سعودی عرب اورامارات انگریزی میڈیاکے معتبر سمجھے
جانے والے اداروں کاخصوصی ہدف بنے ہیں
فلسطینیوں کے ساتھ حقیقی ہمدردی کے بجائے ان کی معاونت کرنے والے ممالک
کونشانہ بنایاجارہاہے
متعصبانہ رپورٹنگ پر لندن میں سعودی سفیرنے نوٹس لے لیا،برٹش میڈیا
کوشرانگیزمہم روکنے کی انتباہ
لندن میں سعودی عرب کے سفیر محمدبن نواف بن عبدالعزیز نے برٹش میڈیا کے
معتبر سمجھے جانے والے اداروں کی ان بے بنیادرپورٹوں پر سختی سے نوٹس لیتے
ہوئے انہیں انتباہ کردیاہے کہ وہ فلسطین پر اسرائیلی جارحیت کی آڑلے کر
سعودی عرب کے خلاف بے بنیادپروپیگنڈامہم روک دیں ۔ سعودی سفیر نے ذرائع
ابلاغ کے نمایاں اداروں اورشخصیات کوایک مراسلہ بھیجاہے جس میں انہوں نے
سخت خفگی کااظہارکرتے ہوئے متعددایسی رپورٹوں کاحوالہ دیاہے جن میںمحض
افواہوں کو بنیادبناکریہ تاثردیاگیاہے کہ سعودی عرب اورخلیجی ممالک کی
ہمدردیاں فلسطین کے بجائے اسرائیل کے ساتھ ہیں اوریہ کہ غزہ پر حالیہ
جارحیت میں اسرائیل کو عربوں کی حمایت حاصل ہے ۔
سعودی جریدے سبق الیکٹرونیہ کے مطابق سعودی سفیر شہزادہ محمدبن نواف بن
عبدالعزیز کی جانب سے جن صحافیوں اورمیڈیاشخصیات کومراسلہ بھیجاگیاہے ان
میں برطانوی صحافی ڈیوڈ ہیرسٹ سرفہرست ہیں جنہیں مخاطب کرتے ہوئے سعودی
سفیر نے لکھاہے کہ مڈل ایسٹ سے متعلق ان کی رپورٹوں سے ظاہرہوتاہے کہ وہ
مشرق وسطی کے سیاسی منظرنامے سے یکسرلاعلم اوربے خبرہیں یاپھر وہ کسی طے
شدہ پلان کے تحت لندن میں بیٹھ کر مشرق وسطی میں انتشار ،انتہاپسندی،مایوسی
اورذہنی افراتفری کوہوادے رہے ہیں ۔سعودی سفیر نے ڈیوڈ سے گزشتہ ہفتے شائع
ہونے والے ان کی اس رپورٹ پر وضاحت مانگی ہے جس میں برٹش صحافی نے الزام
عائد کیاتھاکہ غزہ پر حملہ کرتے وقت اسرائیل نے سعودی عرب سے باقاعدہ اجازت
مانگی تھی ۔
سعودی سفیر نے برطانوی میڈیا کی ایسی متعددرپورٹوں کاحوالہ دیتے ہوئے کہاہے
کہ مغربی میڈیامیں دانستہ طورپر غلط بیانی اورمفروضوں پرمبنی رپورٹیں
اورخبریں شائع کی جارہی ہیں جن سے اسلامی دنیا بالخصوص مشرق وسطی میں
مسلمانوںکی مایوسیوں اورعرب ممالک کے خلاف بد ظنی کی شرح میں اضافہ ہورہاہے
جس سے ان ممالک میں حکومتو ں اورعسکری اوردفاعی اداروںکے خلاف معاندانہ
خیالات کوتقویت مل رہی ہے جوخلیجی ممالک کی قومی سلامتی کے لئے مشکلات
کاسبب بن رہی ہے ۔محمدبن نواف نے کہاہے کہ یورپی اورامریکی ذرائع ابلاغ
میںمشرق وسطی میں جاری حالات میں حقائق کو مسخ کرکے غلط رنگ دیاجارہاہے جس
نہ صرف درست حقائق جاننے کے خواہش مند ناظرین اورقارئین کوغلط معلومات دی
جارہی ہیں بلکہ میڈیاکی منصفانہ ساکھ اور پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی بھی
