انوکھا بدلہ
(Prof. Niamat Ali Murtazai, )
بدلہ ،لینا انسان کی سرشت میں ہے لیکن بدلہ
لینے کے انداز، واقعات، وجوہات،اور اثرات مختلف ہوتے ہیں۔بعض اوقات بدلے کا
تیر اس کمان سے بھی آلگتا ہے جس سے کبھی بھی ایسا ہونے کی توقع بھی نہیں کی
جا سکتی۔
میڈیکل کالج میں داخلہ کتنے ستاروں کا خواب ہوتا ہے لیکن کسی کسی کا یہ
خواب تعبیر کی سحر دیکھتا ہے۔آصفہ ان خوش نصیب لڑکیوں میں سے تھی جن کے
والدین اب پوزیشن میں ہوتے ہیں کہ ان پر اتنا اعتماد اور خرچ کر سکیں۔وہ
قدرتی طور پر فطین لڑکی تھی اور اسے ڈاکٹر بننے کا بچپن ہی سے شوق تھا جو
اس کی خوش قسمتی نے بہت اچھے انداز میں پورا کروایا تھا۔ اسے کسی قسم کی
فکر اور پریشانی نہ تھی۔ ماں باپ پڑھے لکھے اور مالدار تھے۔ وہ گھر میں سب
سے بڑی تھی ۔ ایک چھوٹا بھائی ابھی میٹرک میں تھا اور بس یہی دو بہن بھائی
اور والدین پر مشتمل ایک چھٹا سا خاندان بہت خوش حال زندگی کی شاہراہ پر
اپنی گاڑی مزے کی رفتار کے ساتھ دوڑائے جا رہا تھا۔
آصفہ کی زندگی میں عشق و محبت جیسی وارداتیں نہیں ہوئیں تھیں اس کی کئی ایک
وجوہات تھیں کہ اسے بہت سے لوگ پسند ہی نہ آتے تھے۔ اور وہ خود بھی اپنے آپ
کو سنبھالے رکھتی تھی۔ اپنی کئی ایک دوستوں کی محبت کی کہانیوں سے اس نے اس
فیلڈ میں آنے سے پکی توبہ کی ہوئی تھی۔اگر کوئی لڑکا اس کے قریب پھٹکنے کے
کوشش کرتا تو اسے وہ ڈانٹ پلاتی کہ اس کے طوطے اڑ جاتے اور وہ فوراً ہوش کے
ناخن لینے کی طرف مائل ہو جاتا۔دلشاد ایک ایسا ہی لڑکا تھا جس نے پچھلے سال
آصفہ کی طرف کچھ پیش قدمی کی تھی۔کسی طرح سے موبائل نمبر لے کر اس نے منچلے
سے میسج بھیجنے شروع کر دیئے تھے۔ لیکن آصفہ کو وہ کلاس فیلو بالکل پسند نہ
تھا۔ وہ کسی بھی کلاس فیلو سے ایسا تعلق نہیں بنانا چاہتی تھی۔ وہ اپنے
والدین کی اکلوتی بیٹی ہوتے ہوئے ان کے لئے کسی قسم کی پریشانی پیدا نہیں
کرنا چاہتی تھی۔ وہ اپنا کورس مکمل کر کے واپس اپنے ماں باپ کی پناہوں اور
نگاہوں میں چلی جانا چاہتی تھی۔
دلشاد کی اس حرکت سے اسے پریشانی تو ہوئی لیکن اس نے اس میں کسی کو اپنا
ہمراز نہ بنایا۔اور ماحول میں کسی طرح کی بے چینی دیکھنے میں نہ آئی۔آصفہ
کو یقین تھا کہ وہ اپنا کورس جلد ہی مکمل کر کے اپنے ماں باپ کے پاس چلی
جائے گی۔
اب ہوسٹل میں قیام کے ختم ہونے میں صرف دو ماہ کا ایک مختصر سا دورانیہ رہا
تھا۔اکثر کلاس فیلو ایک دوسرے سے بچھر جانے کے جذباتیاحساسات سے گذر رہے
تھے اور پہلے سے زیادہ بااخلاق اور ایک دوسرے کے خیر خواہ بن کے ایک دوسرے
