چوہدری۔۔۔ اور پاگل موچی

کسی گاؤں میں ایک چوہدری کا راج تھا ۔ لوگ اُس سے ڈرتے تھے اور عزت بھی کرتے تھے۔ڈرتے اس لیے کہ وہ بہت طاقتور تھا ۔ اور عزت اس لیے کرتے تھے کہ یہ اُن کی مجبوری تھی۔ چوہدری کو دولت اکٹھی کرنے اور علاقے کا امیر ترین شخص بننے کا جنون کی حد تک شوق تھا۔ یہ شوق پورا کرنے میں وہ بڑی حد تک کامیاب بھی ہو چکا تھا۔ گاؤں کے سارے لوگ اُس کی نظر میں کمی کمین تھے۔ اور وہ گاؤں والوں کے لیے بادشاہ سلامت کی اہمیت رکھتا تھا۔اُس کی ایک بہت بڑی خوبی تھی کہ پورے علاقے میں اُس نے اپنا کوئی دشمن پیدا نہیں کیا تھا ۔وہ بڑی چالاکی اور ہوشیاری سے اپنے دشمنوں کو بھی دوست بنا لیتا تھا۔ ماضی کے تمام دشمن اُس کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے ہوئے نظر آتے۔ چور لٹیرے سب اُس کے دائیں بائیں بیٹھے ہوتے۔وہ اپنی بادشاہت کی کامیابی بھی اسی حکمت عملی میں سمجھتا تھا۔ گاؤں کے لوگ بھی اُس کی نفسیات اور عادات کے عادی ہو چکے تھے۔ اس لیے اب کسی کو اُس سے کوئی تکلیف محسوس نہیں ہوتی تھی۔لیکن اس گاؤں میں ایک موچی بھی رہتا تھا۔ جسے چوہدری کی چودھراہٹ سے کوئی غرض نہیں تھی۔ لوگ اُس کی نہ سمجھ آنے والی باتوں کی وجہ سے اُسے پاگل کہتے تھے۔کوئی اُس کی باتوں پر کان دھر لیتا تو کوئی اُسے پاگل سمجھ کر اپنی راہ لیتا۔

ایک دن چوہدری بازار سے گزر رہا تھا کہ موچی نے اُسے دیکھ کر بڑبڑانا شروع کر دیا۔ چوہدری رکا، حیرت سے اُس کی طرف دیکھا اور مسکرا کر آگے بڑھ گیا۔ موچی چوہدری کو اپنی آنکھوں سے اوجھل ہونے تک برا بھلا کہتا رہا ۔ چوہدری کا موچی کی باتوں پر کسی قسم کا ردعمل ظاہر نہ کرنا لوگوں کے لیے حیران کن تھا۔لیکن وہ جانتے تھے کہ اس کے پیچھے بھی چوہدری کی کوئی حکمت عملی ہو سکتی ہے ۔چند دنوں کے بعد چوہدری دوبارہ وہاں سے گزرا اور موچی نے پھر سے اُسے برا گالیاں دینا شروع کر دیں۔چوہد ری کے ساتھیوں نے آگے بڑھ کر اُسے اس گستاخی کی سزا دینا چاہی لیکن چوہدری نے خندہ پیشانی کا مظاہر کرتے ہوئے اپنے کارندوں کو منع کر دیا۔

موچی کا حوصلہ بلند ہو چکا تھا اور وہ پہلے سے زیادہ شیر ہو گیا تھا۔ اب تو وہ چوہدری کے ڈیرے کے سامنے آکر بیٹھ جاتا اور جو منہ میں آتا بکنے لگتا۔ لوگوں کو چوہدری کے خلاف بھڑکاتا۔ اُس پر اور اُس کے ساتھیوں پر مختلف قسم کے الزامات لگاتا۔ جن میں اکثر درست بھی ہوتے۔ لیکن چوہدری اور اُس کے آدمیوں کی طرف سے کسی بھی قسم کے رد عمل کے نہ ہونے پر وہ تھک ہار کر واپس چلا جاتا۔چوہدری کے آدمیوں نے چوہدر ی سے کئی دفعہ اُس پاگل موچی پر غصہ نہ دکھانے کی وجہ پوچھی تو چوہدری اُنہیں یہ کہہ کر خاموش کرا دیتا کہ " میں نے کبھی پاگل لوگوں کی باتوں پر دھیان نہیں دیا۔ اگرمیں ایسا کروں گا تو مجھ میں اور ایک پاگل میں فرق ہی کیا رہ جائے گا۔اس لیے جو مجھے برا بھلا کہہ کر خوش ہوتا ہے تو میں اُسے اس خوشی سے محروم نہیں رکھوں گا "۔۔۔ ایک دن چوہدری نے اپنے کچھ آدمی موچی کے پاس بھیجے تاکہ وہ یہ جان سکے کہ آخر یہ پاگل آدمی اُس سے چاہتا کیا ہے۔ یوں چوہدری نے اُس کی کچھ باتیں مان لیں اور اُسے زبان بند رکھنے پر راضی کر لیا۔اور وہ پاگل موچی یہ گاؤں چھوڑ کر کہیں روپوش ہو گیا۔