خلاف ورزی کی جارہی ہے ۔انہوں نے برٹش صحافی سے ان کی اس رپورٹ کے ثبوت
اورخبرموصول ہونے والے ذرائع سے متعلق وضاحت بھی مانگی ہے جس میں صحافی نے
سعودی عرب رپر ایسا گھناوناالزام عائد کیاگیاہے۔عرب کے سرکاری
میڈیاکاکہناہے کہ 2011ءمیں مصر،تیونس ،لیبیااورپھرشام میں شروع ہونے والی
عرب بہار تحریک کے پیچھے بھی امریکی اوریورپی میڈیاکی موجودگی کے متعددثبوت
اورشواہد سامنے آئے تھے ۔انگلش میڈیانے مغرب اورامریکاکی حمایت سے طویل
عرصے تک اقتدارمیں رہنے والے عرب حکمرانوں کے خلاف رائے عام ہموارکی ان کے
مالی سکینڈلز ،بدعنوانیوں اورعیاشیوں کی رنگین کہانیاں شائع کرکے عوام کو
اکسایالیکن چندپرانے چہروںکے منظرسے غائب ہونے کے بعد اسی میڈیانے نئے
چہروںکے ساتھ دوبارہ سے سابقہ سیٹ اپ کو بحال کرانے میںاہم کرداراداکیاہے۔
عرب میڈیاکے مطابق سعودی عرب اورمتحدہ عرب امارات سمیت خلیجی ممالک کو
تنقید کانشانہ بنانے والے امریکی اوریورپی میڈیانے غزہ پر اسرائیلی جارحیت
کے حوالے سے انتہائی متعصبانہ اورجانبداررپورٹنگ کاریکارڈ قائم کیاہے ۔
اس حوالے سے عرب ویب سائٹ ”اخبارک“ نے امریکی میڈیاگروپ (ایم، اس، ان، بی،
سی) سے وابستہ اٹلی نژادخاتون صحافی رولاجبریل نے گزشتہ ہفتے کہاہے کہ ایم
بی اس ان بی سی سمیت امریکی میڈیا غزہ پراسرائیلی جارحیت کے حوالے سے تمام
پیشہ ورانہ دیانت کو پس پشت ڈال کراسرائیل کے حق میں مبینہ جانبداری
کامظاہرہ کررہاہے ۔رولاکاکہناہے کہ اسرائیلی وزیراعظم سمیت حکومتی
عہدیداروںکوٹاک شوزمیں بلاکردیر تک ان کاموقف پیش کیاجارہاہے جبکہ اس کے
مقابلے میں فلسطینی لیڈران کاموقف پیش کرنے سے چینل انتظامیہ کی جانب سے
دانستہ طورپراعراض برتاجا رہاہے۔ امریکی میڈیاکے تعصب کایہ حال ہے کہ
اسرائیلی پارلیمنٹ کے ان عرب اراکین کوان کی درخواست کے باوجود چینل
انتظامیہ نے موقع نہیں دیاجن کے بارے میں معلوم تھاکہ وہ اسرائیل کے بجائے
غزہ کی حمایت میں بولیں گے۔رولاکے مطابق (ایم، اس، ان، بی، سی) نے
اگرفلسطینی ذمہ داروںکے کچھ انٹرویوزاوربیانات نشربھی کئے ہیں توصرف اس کے
چیدہ چید ہ حصوںکو پیش کرنے پراکتفاکیاگیااورانہیں 30سیکنڈسے زیادہ وقت
نہیں دیاگیا۔مذکورہ صحافی کوامریکی ذرائع ابلاغ کے غیرجانبداری کااصل چہرہ
بے نقاب کرنے کے بعد چینل کی سکرین پرآنے نہیں دیاگیاہے جس کے بارے میں
خدشہ ظاہر کیاجارہاہے کہ چینل نے اسے فارغ کردیاہے۔رولاجبریل بیک وقت
اسرائیل اوراٹلی کی شہریت کی حامل ہے تاہم وہ اصل میں فلسطینی ہے
اورفلسطینی مسلمانوں سے ہمدردی رکھتی ہے ۔عرب ویب سائٹ رای الیوم کے مطابق
