معجزہ شق القمر سائنس کا اعتراف
(سید قمر احمد سبزواری, Lahore)
معجزہ شق القمر سائنس کا اعتراف
دنیا جس قدر ترقی کرتی جار ہی ہے نت نئے انکشافات بھی ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ
ترقی و انکشافات جہاں ایک طرف انسانی چین و سکون کو اکارت کر رہی ہے وہیں
دوسری طرف راحت قلب و جگر بھی مہیا کر رہی ہے۔ بالخصوص غیر شعوری طور پر یہ
انکشافات بسا اوقات مسلمانوں کے کھاتہ میں بھی آجاتی ہیں اور جس چیز کو
قرآن اور محمد عربی ﷺ نے آج سے چودہ سو سال پیشتر بیان فرما دیا آج کی دنیا
نہ چاہتے ہوئے بھی اسے بیان کرنے پر مجبور ہے رونا تو اس بات کا یہ کہ مفکر
اور دانشور بننے کی خام خیالی میں مسلمان کہلانے والے کچھ لوگ ان حقائق کا
یکسر انکار کر دیتے ہیں اور قرآنی آیات میں من مانی تاویل کر کے علمی مہارت
اور فکری رعب کا مظاہرہ کرنے میں یہ نہیں دیکھتے کہ یہ انکار انہیں اسلامی
معاشرہ اور شریعت کی نظر میں کہاں لاکھڑا کر دیگا۔ سائنس نے جہاں بے شمار
اسلامی حقائق کی اپنے تجربات کی روشنی میں تصدیق کی ہے وہیں صدیوں بعد خاص
طور پر ’معجزہ شق القمر‘ کی بھی تصدیق کی ہے، سائنس کی اس تصدیق کی تفصیل
پیش کرنے سے قبل ’معجزہ شق القمر‘ کا بیان کرنے والی آیت مفسرین کے اجمالی
اقوال اور اس ضمن میں وارد ہونے والی احادیث کا ذکر مناسب معلوم ہوتا ہے۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے: اقتربت الساعة وانشق القمر قیامت قریب آگئی اور
چاند پھٹ گیا۔ اس آیت کی تفسیر میں مفسرین کرام نے تین اقوال ذکر کیے ہیں،
جن میں تیسرا قول جمہور کا ہے، جمہور کا ماننا ہے کہ حقیقی معنوں میں چاند
زمانہ نبوی ﷺ میں دو حصوں میں تقسیم ہو اہے، یہ صحیح حدیث سے ثابت ہے اور
حدیث کے طرق حد تواتر تک پہنچ چکے ہیں، چنانچہ علامہ ماوردی اپنی تفسیر ©
©” النکت والعیون“ میں آیت مذکور کے تحت فرماتے ہیں۔ انشق القمر کے مطلب
میں تین اقوال ہیں، احدھا: وضح الامر وظہر۔ الثانی: ان انشقاق القمر ہو
انشقاق الظلمة عنہ بطلوعہ فی اثنائھا، کما یسمی الصبح فلقا لانفلاق الظلمة
عنہ، الثالث: انہ انشقاق القمر علی حقیقة انشقاقہ، وفیہ علی ہذا التاویل
قولان۔
احدھما انہ ینشق بعد مجیءالساعة وہی النفخة الثانیة، قالہ الجسن، قال: لو
انشق مابقی احد الا راہ لانہا ایة والناس فی الایة سواءالثانی وہو قول
الجمہور، وظاہر اتنزیل ان القمر انشق علی عہد رسول اللہ ﷺ (ملخصا، تفسیر
النکت والعیون، مطبوعہ بیروت)
انشق کا ایک معنی ہے کسی چیز کا واضح اور ظاہر ہوجانا، دوسرا معنی ہے چاند
نکلنے کی وجہ سے تاریکیوں کا چھٹ جانا، جیسا کہ صبح کو فلق کے لیے کہتے ہیں
کہ اس کے نمودار ہونے کی وجہ سے تاریکی دور ہوجاتی ہے اور تیسرا معنی ہے
حقیقت میں چاند کا دو ٹکڑے ہوجانا۔ ان تین اقوال کی بنیاد پر آیت کریمہ کی
