میرے دوست نے دوران سفر یہ بات
چھیڑ دی کہ راستہ بہت دشوار گزار ہے چلنا بہت مشکل ہو رہا ہے میں اسے حوصلہ
دیتا رہا کہ سفر ہے گزر جائیگی۔ گاڑی سنگلاخ راستوں سے ہوتی ہوئی آہستہ
آہستہ اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھی اور میں اپنے دوست کی پریشانی صحیح
معنوں میں سمجھ رہا تھا۔ جو پہلی مرتبہ ایسے راستے پر سفر کرنے کا آدھی تھا
بہت بار منع کرنے کے باوجود میرے ساتھ سفر کرنے کے لئے بضد تھا۔ یار یہاں
کے لوگ کس طرح سفر کرتے ہیں اس دشوار گزار راستوں سے۔ میں نے کہا اس طرح جو
آپ دیکھ رہے ہو۔ میں نے ایک مسافر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا جو اپنے
دوسرے ساتھی کے ساتھ انتہائی ہنس خوشی بات کر رہا تھا۔ تو اس نے میری آدھی
بات سمجھی اور مرجھائے ہوئے چہرے کے ساتھ سفر کے اختتام کے لئے دعا کرنے
میں مصروف ہو گیا۔ واقعی اس شہری انسان کے لئے یہ سفر گزارنا بہت ہی مشکل
ہو گیا۔ لیکن ہمارے یہاں کے لوگ اسی راستے پر سفر گزارنے کے ایسے آدھی ہو
گئے ہیں کہ انہیں پکی سڑک پر سفر کرنا اچھا نہیں لگتا۔ سفر کرتے کرتے میرا
دوست انتہائی تھکن محسوس کر رہا تھا۔ کیونکہ صبح سے ویگن پر سوار ہوئے شام
ہو گئی تھی لیکن سفر اپنے اختتام کو پہنچنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔
میرے دوست نے مجھ سے پوچھا کہ حکومت یہاں کی سڑک پکی کیوں نہیں کرتی؟؟ یار
سوال تو آپکا اچھا ہے لیکن یہ سوالات اور انکے جوابات آپکے سفر کو مزید
لمبا نہ کریں ۔ اس سے مزید رہا نہ گیا یار یہ تو بتاؤ یہاں انتہائی سیریس
مریض کو شہر میں شفٹ کرنا پڑے تو آپ لوگ کیا کرو گے اس راستے سے لے جاتے
ہوئے وہ تو راستے میں دم توڑ دے گی۔ یار لوگ دعاؤں کے ذریعے اسکی زندگی
مانگیں گے اگر اس جہاں فانی سے رخصت ہوا تو اسے دفنا دیں گے۔ ہماری گفتگو
کا سلسلہ جاری تھا کہ اچانک گاڑی کے کسی چیز کے ٹوٹنے کی آواز آئی۔ استاد
جی کیا ہوا۔ مسافروں میں سے کسی نے دریافت کیا۔ لگتا ہے انجن کا کوئی چیز
ٹوٹ گئی ہے۔ استاد نے سیٹ سے اترتے ہوئے کہا۔ تھوڑی دیر کے بعد معلوم ہوا
کہ گاڑی کا بڑاپرزہ ٹوٹ چکا ہے۔ تو کیا ہوگا۔ وہی کہ ہمیں دوسری گاڑی کا
انتظار کرنا پڑے گا۔ تاکہ مسافروں کو اسی ویگن میں شفٹ کیا جا سکے۔ دوست نے
ایک مرتبہ پھر اپنے شہری سوال کو دہرایا کہ کوئی فون کا ذریعہ تو نہیں جس
سے رابطہ کرکے اپنی خیریت گھر والوں تک پہنچائیں۔ نہیں میرے دوست یہاں پر
رابطہ کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ اب رات کا نصف حصہ گزر چکا تھا۔ دور سے
کسی گاڑی کے آنے کے آثار دکھائی دیئے میرے دوست کے آنکھوں میں خوشی جھلک
اٹھی۔ یار اﷲ کرے کہ کوئی ذریعہ نکلے۔ زندگی میں پہلی مرتبہ ایسی مصیبت سے
دوچار ہوا ہوں میرا دوست انتہائی پریشانی کے عالم میں تھا ۔ اﷲ اﷲ کرکے اس
