زرداری صاحب پاکستانی سر اُٹھا کر جینا چاہتے ہیں

پاکستان کے وزیر داخلہ کا کہنا ہے کہ پاک فوج چند دنوں میں پاکستان سے طالبان کا صفایا کردے گی۔ گزشتہ دنوں میں سینکڑوں عسکریت پسند ہلاک کئے گئے۔ عسکریت پسند پرتشدد کاروائیوں کے ذریعہ اقتدار پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں لیکن انہیں اپنے عزائم میں کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔ اب بات چیت صرف ان لوگوں کے ساتھ کی جائے گی جو ہتھیار ڈال کر حکومت کی رِٹ تسلیم کرلیں گے۔

قارئین۔۔۔ آخر کیا وجہ ہے کہ تمام تر کوششوں کے باوجود سوات، خیبرایجنسی، وزیرستان، کوہاٹ اور صوبہ سرحد کے دیگر علاقوں میں طالبان کا ریلا نہیں رک رہا؟ اگر فوج کا یہ دعویٰ تسلیم کرلیا جائے کہ گزشتہ دنوں میں اس نے سینکڑوں عسکریت پسند ہلاک کردیے ہیں تو پھر پاکستانی طالبان کا زور کیوں نہیں ٹوٹا؟ اور ان کی طاقت کم کیوں نہیں ہوئی؟۔ خالی لفاظی”لن ترانی“ اور غلط بیانی کے ذریعہ سے حقیقت چھپائی جاسکتی ہے نہ حالات کی سنگینی اور بگاڑ میں مزید اضافے کے سوا کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ کون نہیں جانتا کہ قیام پاکستان کے بعد اور دہشتگردی کے خلاف جنگ کے نام پر امریکی مفادات کی اسی جنگ میں ہماری شمولیت سے پہلے یہی عسکریت پسند قبائلی پاکستان کا بازوئے شمشیر زن ہوا کرتے تھے اور 48کی پاک بھارت جنگ میں آزاد کشمیر کا موجودہ علاقہ بھارت کے قبضہ سے چھڑانے کا کارنامہ ان ہی قبائلیوں کی دلیری اور پاکستان سے ان کی محبت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس حقیقت کے ادراک کے لئے افلاطون ہونا ضروری نہیں کہ جب ہم امریکہ کی محبت میں ان سے دشمنی مول لیں گے تو وہ اپنی سرشت کے عین مطابق اس کا دندان شکن جواب ضرور دیں گے۔ وہ ظلم و جبر کے خلاف برسرپیکار اور حالت جنگ میں ہیں اور ہم ہیں کہ امریکہ کی جنگ کو اپنی جنگ قرار دے کر انہیں للکارنے اور جوابی کاروائی پر مجبور کرنے میں مصروف ہیں۔ وہ طالبان جو افغانستان میں برسرپیکار تھے ان کو امریکیوں اور برطانوی ایجنسیوں نے بڑی چالاکی اور چابکدستی سے پاکستان کے گلے کا پھانس بنا دیا۔ ہمیں اب یہ حقیقت تسلیم کرنا پڑے گی کہ ہماری حماقتوں اور کوتاہیوں کی وجہ سے محب وطن قبائلی عوام ہماری مخالفت پر مجبور ہوئے اور آج ہم اپنی اسی احمقانہ روش کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ جہاں تک قبائلی علاقوں میں حکومت کی رِٹ قائم کرنے کا تعلق ہے تو اس حقیقت سے صرف نظر ممکن نہیں کہ حکومت کی نااہلی اور صفر کارکردگی کا تو یہ حال ہے کہ قبائلی علاقے تو کجا ملک کے دیگر علاقوں میں زندگی کے کسی بھی شعبہ میں حکومت کی اس رِٹ کی کوئی علامت دور دور تک کہیں نظر نہیں آتی۔ قبائلی علاقوں میں غیروں کی لگائی ہوئی آگ پر قابو پانے کی فکر کرنے کے بجائے حکومت اپنے بیانات اور اقدامات کے ذریعہ جلتی پر تیل ڈالنے میں مشغول ہے اور وہاں اپنی رِٹ قائم کرنے کی آرزومند بھی۔ ان قبائلی علاقوں کے تندخو باسی اپنی مہمان نوازی جرات اور غیرتمندی کے لئے مشہور ہیں اور دنیا ان کے ان اوصاف کی معترف ہے۔ یہ سیدھے سادے مگر کھرے اور منتقم مزاج لوگ ہیں جو اپنی بے عزتی پر جان لینے، جان دینے کی روایت اور تاریخ رکھتے ہیں۔ یہ صرف محبت اور خلوص کی زبان سمجھتے ہیں جنہیں دھونس اور طاقت کے بل پر نیچا دکھانے کے لئے ٹڈی دل فوج اور اسلحہ کے انبار بھی ناکافی ہیں۔ برطانوی حکمراں برسہا برس پتھروں سے سر ٹکرانے اور اپنے ہزاروں سپاہیوں کی بھینٹ چڑھانے کے باوجود اپنی رِٹ قائم کرنے کی حسرت پوری نہ کرسکے اور ہمیشہ ناکامی ان کا مقدر بنی۔ امریکا اور اس کے اتحادی فوجی طاقت، جدید ترین تباہ کن ہتھیار اور اپنے مقامی کارندوں اور گماشتوں کی فوج رکھتے ہوئے بھی ناکام و نامراد ہیں اور فاقہ مست جنگجو قبائلی انہیں ناکوں چنے چبوا رہے ہیں۔