دو تاویلات ہیں۔ ایک یہ کہ امام حسن کے مطابق چاند قیامت آنے کے بعد شق
ہوگا جو دراصل دوسرا صور ہوگا۔ کیونکہ اگر ماضی میں اس کے انشقاق کو تسلیم
کر لیا جائے تو یہ بھی ماننا پڑیگا کہ دنیا کے تمام افراد نے اس کا مشاہدہ
بھی کیا ہو کیونکہ یہ قدرت کی نشانی ہے اور آیات و نشانیوں کا مشاہدہ کرنے
میں سب یکساں ہیں، جبکہ ایسا نہیں ہے دوسری تاویل جمہور نے کی ہے، ان کا
ماننا ہے کہ قرآن کریم کا ظاہری مطلب یہی ہے کہ چاند زمانہ اقدس ﷺ میں دو
ٹکڑے ہوا ہے۔ (ملخصا)
یہ تو امام ماوردی کی بات تھی جنہوں نے اس اعتراض کا کہ اگر شق قمر کا
واقعہ پیش آتا تو متواتر امنقول ہونا چاہیے تھا؟ کا ذکر کر کے جواب کی طرف
اشارہ نہیں کیا، مگر امام رازی نے اپنی تفسیر میں سوال اور جواب دونوں کا
ذکر کیا ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے۔ تمام مفسرین نے انشقاق قمر کا مطلب یہی
سمجھا کہ یہ وقوع پذیر ہوا ہے اور اس بارے میں بہت سی حدیثیں بھی ہیں، صحیح
میں بڑی مشہور روایت ہے جس کو صحابہ کرام کی ایک جماعت نے روایت کیا، ان کا
بیان ہے کہ نبی اکرم ﷺ سے ’معجزہ شق القمر‘ کا سوال کیا گیا تو آپ نے اپنے
رب سے اس کا سوال کیا، پھر چاند کو دو ٹکڑے کر دکھایا۔
بعض مفسرین نے انشق کا مطلب ”سینشق“ بتایا جو بہت دور کی کوڑی ہے، اس کا
کوئی مطلب ہی نہیں کیونکہ ’معجزہ شق القمر‘ سے انکار کرنے والے فلسفی لوگ
ہیں جو ماضی و مستقبل دونوں میں اس کے وقوع سے انکار کرتے ہیں، جو لوگ اسے
ممکن مانتے ہیں ان کے لیے اس میں تاویل کی کوئی ضرورت نہیں، جن لوگوں نے اس
معجزہ کا انکار کیا ان کا ماننا ہے کہ یہ کوئی عام بات یا حادثہ نہیں جو
لوگوں کی نگاہ میں نہ آسکے، اس طرح کے واقعات روئے زمیں پر بسنے والے تمام
لوگوں کے مشاہدہ میں آتے ہیں لہذا اس واقعہ کو تواتر کی حد تک پہنچنا چاہیے
تھا۔ اس کے جواب میں فرماتے ہیں: نبی اکرم ﷺ نے جب کفار قریش کو قرآن کا
مثل لانے کا چیلنج دیا تو انہوں نے کہا کہ ہم سب سے بڑے فصیح و بلیغ کو آپ
کے مقابلہ میں لائیں گے مگر وہ اس کے باوجود قرآن کا جواب نہ لاسکے، لہذا
قرآن ایک ایسا متواتر معجزہ ہے جو قیامت تک برقرار رہے گا، اس کی تائید کے
لیے کسی دوسرے معجزہ کی ضرورت بھی نہیں اور نہ ہی یہ ضروری ہے کہ قرآن میں
مذکور ہر مسئلہ کو متواتر نقل کیا جائے، اسی وجہ سے علماءنے معجزہ شق القمر
کو اس تعداد میں نقل نہیں کیا جو تواتر کی حد تک پہنچ سکے۔ جہاں تک مورخین
کے نقول کا تواتر کی حد تک نہیں پہنچنے کی بات ہے تو اسکا جواب یہ ہے کہ
تاریخ کا استعمال اکثر نجومی لوگ کیا کرتے ہیں، جب اس طرح کا کوئی واقعہ
پیش آتا ہے تو وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ چاند گرہن کی طرح ہے یا فضا میں کوئی