رولاجبریل امریکی میڈیاپرمسلط عناصر کی متعصب پالیسی کانشانہ بننے والی
پہلی صحافی نہیں ہے ۔غزہ پراسرائیلی جارحیت کے دوران ایک دوسری مراسلہ نگار
کے ساتھ بھی ایسا ہی واقع پیش آیاہے ۔امریکی ٹیلی وژن نیٹ ورک سی این این
سے منسلک صحافی ڈیانامیگنائی کوبھی سی این این نے سزاکے طورپر اس وقت
اسرائیل سے واپس بلاکر روس بھیج دیاہے جب اسرائیلی شہر سیدروت میں کوریج کے
وقت یہودیوں کی بدتمیزی سے تنگ آکرخاتون صحافی نے ٹویٹر پیغام میں ہراساں
کرنے والے یہودیوں کو ”گندہ “سے تعبیر کیا۔ پیشہ ورانہ ذمہ داری اداکرنے
والی خاوتون صحافی کے ساتھ بدتمیزی پرآنکھیں بند کرکے امریکی چینل انتظامیہ
نے اس واقعے پراسرائیل سے معذرت بھی کرلی ہے۔
اسرائیل کی جانب سے جب غزہ پر بمباری کاسلسلہ تیز ہوااورشہادتوں کی
تعدادبڑھنے لگی تو امریکی اوریورپی میڈیانے شہید فلسطینی خاندان کو دانستہ
طورپر اسرائیلی شہری قراردیاتھا۔اس واقعے پر شدید احتجاج کے باوجود انگریزی
میڈیانے فلسطینی حکومت یاعوام سے معذرت کوضروری نہ سمجھا۔
رپورٹ کے مطابق خلیجی ممالک کے خلاف شرانگیز مہم میں بعض عرب ابلاغی ادارے
مغربی اورامریکی میڈیا کادست وبازوبنے ہوئے ہیں۔جوپہنچ کے باوجود تحقیق
کرنے کی زحمت کرنے کے بجائے استعماری میڈیاکی رپورٹیں من وعن ترجمہ کرکے
ابلاغی ذمہ داریوں سے عہدہ برآںہوتے ہیں ۔متحدہ عرب امارات سے شائع ہونے
والے جریدے البیان کے مطابق گزشتہ ہفتے بعض عرب ویب سائٹس نے بغیر کسی
تحقیق کے استعماری ذرائع ابلاغ کی من گھڑت رپورٹ کوسرخیوں کے ساتھ شائع
کیاجس میں متحدہ عرب امارات کے خیراتی ادارے الہلال الاحمرپرحماس کے خلاف
جاسوسی کاالزام عائد کیاگیاتھا ۔تصویر میں جاسوس کے طورپرجن افرادکی
نشاندہی کی گئی تھی وہ الہلال الاحمر کی خارجہ سرگرمیوں کے ذمہ دارہیں
اوراس سے قبل انہوںنے ،شام ،عراق،افغانستان ،برمااورمتاثرہ افریقی ممالک
میں امدادی سرگرمیوں کی نگرانی کی ہے ۔الہلال الاحمرکی ٹیم کاکہناہے کہ غزہ
جانے سے پہلے حما س نے جانے والے افراد کے پاسپورٹ کی نقول مانگی تھیں جبکہ
جانے والے تمام افراد کی مکمل شناخت کے بعد انہیں اجازت دی گئی تھی۔البیان
کے مطابق فلسطین کی مزاحمتی تنظیم حماس کے شعبہ اطلاعات نے بھی اس
کومستردکیاکہ متحدہ عرب امارات کے امدادی کارکن حماس کی جاسوسی کرتے
رہے۔اماراتی صحافی ضرارالفلاسی کے مطابق یورپی میڈیانے سعودی عرب اور متحدہ
عرب امارات کے خلاف پروپیگنڈاجاری رکھاہے اسی طرح ایک رپورٹ میں کہاگیاہے
کہ متحدہ عرب امارات کو غزہ پر اسرائیلی حملے کاپیشگی علم تھا۔
رپورٹ کے مطابق مغربی اورامریکی میڈیاکی جانب سے غزہ پراسرائیل کی وحشیانہ
جارحیت اورجنگی قوانین کی کھلی خلاف ورزیوں کے حوالے سے