گاڑی کے چھت پر ہمیں جگہ ملی دوست نے سکھ کا سانس لیا۔ گاڑی روانہ ہو چکی
تھی اور دھول اڑاتی ہوئی ہمارے چہروں کو خوب مل رہا تھا اور ہم ایک دوسرے
کو پہچان نہیں پا رہے تھے۔ خیر رات کے آخری پہر ہم اپنے علاقے پہنچنے میں
کامیاب ہو گئے۔ دوست نے کہا کہ یار یہاں تو بجلی کہیں نظر نہیں آرہا ہے
کہیں لوڈ شیڈنگ تو نہیں کی جا رہی ہے۔ میری ہنسی نکل گئی کہ کیسی لوڈشیڈنگ
یہاں کے مخلوق نے بجلی کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہی نہیں ہے کہ کیا مصیبت ہے
یار پھر تو یہاں لوگ بغیر پنکھے اور بغیر لائیٹ کے کیسے گزارہ کرتے ہیں
بھئی یہاں کے لوگ وہی دو سو سال پرانی زندگی گزار رہے ہیں ۔ یہاں پر لائٹ
لالٹین کا سہارہ لے کر لوگ حاصل کرتے ہیں۔ اور بغیر پنکھے کے باہر قدرتی
ہوا سے سکون بھری نیند کرتے ہیں۔ خیر میں نے دوست کو مشورہ دیا کیا رات
کافی گزر چکی ہے۔ سو جائیں باقی باتیں صبح کر لیں گے۔ جیسے ہی سر رکھا سو
گئے ۔ صبح سور ج کی شعاؤں نے ہمیں جگا کر نیند کو پورا ہونے نہیں دیا۔ جس
سے میرے شہری دوست کو بہت تکلیف محسوس ہو رہی تھی۔ ناشتہ کرنے کے بعد میرے
دوست نے کہا کہ یار آپ لوگوں کی زندگی تکالیف و پریشانی سے بھری ہوئی ہے۔
میں نے لمبی سانس بھرتے ہوئے کہا کہ ہاں ہماری عورتیں دور کئی کلومیٹر سروں
پر پانی لانے پر مجبور ہیں ہمیں گھر کا چولہا جلانے کے لئے جنگلوں سے
لکڑیاں کاٹ کر لانی پڑتی ہیں۔ پانی ٹھنڈا کرنے کے لئے مشکیزوں کو سہارا
لینا پڑتا ہے۔ ہمیں اپنے پیاروں کی خیریت دریافت کرنے کے لئے کئی کلومیٹر
دور سفر طے کرنا پڑتا ہے۔ مریضوں کا علاج کرنے کے لئے عطائی ڈاکٹروں کا
سہارا لینا پڑتا ہے یا جڑ بوٹیوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ تعلیم حاصل کرنے
کے لئے ہمارے بچوں کو کئی کلومیٹر دور پیدل سفر کرنا پڑتا ہے۔ ہمارے بچے
دسویں جماعت پاس کرنے کے بعد آگے تعلیم جاری رکھ نہیں پاتے۔ ہمارے ہاں نہ
ڈاکٹر پیدا کئے جاتے ہیں نہ ٹیچر ۔ ہمیں خبریں دیکھنی نہیں پڑتی ہیں ہم صرف
خبر سنتے ہیں۔ ہم یہاں پر صرف اپنی کھیتی باڑی اور غلہ بانی پر تبصرہ
کرسکتے ہیں۔ تو یار آپ لوگ ابھی تک وہی صحابہ کی زندگی گزار رہے ہیں۔ یار
پھر تو آپ لوگ کیوں اپنے لئے تبدیلی لانے کا نہیں سوچتے۔ ہاں آپ نے صحیح
فرمایا میں نے جواب دیا لیکن تبدیلی اس وقت آئیگی جب آپکے اندر علم کا شمع
روشن ہوگا۔ لیکن یہاں پر علم کا شمع روشن ہونے سے پہلے بجھایا جاتا ہے۔ پھر
بھلا روشنی کیسے پھیلے گی۔ آپ اس وقت سوچیں گے جب آپکے اندر سوچنے کا مادہ
پیدا ہوگا۔ میرے دوست علم وہ خزانہ ہے جو آپکے اندر شعور لاتا ہے۔ پھر یہ
شعور آپکو سوچنے پر مجبور کرے گا کہ آپکے حقوق کیا ہیں۔ میرا دوست ایک گہری
سوچ میں پڑ گیا۔۔۔۔ |