سے مل رہے تھے۔دورانِ قیام ہونے والی کمی بیشی کا کفارہ ادا کرنے کی کوشش
کر رہے تھے۔ایسے ماحول میں پتہ ہی نہ چلا کہ کس وقت اور کس طرح نواز، آصفہ
کی گڈ بکس میں آگیا۔ وہ رومن ناک اور نیلی آنکھوں والا نوجوان آصفہ کے دل
میں یوں اترگیا جیسے فلموں میں ہیرواور ہیر وئن آن کی آن میں ایک دوسرے کے
اسیر ہو جاتے ہیں۔آصفہ کو خود بھی یقین نہ آتا کہ جس بات سے وہ اب تک بچتی
چلی آئی تھی وہ ہی ہونے کو جا رہی تھی بلکہ ہو چکی تھی۔پرھائی کی فکر
تقریباً ختم ہو چکی تھی لیکن نوا ز کے ساتھ آدھی،آدھی رات تک میسجنگ اس کی
روز کی عادت بن چکی تھی۔نواز سے جو تعارفی معلومات ملی تھیں وہ ایک کھاتے
پیتے گھرانے کا چشم و چراغ تھا۔اور ابھی تک اس کی کہیں منگنی وغیرہ بھی
نہیں ہوئی تھی اور وہ محبت کی شادی کے حق میں تھا۔ برادری بھی اتفاقاً ایک
ہی تھی۔
ہوسٹل کے قیام کے ختم ہونے میں بس چند دن رہ گئے تھے۔ آصفہ کی خواہش تھی کہ
وہ نواز سے شادی سے متعلق دو ٹوک بات کر لے تا کہ گھر جا کے وہ پورے
اطمینان کے ساتھ اپنے والدین کو اس بات پر رضامند کر سکے۔ ’شادی سے متعلق
تمھارا کیا خیال ہے؟‘اس نے دبے لفظوں میں نواز کا دل محسوس کرنے کی کوشش
کی۔ نواز نے کسی جذباتی پن کا اظہار کئے بغیر جواب دیا: ’جو تمھاری مرضی۔‘
یہ جواب آصفہ کو عجیب سا لگا لیکن بات تو پڑھے لکھوں والی تھی کہ اپنی مرضی
تو دوسرے پر مسلط نہیں کی گئی۔آصفہ کے بات کو مثبت انداز میں لیا۔ ’او۔کے‘
آصفہ نے اسے نواز کی طرف سے ہاں سے تعبیر کیا۔
آخر مستقل طور پر ہوسٹل کو الوداع کہنے کا دن آگیا۔ سب کلاس فیلو پر تپاک
طور پر آ پس میں ملے اور ایک دوسر ے کا زمینی پتہ نوٹ کرتے ہوئے اپنے اپنے
گھروں کو سدھارگئے۔
آصفہ کے میڈیکل کا کورس پورا کر کے آنے کی گھر میں بڑی دھوم دھام سے خوشی
منائی گئی۔ ساری برادری اور گلی محلے میں مٹھائیاں بانٹیں گئیں۔آصفہ کی
پرانی سکول فیلوز اور بچپن کی دوستوں نے آکر مبارک باد دی۔رشتے دار اور
ہمسائے بھی اس خوشی کا حصہ بنے۔ایک ہفتہ خوب مصرو فیت میں گزرا۔
آصفہ کے والدین اور چھوٹا بھائی تو خوشی کے ساتویں آسمان سے نیچے اتر ہی
نہیں رہے تھے۔
آخر وہی بات جو تمام والدین کو وراثت میں اور مشرقی اور برِ صغیری والدین
کو وراثت اور معاشرت میں ملی ہے یعنی اولاد کی اور خاص طو ر پر بیٹی کے
ہاتھ پیلے کرنا، چاہے بعد میں وہ نیلے ہی کیوں نہ ہو جائیں۔لیکن آصفہ نے
اپنے اعتماد اور بالکل سیدھے رستے پر چل کر بغیر کوئی فاؤل کھیلے اپنے
والدین کی رائے کو پہلے ہی اپنے ہاتھ میں کیا ہوا تھا۔ اس کے والدین اس کی
