔
ایک دوست تحریک انصاف کا پرجوش حامی اور کارکن ھے۔ وہ کل میرے پاس آیا اور
اصرار کرنے لگا کہ میں خان صاحب کے چودہ اگست کے آزادی مارچ میں شامل
ہوجاؤں۔ میں نے مصروفیت کا بہانہ بنانا چاھا تو وہ پیچھے پڑگیا۔ کبھی
پرسوں کی دوستی کا واسطہ دے کر اور کبھی ملک میں تبدیلی کی جدوجہد کی حمایت
کو قومی فریض کہہ کر مجبور کرے۔ میں اس کی باتیں چپ چاپ سنتا رھا اور پھر
اسے لے کر محلے کی ایک دودھ دہی کی دکان پر چلا گیا اور دو گلاس ٹھنڈی،
میٹھی لسی کے آرڈر کردیئے۔
دکاندار نے کونڈے سے دہی نکالا اور اپنی بجلی کی گڑوی میں ڈال دیا۔ پھر اس
میں برف، چینی، دودھ اور پانی ملا کر بٹن دبا دیا۔ تقریباً پینتالیس سیکنڈ
میں مزے دار لسی تیار ہوچکی تھی۔ دکاندار نے گلاس ہماری طرف بڑھائے۔ میزبان
ہونے کے ناطے میں نے دونوں گلاس پکڑ لئے اور ایک گلاس اپنے دوست کو پیش کرے
ہوئے کہا کہ لو، کیلے کا ملک شیک پی لو۔
دوست حیران ہوا اور میری تصیح کرتے ہوئے بولا کہ یہ کیلے کا ملک شیک نہیں
بلکہ دہی کی لسی ھے۔
میں نے پھر کہا کہ اچھا چلو کیلے کا نہ سہی، یہ آم کا ملک شیک ھے، پی لو۔
اس نے پھر کہا کہ یہ ملک شیک کیسے ہوسکتا ھے؟ دکاندار نے ہماری آنکھوں کے
سامنے دہی، دودھ، چینی اور برف ڈالی تھی پھر آم کا ملک شیک کیسے بن سکتا
ھے؟
میں نے اپنے دوست کے کاندھے پر ہاتھ رکھا، اس کا ماتھا چوما اور کہا:
"میرے بھولے دوست، شیخ رشید، شاہ محمود قریشی، جہانگیر ترین، چوہدری
برادران، اعظم سواتی، عائلہ ملک، فوزیہ قصوری جیسے جاگیردار اور وڈیروں کے
ساتھ کرپشن کی لسی ہی بن سکتی ھے، تبیدلی کا ملک شیک نہیں۔ چاھے جتنا مرضی
اپنے آپ کو دھوکہ دے لو۔ ۔ ۔ ۔ ۔"
یہ سن کر میرے دوست نے چپ چاپ لسی پینی شروع کردی
شاید پاکستانی عوام اس امپورٹڈ انقلاب کے بہلاوے میں آجائیں، کیونکہ
پاکستانی عوام میں گستاخی معاف بدقسمتی سے خوئے آزادی ہی نہیں ہے، وہ ہر
وقت خود کو غلام رکھنا چاہتے ہیں ، شاید یہ پاک و ہند کی زمین کی بود وباش
کی میراث ہے کہ یہاں کے عوام ، پہلے ہاتھ سے بنائے ہوئے پتھروں کے غلام بنے
رہے ، پھر جب ان پر جارحیت مسلط ہوئی تو مغلوں کے غلام بنے رہے ،
اقلیت،اکثریت پر حکومت کرتی رہی ، جاگیرداروں ، سرداروں ، مَلکوں ، وڈیروں
اور خوانین کے غلام بنے رہے ، پھر دور جدید میں صنعتکاروں کی غلامی اختیار
کی گئی ۔ اب بھی جدید پاک وہند کے عوام کو دیکھ لیں ، دونوں ممالک قوم
پرستی ، منافرت ، لسانیت ، مذہبی فرقہ واریت کے غلام بنے ہوئے ہیں۔
سیع سطح پر عوامی شمولیت کے بغیرکامیاب انقلاب کا کوئی تصور تشکیل دینا
ناممکن ہے
نقلاب صرف اور صرف نام ہے ایک سماجی نظام میں دوسرے اور بہتر سماجی نظام
میں داخل ہونے کا۔ اس عمل کی تکمیل کے لیے پاکستان کی سیاسی و مذہبی
جماعتوں کے سربراہ کسی بھی طرح کا لائحہ عمل پیش کرنے میں ناکام ہیں
اب سمجھ میں نہیں آتا کہ کس طرف جائیں |