قارئین۔۔۔ پاکستان میں حصول اقتدار کے لئے جوڑ توڑ، سازشیں اور قومی و ملی مفادات تک داؤ پر لگا دینے کی ریت بہت پرانی ہے۔ تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ جب بھی وطن عزیز میں امریکہ کے خلاف نفرت بڑھی تو خود امریکہ نے اس نفرت کو اپنے ایجنٹوں کی طرف موڑ کر ملک پر اپنی موجودگی اور اثر و رسوخ کو برقرار رکھا اور اپنے ایجنٹوں کو اس نفرت پر قربان کردیا۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ امریکہ جس سے دوستی کرتا ہے پہلے اسی کا گلا دباتا ہے۔ جنرل ایوب خان ہوں، جنرل یحییٰ خان ہوں، جنرل ضیاالحق ہوں یا جنرل پرویز مشرف۔۔۔ان میں سے ہر ایک کو امریکہ کی دوستی پر بڑا ناز تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ دنیا اِدھر سے ادھر ہوجائے امریکہ ان سے بے وفائی نہیں کرے گا۔ لیکن یہ چاروں فوجی آمر اور ان کے ساتھ ساتھ سول حکومتوں کے مطلق العنان حکمران بھی امریکہ کی دوستی کے زعم میں مارے گئے۔ ہم تاریخ سے کوئی سبق لینے کے قائل نہیں عوام مرتے ہیں تو مریں، ملک ٹوٹتا ہے تو ٹوٹے مگر اقتدار پر آنچ نہ آئے۔ آصف علی زرداری نے بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد جمہور اور جمہوریت کی حمایت اور حفاظت کے بلند بانگ نعروں کے بل پر امریکہ کی مدد سے ایوان اقتدار تک رسائی حاصل کی۔ لیکن ایوان اقتدار میں قدم رکھتے ہی ان کی ترجیحات بدل گئیں۔ اصولی سیاست، جمہوری روایات، عدل و انصاف کی بالادستی کے وعدے پس پشت ڈال کر اپنے پیشرو جنرل پرویز کے نقش قدم پر چلنے اور اقتدار کو دوام بخشنے کے لئے امریکہ کی غلامی پر قانع رہنا ہی مناسب جانا۔

جناب صدر! وقت تیزی سے گزر رہا ہے۔ قبائلی علاقوں میں برادر کش مہم اور فوج کشی کے تباہ کن اثرات ظاہر و ثابت ہیں۔ عراق اور افغانستان میں امریکا کی شرمناک ہزیمت اور اس کے نتیجہ میں امریکی معیشت کی تباہی و بربادی بھی ہماری آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے۔ عدل وانصاف اور شائستہ جمہوری اصولوں پر کاربند، نیک نام سیاسی شخصیات تاریخ کے صفحات پر انمٹ نقوش چھوڑ جاتی ہیں اور آنے والوں کے لئے مشعل راہ ثابت ہوتی ہیں جبکہ مفاد پرست اور خود غرض لیڈر تاریخ کے کوڑے دان میں جگہ پاتے ہیں۔ جناب صدر! پاکستانی عوام آپ کی نیک نامی، ملک کی بھلائی اور اپنے لئے عزت سے سر اٹھا کر جینے کے آرزو مند ہیں۔
Abid Hussain burewala
About the Author: Abid Hussain burewala Read More Articles by Abid Hussain burewala: 64 Articles with 90603 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.