لاہور میں حکومتی گڈ گو ر ننس کا چہرہ کھل کر سا منے آ
رہا ہے۔ سٹر یٹ کر ا ئم کے معاملے میں لا ہو ر بہت تیز ی سے کر ا چی جیسے
حا لات کی طرف گا مزن ہے۔عید پر چو روں اور ڈاکوؤں نے جس شا ند ا ر انداز
میں عید منا ئی اس سے گڈ گو ر ننس کا بھر م مکمل ٹوٹ گیا ہے۔لاہور کا کو ئی
علا قہ ا یسا نہیں جو ڈاکو ؤ ں سے محفو ظ رہا ہو۔ہر طرف ایک جیسی صو ر تحا
ل۔ پو لیس سے لو گ ا نتہائی ما یو س۔ بالکل اعتماد نہیں۔تھا نے وا لو ں کی
کوشش ہو تی ہے کہ ڈکیتی کا پر چہ درج نہ ہو۔ اگر کبھی پرچہ درج ہو جا ئے تو
ملز م کبھی نہیں ملتا مگر مد عی کا پولیس کے ہاتھو ں برا حال ہو جا تا ہے۔
ڈاکو کم پو لیس زیادہ خر ا ب کر تی ہے۔ ڈاکو توایک دفعہ عزت خراب کرتے ہیں
مگر پولیس اک عمر تفتیش کے بہانے ذلیل اور رسوا کرتی ہے۔
عید سے دو دن پہلے میر ے بچے عید کی خر یداری کر کے گھر واپس آ رہے تھے ۔
شوکت خانم ہسپتال سے پہلے ایک مو ٹر سا ہیکل جس پر دو نوجو ان سوار تھے اور
انہوں نے کپڑے سے منہ چھپا یا ہوا تھا ، گا ڑی میں جھا نکنے لگے۔ پھر انہوں
نے پیچھے کچھ اشارہ کیا۔ میر ی بیٹی نے غو ر کیا گاڑی کے پیچھے بھی ایک مو
ٹر سا ہیکل تھی ۔دو نوں مو ٹر سا ہیکلوں پر بیٹھے چا روں نو جوا نوں نے منہ
چھپا ئے ہو ئے تھے اور مو ٹر سا ہیکل بغیر نمبر پلیٹ۔ اس نے شور مچا یا
ڈاکو آ گئے بھا ئی گا ڑی بھگاؤ۔اسی دوران مو ٹر سا ہیکل والے نے گا ڑی
رکوانے کی کو شش کی مگر یہ تیز چلاتے کسی طر ح چوک تک پہنچنے میں کا میاب
ہو گئے۔ ایک طرف ٹریفک پولیس کے چار پانچ لوگ کھڑے تھے ۔ یہ گاڑی ان کے پاس
لے گئے ایک مو ٹر سا ہیکل آگے نکل گیا دوسرا واپس مڑ گیا یوں یہ لوگ سلامت
گھر پہنچنے میں کا میاب ہو ئے۔
عید سے اگلے دن میرا بیٹا اپنے دوستوں کے ہمرا ہ پھر رہا تھا۔ رات نو بجے
اس نے اپنے ایک دوست کو گارڈن ٹاؤن میں اس کے گھر جو بر کت مارکیٹ میں
KFCکے ساتھ ہے ، اتارا۔ دوست گھر کے اندر چلا گیا۔ اب یہ دو لوگ رہ گئے تھے۔
یہ گاڑی واپس موڑ رہے تھے کہ دو نوجوانوں نے پستول دکھا کر ان سے سب کچھ
چھین لیا۔ میرے بیٹے کے پاس دو تین ہزار روپے اور بلیک بیری کا ا یک پرانا
سا موبائل فون تھا۔ پیسے انہوں نے رکھ لئے موبائل واپس کر دیا اور نیا اور
اچھا لینے کا مشورہ دیا۔دوست سے پچیس ہزار روپے اور دونئے موبائل جن کی
مالیت ایک لاکھ سے زیادہ تھی لئے ،دونوں کو گاڑی سے باہر نکالا، گاڑی لاک
کی اور چابی لے کر مو ٹر سا ہیکل پر بھا گ گئے۔ فوری لوگ اکٹھے ہو گئے۔ کچھ
نے پولیس بلانے کا مشورہ دیا مگر نوے فیصد کی رائے تھی کہ پولیس کے ہاتھوں
مزید ذلت سے بچا جائے،۔ مزے کی بات میرے بیٹے کا دوست حال ہی میں ریٹائر
ہونے والے پولیس کے ایک آئی جی کا بیٹا ہے۔
عید سے اگلے دن ہی کی بات ہے، لاہور کے ایک نامور سیاستدان کی بہو کو اپنے
بھا ئیوں کے ساتھ کہیں جانا تھا۔ بھائیوں نے فون کیا کہ وہ گھر کے دروازے
پر پہنچ گئے ہیں وہ باہر آ جا ئے۔ بہن جلدی جلدی تیار ہو کر باہر نکلی۔
دروازہ بند کیا اور دیکھا بھائیوں کے چہرے اترے ہوئے ہیں اور دو انجان لوگ
ان کے ہمراہ ہیں۔ وہ مسکراتی ہوئی آگے بڑھی اور بھائیوں سے پوچھاکہ ان کی
شکل کیوں بنی ہوئی ہے۔ اتنے میں انجان لوگوں میں سے ایک نے پستول اس کی کمر
سے لگایا، سونے کی چوڑیاں اتروائیں، پرس چھینا اور یہ جا وہ جا۔ اب بہن کی
شکل بھی بھائیوں کی طرح بنی ہوئی تھی۔
یہ کوئی ایک یا دو قصے نہیں۔ لاہور کے ہر محلے اور ہر خاندان میں ایسے ملتے
