بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میرا خیال تھا کے بچوں اور بڑوں کے لیے وہ سوال وجواب فی الوقت کافی ہیں جو
میں نے آرٹیکلز کی صورت میں، رمضان المبارک کے مہینہ میں لکھے، مگر بعض
احباب کی طرف سے شفاعت و وسیلہ کی عنوان پر کچھ بحث و مباحث کی گئیں جس پر
مجھے اس موضوع پر بھی لکھنا پڑا، یاد رہے کے توحید کو صحیح طرح نہ سمجھنا،
تقدیر اور شفاعت کا انکار یا اس میں غلو اور افراط و تفریت گمراہی کا
دروازہ ہے. امید ہے کہ اس سے میرا اور پڑھنے والے کا ان شاء اللہ فائدہ
ہوگا.
وسیلہ کا کیا مطلب ہے؟
وسیلہ کا مطلب شریعت میں یہ ہے کہ دو چیزوں کو قریب کرنے کے لیے تیسری چیز
یا تیسرے فریق کا درمیان میں آنا.
کون سا وسیلہ جائز ہے؟
شریعت کی مطابق وہ وسیلہ بنانا جائز ہے جسکی کوئ دلیل قرآن مجید یا صحیح
احادیث یا اجماع صحابہ سے ہو. اسے شریعی وسیلہ کہتے ہیں اور اس کی 4 قسمیں
ہیں.
1. اللہ تعالی کے نام کا وسیلہ بنانا
مثال: یا اللہ یا الرحمن الرحمنی
مفہوم: اے اللہ، اے رحم کرنے والے مجھ پر رحم کر.
اس طرح کہنا جائز ہے
2. اللہ تعالی کی صفات کو وسیلہ بنانا.
مثال: یا حیی یا قیوم برحمتک استغیث
مفہوم: اے زندہ اور اے پوری قائنات کو تھامنے والے، تیری رحمت سے
مدد طلب کرتا ہوں.
استغاثہ سے مراد ہے یعنی مصیبت کی شدت میں مدد طلب کرنا اور اسی طرح غوث کا
مطلب ہے مصیبت کی شدت میں مدد کرنے والا اور غوث صرف اور صرف اللہ تعالی
ہے.
3. کوئ شخص اپنے نیک اور صالح اعمال کا وسیلہ بنا سکتا ہے.
یعنی اگر کوئ یہ کہے کہ میں اپنے والدین سے حسن سلوکی کو وسیلہ بناتا ہوں
کہ اللہ تعالی مجھے اس امتحان میں کامیاب کرے تو یہ جائز ہے اسکی دلیل صحیح
بخاری میں تین مسافروں اور چٹان والی حدیث ہے جس میں تین لوگوں نے بارش اور
طوفان میں ایک غار میں پناہ لی مگر ایک بہت بڑے پتھر سے غار بند ہوگئ پھر
انہوں نے اپنے اپنے نیک اعمال کو وسیلہ بنایا یعنی پہلے نے اپنے والدین سے
نیک سلوکی کو، دوسرے نے زنا سے بچنے کو اور تیسرے نے امانت میں خیانت نہ
کرنے کو وسیلہ بنایا اور چٹان آہستہ آہستہ ہٹھتی گئ.
4. کسی نیک اور صالح زندہ بزرگ کی دعا کو وسیلہ بنانا.
مثال: کسی نیک اور صالح شخص کے پاس جائیں اور اسے کہیں:ادعوا اللہ ان
یشفعنی
مفہوم: آپ دعا کریں کے اللہ مجھے شفا دے. یعنی وہ شخص زندہ ہے کہ وفات پا
چکا ہے؟ یقینا زندہ ہے.