ایسی چیز ظاہر ہونے کی طرح ہے جس سے دیکھنے میں ایسا لگتا ہے کہ چاند کا
آدھا حصہ کہیں اور ہے، لہذا مورخین نے اپنی کتابوں میں اس حکایت کو نقل
نہیں کیا۔ قرآن جو کہ تواتر کے ساتھ ہم تک منقول ہوا ہے وہ اس معجزہ کے
ثبوت پر سب سے بڑی دلیل ہے اور اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش بھی نہیں،نبی
اکرم ﷺ نے اس کے واقع ہونے کی خبر بھی دی ہے لہذا ہمیںماننے کے علاوہ کوئی
اور چارہ بھی نہیں، فلسفیوں نے اگر دم خرق و التئام کا قول کیا ہے تو ان کی
باتیں بے تکی ہیں، ہم نے بار بار اپنی تحریر میں یہ ثابت کیا ہے کہ آسمان
پر خرق و تخریب کا امکان ثابت ہے، اب انہیں یہاں اعادہ کرنے کی ضرورت نہیں۔
(تفسیر کبیر، سورہ قمر، زیر آیت: اقتربت الساعة۔مطبوعہ ذار العلمیہ،بیروت)
یہ تو مفسرین کے اقوال کا خلاصہ تھا، اب ذرا حدیث پاک بھی ملاحظہ کریں۔
بخاری شریف میں ہے: عن انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ ان اہل مکة سا
¿لوارسول اللہ ﷺ ان یریھما آیة، فا ¿راھم القمر شقتین حتی راوا حراءبینھما۔
حضرت انس بن مالک سے مروی ہے کہ مکہ کے لوگوں نے نبی اکرم ﷺ سے کوئی معجزہ
طلب کیا تو آپﷺ نے انہیں چاند کو دوٹکڑوں میں کر کے دکھایا، حتی کہ لوگوں
نے بٹے ہوئے ٹکڑوں کے مابین حراءپہاڑ کو دیکھا۔
امام بخاری نے اس حدیث کی تخریج کتاب المناقب اور تفسیر القرآن میں کیا،
امام مسلم نے کتاب صفة القیامة النجنة والنار میں، ترمذی نے کتاب تفسیر
القرآن میں، امام احمد نے مسند میں، ابو سعید الہشیم نے مسند شاشی میں کیا،
حافظ ابن کثیر نے دیگر محدثین کی رواتیں بھی اس سلسلہ میں ذکر کی ہیں، راقم
کی تحقیق کے مطابق اس مضمون کی حدیث چھ جلیل القدر صحابہ کرام سے مروی
ہیںجن میں انس بن مالک اور جبیر بن مطعم رضی اللہ تعالی عنہم سرفہرست ہیں۔
یہ تو مفسرین اور محدثین کے اقوال تھے، اس وقت میرے مطالعہ کی میز پر مصر
کے بہت بڑے معاصرسائنسداں اور علم الارض کے ماہر ڈاکٹرز غلول نجار کی کتاب
”الاعجاز العلمی فی السنة النبویة‘ جس میں انہوں نے معجزہ ”شق القمر“ کا
بیان سائنس کے حوالہ سے کچھ یوں کیا ہے لکھتے ہیں کہ: میںایک مرتبہ Cardef
Universityبرطانیہ کے میڈیکل سائنس کے شعبہ میں بحیثیت لکچرار مدعو کیا
گیا، لیکچر کے دوران ایک مسلمان نے مجھ سے سوال کیا کہ سورہ قمر کی ابتدائی
آیت کی سائنسی تشریح کیا ہے؟ میںنے انہیں جواب دیا کہ یہ واقعہ ایک حسی
معجزہ ہے، یہ نبی اکرم ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے اس وقت عطا کیا جب کفار قریش ان
کی نبوت کا انکار کر رہے تھے تو اللہ تعالی نے یہ معجزہ دیکر آپ کی تائید و
توثیق کی،معجزہ کا تعلق خرق عادت سے ہوا کرتا ہے، لہذا دنیوی اعتبار سے اس
کی تشریح ممکن نہیں، اگر اس کا ذکر قرآن اورسنت رسول میں نہ ہوتا تو بحیثیت