جلتے بے پناہ واقعات ملیں گیا اور صورتحال کراچی کی طرح بگڑتی جا رہی ہے۔
پولیس کا اپنا ہی اک الگ انداز ہے۔ پو لیس کے متحر ک جوان تو VIP ڈیوٹی پر
ہوتے ہیں با قی سستی اور کا ہلی ہے جو عو ا م کے حصے میں آتی ہے۔دو دن پہلے
ماڈل ٹاؤن کی ایک سڑک پر مجھے آگے جانے سے روک دیا گیا۔ پولیس کی چھ سات
گاڑیاں کھڑی تھیں جن کے ساتھ چالیس کے قریب پولیس کے جوان تھے۔پتہ چلا کوئی
اہم شخص کسی سے ملنے آئے ہیں اور یہ اتنی بڑی تعداد میں پولیس ملازمین ان
کے ساتھ ڈیوٹی پر ہیں۔ ایک فرد واحد کے لئے اتنے زیادہ پولیس والے۔ عوام کے
تحفظ کے لئے پولیس کہاں سے آئے گی۔
لاہور کے VIP روٹ والی سڑک پر ایک نالہ ہے جس کے کنارے میرے ایک دوست کا
دفتر ہے۔ دفتر سے ملحق دو کمرے ملازمین کے ہیں جن میں وہ رہتے ہیں۔ میں جب
بھی ان کمروں کے پاس سے گزرا ایک یا دو پولیس والوں کو وردی اور اسلحے سمیت
ملازموں کی چارپائیوں پر سویا ہوا پایا۔میں نے ہنس کر ایک دن پوچھا، بھائی
لگتا ہے پولیس کا کوئی بڑا افسر آج کل تمھارا دوست ہے جو مسلح پولیس ہر وقت
مستقل حفاظت کے لئے تمھارے دفتر میں ہوتی ہے۔ ہنس کر کہنے لگا یہ میری نہیں
ساتھ والے پل کی مستقل حفاظت کے لئے ہے۔ پل پر نہ تو بیٹھنے کی جگہ ہے اور
نہ ہی ایک دو پولیس والے اس پل کی حفاظت کر سکتے ہیں۔ بیچارے گرمی سے بچنے
کے لئے میرے دفتر آ جاتے ہیں اور آٹھ دس گھنٹے خوبصورت نیند کے مزے لے کر
ڈیوٹی پوری کر لیتے ہیں۔یہ وہ تھکی ہوئی پولیس ہے جو عوام کے حصے میں آتی
ہے اس پولیس کی نیند ہی پوری نہیں ہوتی عوام کی خدمت کیا کرے گی۔
چند سال پہلے میں کراچی میں تھا۔ کراچی کے ایک دوست کے ہمراہ ہم ایک سڑک سے
گزر رہے تھے کہ میں نے کسی کو فون کرنے کی غرض سے موبائل نکالا۔ میرے دوست
نے گھبرا کر شور مچادیا،موبائل جیب میں رکھو۔ مگر کیوں؟ جواب ملا نہیں رکھو
گے تو فقط چند لمحوں کی بات ہے کوئی نہ کوئی اسلحہ دکھا کر چھین لے جائے
گا۔ بعد میں پتہ چلا کہ رقم اور موبائل چھین لینا تو کراچی میں ایک معمول
ہے۔ گو لاہور میں حالات ابھی اتنے بگڑے نہیں مگر صورتحال کچھ اچھی بھی
نہیں۔
چند سال پہلے تک لوگ پولیس کی کارکردگی کے حوالے سے اصلاح کی بات کرتے تھے۔
مگر آج کی پولیس ناقابل اصلاح ہو چکی ہے۔ سب سے افسوسناک بات لوگوں کا
پولیس پر اعتماد نہ ہونا ہے۔ ادارے جب اعتماد کھو دیتے ہیں تو تباہ ہو جاتے
ہیں۔ اس وقت اصلاح کی نہیں تطہیر کی ضرورت ہوتی ہے۔ پولیس سے سیاسی عناصر
کو الگ کرنا ضروری ہوتا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری پولیس میں بہت
زیادہ سیاسی بھرتی موجود ہے جو اصل میں بہت سی خرابی کا باعٹ ہے۔پولیس میں
میرٹ پر پروموشن نہیں ہوتی۔ وہ لوگ جنہیں فن آتا ہے پروموٹ ہو جاتے ہیں یہ
بھی ایک المیہ ہے۔ خراب کارکردگی پر چار دن لائن حاضر کرنا اور پھر بہتر
جگہ تعینات کرنا بھی پولیس کی عظیم روایات میں شامل ہے۔ پولیس کی خراب
کارکردگی کے معاشرے پر بہت زیادہ منفی اثرات ہوتے ہیں اسلئے جو لوگ
کارکردگی نہیں دکھا سکتے انہیں دو یا تین دفعہ کی خراب رپورٹ پر فارغ کرنے
کی ضرورت ہے۔یہی صحیح معنوں میں اصلاح کا عمل ہے۔ پولیس کی موجودہ فصل
چونکہ موجودہ حکمرانوں ہی کی تیار کردہ ہے اسلئے ان سے کسی مثبت پیش رفت کی
امید رکھی نہیں جا سکتی۔ یقینا پولیس کی خراب کارکردگی اور پولیس افسروں کی
اپنی مفادات کے لئے حکمرانوں کی غیر ضروری کاسہ لیسی اس حکومت کے زوال کا
سبب ہو گی۔ |