اس کی دلیل یہ کے سیدنا عمر کے وقت میں جب مدینہ میں قحط آیا تو آپ نے
فرمایا، مفہوم: پہلے ھم سیدنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا کرواتے
تو ھماری دعائیں پوری ہوتی آب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا سے رحلت فرما
گیے ہیں تو سیدنا عمر نے سیدنا عباس، جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے
چچا تھے، انکو بلوا کر دعا کروائ اور بارش ہوئ یعنی ایسا وسیلہ بھی جائز
ہے، جب زندہ اور نیک و صالح انسان سے اللہ سے دعا کرنے کو کہا جاۓ. اس کے
علاوہ بھی ایک قصہ ہے، جس کا مفہوم کچھ یوں ہے:
اسی طرح صحیح بخاری کی ایک اور روایت کے مطابق ایک دن سیدنا صحابہ اور
سیدنا عبداللہ ابن عباس بیٹھے تھے ابن عباس بولے کہ کوئ اس دنیا میں جنتی
عورت کو چلتے پھرتے دیکھنا چاہتا ہے تو اس عورت کو دیکھے. صحابہ حیران ہوۓ
ابن عباس نے بتایا ایک دن یہ عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر
ہوئ اور کہا ادعوا اللہ ان یشفعنی کہ اے اللہ کے رسول اللہ سے دعا کریں کے
وہ مجھے شفا دے. آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم چاہو تو دعا کر دوں گا
اور اگر صبر کرو تو جنت ملے گی اس عورت نے کہا "بل اصبر" بلکہ میں صبر کروں
گی مجھے جنت چاہیے. مگر اللہ کے رسول جب مجھے مرگی کا دورہ آتا ہے تو میرے
جسم سے کپڑا ہٹھ جاتا ہے اور غیر مرد مجھے دیکھتے ہیں، آپ اتنی دعا فرما
دیں کہ میرا کپڑا جسم سے نہ ہٹھا کرے، اور صحابہ گواہی دیتے ہیں کہ اس دن
کے بعد جب اسے دورہ آتا تو اسکے کپڑے اسکے جسم سے چمٹ جاتے. اس سے معلوم
ہوا کہ اس دنیا میں کسی زندہ شخص سے وہ دعا کروانا کہ جس پر وہ قادر ہو، یہ
عمل اور ایسا وسیلہ جائز ہے.
کون سا وسیلہ ناجائز ہے؟
شرکی وسیلہ، ناجائز ہے:
نقل کفر، کفر نہ باشد
اس کی مثال یہ ہے. یا رسول اللہ، میری مدد فرما. (نعوذ بللہ)
یا یہ کہنا کہ یا علی، مشکل کشاء، میری مدد فرما اور میری مشکل آسان کر دے.
(نعوذ بللہ) وغیرہ
عام طور پر پاکستان، ہندستان وغیرہ میں یہ الفاظ وسیلہ کے لیے استعمال کیے
جاتے ہیں، مگر حقیقت میں یہ وسیلہ نہیں.
جیسا کہ ھم نے شرعی وسیلہ کی تعریف میں سمجھا تھا کہ دو چیزوں کے درمیان
تیسری چیز انکو قریب کرتی ہے. جائز وسیلہ کو یہاں پر دوبارہ دوہراتے ہیں:
1. اللہ کا نام: اللہ کے اور بندے کے درمیان اللہ کے نام کا وسیلہ جائز ہے.
2. اللہ کی صفات: اللہ تعالی اور بندے کے درمیان اللہ کی صفات کا وسیلہ
جائز ہے.
3. .نیک اعمال: اللہ اور بندے کے درمیان نیک اعمال کا وسیلہ جائز ہے
4. دعا: اللہ اور اسکے بندے کے درمیان نیک اور صالح زندہ شخص کی دعا کا
وسیلہ جائز ہے.
اب یہاں پر کہا گیا کہ یا رسول اللہ میری مدد فرما. (نعوذ بللہ) اور یا علی
مشکل کشاء میری مشکل آسان کر. (نعوذ بللہ). ان دونوں صورتوں میں یہ ان جائز
وسیلوں میں سے ایک بھی نہیں اور یہ شرک ہے کیونکہ اس میں صرف دو چیزیں ہیں،
یا مانگنے والا یا جس سے مانگا جارہا ہے. یہ شرک اس لیے ہے کہ اللہ کا حق
کسی اور کو دیا جارہا ہے. اسکو وسیلہ کہنا جائز نہیں جو عام طور پر کہا
جاتا ہے.
کون سا وسیلہ ناجائز ہے مگر شرک نہیں؟
بدعی وسیلہ ناجائز ہے مگر شرک نہیں.
اسکی ایک مثال یوں ہے کہ ایک شخص کہے:
اے اللہ تو نبی کے صدقہ مجھے کامیابی عطا فرما. اسے بدعت کہتے ہیں. شرک
کیوں نہیں کہتے؟ کیونکہ اللہ کا حق اللہ کو دیا ہے. یعنی پکارا کسے ہے؟
پکارا اللہ کو ہے، مانگا اللہ سے ہے. تو پھر یہ بدعت کیوں ہوا؟ کیونکہ کتاب
السنۃ میں کسی صحیح یا حسن سند سے اسکی کوئ دلیل نہیں. یعنی ولی کے صدقہ،
نبی کے صدقہ وغیرہ ان الفاظ کی کوئ دلیل نہیں. اور جسکی دلیل نہ ہو وہ بدعت
ہوتا ہے.
