ناہید‘ کسی زمانے میں بڑی فیشن
ایبل ہی نہیں‘ منہ متھے لگتی خاتون تھی۔ میڈیکل پیشہ سے تعلق رکھتی تھی۔
بہن بھائیوں کی خدمت گزار تھی۔ اسی وجہ سے‘ اس کی ضرورت سے زیادہ عمر تک‘
شادی نہ کی گئی۔ سب کو شک تھا‘ کہ وہ شادی کے بعد ان کے لیے ناکارہ ہو جائے
گی۔ اس شک کی اہمیت‘ شک سے زیادہ نہ تھی۔ شادی کے بعد‘ وہ پہلے سے کہیں بڑھ
کر‘ان کے لیے مفید ثابت ہوئی۔ اس کی شادی‘ گویا لاٹری لگنے سے‘ کسی طرح کم
بات نہ تھی۔ سب کے بھنے اگ آئے۔ انہیں جلد شادی نہ کرنے کا پچھتاوا ہی رہا۔
شادی کے بعد‘ ہوم اسٹیشن پر تبادلہ کروا لیا گیا۔ سارا دن مختلف نوعیت کے
مریضوں سے واسطہ رہتا۔ گھر آتی‘ تو تھکن سے چور ہوتی۔ کچھ سال خاوند کے آنے
تک‘ ماں کے گھر بسیرا رکھتی۔ اس کے آنے کے قریب‘ گھر چلی آتی۔ ازاں بعد‘
دوسرے چوتھے‘ جانے لگی‘ تاہم ان کی خدمت گزاری میں‘ کمی نہ آنے دی۔ مریضوں
کے ساتھ‘ وقت گزارنے کے سبب‘ کئی ایک بیماریوں کا اسے شک گزرتا۔ اکثر
اوقات‘ خود کو ان میں مبتلا بھی سمجھتی۔ کھانا کھانے کے دوران‘ ان کا تذکرہ
کرتی۔ جب خاوند تھکن یا اپنی علالت کا تذکرہ کرتا‘ تو اپنی پان سات
بیماریوں کا رونا لے بیٹھتی۔ اس طرح خدمت ایسی لایعنی اور بےثمر مشقت سے بچ
جاتی۔
وہ پنج وقتہ نمازی تھی۔ ہر غریب بہن اور بھائی کے لیے‘ نرم گوشہ رکھتی تھی۔
وہ انہیں‘ تنگ دست نہیں دیکھ سکتی تھی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد‘ نماز روزے کی‘
اور بھی پابند ہو گئی۔ پھر حج کیا۔ حج نے‘ اسے تسبع بردار بنا دیا۔
بیماریوں کا احساس شدت اختیار کر گیا۔ ملنساری میں ہرچند اضافہ ہی ہوا۔ ہاں
ملنے والیوں میں‘ بیمار خواتین کا تناسب‘ پہلے سے کہیں بڑھ گیا تھا۔ جب
بیٹھتیں‘ جہاں اردگرد کے لوگوں کی‘ کم زوریوں کو زیر بحث لاتیں‘ وہاں خاوند
اور سسرالی رشتہ داروں کی ہر پوشیدہ خامیوں کا‘ اس تاکید کے ساتھ‘ کہ کسی
سے بات نہ کرنا‘ تذکرہ کرتیں۔ بعض اوقات‘ آنکھوں کو بھی زحمت دیتں۔ سننے
والیاں‘ ہاتھ مل مل کر‘ توبہ توبہ کر اٹھتیں۔ ناہید ابتدا میں‘ معدہ کی
ناکارہ کارگزاری کا رونا روتی تھی۔ بعد میں‘ شوگر اور بلڈ پریشر کی بھی‘
شکایت کرنے لگی۔ اس سے‘ کارگزاری میں فرق تو آیا ہی‘ لیکن مزاج میں بھی
بدلاؤ آ گیا۔ اپنے سگے بھائیوں کو‘ نبی قریب سمجھنے لگی‘ اور ہر بہن میں
رابعہ بصری کی روح حلول کرتی نظر آئی۔ خاوند کی بیماری اور دکھ میں بہانے
کی جھلک صاف دکھائی دینے لگی۔
صابراں کے متعلق‘ کوئی زیادہ معلومات دستیاب نہیں ہیں ہاں دوڑکی چال کی
ہمشیہ سے قائل و مائل رہی تھی۔ زاہد‘ اس کا مجازی خدا‘ پہلے پہل بڑی اڑی
کرتا تھا۔ آخر اس چال میں ہی اس کو‘ گھر کا قدرے سکون میسر آیا اور پھر‘
دوڑکی چال چلتا لحد میں اتر گیا۔ الله اسے غریق رحمت کرئے‘ گمان رکھتا تھا‘
صابراں اس کی مطیع اور فرماں بردار ہے۔ خوش فہمی‘ بلاشبہ‘ سکون کا سبب رہتی