مسلمان ہم کبھی بھی اس کو نہیں مانتے، مگر چونکہ اس کا ذکر قرآن نے کیا ہے
اس لئے ہمیں ماننا ضروری ہے۔ کہتے ہیں کہ جب میں نے اپنی بات مکمل کر لی تو
حاضرین میں سے ایک برطانوی شخص کھڑا ہوا اور کچھ کہنے کی اجازت چاہی میں نے
اسے بولنے کی اجازت دے دی اس نے اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ میرانام داؤد
موسیٰ بید کوک ہے، میں مسلمان ہوں اوربرطانیہ کی اسلامی تنظیموں کا سربراہ
بھی ہوں، سورہ قمر کی آیت ستر کی دہائی میں میرے اسلام لانے کا سبب ہیں، اس
نے کہا کہ واقعہ کچھ یوں ہے کہ مذاہب وادیان کے بارے میں مجھے کچھ چیزوں کی
تلاش تھی، اس دوران مجھے کسی مسلمان نے قرآن کریم کا انگلش ترجمہ دیا، جب
میں نے قرآن کریم کھولا تو پہلی نظر سورہ قمر کی ابتدائی آیتوں پر پڑی میرے
لیے یہ ماننا بڑا دشوار تھا کہ چاند کے کبھی دو حصے ہوئے ہیں اور پھر وہ
آپس میں مل گئے، یہ بات میرے دل کو نہیں لگ سکی، میں نے قرآن بند کر دیا،
پھر اسے پڑھنے کی کوشش نہیں کی، مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا، چنانچہ
میں ایک مرتبہ بیٹھا ٹیلی ویژن پر بی بی سی کا ایک پروگرام دیکھ رہا تھا،
پروگرام سائنسدانوں کے خلائی سفر سے متعلق تھا، پروگرام پروڈیوس کرنے والے
James Burkeنے انٹرویو کے لیے امریکہ کے تین خلائی سائنسدانوں کو دعوت دی
تھی، پروگرام پروڈیوسر انٹرویو کے دوران سائنسداں کو بہت لعن طعن کر رہے
تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ آخر اس خلائی سفر کا کیا مقصد ہے جس میں کروڑوں
ڈالر خرچ کر دیے گئے جبکہ یہاں زمین پر ہزاروں افراد بھوک ، بیماری، جہالت
اور پسماندگی کے شکار ہیں، سائنسداں پر زور انداز میں دفاع کر رہے تھے، ان
کا کہنا تھا کہ یہ فضول خرچ نہیں ہے بلکہ عنقریب اسکی مدد سے کچھ ایسی
سہولتیں پیدا کی جاسکیں کی جن سے زراعت وصناعت کے مراحل میں بھی ترقی ممکن
ہوسکے گی، بات بات میں انہوں نے بتایا کہ ہمارا یہ سفر اس لیے بھی بیجانہیں
تھا کہ ہم نے گرچہ کروڑوں ڈالر خرچ کیے ہیں مگر کچھ حیرت کن انکشافات بھی
ہمارے سامنے آئے، پروگرام پروڈیوسر ان سائنسدانوں کی کسی بات پر بھی توجہ
نہیں دے رہا تھا اور اعتراض پر اعتراض کیے جا رہا تھا، سائنسداں اس نکتہ کو
بار بار دہرارہے تھے کہ اس سفر کے دوران جب ہم چاند پر پہنچے تو کئی حیران
کن چیزیں بھی ہمیں ملی ہیں، بار بار تکرار کرنے کی وجہ سے پروڈیوسر نے ایک
بار پوچھ ہی لیا کہ وہ کون سی ایسی دریافت ہے جس کا آپ لوگ بار بار ذکر کیے
جا رہے ہیں، سائنسدانوں نے بتایا کہ چاند پر ہمیں کچھ ایسی چیزیں ملی ہیں
جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کبھی کسی زمانہ میں چاند دو حصوں میں بٹ گیا تھا
اور پھر اس کے دونوں ٹکڑے آپس میں مل گئے!!