مرضی کے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کرنے والے تھے۔ان کی پسند یا نا پسند ان کی
پیاری بٹیا کی مرضی پر مدار تھی۔
باتوں باتوں میں آصفہ نے اپنے دل کی بات کہہ دی اور نواز کا سارا معاملہ
کھول کر اپنے والدین کے سامنے رکھ دیا۔ وہ جانتے تھے کہ وہ کوئی غلط فیصلے
نہیں کرتی۔ اس کی گذشتہ زندگی بار بار اس کی وکیل بن کے اس کے حق میں
استدلال کر رہی تھی۔ ماں باپ کو اولاد کی خوشی ہر چیز سے زیادہ عزیز ہوتی
ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ کبھی کبھی وہ اولاد کی نا خوشی بھی برداشت کرتے
ہیں لیکن خوشی سے نہیں۔
آصفہ کے والدین نے اس کی بات ماننے میں اتنی دیر بھی نہ لگائی جتنی دیر میں
پانی اور شربت آپس میں تحلیل ہوتے ہیں۔
اس رات آصفہ کو نیند سے کوئی آشنائی نہیں تھی۔ وہ بھول گئی تھی کہ نیند کیا
ہوتی ہے۔ اسے اتنی خوشی ملی تھی جس کی بلندی ہمالہ سے اونچی اور وسعت بحرِ
اوقیانوس سے بھی زیادہ ہو۔ اسے اتنی جذباتی تسکین میڈیکل کا کورس مکمل کر
کے بھی نہ ہوئی تھی۔ اسے ایسے لگا جیسے اس نے زندگی کا سب سے بڑا گول سکور
کیا ہو، کوئی ریاست فتح کر لی ہو ، یا وہ کسی ملک کی شہزادی بن گئی ہو۔وہ
آخری دو ماہ کی شکر گذار ہو رہی تھی جنہوں نے اسے نواز ملایا تھا۔
اس نے فوراً نواز کو کال کی اور ایک لمبی کال میں اتنی باتیں کیں جیسے وہ
کوئی الف لیلہ ہزار داستان شروع کر بیٹھی ہو جو اب ختم ہونے کا نام ہی نہ
لی رہی ہو۔نواز نے بھی اس بات پر خوشی کا اظہار کیا۔ اور پھر دونوں نے اپنے
والدین کو ملانے اور لومیرج کو ارینجڈ میرج میں ڈھالنے کی کوشش کرنے کا
اہتمام کیا تا کہ ایک تیر سے دو نشانے ہو جائیں یا آم کے آم اور گٹھلیوں کے
دام ہو جائیں۔ دونوں کی خوش قسمتی ڈرامائی طور پر دونوں کا ساتھ دے رہی
تھی۔آصفہ کو اپنی زندگی ایک پرسکون لمبی شاہراہ کی طرح لگ رہی تھی کس میں
کوئی اونچ نیچ یا ٹوٹ پھوٹ نہ ہو۔
آصفہ اور نواز کی شادی ایسی تھی جیسے آسمان پر مشتری اور عطارد کا ملن ہو
۔ہر کوئی ایسی شادی کی تمنا کر رہا تھا۔’ایسے خوش نصیب بھی کوئی کوئی ہوتے
ہیں ہر کسی کو ایسی خوشی کہاں ملتی ہے۔آصفہ تو ہے ہی نصیبوں والی، ہمیشہ
قسمت نے اس کا ساتھ دیا ہے، نئی بھئی اس نے محنت بھی تو خوب کی ہے نا‘۔
’کسی کی نظر نہ لگ جئے دلہا دلہن کو۔‘سارا محلہ اور برادری آج آصفہ اور
نوازہی کی باتیں کر رہے تھے۔والدین نے جہیز دینے میں کوئی ارمان رہنے نہیں
دیئے تھے۔ دنیا کی ہر چیز دینے کی کوشش کی گئی۔
شادی خانہ آبادی کو ایک سال سے اوپر ہوگیا تھا۔ آصفہ پہلی ڈلیوری کے لئے