ہے۔ وچاری کے‘ پہلے دانت گیے‘ خوب کھا پی کر بھی‘ بھوک میں رہتی تھی۔ شوکر
کا کچھ نہ پوچھیے‘ سر درد اور فشار خون کا غلبہ رہتا۔ بھلا ہو بیماریوں کا‘
جو ناہید سے گہری سانجھ کا سبب بنیں۔ یہ اسی کا فیض خصوصی تھا‘ جو ناہید کا
خاوند دوڑکی سیکھ رہا تھا۔ جلد سیکھ جائے گا۔ سیکھ گیا تو آسان موت مرے گا‘
ورنہ سسک سسک کر دم دے جائے گا۔
سیما المعروف ہیمامالنی‘ دونوں ہاتھوں کی انگلیوں سے زیادہ‘ غیر رجسڑڈ اور
چار رجسڑڈ ناہنجار مردوں کو طلاق دے چکی تھی۔ ایل ایچ وی ہونے کے ناتے کسی
بچے کو‘ دنیا میں آنے ہی نہ دیا۔ وہ دنیا کی تلخیوں سے‘ خوب خوب آگاہ تھی
اسی لیے وہ یہ‘ بالمعاوضہ پن کما رہی تھی۔ اسے گنتی اور حصولی میں کمال کی
مہارت حاصل تھی۔ اب تو وچاری‘ چلتی پھرتی صحت مند ہوتے‘ بیماریوں کی گرفت
میں آگئی تھی۔ علالت کی سانجھ نے‘ متضاد ذہنیت رکھتے ہوئے‘ اسے ناہید کے
قریب کر رکھا تھا۔ یہ اسی کی کرامت ہے‘ کہ ناہید کے شوہر کی پوچھل‘ ٹھہراؤ
کی شکار نہ ہوئی تھی۔ وہ وہ کوڑیاں تلاش لاتی‘ جن کے علم سے‘ عزازئیل بھی
بہراور نہ رہا ہو گا۔ حج‘ نماز‘ روزہ وغیرہ کے قریب آ گئی تھی‘ لیکن بجلی
کی چوری وغیرہ کو الگ معاملہ سمجھتی تھی۔ اس کے نزدیک‘ یہ فعل کارکشا بڑے
بڑے قلغیوں والے کرتے ہیں۔ اس کی ایک چھلنی وزن اونٹ کا کیا بگاڑے گا۔
کریما بھی‘ اس کی بیمار سنگی تھی۔ اپنی عیش کوشی پر‘ پردہ‘ ناصرف اس کی
زبان کی قنچی ڈال دیتی‘ بلکہ اس سے خاوند کی ٹنڈ بھی کرتی رہتی۔ بہن
بھائیوں سے الٹی سیدھی باتیں کرکے‘ لفظوں کا تیزاب برساتی رہتی۔ چھوٹے بچوں
کو‘ اسے ہلانے پرآمادہ کرتی۔ جب وہ ہلتا‘ تو وہ کیا‘ سارے بڑے لطف اندوز
ہوتے۔ چوری اور لگائی بجھائی میں‘ شاید ہی کوئی‘ اس کا ثانی رہا ہو گا۔
ہوتے ہوئے‘ مانگنے میں عار محسوس نہ کرتی تھی۔ ہے نا‘ اس کی زندگی کا پہلا
اور آخری اصول تھا۔ دوسری تیسری بار نہ دینے والے کی‘ گردن کاٹنے کا موقع
تلاش کرتی رہتی ۔
اس میں اس کا کوئی قصور نہ تھا۔ وہ وچاری فطرتا اور عادتا ہی ایسی تھی۔ اگر
اس کی شادی‘ اس کے یار خاص‘ الیاس سے بھی ہو جاتی‘ تو بھی اس سے مختلف نہ
کرتی۔ اس کے دونوں بچے‘ جوان ہو چکے تھے۔ اب غیروں سے‘ طفیل کی عزت افزائی
کی حاجت نہ رہی تھی۔ اس کی بیٹی‘ عروسہ ہی باپ کی چھترول کے لیے‘ کافی تھی۔
باپ کی ہر دوسرے تیسرے بہہ جا بہہ جا کرا دیتی۔ وچاری کریما کو شروع سے‘
بہت ساری بیماری نے گھیر رکھا تھا۔ پیٹ جو پھولا نہیں تھا‘ ضرورت سے زیادہ
پھول گیا تھا۔ ہر وقت منہ میں گینس گینس کا کلمہ رہتا۔ شوکر کے ساتھ ساتھ
سانس میں بھی‘ پرابلم محسوس ہونے لگا تھا۔ خود ساختہ اور خود معلوم بی پی
نے‘ اس کے ناک میں دم کر رکھا تھا۔
شاہدہ شروع سے‘ ماشاءالله صبر کتی تھی۔ ناک کی نتھلی اسے خوب سجتی تھی۔ گھر
میں سب سے چھوٹی ہونے کے ناتے‘ اولاد کی اولاد ہونے کے بعد بھی‘ اس کی بچوں
