جہاں انصا ف نہیں ،وہاں ترقی تو دور کی بات انسانیت بھی
نہیں بچتی ،کچھ ایسا ہی حال پاکستان کا بھی ہے۔یہاں اب تک21چیف جسٹس صاحبان
آئے، ہر کسی سے بڑی امیدیں لگائی گئیں ،سابقہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری
کا عوام نے مشکل وقت میں بھر پور ساتھ دیا، اپنا خون بہایا،قیدو بند کی
صوبتیں جھیلیں،مستقبل داؤ پر لگائے اور انہیں عزت ، شہرت اور اعلیٰ رتبہ
دیالیکن انہوں نے عوام کے لئے کیا کیا……؟سوائے ہائی پروفائل کیسسوں کو طول
دینے اور اپنے ریمارکس کے علاوہ عدلیہ کی بہتری کے لئے کچھ نہ کیا۔یہ بات
بھی سمجھ سے بالاتر ہے کہ انہیں ہارورڈ لاء سکول نے نیلسن منڈیلا اور
سکورائٹس کے ایفرو امریکن لیگل ایگل چارلس ہملٹن کے بعد تیسری ایسی شخصیت
سمجھا ،جو میڈل آف فریڈم کی مستحق ٹھہری۔
کیا یہ ایوارڈ اس لئے دیا گیا کہ انہوں نے پاکستان کی تاریخ میں سب سے
زیادہ سوؤموٹو نوٹس لئے ، جوڈیشل ایکٹوازم کا حد سے زیادہ مظاہرہ کیا اور
جو کام قانون ساز اداروں اور عوامی نمائندوں کے کرنے والے تھے، ان پر اپنی
اجارہ داری قائم کرنے کی کوشش کی ۔ایسا کسی مہذب سو سائٹی اور منتخب حکومت
کے ہوتے ہوئے نہ تو ہوتا ہے اور نہ ہی ایسا ہونا چاہئے۔ہر ادارے کا اپنا طے
شدہ قانونی دائرہ کار ہوتا ہے۔اگر انہیں اپنے فرائض ادا نہ کرنے دیے جائیں
تو پھر ان اداروں کی افادیت ہی ختم ہو کر رہ جاتی ہے۔اگر کسی ملک میں فوج
اورعدالتیں خود ہی یہ فیصلہ کر لیں کہ ہمیں کیا کرنا ہے،انصاف کے حصول کے
لئے دوسرے ادارے خود ہی اپنے آپ کو خود مختار سمجھنا شروع کر دیں ،یہاں تک
کہ ان کا ہر عہدیدار اپنے آپ کو ماورائے آئین سمجھتا ہو ، وہاں کونسا ادارہ
اور کون سی حدود رہ جاتی ہے؟
معزز کا تقدس اپنی جگہ لیکن اگر بعض ججوں کی کارکردگی پر غور کیا جائے تو
افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔اگر کسی جج کا ججمنٹ کرنے کا اصول یہ ہو کہ سامنے
کھڑے ملزم اور مدعی کی حرکات و سکنات اور شکل سے اندازہ لگا تے ہوئے فیصلہ
کرے تو یہ عمل قابل قبول نہیں ہو سکتا۔ عدالتوں میں بعض ججوں کو ریمارکس کا
شوق عام ہے ،اس میں سامنے کھڑے ہوئے لوگوں کی تذلیل کا کوئی پہلو نہیں
چھوڑا جاتا۔ایک دور تھا جب جج گھونگٹ نکال کر بیٹھتے تھے اور عدالتی اوقات
کار کے بعد سماجی لحاظ سے راہبانہ زندگی گزارتے تھے،وہ جج پسندیدہ ہوتے جو
خود نہ بولیں ،بلکہ ان کے فیصلے بولیں۔وقت کے ساتھ سب کچھ بدل چکا ہے۔ جج
حضرات مختلف تقریبات میں شریک ہوتے اورتقاریر بھی کرتے ہیں۔ مجرموں کو ان
کی تمام ذاتی معلومات تک کی خبر ہوتی ہے کہ یہ کب کہاں جا رہے ہیں اور ان
سے کیسے ملا جا سکتا ہے۔
عدالت کے بارے میں عمومی کہا جاتا ہے کہ یہ انصاف مہیا کرنے کے لئے قائم کی
گئی ہیں، جبکہ اس عمومی تصور کے برعکس درحقیقت عدالتوں کا کام انصاف کی
بجائے قانون کی عملداری ہے۔ عدالتوں کے معمولی اہلکار سے لے کر اعلیٰ منصف
تک سب جانتے اور مانتے ہیں کہ عدالتیں اپنے فیصلے بنیاد ’’انصاف‘‘ کی بجائے
’’قانون ‘‘ کے تحت دیتی ہیں ۔ اس جواب کی وضاحت یہی ہو گی کہ انصاف ایک