اپنے ماں باپ کے یہاں آئی ہوئی تھی۔ا سے یہاں آئے دو ماہ ہو چکے تھے ان دو
ماہ میں نواز ایک بار بھی ادھر نہ آیا تھا۔فون پر بات بھی مختصر ہی ہوتی
اور اکثر وہ فون اٹنڈ ہی نہ کرتا اور جب کرتا تو واضح پتہ چلتا کہ بہانہ کر
رہا ہے۔ آصفہ ان ساری باتوں کو اپنے والدین سے چھپا کے رکھ رہی تھی۔اور
اپنے پاس سے باتیں جوڑ جاڑ کے ماں باپ کو مطمئن کر لیتی۔ لیکن اسے نواز کے
رویے میں واضح تبدیلی محسوس ہو رہی تھی جسے وہ کسی سے شیئر نہیں کر سکتی
تھی۔
آخر اس نے ایک بچی کو جنم دیا،جو کہ بڑے اپریشن سے ہوا۔اس کیفیت میں بھی
ڈاکٹر نواز صاحب نے اپنی بیوی اور ہونے والی بچی کے پاس ہونا ضروری نہ
سمجھا۔ پتہ نہیں نواز کو ہو کیا گیا ہے، یک دم اتنی بڑی تبدیلی تو آصفہ کی
سوچ کے کناروں کے پاس سے بھی نہ گزری تھی۔اب اپریشن کی کمزوری اس کی
پریشانی کا بہانہ تھی لیکن سمجھنے والے تو سمجھ ہی لیتے ہیں۔’ میاں بیوی کے
معاملات ٹھیک نہیں رہے، خیر کوئی بات نہیں، ہر جوڑے کی زندگی میں ایسے
طوفان ضرور آتے ہیں، آہستہ، آہستہ سنبھل جائیں گے۔‘ لوگ ایسی ویسی باتیں
کرتے۔
ابھی ڈلیوری کو دس دن ہی ہوئے تھے، آصفہ پوری طرح بحال بھی نہ ہو پائی تھی
کہ ایک دن وہ نواز میں آنے والی اس تبدیلی کے گردباد میں کھوئی ہوئی تھی کہ
ایک ملازمہ ایک خط لے کے آئی۔آصفہ کے دل پر اسے دیکھتے ہی ایک مکا سا لگا۔
’ہائے اﷲ یہ کیا ہے ‘ اسے کبھی خط نہیں آیا تھااور اس کی چھٹی حس اس کے
ساتھ ہونے والی ٹریجڈی کا احساس پہلے ہی اس کے دل میں پختہ کئے جا رہی
تھی۔بڑی آہستہ، آہستہ اس نے خط کا لفافہ ایک کنارے سے پھاڑا۔ اسے ایسے لگا
جیسے اس کی زندگی بھی کسی نے ریزہ، ریزہ کر دی ہو۔ خط کو پڑھتے ہی اس کے
حواس غم ہو گئے۔نوکرانی مالکن،مالکن پکارتی باہر کو بھاگی تا کہ کسی کو بلا
کے لائے کہ آصفہ بے ہوش ہو گئی ہے۔خط میں لکھا تھا:
’میں نواز ولد سراج ، اپنی بیوی آصفہ کو یک بار تینوں طلاقیں دیتا ہوں۔
آصفہ ،مجھے تم سے کبھی بھی محبت نہیں تھی۔ میں نے پچھلے دنوں اپنی کلاس
فیلو سلمیٰ سے شادی بھی کر لی ہے اور اس کے ساتھ اب میں بیرونِ ملک جا رہا
ہوں۔ تمھارا جہیز میرے گھر میں تمھاری امانت ہے جب چاہے گاڑی بھیج کے منگوا
سکتی ہو۔ جہاں تک اس پیدا ہونے والی بچی کا معاملہ ہے میں اس کی ذمہ داری
قبول کروں گا۔ جب تک چاہو بچی اپنے پاس رکھ لو اور جب دل بھر جائے میرے
والدین کے یہاں چھوڑ جانا۔مجھے تم سے نہیں سلمیٰ سے محبت تھی میں نے تو
اپنے دوست دلشاد کی انسلٹ کا بدلہ لینے کے لئے یہ سب کچھ کیا۔
ڈاکٹر نواز |
|