بید کوک نے کہا کہ میں یہ خبر سن کر کرسی سے اچھل پڑا اور میں نے کہا یہ تو
محمد کا معجزہ ہے جو آج سے چودہ سو سال پہلے ظاہر ہوا تھا جس کی تفصیل قرآن
نے بڑے زبردست انداز میں بیان کی ہے اور آج جبکہ زمانہ ترقی یافتہ ہوچکا
ہے۔ ہر چیز کے لیے تکنیکی سہولتیں دستیاب ہیں تو اللہ تعالیٰ نے اپنے دین
کی حقانیت اور اپنے رسول ﷺکی رسالت کو ثابت کرنے کے لیے غیر مسلمین کو اس
طور پر مسخر کر دیا ہے کہ وہ اپنا اربوں ، کھربوں ڈالر خرچ کرکے اسلام کے
مفاد کو ثابت کر رہے ہیں!! یقینا یہ دین سچ اور حق ہے میں نے دوبارہ قرآن
کا ترجمہ پڑھنا شروع کیا، اس مرتبہ میری پڑھائی کا انداز کچھ الگ تھا، میں
جوں جوں پڑھتا جاتا میرے کیف وسرور میں اضافہ ہوتا جاتا، پھر میں نے سوچا
کہ اس مذہب کے دامن میں ہی پناہ لینا سکون و اطمینان کا باعث بن سکتا ہے،
لہذا میں مسلمان ہوگےا، اس طرح سورہ قمر کی ہی آیتیں میرے اسلام کا سبب
بنیں!! (الاعجاز العلمی فی السنة النبویة، ا ۷۷۱، ۸۷۱، مطبوعہ نہضہ، قاہرہ)
آثار قدیمہ کے ماہرین کو بھی اس قسم کے کچھ ایسے شواہد ملے ہیں جو معجزہ شق
القمر کو بخوبی واضح کرتے ہیں، علامہ شیخ حمزہ فتح اللہ اپنی کتاب ’باکورة
الکلام فی حقوق النساءفی الاسلام‘ میں لکھتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ بغیر کسی شک
و شبہ کے نبی اکرم ﷺ سے چاند کو دو ٹکڑے کرنے کا معجزہ ثابت ہے، جو لوگ اس
آیت میں یہ تاویل کرتے ہیں کہ مستقبل کی حکایت ماضی کے صیغہ کے ذریعہ بیان
کی گئی ہے اس پر کوئی دلیل موجود نہیں ، پھر اس کو مان لینے میں یہ بھی
خرابی ہے کہ یہ صحیح روایت کے مخالف ہے، کچھ غیر ملکی اخبار نے ایک خبر نشر
کی تھی جس کا عربی ترجمہ آستانہ سے نکلنے والا عربی اخبار ’الانسان‘ میں
شائع ہوا تھا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ چین کی ایک قدیم عمارت سے کچھ پتھر نکلے
ہیں جن پر لکھا ہوا ہے کہ اس مکان کی تعمیر فلاں سال میں ہوئی، جس سال کہ
ایک بہت بڑا آسمانی حادثہ اس طور پر رونما ہوا تھا کہ چاند دو حصوں میں بٹ
گیا، ماہرین نے اس پتھر پر لکھی ہوئی تاریخ کا جب حساب لگایا تو ٹھیک وہی
تاریخ تھی جبکہ مولانا و سید نارسول اللہ ﷺ کے انگلیوں کے اشارہ سے ’معجزہ
شق القمر‘ رونما ہوا تھا!! (باکورة الکلام، بحوالہ محمد ﷺ ص ۳۸۳، مطبعہ
دارالکتب العلمیہ بیروت، سنہ ۵۷۹۱)۔ |
|