مجرد لفظ کی بجائے قوانین و ضابطوں کا محتاج ہے ۔انصاف کے لئے ان قوانین سے
ہی رجوع کرنا پڑتا ہے جو انصاف مہیا کرنے کے لئے وضع کئے گئے ہیں ،لیکن
دنیا کا کوئی بھی وکیل اس حقیقت کا جواب نہیں دے پائے گا کہ کائنات میں
جاری فطری قوانین کی ہم آہنگی انسانوں کے لئے جس توازن ، عدل اور انصاف کی
جانب رہنمائی کرتی ہے ،وہ ہم آہنگی دیگر فطری قوانین کی طرح انسانوں کے لئے
یکساں کیوں نہیں ؟اگر انصاف اور انسانی حقوق سے متعلقہ عالمی اداروں کے
مطابق تمام انسان یکساں ہیں، تو دنیا کے ہر ملک اور ہر ملک کے اندر مختلف
ریاستوں میں انصاف کے لئے وضع قوانین مختلف کیوں ہیں؟
جواب سادہ سا ہے کہ مخلوق کی بھلائی کے لئے توازن ،عدل اور انصاف کی بنیاد
پر خالقِ حقیقی کے بنائے گئے قوانین ، خالق کے وجود کے منکرین اور باغیوں
کی نفسانی و حیوانی خواہشات کی راہ میں ایسی دیوار ہیں جنہیں توڑے بغیر
حیوانیت کی تسکین نہیں ہو سکتی ،یہ جہاں جہاں بھی قوت و طاقت کے مالک ہیں،
وہاں ان کا تصورِانصاف بھی اپنا ہے اور اس کی تعبیر و تشریح بھی ذاتی ہے ۔جس
طاقت کے بل پر یہ نفسانی خواہشات کے مطابق قوانین بناتے ہیں ،اسی قوت کے بل
پر یہ حسبِ ضرورت قوانین توڑتے اور بدلتے رہتے ہیں ۔اسی وجہ سے انصاف کے
متلاشی بالآخر عدالتی کارروائی سے بددل ہو جاتے ہیں ، انصاف کے نام پر
انصاف کی سرِ عام عصمت دری کے باوجود ’’انصاف‘‘ کا کوئی امکان نظر نہیں
آتا،پھر انہیں آخری آزمودہ حربہ اپنانے کو کہا جاتا ہے، جس کی بنیاد پر
مغربی دنیا کا عدالتی نظام قائم و دائم اور رواں دواں ہے ،وہ حربہ جس کا
نام ’’اقرارِ جرم‘‘ ہے!
عدالتی نظام میں انصاف کا خون بہانے کا سب سے مؤثر ذریعہ تفتیشی انسپکٹر
اور سرکاری وکیل ہیں۔ کسی شخص کو مجرم بنا دینا تفتیشی افسر کا بائیں ہاتھ
کا کھیل ہے ۔ الزام لگانے والے کے ساتھ ہو تو اسے بچنے کے تمام طریقے بتائے
جائیں گے اور اگر مجرم ہو تو اس پر تمام صورت حال واضح کی جائے گی کہ کیسے
کسی کے سر جرم تھوپنا ہے ۔اسی طرح کا ایک واقعہ میں انسپکٹرجس شخص پر الزام
عائد کیا گیاتھا،اُس کا تفتیش کے دوران بخوبی علم ہو چکا تھا کہ وہ بے گناہ
ہے،مگر کیونکہ کیس کو نمٹانا تھا اور دوسرے فریق کی مدد کرنا تھا،انسپکٹر
نے پہلے فریق کو بڑے بھولے پن سے کہا کہ آپ ایک عزت دار شخص ہیں،اپنی عزت
بچائیں ،کیونکہ اب آپ پر الزام لگ چکا ہے اور الزام لگانے والا بوڑھا ہے ،جج
نے اس کی شکل دیکھتے ہوئے آپ کی بات سے اتفاق نہیں کرنا ،آپ اقرار جرم کر
لیں،ضمانت ہو جائے گی،ورنہ مجرم ہو جاؤ گے۔جب ایک شریف آدمی ان درندہ صفت
لوگوں کے شکنجے میں یہ سوچے گا کہ بھلے میں معصوم ہوں ، ان کے گھیراؤ سے
کیسے نکلوں اور اپنی عزت بچاؤں،تو نہ چاہتے ہوئے بھی’’اقرارِ جرم‘‘ کر لیتا
ہے اور نا کردہ جرم کی سزا بھگتا ہے۔
یہ ہے ہمارے عدالتی نظام کا پہلا قدم ،جس نظام کی بنیاد عدل و انصاف کی
بجائے دہشت و لوٹ مار ہے ۔کیازبردستی’’اقرار جرم‘‘ کروانے کا طریقہ اپنانے
والے سسٹم میں کام کرنے والے ہر پل جرم کا اقرار نہیں کرتے!!! |