کی سی عادتیں نہ گئی تھیں۔ ہر آنے والے سے جھڑنے کی توقع کرتی۔ سیر سپاٹے
کی رسیا تھی۔ کہیں جانے کا بہانہ تلاش ہی لیتی۔ جہاں جاتی‘ وہاں سے کچھ
ناکچھ لانا‘ اسے خوش آتا۔ زبان کی بڑی صاف ستھری تھی‘ یہ ہی وجہ تھی کہ ہر
کوئی‘ اس سے بات کرتے ڈرتا تھا۔ عمر میں چھوٹی ہونے کا‘ خاوند سے لابھ
اٹھاتی رہتی۔ کوکب تگنی کا ناچ‘ ناچ رہا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ‘ وہ اس
میں تاک ہو گیا تھا۔ مزے کی بات یہ کہ وہ اپنے اس ہنر سے آگاہ نہ تھا۔
شاہدہ گوڈوں گٹوں کے درد کا شکار ہو گئی تھی۔ پاؤں سوجھنے لگے تھے۔
بیماریوں کے اشتراک کے سبب اس کی ناہید سے خوب بنتی تھی۔
جھوٹ والی بات ہے‘ کہ شبو معمول میں‘ چار لوگوں کا کھانا کھاتی تھی اور اسے
ہیشہ کم خوری کی شکایت رہتی۔ تجاوزی خوراک لے کر بھی‘ سارا دن کچھ ناکچھ
چرتی رہتی۔ دن میں دو تین گھنٹے‘ بآواز بلند خاوند کے ساتھ نعرے بازی کرتی۔
وہ اس پر جان چھڑکتا اور شبو نے‘ کبھی بھی اسے اپنا نہ سمجھا۔ دونوں ہاتھ
بھرے آتا‘ لیکن شبو کے منہ پر ہمیشہ ناشکری کے کلمے رہتے۔ ہاں البتہ‘ اس کی
کوشش ہوتی‘ کہ اپنے احمق خاوند کو نچوڑ کر‘ باپ کا گھر بھر دے۔ اس کا باپ
نام کو عباس‘ لیکن کام کو ‘ شیطانوں کا آئی جی تھا۔
شبو کو پیٹ کے پتھر ہو جانے‘ بی پی ہائی ہونے اور سردرد کا روز اول سے گلہ
رہا۔ خاوند کبھی بیمار پڑتا‘ تو کہتی بیٹھک میں ٹھیک ٹھاک بیٹھے ہوئے تھے
یہاں آتے ہی بیماری پڑ گئی ہے۔ میں نے تمہیں بیمار کیا ہے‘ کہنے میں عار نہ
سمجھتی۔ سوئے ہونے کا ناٹک بھی خوب جانتی تھی۔ ہاں اپنی بیماری کا‘ ہر وقت
رونا روتی رہتی۔ تندرست بہن بھائیوں اور مائی باپ کی بیماریوں اور
بےچارگیوں کا اسے گلہ ہی رہتا۔ خاوند کے گھر آنے سے کچھ پہلے‘ سر پر پٹی
باندھنا نہ بھولتی۔ شبو‘ ناہید کی حریف بیمار تھی۔ وہ اظہار بیماری میں ہر
سطح پر سبقت لے جانا چاہتی تھی۔ جب ناہید اپنی بیماری کا مرتبہ بلند کرتی‘
تو اسے سخت غصہ آتا اور پھر زبان طرازی کے رن میں اتر آتی۔ ناہید اگرچہ اس
حوالہ سے کم زور نہ تھی‘ لیکن زنانہ و مردانہ اعضا کی گل کاریوں میں اس کے
برابر نہ تھی۔
نمونہ کی چند ایک بیمار خواتین کا ذکر کیا گیا ہے‘ ورنہ ناہید کے
حلقہءادارت میں بیمار خواتین کی کمی نہ تھی۔ ایک سےایک بڑھ کر‘ بیمار خاتون
موجود تھی۔ ہر ایک کو‘ اپنے جسم وجان سے متعلق بیماری کا خوب خوب علم حاصل
تھا۔ کچھ تو اس ذیل میں زیادہ ہی علم وفضل کی مالک تھیں۔ بیماریوں کی ذیل
میں ان کی تشبہات اور استعارے بڑے ہی فصیح وبلیغ ہوتے۔ کتنی عجیب بات ہے‘
ان میں سے کسی کو اپنی اخلاقی و روحانی بیماریوں کا علم تک نہیں۔ نشان دہی
کرنے کی صورت میں‘ نشان دہندہ کے کھاتے میں وہ وہ اخلاقی و روحانی بیماریاں
درج ہو جائیں گی‘ جن کا ان کی شخصیت سے دور کا بھی تعلق واسطہ نہیں رہا ہو
گا۔ |