وقت کا پہیہ آگے بڑھا ۔ چودھراہٹ ایک گھر سے نکل کر دوسرے گھر میں چلی گئی۔لوگوں نے ایک ظالم ، چور اور لٹیرے چوہدری سے جان چھوٹ جانے پر خوشیاں منائیں۔ مٹھائیاں تقسیم کیں اور بھنگڑے ڈالے۔ نئے چوہدری نے بھی لوگوں کے جذبات کا احترام کیا۔ گاؤں والوں کی زندگیاں سنوارنے کے وعدے کیے۔ پہلا چوہدری جو کچھ نہ دے سکا وہ اُنہیں دینے کی یقین دھانی کرائی۔لوگوں کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھنے کی باتیں کیں۔انصاف کا نام بھی لیا۔خوشحالی کے بھی دم بھرے گئے۔اور یوں لوگوں کے دلوں میں ایک نئے اور سر سبز گاؤں کی امنگ جاگ اُٹھی۔ابھی ایک سال ہی گذرا تھا کہ وہ پاگل موچی دوبارہ اس گاؤں میں آن ٹپکا۔اور آتے ہی گاؤں کے لوگوں کو چوہدری کے خلاف بھڑکانے لگا۔لیکن یہ چوہدری کچھ وکھری ٹیپ کا آدمی تھا۔ اُس کے اندر نہ تو اپنی توہین برداشت کرنے کا حوصلہ تھا اور ہی تنقید برداشت کرنے کی جرات۔ ایک دونوں کا آمنا سامان ہوگیا ۔ چوہدری نے آؤ دیکھا نہ تاو اور موچی پر جوتے برسانے شروع کر دیے۔لوگوں نے بچ بچاؤ کرایا اور چوہدری کو یہ باور کروایا کہ یہ وہی پاگل شخص ہے جو پرانے چوہدری کو بھی گالیاں دیا کرتا تھا۔لیکن اُس چوہدری نے بجائے غصے میں آنے کہ ہمیشہ اس سے پیار سے بات کی تھی۔آپ بھی غصہ جانے دیں اور اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیں۔کیونکہ پاگل کے ساتھ پاگل ہونے کا کوئی فاعدہ نہیں۔ بلکہ اُلٹا نقصان ہی ہو گا۔لیکن چوہدری کو لوگوں کی باتیں سمجھ نہیں آئیں اور پاگل موچی کے خلاف سازشیں کرنی شروع کر دیں۔ کبھی اُس کے گھر پر حملہ کروا دیتا۔ کبھی راہ چلتے اُسے اپنے آدمیوں سے پٹو ا دیتا۔ تو کبھی پولیس کے حوالے کر دیتا۔

جیسے جیسے چوہدری کا موچی پرظلم اور تشدد بڑھتا جارہا تھاایسے ایسے موچی کی نفرت میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔اب اُس نے گاؤں والوں کو اپنے اوپر ہونے والے ظلم اور بربریت کے بارے میں چیخ چیخ کر بتانا شروع کر دیاتھا ۔ تاکہ جن لوگوں کو چوہدری کی اس حرکت کا علم نہیں تھا وہ بھی جان لیں۔یوں آہستہ آہستہ اُس نے گاؤں والوں کی ہمدردیاں سمیٹ لی تھیں۔ گاؤں والوں کے نظریات بدل چکے تھے۔ اُن کے دلوں میں چوہدری کی عزت ختم ہوتی جا رہی تھی اور وہ اُس سے نفرت بھی کرنے لگ گئے تھے۔اب وہ پاگل موچی کی باتوں پر کان دھرنے لگے تھے۔ اور اُس کی باتوں پر غور بھی کرنے لگے تھے۔آہستہ آہستہ موچی نے گاؤں والوں کے دلوں میں جگہ بنا لی تھی۔ اب اُسے پاگل بھی نہیں سمجھا جا رہا تھا۔ کیونکہ جو باتیں وہ کرتا تھا وہ لوگوں کی سمجھ میں آنا شروع ہوچکی تھیں۔چوہدری مکمل طور پر اپنا وقار کھو چکا تھا ۔لوگوں نے پاگل کو عقل مند اور چوہدری کو پاگل کہنا شروع کر دیا تھا۔
Ahmad Raza
About the Author: Ahmad Raza Read More Articles by Ahmad Raza: 96 Articles with 100758 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.