امریکا،برطانیااوردیگر یورپی ممالک پرعائد ہونے والی ذمہ داریوں سے غفلت کو
سرے سے نظراندازکیاجارہاہے جبکہ دوسری جانب ان ممالک کو مسلسل نشانہ
بنایاجارہاہے جوغزہ کو امداددے رہے ہیں۔العربیہ نیٹ کے مطابق غزہ پر
اسرائیلی حملے کے بعد سعودی فرمان رواں شاہ عبداللہ بن عبدالعزیزنے اب تک
3سوملین سعودی ریال کی امداددی ہے ۔ایک سوملین ریال فلسطینی وزارت صحت کو
دی گئی ہے جبکہ 200ملین ریال کی امدادفلسطینی ہلال احمرکودی گئی ہے تاکہ
اسرائیلی درندگی کانشانہ بننے والے بے گناہ فلسطینی خواتین ،بچوں
،بزرگوںاورنوجوانوں کے زخموں پر مرہم رکھاجاسکے ۔سعودی عرب کی طرح متحدہ
عرب امارات نے بھی جنگ کے متاثرہ فلسطینی باشندوں کے لئے 25ملین ڈالرز کی
امداددی ہے ۔
امارات کی سرکاری خبررساں ایجنسی ”وام“ کے مطابق حماس کی حمایت کی آڑ میں
سعودی عرب اورمتحدہ عرب امارات پربے جاتنقید کرنے والے اس کونظراندازکردیتے
ہیںکہ فلسطین کی اسلامی جماعت حماس کے سیاسی شعبے کے نائب صدراورسابق
وزیراعظم اسماعیل ہنیہ نے گزشتہ ہفتے غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے
شکارفلسطینیوں کی مشکلات میں کمی کی خاطرامدادفراہم کرنے پرسعودی عرب
اورمتحدہ عرب امارات کاشکریہ اداکیاہے ۔عرب کے سرکاری میڈیاکے مطابق
اسماعیل ہنیہ نے کہاہے کہ اسرائیلی جارحیت کے
موقع پرعرب اقوام اورحکومتوں نے مظلوم فلسطینیوں سے جس طرح یکجہتی کامظاہرہ
کیاہے اس نے فلسطینی عوام کے سرفخرسے بلند کردئے ہیں۔
عرب کے سرکاری میڈیاکی متعددرپورٹوں میں امریکی اوریورپی میڈیاکے اس
متنازعہ کردارکو موضوع بحث بنایاگیاہے۔عرب تجزیہ کاروں اوردانشوروں
کاکہناہے کہ موجودہ حالات میں استعماری میڈیاکاکردارایک تیر سے
دوشکاروالاہے ۔یورپی اورامریکی میڈیامیں اسرائیل کے ساتھ عرب ممالک کے گٹھ
جوڑکی بے بنیاد خبروں سے اسلامی دنیا بالخصوص مشرق وسطی میںبائیں بازوکے
رجحانات اورانتہاپسندانہ نظریات کو فروغ مل رہاہے ۔ یہاںکی حکومتوںکے خلاف
نفرت اوراشتعال انگیزی بڑھ رہی ہے ۔ اس کابنیادی مقصد ان ترقی یافتہ اسلامی
ممالک کو کمزورکرناہے جواسلامی دنیا میں استعماری قوتوں کی مسلط کردہ غربت
،مہنگائی اوربے روزگاری کو کم کرنے کے لئے مالی امداددیتے ہیں تاکہ مفلوک
الحال مسلمانوں کی امدادکاذریعہ باقی نہ رہے۔ مسلمان متاثرین کی سب سے
زیادہ مالی معاونت کرنے کے سبب سعودی عرب ،متحدہ عرب امارات اورخلیج کے
دیگر عرب ممالک سامراجی ذرائع ابلاغ کے نشانے پرہیں اوران کی ہلکی پھلکی
کمزوریوں اورسیاسی مجبوریوںکو بہانہ بناکر ان کے خلاف رائے عامہ ہموارکرنے
کاکوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیاجارہا۔ |