شفاعت کیا ہے؟
عربی زبان میں لفظ شفاعہ سے مراد ہے دو یعنی تاک. وتر ایک ہوتا ہے شفاعہ دو
ہوتے ہیں. یعنی ایک سے دو ہو جانا. اور شریعت میں اسکا مطلب ہے دو چیزوں کے
درمیان میں آنا، جیسا کہ ہم نے وسیلہ کے حوالہ سے بھی پڑھا. ایک سے دوسرے
کے لیے خیر طلب کر کے اور یہ خیر دو صورتوں میں ہوتا ہے یا تو ایک سے دوسرے
کو کوئ نفع پہنچانا اور بیچ میں آکر ایک سے دوسرے کو سفارش کر کے فائدہ
پہنچانا. یا کوئ نقصان ہونے والا ہے تو سفارش کر کے اسکی تکلیف کو دور
کرنا.
اس تعریف کے بعد یہ بتانا ضروری ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آخرت
کے دن اللہ تعالی کے حکم اور اجازت سے ایک نہیں بلکہ آٹھ طرح کی شفاعت
فرمائیں گے. اور اجازت کی دلیل یہ ہے، اللہ نے قرآن میں فرمایا:
من ذالذی یشفع عندہ الا باذنہ
مفہوم: کون ہے جو شفاعت کرے بغیر اللہ کی اذن و اجازت کے
سورۃ البقرہ سورۃ نمبر: 2 آیت نمبر: 255
بعض احباب کا یہ کہنا ہے کہ جو لوگ شفاعت کی جائز اور ناجائز صورتوں کے
قائل ہیں وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کے منکر ہیں. یہ قول صحیح
نہیں بلکہ نبی اکرم آخرت میں 8 طرح کی شفاعت کریں گے جو کچھ اس طرح ہے:
1. ان لوگوں کے لیے شفاعت جن پر جہنم واجب ہے، وہ مواحدین ہیں، ان کا حساب
کتاب ہو گیا ہے، جہنم میں لے جایا جارہا ہے، اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم
شفاعت کریں گے اور وہ جنت میں چلے جائیں گے.
2. جن کے حسنات و سیئات برابر ہوں گیے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان
کے لیے شفاعت کریں گے، سب نہیں بلکہ جن کی شفاعت کریں گے، اصحاب الاعراف
میں سے.
3. وہ مواحدین جو جنت میں داخل ہوگیے ہیں، انکے بلند درجات کے لیے شفاعت
کریں گے.
4. کچھ ایسے لوگ ہوں گے جو بغیر حساب کے جنت میں جائیں گے صحیح حدیث میں
انکی تعداد 70000 کی آتی ہے، یعنی انکی توحید کامل ہے اور وہ پکے مواحد ہیں
انکے درجات کی بلندی کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم شفاعت فرمائیں گے.
5. ابو طالب کے لیے شفاعت کے جہنم کا سب سے کم عذاب آپ کو ملے.
6. الشفاعت العظمہ، سب سے بڑی شفاعت، یعنی اس وقت آخرت کا دن، جو حساب کتاب
کا مرحلہ ہے، شروع نہیں ہوگا، اور وہ دن 50000 سال کا ہوگا، اور ہر انسان
اپنے گناۂ کے مطابق پسینے میں ڈوبا ہوگا، اس دوران جب اللہ ہمارے نبی صلی
اللہ علیہ وسلم کو اجازت دے گا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم حساب کتاب کو شروع
کرنے کے مرحلہ کے لیے شفاعت کریں گے.
7. جنت کا دروازہ کسی ولی یا جنتی کے لیے نہیں کھولا جاۓ گا، جب تک کہ نبی
صلی اللہ علیہ وسلم شفاعت نہ کریں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم جنت کے دروازے پر
دستک دیں گے اور پھر ہی جنت جنتیوں کے لیے کھلے گی.
8. وہ مسلمان مواحدین جو جہنم میں اپنے گناہوں کی وجہ سے ڈال دیے جائیں
گے. آپ صلی اللہ علیہ وسلم انکی شفاعت فرمائیں گے.
جب کہ یاد رہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قرآن والسنۃ اور صحیح حدیث سے
ثابت شدہ شفاعت کا انکار دائرہ اسلام سے خارج کرنے کا باعث عمل ہے.
اللہ ہمیں اپنے دین کا ہر عمل قرآن والسنۃ اور صحیح اور حسن روایات پر کرنے
اور اپنا ہر دین کا عمل فہم صحابہ وسلف کی پیروی میں کرنے کی توفیق عطا
فرماۓ، آمین |